ڈکٹیٹر مفت میں بدنام

وطن عزیز کے دو کروڑ کے لگ بھگ بچوں نے کبھی اسکول کا رخ ہی نہیں کیا اور اسکول جانے والے بچوں میں بھی ایک کثیر تعداد کے اسکولوں میں بینچوں اور ڈیسکوں کی جگہ ٹاٹ پہ تعلیم دی جاتی ہے ،،، جبکہ ملک کے کئی مہنگے اسکولوں میں کسی طالبعلم سے جو ہوشربا فیسں لی جاتی ہے اس سے ایک اوسط کنبے کے مہینے بھر کے کھانے پینےکےاخراجات پورے ہوسکتے ہیں۔ شرمناک بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ اس ملک میں ہو رہا ہے کہ جو بلحاظ ترقی اقوام متحدہ کے 200 سے زائد رکن ممالک میں 147 ویں نمبر پہ ہے۔۔۔ برہنہ سچائی یہ ہے کہ اس وقت دنیا کے جتنے بھی دولتمند اور ترقی یافتہ ممالک ہیں وہ اس وی آئی کلچر کو افورڈ کرسکنے کے باوجود اس سے قطعی دور ہیں ،،، برطانوی وزیراعظم جیسےطاقتور رہنماء کے ساتھ صرف 2 کاریں چلتی ہیں اور وہ اپنی رہائش گاہ سے کافی فاصلے پہ واقع اپنے دفتر پیدل جاتے ہیں ،،، لیکن یہاں حال یہ ہے کہ ایک بڑی پارٹی کے نوعمر موروثی رہنما بلاول بھٹو زرداری جب ایک دورے پہ نکلتے ہیں تو انکے پروٹوکول کی وجہ سے بند کئے گئے رستے پہ 10 ماہ کی معصوم بچی بسما کو علاج کیلئے لیجانے کی اجازت نہیں ملتی۔

پاکستان میں ایک مسئلہ ایسا ہے جس کا تعلق براہ راست عوام کی تذلیل سے ہے اور وہ ہے وی آئی پی پروٹوکول کی تام جھام کا،،، حکمراں طبقہ اور ارکان پارلیمنٹ عوامی مسائل حل کرنے کے بجائے بالعموم زیادہ توانائیاں اس بات پہ صرف کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ وہ کس آخری حد تک عوام کو خود سے دور رکھ سکتے ہیں ،،،گویا جو چھوت چھات کا نظام اب ہندوؤں میں بھی دم توڑ رہا ہے وہ ایک اور سنگین شکل میں اس ملت پاکستان میں جڑ پکڑ رہا ہے۔ طبقاتی نظام کی یہ شکل کسی بھی امتیا زی نوعیت کے گلے سڑے نظام کی بد ترین مثال ہے اور جسے معروف معنوں میں وی آئی پی کلچر کہا جاتا ہے اور جسکے تحت ملک کی سیاسی اشرافیہ ٹریفک پولیس کی مدد سے عوام پہ نقل و حرکت کے رستے مسدود کرنے میں بہت دلچسپی لیتی دیکھی جاتی ہے۔ افسوس کہ ڈکٹیٹر مفت میں بدنام ہیں ، ہر وقت جمہوریت جمہوریت کی مالا جپنے والے اور عوام عوام کا راگ الاپنے والے رہنماء اس وی آئی پی کلچر کے سب سے بڑے رسیا اور محافظ ہیں ۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ جب یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے تھے اور انہوں نے وی آئی پی کلچر کے خلاف ایک دھواں دار بیان میں یہ کہا تھا کہ اب انکی نقل حرکت کے وقت انکے ساتھ صرف 2 سے چار کاریں ہوا کریں گی لیکن اسکے چند ہی روز بعد جب وہ اسلام آباد سے کراچی آئے تو میڈیا نے انکے قافلے کو دکھایا اور گن کر بتایا کہ اس میں پوری 104 گاڑیاں شامل ہیں اور اس طویل قافلے کی وجہ سے شارع فیصل پہ جگہ جگہ بہت دیر تک عوام کیلئے ہر قسم کی آمد و رفت بند کردی گئی تھی،،، اسی طرح اپنی صدارت کے زمانے میں آصف زرداری جب کوئٹہ پہنچے تھے تو انکے پروٹوکول اور سکیورٹی کے نام پہ بہت دیر سے روکے گئے ٹریفک میں میٹرنٹی ہوم جاتی ہوئی ایک خاتون نے رکشے ہی میں ایک بچے کو جنم دیا تھا اس سے قبل پرویز مشرف جب ایک بار بحیثیت صدر کراچی آئے تھے تو بند کئے گئے راستے میں اسپتال سے واپس آتی ایک خاتون کو اس کے فوت ہوئے بچے کی لاش کے ساتھ ڈیڑھ گھنٹے تک سڑک کنارے رکنے پہ مجبور کیا گیا تھا جبکہ اسے گھر جانے کیلئے صرف وہی شارع فیصل پار کرنی تھی۔ وی آئی پی کلچر اور پروٹوکول کے ہاتھوں آئے دن عوام کی ہرطرح کی تذلیل اب معمول کی بات ہے۔ اسکے مظاہر آئے دن دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں- وطن عزیز کے دو کروڑ کے لگ بھگ بچوں نے کبھی اسکول کا رخ ہی نہیں کیا اور اسکول جانے والے بچوں میں بھی ایک کثیر تعداد کے اسکولوں میں بینچوں اور ڈیسکوں کی جگہ ٹاٹ پہ تعلیم دی جاتی ہے ،،، جبکہ ملک کے کئی مہنگے اسکولوں میں کسی طالبعلم سے جو ہوشربا فیسں لی جاتی ہے اس سے ایک اوسط کنبے کے مہینے بھر کے کھانے پینےکےاخراجات پورے ہوسکتے ہیں۔ شرمناک بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ اس ملک میں ہو رہا ہے کہ جو بلحاظ ترقی اقوام متحدہ کے 200 سے زائد رکن ممالک میں 147 ویں نمبر پہ ہے۔ برہنہ سچائی یہ ہے کہ اس وقت دنیا کے جتنے بھی دولتمند اور ترقی یافتہ ممالک ہیں وہ اس وی آئی کلچر کو افورڈ کرسکنے کے باوجود اس سے قطعی دور ہیں۔ برطانوی وزیراعظم جیسےطاقتور رہنماء کے ساتھ صرف 2 کاریں چلتی ہیں اور وہ اپنی رہائش گاہ سے کافی فاصلے پہ واقع اپنے دفتر پیدل جاتے ہیں۔ لیکن یہاں حال یہ ہے کہ ایک بڑی پارٹی کے نوعمر موروثی رہنما بلاول بھٹو زرداری جب ایک دورے پہ نکلتے ہیں تو انکے پروٹوکول کی وجہ سے بند کئے گئے رستے پہ 10 ماہ کی معصوم بچی بسما کو علاج کیلئے لیجانے کی اجازت نہیں ملتی اور وہ اپنی زندگی کی بازی ہار جاتی ہے اور اس پہ بھی بات ختم نہیں ہوتی بلکہ بغیر شرمائے یہ بیان دیا جاتا ہے کہ ہمیں بلاول کی سیکیوریٹی پروٹوکول ہر شے سے بڑھ کر عزیز ہے۔ یہ سارے امتیازات کہ ہمارا دین جنکا سخت مخالف ہے اور خود ہمارے پیارے نبی محمد صلی اللہ و علیہ وسلم کی بوریہ نشین حیات طیبہ سے سادگی کی اہمیت کا بھرپور و عملی درس ملتا ہے۔ یہی سادگی خلفائے راشدین اور اولیاءاللہ کا شعار رہا جبکہ انکے سامنے دنیا بھر کے خزانوں کے منہ کھلے ہوئے تھے-

Mian Khalid Jamil {Official}
About the Author: Mian Khalid Jamil {Official} Read More Articles by Mian Khalid Jamil {Official}: 361 Articles with 300141 views Professional columnist/ Political & Defence analyst / Researcher/ Script writer/ Economy expert/ Pak Army & ISI defender/ Electronic, Print, Social me.. View More