یہ جنگ بھی ہم ہی جیتیں گے

جنگیں جذبوں سے لڑی جاتی ہیں اور جذبوں کو اٹھان ہر دور میں پرجوش انداز میں گائے گئے نغموں اور گیتوں سے ملتی ہے۔ شہدائے اے پی ایس پشاور کے حوالے سے عزم نو میں نئی روح عظمت علی کے گائے ہوئے ایک گیت نے بھر دی ہے جس کے بول قارئین کے جوش و جذبے میں نئی رو ح پھونکنے کے لئے ذیل میں پیش خدمت ہیں۔
یہ جنگ بھی ہم ہی جیتیں گے
تاریخ نئی ایک لکھیں گے
ہم ڈرتے نہیں ہم رکتے نہیں
خوابوں کو کیسے مارو گے
تم بزدل ہو ڈرپوک بھی
تم کتنے روپ دھارو گے
ہم جیتیں گے تم ہارو گے
یہ جنگ بھی ہم ہی جیتیں گے
تاریخ نئی ایک لکھیں گے
پھولوں کو مسلنے نکلے تھے
خوشبو کو کچلنے نکلے تھے
دہشت گردی کی وحشت میں
زندوں کو نگلنے نکلے تھے
یہ جنگ بھی ہم ہی جیتیں گے
تاریخ نئی ایک لکھیں گے
قلم کتابیں اور یہ بستے
آج بھی تم سے کہتے ہیں
اور دیواروں پر خون کے دھبے
آج بھی تم سے کہتے ہیں
تم ظالم ہو تم قاتل ہو
بھٹکے ہوؤں میں شامل ہو
یہ جنگ بھی ہم ہی جیتیں گے
تاریخ نئی ایک لکھیں گے

یہ جنگ بھی ہم ہی جیتیں گے گیت کا ایک مصرعہ ہی نہیں بلکہ پاکستان دشمن دہشت گردوں کے لئے پاکستانی قوم کی طرف سے ایک مکمل پیغام ہے۔ جس طرح 1965ء کی جنگ میں ایک محاذ ہمارے ادیبوں شاعروں گلوکاروں نے سنبھالا اور ولولہ انگیز ترانے اور نغمے تخلیق کئے جو نہ صرف قوم کے جذبات کے ترجمان تھے بلکہ میدان جنگ میں مصروفِ کار عساکر پاکستان کے جوش اور ولولے کی ضمانت بھی تھے۔رئیس امروہوی کا لکھا ہوا ملی نغمہ خط لاہور تیرے جانثاروں کو سلام جب مہدی حسن کی آواز میں ریڈیو اور ٹی وی سے نشر ہوا تو اس نے قوم اور افواج پاکستان میں ایک نئی روح پھونک دی۔پاکستان جو خود اپنی تاریخ کے ایک نازک ترین دور سے گزررہا ہے کی افواج دفاع وطن کے لیے اندرونی اور بیرونی سرحدوں پر ڈٹی ہوئی ہیں۔ ایک محاذ پر اسے بھارت جیسے شاطر اور کم ظرف دشمن کا سامنا ہے تو دوسری جانب اسے بیرونی اور اندرونی خلفشار کا بھی سامنا ہے۔ پاک فوج سرحدوں کے دفاع کے ساتھ ساتھ اندرونی محاذ پر دہشت گردی کے خلاف نبرد آزما ہے جو خدانخواستہ اس پاک سرزمین کی سرحدوں کو کھوکھلا کرنے کے درپے ہیں۔ پاک فوج کا شمار دنیا کی ان بہترین افواج میں ہوتا ہے جس کے افسران پہلی صفوں میں رہتے ہوئے اپنے جوانوں کی قیادت کرتے ہیں اور اپنے جوانوں کے کندھوں سے کندھا ملا کرجانوں کے نذرانے پیش کرتے ہیں۔ جنگِ ستمبر میں بھی قوم کے سپوتوں نے اسی انداز سے جانوں کے نذرانے پیش کئے اور آج جب قوم کو دہشت گردوں کے خلاف جنگ کا سامنا ہے تو بھی افواج پاکستان کے جوان اور افسران جانوں کے نذرانے پیش کررہے ہیں۔ اس وقت بھی قوم ایک تھی تو آج بھی قوم ایک مٹھی کی مانند اتحاد و یگانگت کی تصویر بنی دکھائی دیتی ہے۔ سیاستدان، دانشور، ذرائع ابلاغ، طالب علم، خواتین، مرد ، بوڑھے اور بچے سبھی پاکستان دشمن عناصر کی سرکوبی کے لئے افواج پاکستان کے ہمراہ قائداعظم کے سنہرے قول اتحاد، تنظیم اور یقین محکم کا عملی تصویر بنے دکھائی دیتے ہیں جو اس امر کی علامت ہے کہ پاکستان کی قوم یکجا ہوجائے تو بڑی سے بڑی خلفشار اور جارحیت سے بھی بدرج اتم نمٹ سکتی ہے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ بڑی سے بڑی قومیں بھی طویل جنگوں میں ہڑبڑا جاتی ہیں اور کمزور پڑ جاتی ہیں جبکہ افواج پاکستان اور پوری پاکستانی قوم گزشتہ بارہ برس سے دہشت گردی کے جس عفریت سے نمٹ رہی ہے اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں رہ جاتا کہ قوم نے اس پاک دھرتی کے ہر اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا تہیہ کر رکھا ہے جو اس ملک اور قوم کی سالمیت کے لئے خطرہ ہے۔

علی عظمت کے جوش و جذبے سے گائے ہوئے اس گیت کو زمینی حقیقت بنانے کے لئے سب کو اپنی اپنی استطاعت اور اپنی اپنی سطح پر بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا۔ مجھے بھی یقین ہے کہ دہشت گردی کے خلاف انشاء اﷲ
یہ جنگ بھی ہم ہی جیتیں گے
تاریخ نئی ایک لکھیں گے
Raja Majid Javed Ali Bhatti
About the Author: Raja Majid Javed Ali Bhatti Read More Articles by Raja Majid Javed Ali Bhatti: 57 Articles with 39558 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.