حقیقت میلاد النبی - تہترواں حصہ

2۔ باجماعت نمازِ تراویح کی اِبتداء:-

جمع و تدوینِ قرآن کی طرح یہ عمل بھی سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے فرمان کی تعمیل میں باقاعدہ وجود پذیر ہوا۔ احادیثِ مبارکہ میں مذکور ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ میں رمضان المبارک میں تین راتیں نماز تراویح باجماعت پڑھائی۔ اس کے بعد فرض ہوجانے کے خدشہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نمازِ تراویح گھر میں ہی پڑھتے رہے اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم بھی اِنفرادی طور پر اپنی اپنی نماز پڑھ لیتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد مبارک کے بعد سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے اڑھائی سالہ دورِ خلافت میں بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا یہی معمول رہا۔ جب سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا دور خلافت آیا اور آپ نے دیکھا کہ رمضان المبارک میں لوگ مختلف شکلوں میں نماز تراویح ادا کر رہے ہیں۔ تو اس خیال سے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے اندر مساجد کو آباد کرنے کا ذوق بھی کم ہوسکتا ہے اور اگر صورت حال یہی رہی تو عین ممکن ہے کسی وقت لوگ نماز تراویح پڑھنا ہی ترک کر دیں، انہوں نے یہ اِجتہاد فرمایا اور سب کو حافظِ قرآن حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پیچھے نمازِ تراویح باجماعت پڑھنے کا حکم دیا۔ صحابہ کرام کو باجماعت نمازِ تراویح پڑھتے دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :

نعم البدعة هذه، والتي ينامون عنها أفضل من التي يقومون.

’’یہ کتنی اچھی بدعت ہے اور رات کا وہ حصہ جس میں لوگ سو جاتے ہیں اُس حصہ سے بہتر ہے جس میں وہ قیام کرتے ہیں۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، کتاب صلاة التراويح، باب فضل من قام رمضان، 2 : 707، رقم : 1906
2. مالک، الموطأ، 1 : 114، رقم : 250
3. بيهقي، السنن الکبري، 2 : 493، رقم : 4379

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اِس قول کی وضاحت کرتے ہوئے عبد الرحمان بن عبد القاری تابعی بیان کرتے ہیں :

يريد آخر الليل، وکان الناس يقومون أوّله.

’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مراد رات کا آخری حصہ تھا جب کہ لوگ پہلے حصہ میں قیام کرتے تھے۔‘‘(2)

(2) یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب رات کے آخری حصہ میں کی جانے والی عبادت زیادہ فضیلت رکھتی ہے تو پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اِبتدائی حصہ میں قیام کیوں شروع کروایا۔ حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) ’’فتح الباری (4 : 253)‘‘ میں اِس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

هذا تصريح منه بأن الصلاة في آخر الليل أفضل من أوله، لکن ليس فيه أن الصلاة في قيام الليل فرادي أفضل من التجميع.

’’اِس میں صراحت ہے کہ رات کے پچھلے پہر کی نماز پہلے پہر کی نماز سے اَفضل ہے، تاہم اِس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ تنہا نماز پڑھنا باجماعت نماز پڑھنے سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔‘‘

پس اِس سے واضح ہوگیا کہ اگرچہ آخرِ شب پڑھی جانے والی نماز فضیلت کی حامل ہے لیکن باجماعت ادا کی جانے والی نمازِ تراویح. جو رات کے اِبتدائی حصہ میں ادا کی جاتی ہیں۔ زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔

اس روایت میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے خود ’’نعم البدعۃ ھذہ‘‘ فرما کر یہ ثابت کر دیا کہ ہر بدعت، بدعتِ سیئہ نہیں ہوتی بلکہ بے شمار بدعات اچھی بھی ہوتی ہیں۔ اور بدعتِ حسنہ اور سیئہ کی تقسیم مبنی بر حدیث ہے، محض قیاسی تقسیم نہیں بلکہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قول پر قائم ہے۔

3۔ نمازِ جمعہ سے قبل دوسری اذان:-

نماز جمعہ میں خطبہ سے پہلے دوسری اذان عہدِ عثمانی رضی اللہ عنہ میں شروع کی گئی تھی۔ اِمام بخاری (194۔ 256ھ) لکھتے ہیں :

أن التأذين الثاني يوم الجمعة، أمر به عثمان، حين کثر أهل المسجد.

’’بے شک جمعہ کے دن دوسری اذان کا حکم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے دیا جب مسجد میں آنے والوں کی تعداد زیادہ ہوگئی۔‘‘

بخاري، الصحيح، کتاب الجمعة، باب الجلوس علي المنبر عند التأذين، 1 : 310، رقم : 873

لہٰذا جس طرح خیر القرون میں بھی تدوینِ قرآن حکیم کے موقع پر اَجل صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے ذہنوں میں یہ سوال اٹھا تھا کہ جو کام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا وہ کیسے کرسکتے ہیں، اُسی طرح آج کے دور میں بھی جشن میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اس جیسے دیگر اُمورِ خیر کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ جائز ہیں جب کہ اَوائل دورِ اِسلام میں ان کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اور جس طرح صحابہ کرام کو اِنشراحِ صدر ہوا اور اُنہوں نے بھلائی کے ان نئے کاموں کو اپنایا اُسی طرح ہم نے محافلِ میلاد اور جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اَمرِ خیر اور باعثِ برکت ہونے کے اپنایا ہے۔

تصورِ بدعت اور چند عصری نظائر و واقعات:-

اِس ضمن میں چند شہادتیں عصری نظائر و واقعات سے پیش کی جاتی ہیں

1۔ اِسلامی حکومت کے قیام کا مسئلہ:-

شریعت نے ضروری قرار دیا کہ مسلمانوں کی نمائندہ حکومت ہو، لیکن اِس کا انتخاب کس طرح ہو، حکومت کی تشکیل کس نظام کے تحت کی جائے، اس کے ادارے کس طرح وجود میں آئیں اور پھر ان میں اِختیارات کی تقسیم کس اُسلوب پر ہو؟ ان تفصیلات کے متعلق شریعت میں صریح اَحکامات نہیں ملتے۔ ہر مسلمان ریاست نے اپنی صوابدید کے مطابق جو نظام ضروری سمجھا اپنا لیا۔

2۔ تعمیرِ مساجد کا مسئلہ:-

اَوائلِ اسلام میں پختہ مکانات بنانا ناپسند خیال کیا جاتا تھا، لہٰذا مسجد کو بھی اَز رُوئے شرع پختہ بنانا ناجائز تصور کیا جاتا رہا۔ پھر ایک وقت آیا جب اسلامی سلطنت کی حدیں شرق تا غرب تک پھیل گئیں، تہذیب و ثقافت اور رہن سہن کے طریقوں میں تبدیلیاں آگئیں، لوگوں نے اپنی رہائش کے لیے بڑے بڑے کشادہ اور پختہ مکانات بنانا شروع کر دیے۔ بنو اُمیہ اور بنو عباس کے دورِ حکومت اور مابعد اِسلامی مملکت کے جاہ و جلال کے دور میں مسلمانوں نے عالی شان محلات تعمیر کیے تو علماء نے وقت کے تقاضوں کے مطابق مساجد کی تعمیر کو بھی اسی طرح نہ صرف جائز کہا بلکہ عظمتِ اسلام کے پیش نظر ضروری قرار دیا۔

اگر مساجد کی تعمیر میں تبدیلی پر غور کیا جائے تو اس کی مصلحت اب سمجھ میں آتی ہے کہ اس وقت لوگوں کے اپنے گھر کچے ہوتے تھے لہٰذا اﷲ کے گھر کا کچا ہونا باعثِ ننگ و عار نہ تھا۔ لیکن جب لوگوں کے اپنے مکانات پختہ محلات میں بدل گئے تو خانۂ خدا کی وجاہت اور ظاہری رعب و دبدبہ کے پیشِ نظر پختہ اور خوبصورت مساجد کی تعمیر کے جواز کا فتویٰ دے دیا گیا۔ اِس سے واضح ہوتا ہے کہ دین کو اگر ظاہری لفظوں سے سمجھنے کی کوشش کی جائے تو اس سے (الا ما شاء اﷲ) گمراہی کے سوا کچھ نہیں ملتا لیکن اگر دین کی اصل روح اور اس میں کار فرما حکمتوں پر غور کر کے اس کے اَحکام کو پرکھا جائے تو دین کا صحیح فہم پیدا ہوتا ہے۔

جاری ہے---
Mohammad Adeel
About the Author: Mohammad Adeel Read More Articles by Mohammad Adeel: 97 Articles with 93928 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.