افغان امن کاراستہ......بیرونی افواج کامکمل انخلا

ایک طرف افغانستان میں قیام امن کیلئے ایک بارپھرکوششیں جاری ہیں اوردوسری طرف طالبان کی کاروائیوں میں شدت آگئی ہے۔اس بار امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان اور پاکستان،سابق امریکی سفیربرائے پاکستان رچرڈاولسن نے ہارٹ آف ایشیاکانفرنس سے قبل افغانستان کے صدراشرف غنی ، افغان چیف ایگزیکٹوعبداللہ عبداللہ اورافغان مصالحتی کمیشن کے سربراہ یونس قانونی سے خصوصی ملاقات میں صاف طورپر پاکستان کی عسکری اورسیاسی قیادت سے امریکامیں ہونے والے مذاکرات سے نہ صرف آگاہ کیابلکہ دوٹوک اندازمیں انہیں بتایاکہ پاکستان کی کوششوں کامثبت جواب دیناضروری ہے۔پاکستان نے جوکوششیں شروع کی ہیں اس کے بغیرافغانستان میں امن ممکن نہیں ہے۔جس کے بعدگزشتہ دوہفتوں سے امریکی نمائندہ خصوصی پاکستان اورافغانستان کادورہ کررہاہے۔ رچرڈاولسن نے کانفرنس سے ایک روز قبل پاکستان کے آرمی چیف اور دیگر اعلیٰ عہدیداروں سے اہم ملاقاتیں کیں اور امن کیلئے پاکستان کی کوششوں کی حمائت کااعلان کرتے ہوئے اس امیدکا اظہارکیاکہ ہارٹ آف ایشیاکانفرنس میں افغانستان میں افغانستان کے حوالے سے پیش رفت کاامکان ہے کیونکہ بنکاک میں ہونے والے مذاکرات کے بعدامریکا چاہتاہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم ہواورافغانستان کامسئلہ ہرحال میں آئندہ بارہ ماہ کے اندرحل کیا جائے۔

باوثوق ذرائع کے مطابق افغانستان کے مسئلے کے حوالے سے جنوری سے لیکرجون تک چھ مہینے انتہائی اہم ہیں اوراگر ان چھ مہینوں میں افغان حکومت اورطالبان کسی معاہدے پرنہیں پہنچے توپھرافغانستان میں امن مذاکرات خواب بن کر رہ جائیں گے کیونکہ دسمبر۲۰۱۶ء کے بعدافغانستان میں امریکی فوج رکھنے اورنہ رکھنے کافیصلہ موجودہ انتظامیہ نہیں بلکہ آئندہ سال نومبرمیں آنے والی انتظامیہ کرے گی جبکہ نیٹوکے ممالک افغانستان سے اپنے فوجیوں کونکالناچاہتے ہیں اور انہوں نے امریکی درخواست پرصرف ایک سال توسیع کی ہے جبکہ دوسری جانب روس کی افغانستان میں دلچسپی اورانہیں ہتھیاروں کی فراہمی جیسے معاملات نے نیٹواورافغانستان کے تعلقات خراب کردیئے ہیں،اس لئے نیٹو طالبان کےساتھ ہرحال میں آئندہ چھ ماہ کے دوران جنگ بندی سے لیکر انتقال اقتدارتک امن مذاکرات کوکامیاب دیکھناچاہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ نیٹواورامریکی حکام نے افغان حکومت پردباؤبڑھادیاہے۔

دوسری جانب ذرائع کے مطابق امریکاچاہتاہے کہ پاکستانی آرمی چیف نے خطے میں امن کیلئے جوکوششیں کی ہیں ان کو روبۂ عمل میں لایاجائے کیونکہ ان کی ریٹائرمنٹ میں بھی ایک سال باقی ہے لہنداایک سال اندراندرافغانستان کے امن کے معاہدے ہونے چاہئیں کیونکہ اگرخطے میں داعش نے جڑپکڑلی توپھر امریکاکیلئے مشرقِ وسطیٰ سے زیادہ جنوبی ایشیا ڈراؤناخواب بن جائے گا کیونکہ مشرقِ وسطیٰ سے زیادہ جنوبی ایشیامیں امریکی مفادات چین کی وجہ سے بہت زیادہ ہیں اورامریکاکابھارت کواس علاقے کاسپرپاوربنانے کاخواب چکناچورہوجائے گا،اس لیے پاکستان سے بھارت کاامن اور افغانستان سے طالبان کے معاہدے نہ صرف امریکی مفادمیں ہیںبلکہ وقت کی ضرورت بھی ہے۔پاکستان نے جس طرح دہشتگردی کے خلاف کامیابی حاصل کی ہے پوری دنیااس پرغورکررہی ہے کہ کس طرح پاکستان نے داخلی انتشار کے باوجوداس پرقابوپالیاہے۔

ذرائع کے مطابق ہارٹ آف ایشیاکانفرنس کے موقع پرطالبان سے مذاکرات کے سلسلے میں افغان صدراشرف غنی نے طالبان سے مذاکرات کے سلسلے میں ایک امن فارمولہ کا تحریری مسودہ پا کستان کے حوالے بھی کیا۔اس حوالے سے نائب افغان وزیرخارجہ حشمت کرزئی کاکہناہے کہ افغانستان اورپاکستان کواب الفاظ اوربیانات سے نکل کرتحریری طورپربھی امن کیلئے کوششیں کرنی چاہئے ۔دوسری جانب افغان طالبان نے نیٹوکی جانب سے اس فیصلے پرشدید تحفظات کا اظہارکیاہے کہ نیٹونے اپنے بارہ ہزارفوجیوں کوامریکا کے کہنے پر۲۰۱۶ء دسمبرتک افغانستان میں تعینات کرنے کی توسیع کی ہے،اس سے افغانستان میں مزیدافراتفری اوربدامنی کوموقع ملے گاجبکہ اس سے امن کے قیام میں کوئی مددنہیں ملے گی۔اقوام عالم کوبھی چاہئے کہ وہ افغانستان سے اپنے فوجیوں کو نکالیں توافغانستان کومسئلہ خود بخود حل ہوجائے گا۔

ادھرطالبان ذرائع کاکہناہے کہ وہ مذاکرات کیلئے تیارہیں مگرجب بھی مذاکرات کیلئے کوششیں شروع ہوتی ہیں توامریکاسمیت مغربی ممالک،میڈیاکے ذریعے پروپیگنڈہ شروع کردیتے ہیں جس کی وجہ سے مذاکرات کاعمل رک جاتاہے اورمذاکرات کرنے والے حلقوں میں تشویش کی لہردوڑجاتی ہے، لہندا مذاکرات کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ امریکااوراس کے اتحادی ہیں۔ امریکااگرمذاکرات میں کامیابی چاہتاہے تواسے فی الفورافغانستان سے اپنی تمام افواج کونکالناچاہئے کیونکہ غیرملکی افواج کی موجودگی میں افغانستان میں امن ممکن نہیں ہے۔ایک اورذرائع نے بتایاکہ گزشتہ دنوں حزبِ اسلامی کامشرقی افغانستان میں میں ایک اہم اجلاس ہواہے جس میں حزبِ اسلامی کی کمانڈمیں بھی تبدیلی کی گئی ہے اوربعض اہم فیصلوں کااختیارانجینئرحکمت یارنے خود سنبھال لیا ہے تاکہ مزاحمت کوزیادہ منظم کیاجائے کیونکہ ۲۰۱۶ء میں امریکا میں انتخابات سے قبل افغان مزاحمت کارچاہتے ہیں کہ مزاحمت میں ایسی تیزی لائی جائے کہ امریکامیں انتخابی عمل پر اتنااثرپڑے کہ امریکاافغانستان سے اپنی فوج واپس بلالے۔

ہارٹ آف ایشیاکانفرنس کاانعقاد ایسے وقت میں ہواہے جبکہ حالیہ مہینوں میں طالبان جنگجوں نے ملک کے کئی علاقوں میں افغان فوج کے خلاف کارروائیاں شروع کررکھی ہیں جس کے باعث سکیورٹی فورسز انتہائی دباؤ کاشکار ہیں۔ چنددن قبل ہلمند صوبے کے نائب گورنرمحمدجان رسول یارنے فیس بک کے ذریعے ملک کے صدراشرف غنی کوطالبان کے ساتھ جاری لڑائی میں مدد کیلئے پیغام بھیجاکہ ''صدارتی عملہ آپ کودرست اطلاعات فراہم نہیں کررہا جس کی وجہ سے نہ چاہتے ہوئے مجبوری میں پیغام دینے کیلئےفیس بک کاسہارا لیناپڑاہے۔ ہرکسی کواقتدار سے محبت ہوتی ہے،مجھے بھی اپناعہدہ پسند ہے لیکن اپنی کرسی بچانے کیلئےمیں اتنی بڑی قیمت اداکرنے کیلئےتیارنہیں ہوں۔ ہلمندکوبچانے کیلئےفوری اقدامات کریں اوراپنے آپ کوان لوگوں سے دورکریں جوآپ کوبتاتے ہیں کہ صوبے کے حالات بالکل ٹھیک ہیں۔

گزشتہ دودنوں سے ہلمند میں ہونے والی لڑائی میں۹۰سے زائدفوجی مارے جا چکے ہیں اوران حالات میں صوبے پر طالبان کا قبضہ ہوسکتا ہے۔ہلمنددشمنوں کے ہاتھ میں چلا جائے گااوریہ قندوز کی طرح نہیں ہے جہاں کارروائی کرکے علاقے کو دشمن سے واپس لے لیاجائے گا،یہاں ایسا کرناناممکن ہوگا''۔ ادھر پولیس کمانڈرمحمددادنے سیٹلائٹ فون کے ذریعے غیرملکی میڈیاکے سامنے اعتراف کرتے ہوئے کہا''وہ ہم دودنوں سے مکمل طورپرطالبان کے حصارمیں ہیں اور انہیں فوری طور پر کمک کی ضرورت ہے۔ اگرمددنہیں پہنچی تووہ زیادہ دیرتک حملہ آوروں کونہیں روک سکتے کیونکہ ان کے پاس گولہ بارود ختم ہورہا ہے ۔ بازاربند ہیں،ہمارے اردگرد ہلاک شدگان اورزخمی لوگ پڑے ہیں۔ ہم نے دو دنوں سے کچھ نہیں کھایاہے۔ اگر اگلے گھنٹے تک مددنہیں پہنچتی ہے توہمارے فوجیوں کوزندہ پکڑلیاجائے گا۔

باوثوق ذرائع سے یہ خبربھی موصول ہوئی ہے کہ بالآخرطالبان اورسکیورٹی فورسزکے درمیان شدید لڑائی اورسخت محاصرے کے بعدافغانستان کے صوبے ہلمند میں سرکاری فوجوں نے ضلعی انتظامی دفاترخالی کردیے ہیں جس کے بعد طالبان نے ضلع سنگین کے پولیس ہیڈکوارٹراورانٹیلی جنس ڈائرکٹریٹ پرقبضہ کرلیاہے۔سنگین پر طالبان کے دوبارہ قبضے کی صورت میں صوبے کے شمالی علاقوں میں ان کی نقل وحرکت میں اضافہ ہوگیاہے جس سے افغان فوجیوں کی لشکر گاہ سے اہم سپلائی لائن منقطع ہوگئی ہے۔ایک وقت تھاجب افغانستان میں موجودبین الاقوامی افواج ضلع سنگین کو اپنے مرکز کے طورپراستعمال کیاکرتی تھیں تاہم اب سنگین میں طالبان کے قبضے کے بعداتحادی افواج کوایک بہت بڑا دھچکہ پہنچاہے۔اہم سوال یہ ہے کہ کیاطالبان اپنے قبضے کوبرقراررکھ پائیں گے؟امکان ظاہرکیاجارہا ہے کہ طالبان ان دفاترکوخالی ہی رکھیں گے جیسا کہ انہوں نے ہلمند کے موسیٰ قلعہ اورنوزادکے علاقوں میں کیاتھاتاہم طالبان اس دفعہ کافی محتاط ہیں۔سوال یہ ہے کہ ہارٹ آف ایشیاکانفرنس میں طے پانے والے منصوبے پرعملدرآمدکیسے ہوگا؟ بظاہر جنرل راحیل شریف کاحالیہ دورۂ کابل بہت دوررس کاحامل ہے اوراس سے برف پگھلنے کی قوی امیدہے کیونکہ پہلی مرتبہ طالبان کے تمام گروپوں کوامن مذاکرات کیلئے آمادہ کرلیاگیاہے جبکہ اس سے پہلے کیوبااوربگرام جیل سے رہاہونے والے طالبان کمانڈرزامن مذاکرات کرنے کیلئے قطعاًتیارنہیں تھے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ جہاں امریکااپنی ذلت آمیزشکست سے بچنے کیلئے طالبان کومذاکرات میں الجھاکردرپردہ اپنی سازشوں سے افغانستان میں اپنے قیام میں اضافہ کرناچاہتاہے وہاں بھارت بھی اپنے مخصوص مفادات کیلئے طالبان کی بڑھتی ہوئی فتوحات سے سخت پریشان ہے ۔اب ضرورت اس امرکی ہے کہ مذاکرات کی طالبان کی مشروط آمادگی کو ہر قسم کی سازشوں سے محفوظ رکھاجائے تاکہ پاکستان پران کااعتمادمتزلزل نہ ہو!

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 353413 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.