کعبہ بہارِ رحمت روضہ قراروراحت (۱۰ویں قسط)

رب رحیم وکریم کا بے حد شکرو احسان کہ رات کے اندھیرے میں بھی دن کی طرح روشن و ہمہ پہلو متحرک مکہ مکرمہ کی پاک مٹی کو ہم نے آنکھوں ہی آنکھوں میں چوم لیا ۔ گاڑی سے اُترکر ہمارا قافلہ فندق یعنی ہوٹل کے سامنے آکھڑا ہو ا۔ ہوٹل کا بنگلہ دیشی عملہ ہمارا رخت ِ سفرگاڑی سے اُتار کر ٹرالیوں میں بھر نے لگا۔ جدہ ائر پورٹ سے ہی خوش آمدید کہہ کر ہمارے ہمراہ لبیک سری نگر کا جواں سال نمائندہ ساتھ تھا، بہت ہی خندہ پیشانی سے پیش آنے والا اور معتمرین کی ضروریات کا خیال رکھنے والا یہ بہت ہی خلیق وملنسار نوجوان تھا۔ ہوٹل کے برآمدے پر اٹیلس ممبئی کاٹور آپریٹر بھی ہمارے استقبال میں کھڑا تھا۔ اب ہم اندر وسیع وکشادہ لابی میں آگئے۔ ہوٹل کے استقبالیہ کاؤنٹروالوں نے ہمیں اپنے اپنے کمر ے کی چابی ہاتھ میں تھمادی ۔ ادھر شاندار لابی میں چاروں طرف نظریں گھمائیں تو دیکھاکہ ایک دیوار پر ٹی وی سعودی چینل سے کعبہ شریف کی لائیو نشریات کاسٹ ہو رہی ہیں اور ودسری دیوار پر ملکی شخصیات کے بڑے بڑے فوٹو آویزاں ہیں ۔ یہ دیکھ کر مجھے دفعتاً یاد آگیا کہ یہ قد آدم فوٹو گراف اگر مشہور و معروف حنبلی المسلک عالم ، مملکت سعودیہ کے مفتی اعظم ، بانی رئیس جامعہ مدینہ، شریعت ، فقہ وحدیث پر کامل دست گاہ رکھنے والے عبداللہ بن باز رحمتہ اللہ علیہ (1910-1999) دیکھتے تو بالیقین سیخ پا ہوجاتے ۔ موصوف نے ہمیشہ حق گوئی و جرأ تِ اظہارکا مظاہرہ کرتے ہوئے سلف ِ صالحین کی طرح ہر ادنیٰ واعلیٰ سے کسی بھی نوع کی شرعی غلطی یاتسامح پر روک ٹوک سے اصلاحِ احوال کا فریضہ ہمیشہ انجام دیا اور اس صحت مند روایت کو کماحقہ زندہ رکھا جس نے چشم ِفلک کو دکھایا کہ فاروق عادل ؓ سے برسرمجمع پوچھاجاتا ہے کہ اے خلیفتہ المسلمین آپؓ قدآور ہیں اور جو کپڑا بیت مال سے ہمیں ملا اُس سے اتنا لمبا پیرہن کہاں سیا جاسکتا؟ حضرت عمرؓ نے اپنے فرزند کو فوراً بلا کر معاملے کی وضاحت کردی ۔ ایک دوسرے موقع پر ایک بڑھیا نے تنقیداًکہا اے عمؓرآپ کو کس نے یہ حق دیا کہ عورت کامہرمقررکریں جب کہ خودرسول اللہ نے ایسانہ کیا۔ آپ ؓ نے فوراً تجویز کو ترک کردیا۔ حلفائے راشدین نے ہر موقع پر تعمیری تنقید اور اصلاحی تجاویز کا کھلے دل سے خیر مقدم کیا مگر آج ملوکیت، جمہوریت اوربادشاہت کا زمانہ ہے اور عملاً عوامی زندگی میں ان اونچے اقدار کی کوئی قدر وقیمت نہیں رہی ۔ یہی وجہ ہے کہ وسیع وعریض جزیرہ نمائے عرب جواسلامی دنیاکی شہ َرگ ہے اورخلیج فارس سے بحر اوقیانوس تک پچاس لاکھ مر بع میل سے زائد رقبے پر پھیلا ہوا ہے، بائیس مسلم ریاستوں اور مملکتوں پر مشتمل ہے، مشتر کہ طور عربی بول رہاہے، پچانوے فی صد مسلمانوں کا مسکن ہے ، ۱۹۳۸ ءسے پٹرول کی بے تحاشہ دولت سے دنیا کی اقتصادیات کی قضا وقدر کا مالک بناہوا ہے ، مگر افسوس کہ حدیث ِرسول کی زبانِ حق بیان میں” سیلاب پر جھاگ“ کی مانند بے وزن ہے بلکہ جابجا مسلمان آپس میں دست وگریبان بھی ہیں ۔ عالم ِاسلام میں شاہ فیصل جیسے عادل وجری حکمران اور شیخ بن باز ایسے علماءناپید ہورہے ہیں، حد یہ ہے کہ اب تو بعض بلند پایہ مامور مسلم مصنفین ومفکرین کی کتابوں پر پابندیاں بھی لگائی جا رہی ہیں ۔ بہرصورت یہاں مسئلہ محض اہم شخصیات کی تصویری نمائش کا نہیں بلکہ یہ فی ذاتہ اس مرض کی نشاندہی کرتاہے جس میں مبتلاہوکر غیر مسلم سیاست دان، حکمران ، نامور شخصیتیں اور لیڈ ر اپنی دھاک بٹھانے کے لئے قدآدم تصاویر اور مجسمے کھڑے کرجاتے ہیں ۔ حرم کی حدود میں بھی یہ بیماری درآئے ، یہ ماورائے قیاس ہے کیونکہ اسلام میں تصایر اور تماثیل کی ممانعت آئی ہے ۔ بقول علامہ مودودیؒ کثیر التعداد، قوی الاسناد، متواتر المعنی احادیث سے یہ ثابت ہے کہ نبی صلی ا للہ علیہ وسلم نے ذی روح اشیاءکی تصویریں بنانے ا ور رکھنے کو قطعی حرام قرار دیاہے۔ بہرکیف شیخ بن باز کی زندگی میں ایسی ہزارہا مثالیں ہیں جب انہوں نے شریعت اسلامی کی دفاع میں اپنی آواز اٹھائی اور اپنا اثرورسوخ بروئے کار لایا۔ ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ موصوف نے ایک موقع پر برملا اس وقت (ساٹھ کی دہائی میں) سعودی سفیر برائے پاکستان سید عبدالحمید خطیب کی اچھائیوں کا اعتراف کیا مگر اس بابت اُن کی تنقید کر نے سے نہ چُوکے کہ خطیب نے رمضان المبارک کے ”امساکیہ“( نقشہ افطار وسحرپر) میں وقت کے سعودی بادشاہ ا ور ولی عہد کی تصویر چھاپ دی تھی۔ انہوں نے سعودی سفیر کے اس اقدام کو ناپسند فرماکر کہا تھا کہ اس کا مطلب یہ ہے آگے چل کر ان لوگوں کی پرستش شروع ہوجائے جن کے فوٹو امساکیہ میں دئے گئے ہیں ۔ علمائے رُبانین و ومشائخ عظام ہردور میں دین کی حرمت بچانے میں ہراول دستہ بنتے رہے ہیں ۔بن باز مرحوم بیس سال کی عمر میں نابینا ہوئے تھے مگر اُن کی چشم ِ علم و بصیرت ہمیشہ تروتازہ رہی ۔نا بینا ہونے کے باوجود اُن کی اسلامی خدمات مہر نیم روز کی طرح روشن ہیں۔ مدینہ یونیورسٹی کا خاکہ بنانے میں اول و آخر اُن کا ہاتھ رہا اوریہاں طلبائے دین کے لئے سہولیات کی فراہمی میں ان کی غیرمعمولی دلچسپی لینا لا مثال تھی، وہ خلوص و نیک عملی کے نمونہ تھے ۔ حج کے موقع پر میں نے مدینہ یونیورسٹی جانے کی سعادت بھی حاصل کی، آگے اس کا حال بیان کروں گا ( ان شاءاللہ)۔ میرے عزیز بھائی اور مشفق دوست مرحوم مظفر خادم صاحب( اللہ انہیں قارئین کرام کے اموات سمیت جنت الفردوس میں جگہ دے ) کی عرب جید علمائے کرام کے ساتھ کافی قربت رہی تھی۔اُن کا کہنا کہ ایک بار میں شیخ عبدالعزیز بن باز کی خد مت میں حاضر تھا، اسی اثناءمیں ٹیلی فون پر اُن سے کسی شخص نے کسی خاص معاملے میں فتویٰ پوچھا ۔ شیخ بڑی دلجمعی کے ساتھ اس شخص کا نفسِ مضمون سنتے رہے مگر مستفسر نے آدھ پون گھنٹہ تک استفتاءطویل کیا تو بن باز پرنیند کا غلبہ ہوا، یہاں تک کہ خراٹے مارنے لگے، صرف بیچ بیچ میں نعم نعم ( ہاں ہاں ) کہتے رہے۔ مجلس میں موجود کسی کی بھی ہمت نہ بنی کہ فون کا سلسلہ بند کرائے ، جونہی دوسری جانب سے سوال ختم ہو اتو یکایک شیخ نے سائل کے سوال کا جواب دینا شروع کیا ۔ خادم صاحب مرحوم کہتے تھے کہ میں حیران تھا کہ نیند کی حالت میں بھی کس طرح وہ سب کچھ سنتے رہے اور پھر استفسار کر نے والے کا مدلل ومفصل جواب دیا کہ وہ مطمئن ہوگیا۔ خادم صاحب کہتے کہ یہ منظر دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ پیغمبر آخر الزماں صلی ا للہ علیہ وسلم نے عالم کی نیند کوبھی عبادت سے تشبیہ دینے کی حقیقت کیا ہے ۔
بہرحال ہوٹل میں ہم نے اب اپنے کمروں کی راہ لی۔ ہمارا گروپ چھ ساتھیوں پر مشتمل تھا۔ میں اورمیری اہلیہ کے لئے ایک علحیدہ کمرہ اوردیگرچار ساتھیوں کے لئے پاس ہی کا کمرہ مخصوص تھا۔ ہم نے پروگرام کے مطابق آرام سے نیا وضو کیا۔ تھوڑے ہی وقفے کے بعد خانہ کعبہ کی اذان تہجد نے ہمارے شبستان ِ وجود میں لرزش پیداکی ۔ اب بیت اللہ کی خوش کن پناہوں میں آنے کی بے تابیاں زیادہ بڑھ رہی تھیں،تجسس کی آنچ دوچند ہوئی،مسجد حرام میں سجدہ ریز ہونے کی تڑپ میں اُبال آگیا۔ شوق کے پنچھی نے آکر کہا آپ جانتے ہی کہ مکہ معظمہ کی کیا کیا فضیلتیں ہیں؟میں نے کہا اگر ہمیں ان کاعلم ہوتا توعلامہ اقبال ہمیں بھٹکے ہوئے آہو کہہ کر اللہ کے حضور یہ دعا کیوں کر تے
بھٹکے ہوئے آہو کوپھر سُوئے حرم لے چل
اس شہر کے خوگر کو پھر وسعتِ صحرا دے
پیدا دل ویراں میں پھر شورش ِ محشر کر
اس محمل خالی کو پھر شاہدِ لیلا دے
میں بلبل ِ نا لاں ہوں ایک اُجڑے گلستان کا
تاثیر کا سائل ہوں ، محتاج کو داتا دے

شو ق کے پنچھی نے کہا جایئے دیدار کعبہ کا دلی اَرمان اسی دعا کی سوغات لے کرپورا کیجئے ، آنکھوں کی برسوں پرانی پیاس بجھایئے پہنچا، دل کو ٹھنڈک جگر کو فرحت دیجئے مگر تھوڑی دیر مراقبے میں جائیے ، خانہ خداکی عظمتیں اوررفعتیں جاننے کے ساتھ ساتھ ا س گھر کی خدائی نگہداشت کا وہ اہتمام بھی کچھ کچھ سمجھ لیجئے جس کی جھلکیاں عصررواں میں ہی نہیں بلکہ تاریخ کے اوراق میں بھی ملتی ہیں۔ آیئے چرخ ِ نیلی فام کے سائے میں وقوع پذیراُن دو تاریخی واقعات۔۔۔ تبع حِمیری ابو کرب تبان اسعد کی راہ یابی اور حبشی الاصل ابرہہ کی تباہی و بربادی۔۔۔ کی یادیں تازہ کرتے جائیں۔ان ہردوواقعات سے انسانی فہم وادراک سے حرم کی وراءالوراءعظمت کا سکہ ہی دل ِ مومن پرنقش ہی نہیں ہوتا بلکہ اس بیت العتیق کے خدائی تحفظ وتکریم کاغیرمرئی نظام بھی ذہن نشین ہوجاتا ہے۔ کہنے کویہ تاریخی واقعات دوباد شاہوں سے متعلق ہیں مگراندر گہرائی سے جھانکئے توآپ پائیں گے کہ ان سے دومتضادکردارجھلکتے ہیں،دومتخالف روشیں عیاں ہوتی ہیں ،دو متعارض کہانیاں جنم پاتی ہیں، دو متوازی شخصیات کے نمونے اُبھرکر سامنے آتے ہیں جیسے حضرت عمرؓبن خطاب اورابوجہل کی شخصیتیں ضدین تھیں۔ ان ہردوواقعات سے پتہ چلتا ہے کہ دربارِالہٰیہ سے کسی سعید روح پررحمت وہدایت کے دروازے کس نازوانداز سے کھل جاتے ہیں اورکسی شقی القلب پرشامت وذلت کے فیصلے کس غصے اورجلال ِ الہیٰ سے صادرہوتے ہیں،انسانی اعمال کے پیچھے اللہ کی کیاکیا مشیتیں کارفرماہوتی ہیں اور خدائی فیصلوں میں عدل وانصاف کاترازوکس طرح کھرے اورکھوٹے کی تمیزکرتاہے۔مزید برآں یہ بھی پلے پڑتا ہے کہ کعبتہ اللہ کے تقدس اورتحفظ کااُلوہی انتظام ویساہی جاری وساری ہے جیسے الذکر(قرآن کریم۔۔۔ سورہ الحجر) کی حفاظت کاذمہ ملہم حقیقی نے آپ پرلیاہے،اورہرزمانے کے شیطانوں کے تعاقب کے لئے شہاب ثاقب کی لاٹھی کا مستقل انتظام فرمایا ہے ۔ لیجئے واقعات سنئے۔ سیرت ابن ہشام، تفسیر این کثیر، معارف القرآن اور تواریخ کی کتابوں میں درج ایک واقعے کی رُوداد یہ ہے:

یہ یمن کاچمن ہے،سرسبزوشاداب سرزمین،عوداورلوبان کامشک زار،ملکہ سبا(سورہ نمل وسورہ سبا)کاوطن مالوف اور مملکت و حکومت کی زریں کا رگاہ ۔ جنوبی عرب میں ملکہ کا رُوبہ ترقی دارالسلطنت مارب موجودہ یمنی دارالحکومت صنعاءسے تقریباً پچپن ساٹھ میل شمال مشرق میں واقع ہے ۔ یہ ایک خوشحال تجارت پیشہ مگر آفتاب پر ست قوم ہے ۔ سبائی اپنی معاشی فارغ البالی کے لئے سد ِمارب کا بند اپناخدا داد فن ِانجینئرنگ بروئے کار لاکر تعمیر کرتے ہیں ، یہ اُن کے فن وہنر مندی اور علم الہندسہ کاحسین امتزاج ہے۔ یوں لوگ اپنے نادر خوشبوؤں، پھلوںا ور پھولوں کی کاشت کی بابت آب پاشی کا موثر نظام وضع کرتے ہوئے اپنے چارسو مربع میل پر پھلی جنت ارضی کی سر سبزی وشادابی بستی کا انتظام وانصرام کر جاتے ہیں۔ یہ لوگ سد یعنی بند بناکر پانی ذخیرہ کرتے ہیں تاکہ ملک وقوم کی خوشحالی اور اس کے تفوق ودبدبے میں ذرہ برابر فرق نہ آئے۔ یمنی آبادی وقت کی عالمی تجارت پرہی چھائی ہوئی نہیں بلکہ حق قبولنے میں بھی یکتاہے۔ مثلاً ملکہ سبا کوحضرت سیلماؑن ؑ کی نبوت کے معجزات دیکھنے کی دیر تھی کہ بلا تامل ایمان لا تی ہے ( سورہ النمل) اور پوری مملکت اسلام کی دامن گرفتہ ہوجاتی ہے۔ اول ا ول یہ قوم خدائے واحدو یکتا کی بند گی کر تی ہے، مگر دنیوی سرمایہ، عیش وعشرت اور مال کی بہتات بالآخر ان میں خرابیاں پیدا کر ہی دیتاہے ا ور سبائی عروج سے لڑھک کر زوال کی داستان بن جاتے ہیں ۔ اللہ کا عذاب سیلِ عرم بن کر نہ صرف ان کی زمینوں کی شادابیاں چھین لیتا ہے بلکہ اُنہیں مہاجرت ومسافرت میں شام و حجاز وغیرہ دربدر گھماتاپھراتاہے۔
( بقیہ اگلے جمعہ کو ملاحظہ فرمائیں)
 

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 353082 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.