وزیر اعظم کا دورہ پاکستان!

 کابل میں ناشتہ ہو،لاہور میں دوپہرکا کھانا اور دہلی میں عشائیہ ،یہ فارمولاہندوستان کے سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے 2005 میں ایک کانفرنس کے دوران پیش کیا تھا جس پر وہ اپنی دس سالہ وزرات عظمی کی مدت کے دوران چاہ کر بھی عمل نہیں کرسکے ،بارہامنموہن سنگھ نے پاکستان جانے کی خواہش ظاہر کی ، پاکستان کے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی اپنے دورہ ہند کے موقع پر منموہن سنگھ کو پاکستان آنے کی دعوت دی ، پی ایم او سے اس طرح کی خبربھی ریلیز ہوئی کہ 2013 میں منموہن سنگھ پاکستان جاسکتے ہیں ،پاکستان نے بھی منموہن سنگھ کو اپنے یہاں بلانے کی بہت کوششیں کی ،پنجاب میں منموہن سنگھ کے نام سے ایک کالج بھی بنایا گیا ،اس وقت کے پاکستانی صدر آصف علی زرداری نے بھی ہندوستان کے ایک غیر سرکاری دورہ کے دوران منموہن سنگھ سے پاکستان آنے کی خواہش ظاہر کی ۔لیکن اپوزیشن اور بی جے پی کے خوف سے منموہن سنگھ اپنا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں کرسکے، ان کی پارٹی کانگریس نے بھی پاکستان کے مسئلہ پر ان کی کوئی خاص حوصلہ افزائی نہیں کی اورپاکستان کے اپنی جائے پیدائش ہونے کے باوجود وہ وہاں کا سفر نہیں کرسکے ۔لیکن موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی سب پر بازی مار گئے ۔چپکے چپکے ڈرامائی انداز میں کابل سے لاہور ہوتے ہوئے دہلی تک سفر طے کرلیا ،دو دن میں ماسکو ، کابل اور لاہور کی زیارت کرلی ، پاکستان جاکر وزیر اعظم نواز شریف کو سالگرہ کی مبارکباد بھی دے دی ،ان کے نواسی کی شاد ی میں بھی شریک ہوگئے اور ہندوپاک کے درمیان منجمد رشتے کو شدید سردی میں گرما بھی دیا ۔

نریندر مودی کا دورہ پاکستان 2016 میں پہلے سے طے ہے جہاں وہ سارک ممالک کانفرنس میں شرکت کریں گے لیکن اس سے قبل یہ غیر متوقع دورہ دونوں ملک کی عوام کے لئے باعث حیر ت ہے ، ہندوپاک دونوں کے عوام کی حیرانگی کی وجہ یہ ہے کہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے بی جے پی کا موقف پاکستان کے تئیں بہت سخت رہا ہے ، کانگریس نے بارہا دونوں ملکوں کے درمیان بہتر رشتہ بحال کرنے کی کوشش کی لیکن بی جے پی راہ میں حائل ہوکرمانع بن گئی ۔مودی خود پاکستان کے خلاف سخت رویہ رکھتے تھے الیکشن کے دوران مودی کی کی گئی تقریر سنیں گے تو آپ کو یقین نہیں ہوگا پاکستان کے تعلق سے اس طرح کی باتیں کرنے والاوہاں کبھی جائے گا بھی ۔

ذرائع کے مطابق مودی کا یہ دورہ بہت پہلے سے طے تھا گذشتہ سال نیپال میں سارک ممالک کانفرنس کے دورن ہی ایک تاجر جندل کمار نے دونوں رہنماؤں کی ملاقات کرائی تھی اور اسی وقت سے ملاقات کے لئے پیش رفت جاری تھی گذشتہ کل جب مودی لاہور پہونچے تھے تو راجندر کمار بھی وہاں موجودتھے ، کانگریس بھی دعوی کررہی ہے کہ مودی کا دورہ پاکستان پہلے سے طے تھا ، پی آئی بی سے کل یہ خبربھی ریلیز ہوئی کہ یہ پروگرام پہلے سے طے تھے لیکن سیکوریٹی خدشات اور دہشت گردانہ حملہ کے پیش نظر صیغہ راز میں رکھا گیا ،تاہم بی جے پی اسے غیر متوقع دورہ قراردے رہی ہے ، بھارتیہ جنتا پارٹی وزیر اعظم کے جرات مندانہ اقدام کی تعریف کررہی ہے ،کچھ رہنما یہ بھی کہ رہے ہیں کہ پاکستان جاکر مودی جی نے یہ ثابت کردیا کہ ان کے پاس واقعی 56 انچ کا سینہ ہے ۔ کانگریس کے علاوہ تقریبا سبھی پارٹیاں اس کی حمایت کررہی ہے ، کانگریس بھی مخالفت محض اپوزیشن کے وجود کا احساس دلانے کے لئے کررہی اور بس۔

مودی سے قبل ہندوستان کے تین وزیر اعظم پاکستان جاچکے ہیں ،قیام پاکستان کے بعد جواہر لعل نہرو پاکستان کا دورہ کرنے والے پہلے ہندوستانی وزیراعظم تھے۔انہوں نے 1953 میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتر کرانے کے لئے پاکستان کا دورہ کیا، اس وقت محمد علی پاکستان کے وزیراعظم تھے۔جواہر لعل نہرو نے دوسری مرتبہ 1960 میں صدر ایوب خان کے دور میں پاکستان کا سفر کیا۔ جواہر لعل نہرو کے اس دورے کے دوران پاکستان اور ہندوستان کے درمیان پانی کا تنازع حل کرنے کے لئے تاریخی سندھ طاس معاہدہ ہوا۔ اس دورے کے دوران جواہر لعل نہرو نے کراچی، اسلام آباد اور مری کا دورہ کیا۔پاکستان کا تیسرا دورہ جواہر لعل نہرو کے پوتے راجیو گاندھی نے 1988 میں کیا۔ اس وقت پاکستان کے صدر غلام اسحاق خان اور وزیراعظم بے نظیر بھٹو تھیں۔ہندوستانی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے فروری 1999 میں پاکستان کا دورہ کیا، اس وقت پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف تھے۔ پاکستان کا دورہ کرنے والے نریندرمودی ہندوستان کے چوتھے وزیر اعظم بن چکے ہیں اور نواز شریف ایک پارٹی سے تعلق رکھنے والے ہندوستان کے دو مختلف وزیر اعظم کا استقبال کرنے والے پہلے پاکستانی وزیر اعظم۔

دونوں ملکوں کے حالات پر نظر رکھنے والے یہ بات مانتے ہیں کہ ہندوپاک کے درمیان بی جے پی حکومت میں رشتے بہتر رہے ہیں ، اٹل بہاری واجپئی حکومت میں بھی دونوں کے تعلقات قدرے بہتر تھے اور اب مودی حکومت میں بھی یہ چیزیں نظر آرہی ہیں ،عام انتخابات کے دوران پاکستانی میڈیا میں بھی یہ بات چھائی ہوئی تھی کہ بی جے پی کی حکومت بننے کے بعد ہندوستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کانگریس کے دورحکومت کے مقابلے میں قدرے بہتر رہیں گے ۔پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک عالم دین نے بھی اپنے دورہ ہند کے موقع پر مجھ سے یہی کہاکہ بی جے پی حکومت میں ہمارے تعلقات بہتر رہے ہیں کانگریس کی بہ نسبت۔ حلف برداری تقریب میں پاکستان سمیت دیگر سارک رہنماؤں کو مدعوکرکے مودی نے اس کا واضح اشارہ بھی دے دیاتھا۔اسی موقع پر شاہی امام سید احمد بخاری نے بھی نواز شریف سے کہاتھاکہ اگر بہتر تعلقات کے فروغ کا کریڈٹ لینا چاہتے ہیں تو یہ آپ کے لئے بہتر موقع ہے ۔کانگریس حکومت میں آپ یہ سب نہیں کرپائیں گے۔

بی جے پی دونوں ملکوں کے درمیان بہتر رشتے کو فروغ دینے کی کوشش کررہی ہے ،ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں وزیر خارجہ ششما سوراج کی شرکت ،25 دسمبر 2015 کو نریندر مودی کا دوگھنٹے کے لئے غیر متوقع دورہ لاہور، اور پھر 15 جنوری 2016 کو اسلام آباد میں ہونے والی خارجہ سطح کی مذاکرات اس ضمن میں اہم پیش رفت ہے ، دونوں ملک کی عوام یہی چاہتی ہے ،ہندوپاک کے درمیان بہتر رشتے کا فروغ ضروریات زندگی کا حصہ ہے ، دونوں ملکوں کے درمیان آمدورفت کا سلسلہ جاری رہنا چاہئے ،مسلمانوں پر پاکستانی ایجنٹ ہونے کا الزام اور پاکستان جانے والوں کو مشکوک نگاہوں سے دیکھنے کی روایت اب ختم ہونی چاہئے ، وی آئی پی سفارتکاری کے ساتھ عام لوگوں کو بھی پاکستان جانے کا موقع ملنا چاہئے ۔ ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جن کے رشتے دار پاکستان میں ہیں لیکن یہ خوف کے دامن گیر ہونے کی وجہ سے نہیں جاپاتے ہیں کہ پاکستانی ایجنٹ ہونے کا الزام عائد کردیا جائے گا ،دہشت گرد اور آتنگ واد تنظیموں کا رکن قراردے کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جائے گا، بہت سے پاکستانی ہندوستان آنے کے خواہش مندہوتے ہیں لیکن ویزا نہ مل پانے اور دیگر وجوہات کے باعث ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہوپاتی ہے۔

مودی کا دورہ پاکستان واقعی جرات مندانہ اقدام ہے ، انہوں نے اپوزیشن کی مخالفت کی پرواہ کئے بغیر پاکستان کا دورہ کرلیاہے ، جو کام کانگریس نہیں کرپائی اسے مودی نے کردکھایا ہے ،آر ایس ایس نے بھی مودی کے دورہ پاکستان کو صحیح قدم ٹھہرایا ہے ، ملی رہنما بھی اسے مثبت اقدام قراردے رہے ہیں ،آر ایس ایس نے یہ بھی خواہش ظاہر کی ہے کہ ہم پھر سے ہندوستان ،پاکستان اور بنگلہ دیش کا انضمام چاہتے ہیں ،1947 سے قبل جو متحدہ ہندوستان تھا از سرنو اس کی تشکیل کرنے کے لئے فکر مند ہیں ۔اگر ایسا ہوجاتا ہے ، یہ تینوں ملک ایک بن جاتے ہیں توشاید مسلمانوں کے لئے بھی بہتر ہوگا کیوں کہ پھر اکثریت میں یا کم ازکم برابر مسلمان ہوجائیں گے اورحکومت مسلمانوں کی ہوگی ۔ یہ الگ بات کہ یہ سب اب ناممکن اور امر محال ہے ۔
Shams Tabrez Qasmi
About the Author: Shams Tabrez Qasmi Read More Articles by Shams Tabrez Qasmi: 214 Articles with 164165 views Islamic Scholar, Journalist, Author, Columnist & Analyzer
Editor at INS Urdu News Agency.
President SEA.
Voice President Peace council of India
.. View More