سعودی ایران:جوش کے بجائے ہوش

ان دنوں عالمی میڈیا میں سعودی ایران سفارتی تنازعے کی خبریں ہر طرف چل رہی ہیں،سعودی عرب پربڑے اورخود کفیل ہونے کی وجہ سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ حسبِ سابق صبر کا مظاہرہ کریں،کیونکہ عالم عربی اور عالم اسلام اپنی زبوں حالی کے سبب مزید تشتت اور تفرُّق کا متحمل نہیں ہے،مملکت سعودی عرب میں باغی عناصر کی بیخ کنی سعودی حکومت کا حق ہے،حرمین شریفین،زائرینِ حرمین اور عام لوگوں کو امن فراہم کرنا بھی ان کی ذمہ داری ہے،ایسے میں اگر کوئی شخص یا گروہ نقضِ امن کا مسئلہ پیدا کررہاہو،تو اسے راستے سے ہٹانا ضروری ہے،اس میں اس کے مسلک یا سیاسی تعلق کو خاطر میں لانے،یا اس کی اس حیثیت سے دب جانے میں کوئی عقلمندی نہیں ہے،لہذاسعودی حکومت نےجو کچھ کیا ،یہی اس کا تقاضا تھا،ایران یا کسی بھی ملک کا سعودیہ کے اندرونی معاملات میں دخل دینا کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے،یہ بین الاقوامی طور پر طے شدہ امور ہیں،لیکن اگر ایران میں احتجاجاً سعودی سفارت خانے اور ان کے قونصل خانے کو کچھ عاقبت نااندیش مشتعل مظاہرین نے آگ لگا کر جلایا ہے،تو یہ سب کچھ ایران میں اس سے قبل امریکی اور برطانوی سفارت خانوں کے ساتھ بھی ہواہے،ایران میں مسلکی تعصب کی بِنا پر ایسا ہوجاتاہے،اللہ تعالیٰ کاشکر ہے،جانوں کا ضیاع نہیں ہوا،ایرانی سیکورٹی فورسز کو بروقت کارروائی کر کے ایسا نہیں ہونے دینا چاہیئے تھا،کیونکہ اس سے ایران کا امیج بھی باہر کی دنیا میں متأثر ہواہے،سعودی عرب کا نقصان ہوا یا نہیں،سمجھنے والے سمجھتے ہیں کہ ایران کوعالمی سطح پربہت بڑا نقصان ہوا ہے،ان کی بدنامی اورتنہائی میں اضافہ ہواہے،ان کے ماضی کے سفارت خانوں کے متعلق غیر ذمہ دارانہ رویئے کی ایک مرتبہ پھر ذرائعِ إبلاغ میں گونج ہے۔

سعودی حکومت نے بھی احتجاجاً ایران سے سفارتی تعلقات ختم کئے ہیں،بحرین،کویت اورسوڈان نے بھی سعودیہ کا بھر پور ساتھ دیا ہے،إمارات نے سفیر سے کم درجے کے لوگ وہاں چھوڑے ہیں،اپنے سفیر کو بلا لیا ہے،انٹر نیشنل سیکورٹی کونسل،ترکی اور پاکستان نےبھی سفارت خانے کو آگ لگانے کی مذمت کی ہے،حرمین شریفین کے دِفاع اور حفاظت کے لئے آخر الذکر دونوں ممالک نے اپنے عزمِ مصمم کا إظہار وإعلان بھی کردیا ہے، سوشل میڈیا پر بھی تائید واختلاف کا ایک بازار گرم ہے،گویا ایسا لگتاہے جیسے کوئی جنگ کی سی کیفیت ہو،حالانکہ یہ سارے معاملات دونوں طرف سے صرف اور صرف احتجاج ریکارڈ کرانے کی حد تک ہیں،البتہ سعودی عرب نے سفارتی تعلقات کے ختم کرنے میں بھی حجاج اور زائرینِ ایران کومستثنیٰ قراردیاہے،جو خوش آئند ہے، کاش ایرانی مظاہرین بھی اپنے احتجاج میں سفارت خانے اور قونصل خانے کو مستثنیٰ قرار دیتے،تو بات اتنی آگے تک ہرگز نہ جاتی،بہرحال ایک دو روز میں یہ ساری دھول بیٹھ جائیگی،إن شاء اللہ تعالیٰ۔ مگر ایران کا سفارت خانوں کے حوالے سےاپنے اعتماد کو بحال کرانے میں بہت دیر لگیگی،سفراء کو گرم جنگوں میں بھی امن امان دیاجاتاہے ،ہمارے یہاں ہو یا کہیں بھی ہو،اہلِ اسلام کو سفراء اور مندوبین کے حوالے سے دنیا کے سامنے اپنی ذمہ داری کا إحساس دلانا ہوگا،ایسی حرکتوں پر سختی سے پابندی لگانی ہوگی،ایسے لوگوں کو قرار واقعی سزا دینی ہوگی۔

جاہلیت کے زمانے میں عربوں کا مشہور بادشاہ نعمان بن منذر سرکاری طور پر اپنے دوست ایران کے بادشاہ خسرو پرویز کے پاس گیا،کسی بات پر اَن بن ہوئی، انہوں نے اسے بند کردیا،نہ صرف بند کیا بلکہ بے دردی سے وطن سے دورقتل بھی کردیا،عربوں نے اس پر احتجاج کیا،ایران سے ناراض ہوگئے،توپرویز نے لشکر کشی کی ،عرب اقوام وقبائل نے میدانِ ذی قار میں متحد ہوکر ایسا مقابلہ کیا،کہ آدھے سے زیادہ لشکری قتل ہوئے،بقیہ نےبھاگ کر جان بچائی ۔ بعد میں ہمارے پیارے نبی حضورﷺ کا نمائندہ اسی فارسی بادشاہ کے پاس آپﷺ کا نامہ مبارک لےکر گیا،تو اس احمق نے اس کی توہین کی اور نامہ مبارک چاک کرکے اپنے پیروں میں ڈال دیا،آپ ﷺ نے ان کے لئے بد دعاء فرمائی،تو اس کا جو حشر ہوا،اللہ تعالیٰ اس سے سب کو بچائے،جبکہ اس کے برعکس روم وفارس کے سفراء ومندوبین جب بھی جنابِ رسالتمآب ﷺ اور خلفائے راشدین کی خدمت میں گئے،تو اُن کاگرم جوشی کے ساتھ پُرتپاک استقبال کیا گیا۔

سعد بن ابی وقاص ؓ کی قیادت میں جب قادسیہ کی جنگ ہوئی اور ایرانیوں کو شکست ہوئی،تو بڑے بڑے لیڈر گرفتار ہوئے،ان میں ایک بڑا کمانڈر ہرمزان بھی تھا،وہ جب حضرتِ عمرؓ کے سامنے پیش کئے گئے، تو اس نے سمجھا کہ جیسے ہمارے یہاں ہوتاہے کہ ایسے قیدیوں کو ماردیا جاتاہے،اس نےامیر المؤمنین سے بات چیت کرنے سے پہلے پانی کا مطالبہ کردیا،حضرت نے فرمایا،اسے پانی پلاؤ،پانی کا پیالا ہاتھ میں لے کر وہ کانپنے لگا،فرمایا،کیا مسئلہ ہے،کیوں ڈرتے ہو،کہا،ڈرتاہوں پانی پینے سے پہلے ہی نہ ماراجاؤں،عمر نے فرمایا،سکون سے پانی پیو،پانی پینے کے دوران تمہارا محاسبہ تک نہیں ہوگا،چہ جائے کہ تمہیں قتل کردیاجائے، اس نے پانی گرادیا،پوچھا گیا،پانی کیوں گرایا،کہا،تاکہ بچ جاؤں،کیونکہ آپ لوگ قول کے پکّے ہیں، آپ نے فرمایا ہے، پانی پینے سے پہلے تمہیں نہیں ماراجائے گا،اب تو یہ پانی زمین میں چلاگیا،اس کا پینا ممکن ہی نہیں ،آپؓ نے اسے معاف کردیا،مسلمانوں کے اخلاق بہت بلند ہیں،سفراء اور جنگی قیدیوں کے حوالے سے اسلام نے واضح ہدایات فرمائی ہیں،یہ اور بات ہے کہ اسی ہرمزان کی سازش سے أبو لؤلؤہ مجوسی نے اس عظیم محسن حضرتِ عمر کو بعد میں مسجدِ نبوی کے محراب میں شہید کردیا،ان سب کے باوجود سعودی عرب اور تمام عرب ممالک کو بڑے پن کا ثبوت دینا ہوگا، وُسعتِ ظرفی کا مظاہرہ کرنا ہوگا،ایران نے اگر معذرت کی ہے اور آئندہ ایسے واقعات کے سدّ باب کی یقین دہانی کرائی ہے،تو اعتذار قبول کیاجانا چاہیئے،ہاں ایران کو بھی ان حسّاس معاملات کو بھانپنا چاہیئے،اپنی مسؤلیت کا احساس کرنا چاہیئے،اس کے علاوہ خوا مخواہ کے لئے عربوں کے اندرونی جھگڑوں میں پڑنے سےگریز کرنا چاہیئے،عراق، شام، یمن اور لبنان میں مداخلت سے باز آجانا چاہیئے، کہ اسی میں سب کی خیر اور سب کی بقاء ہے۔
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 818981 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More