رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم بحثیت سپہ سالار،غزوات اور جنگوں کا احوال -4

جنگ احد ۔۔۔۔ منافقین کی خیانت
رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم صبح سویرے شیخان سے احد کی طرف (6 کلومیٹر مدینہ سے) روانہ ہوئے۔ مقام شوط پر عبداللہ بن ابی بن سلول منافقین کا سرغنہ اپنے چاہنے والے3 سو افراد کے ساتھ مدینہ لوٹ گیا۔ اس نے اپنے بہانہ کی توجیہ کے لئے کہا کہ”محمد نے جوانوں کی بات سنی ہماری بات نہیں سنی اے لوگوں! ہمیں نہیں معلوم کہ ہم کس لیے اپنے آپ کو قتل کئے جانے کے لئے پیش کر دیں۔ عبداللہ بن عمرو بن حرام ان کے پیچھے پڑ گئے اور کہا کہ” اے قوم والوں! خدا سے ڈرو۔ ایسے موقع پر جب دشمن نزدیک ہیں اپنے قبیلہ اور پیغمبر خدا کو تنہا نہ چھوڑو۔ لوگوں نے کہا کہ ہم اگر یہ جانتے کہ لڑائی ہونے والی ہے تو ہم تم کو نہ چھوڑتے لیکن ہم کو معلوم ہے کہ کسی طرح کی جنگ نہیں ہوگی۔ عبداللہ بن عمرو نے جو کہ ان سے ناامید ہوچکے تھے کہا کہ تم خدا کے دشمن ہو، خدا تم کو اپنی رحمت سے دور کرے اور اپنے پیغمبر کو تم سے بے نیاز کر دے۔ ان3 سو افراد کے چلے جانے کے بعد قبیلہ بنی حارثہ اور قبیلہ بنی سلمہ کے افراد بھی سست پڑ گئے، ان کا خیال بھی واپس جانے کا تھا کہ خدا نے ان کو استوار رکھا۔

صف آرائی
روز شنبہ7 شوال 3ہجری کو رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے احد میں نماز صبح ادا کرنے کے بعد لشکر کی صف آرائی شروع کر دی۔ کوہ احد کو پیچھے اور مدینہ کو اپنے سامنے قرار دیا۔ سپاہیوں کو مکمل طور پر ترتیب دینے کے بعد آپ نے تقریر فرمائی اور کہا کہ تعریف اور جزاء اس شخص کے لئے ہے جو اپنے فریضہ کو صبر و سکون اور واقفیت و یقین کے ساتھ انجام دیتا ہے، اس لیے کہ جہاد ایک سخت اور دشوار کام ہے، اس میں بڑی مشکلات و پریشانیاں ہیں۔ ایسے لوگ بہت کم ہیں جو اس میں صابر رہیں۔ مگر وہ لوگ جن کو خدا ہدایت و تقویت دے۔ خدا اس کا دوست ہے جو اس کا فرمانبردار ہے اور شیطان اس کا دوست ہے جو اس کی پیروی کرتا ہے۔ ہر چیز سے پہلے جہاں میں استقامت رکھو اور اس وسیلہ سے ان سعادتوں کو اپنے لیے فراہم کرو جن کا خدا نے وعدہ کیا ہے۔ اختلاف، کشمکش اور ایک دوسرے کو کمزور بنانے کا ارادہ ترک کردو کیونکہ یہ باتیں حقارت و ناتوانی کا سبب ہیں۔

پیغمبر نے ”عبداللہ بن جبیر“ کو50 تیر اندازوں کے ساتھ درہ کوہ عینین کی پاسبانی پر معین فرمایا اور اس تنگ راستہ کی حفاظت کے لئے جنگی حکمت عملی بتاتے ہوئے فرمایا کہ چاہے ہم فتح یاب ہوں اور چاہے شکست کھا جائیں تم اپنی جگہ سے نہ ہٹنا اور دشمن کے سواروں کو تیر اندازی کے ذریعہ ہم سے دور کرتے رہنا تاکہ وہ پیچھے سے ہم پر حملہ نہ کریں۔ اگر ہم قتل کر دیئے جائیں تو ہماری مدد نہ کرنا اور اگر ہم فتح یاب ہو جائیں اور ہم مالِ غنیمت حاصل کرنے لگیں تم ہمارے پاس نہ آنا تم اپنی جگہ مضبوطی سے ڈٹے رہنا۔ یہاں تک کہ ہمارا کوئی حکم آجائے۔ (مغازی ج۱ ص ۲۲۰، ۲۲۴)

دوسری طرف ابوسفیان نے بھی اپنی صفوں کو منظم کرلیا۔ پیادہ زرہ پوش دستہ خالد بن ولید کی کمان میں لشکر کے درمیان میں کچھ سواروں کا لشکر داہنی جانب اور ایک گروہ کو عکرمہ بن ابی جہل کی سرکردگی میں بائیں جانب قرار دیا اور سپاہ پرچم اس نے قبیلہ بنی عبدالدار کے افراد کے سپرد کیا اور شرک و الحاد کے وجود کی حفاظت کے لئے حکم دیتے ہوئے کہا کہ” لشکر کی کامیابی پرچم داروں کی استقامت میں پوشیدہ ہے ہم نے بدر کے دن اسی وجہ سے شکست کھائی تھی اب اگر اپنے آپ کو تم اس کے لائق ثابت نہیں کرو گے تو پرچم داری کا یہ فخر کسی اور قبیلہ کو نصیب ہوگا ان باتوں سے اس نے بنی عبداللہ کے جاہلی احساسات کو مہمیز کیا یہاں تک کہ وہ آخری دم تک جان کی بازی لگانے کے لئے آمادہ ہوگئے۔

دونوں لشکر توحید و شرک ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہوئے تو ان لشکروں کی توانائیاں کچھ اس طرح تھیں

لشکر اسلام :700۔۔۔۔۔ لشکر مشرکین سپاہ:3000 ۔۔۔۔(مغازی ج۱ ص ۲۲۳)
دونوں لشکروں کے درمیان ابوعامر کی وجہ سے پہلا معرکہ ہوا وہ احد کے دن آگے بڑھتا ہوا لشکر کے مقابل گیا اور آواز دی کہ” اے اوس میں ابوعامر ہوں لوگوں نے کہا کہ” اے فاسق تیری آنکھیں اندھی ہو جائیں۔ ابو عامر اس غیر متوقع جواب کے سننے سے اہل مکہ کے درمیان ذلیل ہوگیا۔ اس نے کہا کہ” میرے ذریعہ میرے قبیلہ کو گزند پہنچی ہے۔ اس کے بعد اس نے مسلمانوں سے جنگ کا آغاز کر دیا۔ لشکر اسلام نے اس پر اور اس کے ساتھیوں پر سنگ باری کی اس کے بیٹے حنظلہ جو لشکر اسلام میں تھے۔ انہوں نے رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت مانگی تاکہ اپنے باپ کو قتل کر دیں لیکن رسول خدا نے اجازت نہیں دی۔ (مغازی ج۱ ص ۲۲۳)

ابوعامر کے بیٹھ رہنے کے بعد ”طلحہ بن ابی طلحہ“ مشرکوں کا پرچمدار، جسے سپاہ مینڈھا کہا جاتا تھا، غرور کرتے ہوئے آگے بڑھا اور اس نے چلا کر کہا کہ تم کہتے ہو کہ ”تمہارے مقتولین دوزخ میں اور ہمارے مقتولین بہشت میں جائیں گے۔ اس صورت میں کیا کوئی ہے جس میں بہشت میں بھیج دوں۔ یا وہ مجھ کو دوزخ میں پہنچا دے۔؟“ علی علیہ السلام اس کے مقابلے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔

جنگ شروع ہوئی اور تھوڑی ہی دیر میں سپاہ مشرک کا پرچم دار شمشیر علی علیہ السلام کی بدولت کیفر کردار کو پہنچا۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم خوش ہوگئے اور مجاہدین اسلام نے صدائے تکبیر بلند کی۔

طلحہ کے بھائی نے پرچم اٹھالیا اور آگے بڑھا درآں کہ دوسرے چند افراد پرچم اٹھانے اور سرنگوں ہو جانے کی صورت میں وجود شرک کا دفاع کرنے کےلئے تیار بیٹھے تھے۔(مغازی ج۱ ص ۲۲۳)

دشمن کے حرکت میں آنے کا سبب موسیقی
اسلام کے مجاہد اپنے مقدس دین کے دفاع کے لئے لڑ رہے تھے اور اپنے دل و دماغ میں شہادت کی آرزو کو پروان چڑھا رہے تھے لیکن مشرکین کے سپاہیوں کا مقصد پست مادی آرزوؤں کا حصول اور انتقام کے سوا کچھ نہ تھا۔ مشرکین کے نامور افراد اپنے سپاہیوں کے ان ہی جذبات کی جنگ کے وقت تقویت کر رہے تھے اور یہ ذمہ داری ان آوارہ عورتوں کی تھی جو آلات موسیقی بجاتیں اور مخصوص آواز میں ترانے گاتی تھیں تاکہ غریزہ جنسی کی آڑ لے کر ان کو بھڑکائیں اور دوسری طرف ان کے کنبہ کی انتقامی آگ کو شعلہ ور کر دیں اور وہ لوگ نفسیاتی طور پر متاثر ہو کر جنگ کو جاری رکھیں۔

جو شعر یہ بدقماش عورتیں پڑھ رہی تھیں اس کا مطلب کچھ اس طرح تھا”ہم طارق کی بیٹیاں (ستارہ سحری) ہیں ہم بہترین فرش پر قدم رکھتے ہیں اگر دشمن کی طرف بڑھو گے تو ہم تمہارے گلے لگ جائیں گے، اگر دشمن کو پیٹھ دکھاؤ گے اور فرار کرو گے تو ہم تم سے جدا ہو جائیں گے۔

عام حملہ
علی علیہ السلام نے پھر نئے پرچم دار پر حملہ کیا اور وہ بھی اپنے گندے خون میں لوٹنے لگا۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے عام حملہ شروع ہوا مجاہدین اسلام ایسی شجاعت سے لڑ رہے تھے جن کی تعریف بیان سے باہر ہے۔ اور اسی درمیان چند افراد جیسے علی، حمزہ اور ابودجانہ بے خونی کی عظیم مثال تاریخ بشریت میں ثبت کرتے جا رہے تھے۔ سپاہ دشمن پر بجلیاں گرا رہے تھے ان کی تمام تر کوشش یہ تھی کہ پرچم داروں کے پیر اکھاڑ دیں، جنگ زیادہ تر اسی حصہ میں ہو رہی تھی اس لیے کہ اس زمانہ میں پرچم کا سرنگوں ہو جانا شکست کے برابر اور خاتمہ جنگ سمجھا جاتا تھا۔ اسی وجہ سے مشرکین کے پرچم دار اپنی انتہائی شجاعت کا مظاہرہ کر رہے تھے اور بنی عبدالدار کے قبیلہ کے افراد نہایت غیظ و غضب کے عالم میں اپنے پرچم دار کے اردگرد جنگ کر رہے تھے اور جب کوئی پرچم دار قتل ہو جاتا تھا تو احتیاطی فوجیں بلافاصلہ جلدی سے بڑھ کر پرچم کھول دیتی تھیں اس درمیان دشمن کے شہ سواروں نے تین مرتبہ سپاہیان اسلام کے محاصرہ کو توڑنا چاہا اور ہر بار عبداللہ بن جبیر کے لشکر نے مردانہ وار نہایت بہادری اور تیر اندازی کے ذریعہ ا ن کو پیچھے دھکیل دیا۔

علی علیہ السلام کی تلوار، حمزہ کی دلیری اور عاصم بن ثابت کی تیر اندازی سے ”بنی عبدالدار“ کے پرچم داروں میں سے 9 افراد یکے بعد دیگرے قتل ہو گئے تھے رعب و وحشت نے مشرکین کے سپاہیوں کو گھیر رکھا تھا۔ آخری بار انہوں نے صواب نامی غلام کو پرچم دیا۔ صواب سیاہ چہرہ اور وحشت ناک ہیولے کے ساتھ پیغمبر کی طرف بڑھا آنکھیں سرخ تھیں اور منہ سے کف جاری تھا لیکن حضرت علی علیہ السلام نے اس پر حملہ کیا اور تلوار کی ایسی ضرب اس کی کمر پر لگائی کہ وہ ڈھیر ہوگیا۔ مسلمانوں نے مشرکین کی صفوں کو درہم برہم کر دیا وہ عورتیں جو دف بجا رہی تھیں اور گانے گا رہی تھیں، دف پھینک کر پہاڑوں کی طرف بھاگیں، مشرکین کے لشکر میں فرار اور شکست کے آثار رونما ہوگئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان میں سے زیادہ تر لوگ بھاگ گئے اور اس طرح جنگ کا پہلا مرحلہ مشرکین کی شکست اور مجاہدین اسلام کی کامیابی پر تمام ہوا۔

۔۔۔۔ جاری ۔۔۔۔
نوٹ۔۔۔ محترم قارئین آپ کی قیمتی آراء باعث عزت و رہنمائی ہوگی۔
 
Tanveer Hussain Babar
About the Author: Tanveer Hussain Babar Read More Articles by Tanveer Hussain Babar: 85 Articles with 113239 views What i say about my self,i am struggling to become a use full person of my Family,Street,City,Country and the World.So remember me in your Prayers.Tha.. View More