اقتصادی راہداری منصوبہ....امید کی کرن یا دوسرا کالا باغ ڈیم؟

پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے پر ملک کی سیاسی جماعتوں کے مابین اختلافات شدت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ متعدد چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں اقتصادی راہداری منصوبے پر تحفظات کا اظہار کررہی ہیں۔ اس حوالے سے خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے کئی کانفرنسیں بھی منعقد کی جاچکی ہیں، جن کا کہنا ہے کہ حکومت اقتصادی راہداری منصوبے سے متعلق کیے گئے وعدوں کو پورا نہیں کر رہی ہے۔ گزشتہ روز پاک چین اقتصادی راہداری پر چھوٹے صوبوں کے تحفظات کے حوالے سے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں سیاسی جماعتوں نے حکومت سے گوادر کی بندرگاہ کے منصوبے کا مکمل اختیار فوری طور پر بلوچستان کے حوالے کرنے، منصوبے کے مغربی روٹ کو پہلے مکمل کرنے، بلوچستان میں ملازمتوں میں بلوچوں کو ترجیح دینے اور وسائل پر بلوچوں کا حق تسلیم کرنے اور 28 مئی کو وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں کیے گئے وعدے پورے کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ گزشتہ سال 28 مئی کو وزیر اعظم نواز شریف کی سربراہی میں آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی گئی تھی، جس کے اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ ”پاک چین اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ کی تعمیر ترجیحی بنیادوں پر مکمل کی جائے گی۔ اعلامیہ کے مطابق راہداری منصوبے کے تحت روڈ، ریل نیٹ ورکس، ائرپورٹس، سی پورٹس تعمیر کی جائیں گی، راہدادی کے ساتھ اقتصادی زونز اور پاور ہاﺅسز ملک بھر میں تعمیر کیے جائیں گے۔“ اے پی سی میں شریک تمام جماعتوں نے متفقہ طور پر راہداری منصوبے کی منظوری دے دی تھی، لیکن اب ایک بار پھر تحفظات کا اظہار ہونے لگا۔ اقتصادی راہداری کے حوالے سے 7جنوری کو پشاور میں منعقد ہونے والی کانفرنس کے مشترکہ علامیے کے مطابق اقتصادی راہداری منصوبے میں صنعتوں کے لیے گیس پائپ لائن، بجلی ٹرانسمیشن لائن، فائبر آپٹیکل کیبل، ریلوے لائن اور ایل این جی مہیا کرنے کا موجودہ نقشوں میں کوئی ذکر نہیں، جس سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ یہ محض ایک سڑک ہے اور اس کی حیثیت کوریڈور کی نہیں ہے۔ وزیر اعلیٰ کے پی کے پرویز خٹک تو یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ وعدے کے مطابق کوریڈور نہ بنا تو وہ خیبر پی کے سے راہداری نہیں گزرنے دیں گے۔ جس پر چین نے تشویش کا اظہار کیا اور پاکستان میں چینی سفارتخانے کے ترجمان نے ایک بیان میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں پر زور دیا کہ وہ اپنے اختلافات کو احسن طریقے سے حل کر کے پاک چین اقتصادی راہداری کے لیے موافق فضا قائم کریں، یہ منصوبہ پورے پاکستان کے لیے ہے اور اس کے فوائد اور ثمرات سے ساری پاکستانی قوم مستفید ہوگی۔ چین کو یہ بھی امید ہے کہ پاکستان میں تمام متعلقہ پارٹیاں اقتصادی راہداری پر اپنے روابط مضبوط کریں گی، تا کہ اس اہم منصوبے کے لیے موافق حالات پیدا کیے جا سکیں۔دوسری جانب وفاقی وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال کا آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ کسی ایک صوبے کا نہیں، بلکہ پورے ملک کا منصوبہ ہے، اس لیے منصوبے میں کسی بھی صوبے سے امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔ ذرایع کے مطابق پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے پر تحفظات ختم کرنے کے لیے وزیر اعظم نوازشریف کوشاں ہیں۔ اسی سلسلے میں آئندہ ہفتے وزیراعلیٰ کے پی کے سے ملاقات متوقع ہے۔

پاک چین اقتصادی راہداری ایک بہت بڑا تجارتی منصوبہ ہے، جس کا مقصد جنوب مغربی پاکستان سے چین کے شمال مغربی خود مختار علاقے سنکیانگ تک گوادر بندرگاہ، ریلوے اور موٹروے کے ذریعے تیل اور گیس کی کم وقت میں ترسیل کرنا ہے۔ اقتصادی راہداری پاک چین تعلقات میں مرکزی اہمیت کی حامل تصور کی جاتی ہے۔ گوادر سے کاشغر تک تقریبا تین ہزار کلومیٹر طویل ہے۔یہ منصوبہ مکمل ہونے میں کئی سال لگیں گے۔ اس پر کل 46 بلین ڈالر لاگت کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ یہ منصوبہ ملک کے لیے امید کی کرن ہے، کیونکہ اس کی تکمیل سے ملک میں ترقی کے مواقع میسر آئیں گے، نہ صرف پاکستان ترقی کرے گا، بلکہ پورا خطہ مستفید ہوسکے گا۔ راہداری کو پاکستان کے نسبتاً پسماندہ علاقوں میں ترجیح کی ضرورت ہے، لیکن اس معاملے میں پنجاب کے سوا باقی تینوں صوبوں کے سیاستدانوں کے تحفظات ہنوز موجود ہیں، جس کے بعد یہ خدشات جنم لینے لگے ہیں کہ کہیں یہ منصوبہ سیاست کی نذر نہ ہو جائے۔ پاکستان میں بہت سے اہم قومی منصوبے سیاستدانوں کے اختلافات کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔کالا باغ ڈیم منصوبے کو بھی ایک قومی منصوبے کے طور پر پیش کیا گیا تھا، لیکن سیاستدانوں کے شدید اعتراضات کے باعث شروع نہیں کیا جا سکا ،جبکہ اس کی فزیبلٹی رپورٹ تیار ہو چکی، جس پر خطیر سرمایہ صرف ہو چکا ہے۔ کالا باغ ڈیم منصوبہ سیاستدانوں کی مخالفت کی وجہ سے ناکام ہوا ہے اور اقتصادی راہداری منصوبے کے معاملے میں بھی بہت سی سیاسی جماعتیں اپنے اختلافات کو بھلا کر ایک ہوگئی ہیں، جن کے مطابق راہداری منصوبے میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان کو، وفاق کے زیر کنٹرول بلوچستان کی گوادر بندرگاہ اور اس کے زیر نگرانی سڑک کو چھوڑ کر پوری طرح سے بائی پاس کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ حویلیاں سے آگے گوادر سے جوڑنے کے لیے اقتصادی راہداری کے لیے مشرقی اور مغربی دو روٹ تجویز کیے گئے۔ مشرقی روٹ کا بیشتر حصہ صوبہ پنجاب کے مختلف شہروں سے گزرتا ہے، جبکہ مغربی روٹ میں صوبہ خیبرپختونخوا کے علاقے آتے ہیں۔ سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ مغربی روٹ میں وعدوں پر عمل نہیں کیا جارہا۔ اپنے مطالبات پر دونوں صوبوں کی سیاسی جماعتیں متحد ہیں، جس کے بعد یہ خدشات پیدا ہونا شروع ہوگئے ہیں کہ اگر یہ معاملہ جلد حل نہ ہوا تو خدانخواستہ کہیں اقتصادی راہداری منصوبہ کالا باغ ڈیم منصوبے کی طرح تعطل کا شکار ہی نہ ہوجائے، جو یقینا ملک کے لیے نقصان دہ ہوگا۔

راہداری منصوبے پر اختلافات شدت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ ایسے وقت میں سب کو مل کر ملک و قوم کی ترقی کے مفاد میں فیصلہ کرنا چاہیے۔ پاک چائنہ اکنامک کوریڈور بلاشبہ اس خطہ میں تبدیلی و تعمیر کا بہت بڑا منصوبہ ہے لیکن بدقسمتی سے ہم سیاستدان اس پر بالغ نظری کا مظاہرہ نہیں کر رہے۔ اگر اس منصوبہ کو منسوخ یا تاخیر کا شکار کیا گیا تو پاکستان اس عشرہ کے سب سے بڑے قومی سانحہ کو برداشت نہیں کر سکے گا۔ اتفاق رائے کے نام پر پورے ملک کو گوناگوں مسائل سے دوچار کر دیا گیا ہے جس کی سب سے بڑی مثال کالاباغ ڈیم ہے۔اب وفاقی حکومت پر یہ بھاری ذمے داری آن پڑی ہے کہ وہ اس منصوبے کے بارے میں پیدا ہونے والی ہر رکاوٹ کو دور کرنے کی کوشش کرے اور کوئی ایسا اقدام نہ کیا جائے جس سے اس کی راہ میں مسائل پیدا ہوں۔ اقتصادی راہداری پر سیاستدانوں کے تحفظات بے جا نہیں ہیں، لیکن سب کو ملکی مفاد کے پیش نظر اس منصوبے کو کامیاب کرنا ہوگا۔ اگر اس مسئلے پر وفاقی حکومت اور دیگر صوبوں کے درمیان معاملات کسی نتیجے پر نہیں پہنچتے اور اختلافات شدت اختیار کرتے ہیں تو یہ نہ صرف ملکی ترقی اور خوشحالی کے لیے نقصان دہ ہو گا، بلکہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بھی منفی پیغام جائے گا اور وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے سے ہچکچائیں گے۔ سیاسی جماعتیں اپنے اختلافات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کریں اور ایسی فضا کو جنم دیں کہ نہ صرف ملکی بلکہ غیر ملکی سرمایہ کار بھی یہاں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے کی طرف راغب ہوں۔ ضروری ہے کہ ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے وفاقی حکومت، خیبرپختونخوا حکومت اور دیگر سیاسی جماعتیں اپنے اختلافات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کریں ۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 631472 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.