پھر یوں ہوا !

یہ خون کو سرد کر دینے والی سردیوں کی ایک شام تھی جب میں ایک مشکوک شخص کا پیچھا کرتے کرتے اس مقام تک بل آخر پہنچ ہی گیا جس کی مجھے کافی دونوں سے تلاش تھی۔یہ شخص روزانہ کے معمول کے رات کے سرد آندھیرے میں دنیا سے بے خبر آج بھی اپنی چادر کے نیچے کچھ چھپائے ہوئے جب سب کی نطروں سے بچتے بچاتے ہوئے تیزی سے میرے قریب سے گزرا تو میں نے بھی دور سے اس پر نظر رکھتے ہوئے اس کا تعاقب شروع کر دیا ۔کچھ ہی دیر بعد یہ شخص اپنی منزل مقصود تک پہنچ گیا۔جب میں اس کے قریب پہنچا تو ایک انجانے خوف سے میری سوچ میرا ساتھ چھوڑ گئی۔میں یہ سب مناظر دیکھنے کے بعد تعجب اور حیرانگی سے کبھی اس کو تو کبھی اپنے ارد گرد کے معول اور حساسات کوبڑی مشکل سے اپنے قابو میں کر سکا۔وہ شخص ایک چار پائی کے قریب جا کر روکا اور کچھ لمحوں کے بعد اس چار پائی پر جیسے ہی جکا، اور مجھے کسی کے کراہنے کی آواز آئی تو اندھیرے میں انجانے خدشات کے ساتھ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے اس چارپائی پرپڑے ہوئے وہ کسی شخص کا گلہ دبا رہا ہے۔ میں جلدی سے اپنی جگہ سے نکلا اور ان کی طرف بڑھنا شروع کر دیا۔۔۔۔۔۔قریب پہنچ کر میں نے دیکھا کہ وہ شخص اس چارپائی پہ پڑئے ہوئے لاغر اور کمزرو آدمی کے ہاتھ میں سگرٹ تمانے کی کوشش کر رہا تھا۔اس کے بعد اس کے لئےایک الاؤ میں آگ جلانے میں مصروف ہو گیا ۔ اس نے آگ جلا کر اس چارپائی کے پاس کیا اور پھراس آدمی کو سہارا دیتے ہوئے چارپائی پر بیٹھایا اس کےہاتھ دھولائے اسکےبعد جو کچھ وہ اپنی چادر میں چھپا کر لایا تھا اس نے اس آدمی کے پاس چار پائی پر اس کے ساتھ بیٹھ کر اس کو کھلانا شروع کر دیا۔ میں چھپ چھپ کر ان کی تصویریں بنانےاور سوچوں میں گم تھا کہ ایک بھاری بھرکم آواز نے مجھے چونکا دیا ارے بھائی وہاں کھڑے کیا کر رہے ہو سردی بہت زیادہ ہے یہاں پر آجاؤ ۔میں حیران ہوا کہ ان لوگوں نے مجھے کیسے دیکھ لیا میں نے سنا ان سنا کر دیا ،لیکن کچھ دیر بعد دوبارہ اس آواز نے مجھے اپنی طرف بڑھنے پر مجبور کردیا میں ندامت اور شرمندگی کے بوجھل قدموں سے ان کے قریب پہنچ گیا۔ ان کے قریب جا کر انسانیت کا پتہ چلا اور احساس ہوا کہ آج کے دور میں بھی ابھی ایسے لوگ ہیں جن کی وجہ سے دنیا اور انسانیت قائم ہے ۔میری ان سے یہ ملاقات دہرے دیرے ان سے دوستی میں بدل گئی۔پتہ چلا کہ اس لاوارث آدمی کا کچھ دن پہلے ایکسیڈنٹ ہوا تھا جس میں اسے شدید نقصانی چھوٹوں کے ساتھ اس کی ٹانگیں بھی ٹوٹ گئی تھیں اس کی طرف توجہ دلانے کے باوجودمعاشرے کے لاپروا لوگوں نے اور لوکل انتظامیہ نے اس آدمی کو بے یار و مدد گار سمجھ کر بے آسرا چھوڑ دیا تھا ۔مگر اللہ تعالیٰ کی نظر کرم اس پہ تھی اور اس نے کچھ دن اور اس فانی دنیا میں جینا تھا اور اسے زندہ رکھنے کے لے اللہ تعالیٰ نے اس مومن کو چن لیا جو یہاں کے ایک مقامی ہوٹل کا مالک تھااس شہر کے ایک عزت دار امیر گھرانے سے تعلق رکھتا تھا،جس کے دل ودماغ میں انسانیت کی خدمت اور بھلائی کا جذبہ ابھی ذندہ تھا جو روزانہ صبع دوپہر شام بلا ناغہ اس کی خدمت اور تمارداری میں مصروف تھا۔کسی ہسپتال اور کسی بھی فلاحی ادارے نے اس شخص کو لینا گوارہ نہ سمجھا اس لے مجبورا اس کو مسافر خانے میں رہنا پڑا۔کافی دن یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا،ایک رات کو انہوں نے ہم سے کہا کہ آج مجھے غسل کرواؤ ابھی ہم نے ان کو غسل کروا کر آگ جلائے ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو انہوں نے ہیمں کہا کہ کل صبع جلدی آنا اب میں صبع آپ سےآخری بار ملوں گا اور میرے جانے کے بعد آپ دونوں میں سے ایک کے ساتھ بہت جلد ملاقات ہوگی آپ دونوں اپنا خیال رکھنا ۔ ہم دونوں رات کافی دیر تک ان کے پاس بیٹھے باتیں کرتے رہے رات کے دوسرے پہر انہوں نے ہیمں قریب کر کے ہمارے سروں پہ اپنے ہاتھوں کو شفقت سے پہرتے ہوئے ہمیں کہا کہ اب تم جاؤ رات بہت ہو چکی ہے کل صبع آپ نے پھر جلدی بھی آنا ہےاور بہت سا کام بھی کرنا ہے۔ہم ان سے رخصت ہو کر وہ اپنے ہوٹل اور میں اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئے ۔صبع جب ہم نماز کے بعد ان کے پاس پہنچے تو واقعی وہ اس فانی دنیا کو چھوڑ چکے تھے۔ اور اس طرح یہ شیشہ بھی ٹوٹ گیا دیکھنے دکھانے میں
راحیل
About the Author: راحیل Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.