سعودی حکمرانوں کی ڈوبتی ناؤ اور پاکستان

سعودی عرب کی سربراہی میں قائم ہونے والے اسلامی ممالک کے اتحاد میں پاکستان کی شمولیت کے بعد پاکستان میں وہی حالات پیدا ہو جائیں گے جو سابق ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کے افغانستان کے حوالے سے امریکہ کا ساتھ دینے کی وجہ سے پید اہو گئے تھے۔

۳۴ ممالک کا اتحاد

آج کل سعودی عرب کی سربراہی میں بننے والے ۳۴ اسلامی ممالک کے اتحاد کا خوب چرچا ہے نیوز چینلز پر تجزیہ کار اور دانشور اس حوالے سے اپنے اپنے تجزیات پیش کر رہے ہیں پاکستانی میڈیا میں بھی اس موضوع کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اگر پاکستان اس اتحاد کا حصہ نہ ہوتا تو شاید اس موضوع کو پاکستان میں خاطر خواہ توجہ نہ مل پاتی لیکن اس اتحاد میں پاکستان کی باضابطہ شمولیت کے پاکستان میں اس موضوع کو غیر معمولی توجہ حاصل ہوئی ہے اس لئے کہ اس سے پہلے جب سعودی عرب نے پاکستان سے یمن جنگ کے لئے فوجی دستے طلب کئے تو پاکستان نے فوجی دستوں کے بھیجنے کو قومی اسمبلی کی اجازت سے مشروط کر دیا جس کے بعد سعودی حکمران پاکستان سے کافی ناراض نظر آئے اس ناراضگی کے خاتمے کے لئے پاکستانی حکمرانوں نے کافی حد تک کوششیں کیں مذکورہ اتحاد میں شمولیت کا فیصلہ بھی سعودی حکمرانوں کے غصہ کو ٹھنڈا کرنے کی ہی ایک کڑی ہے لیکن اس غیر منطقی منطقی فیصلے کے پاکستان پر کیا منفی اثرات مرتب ہوں گے اس کا شاید نواز حکومت کو ادراک نہیں ہے اور اگر تمام تر صورت حال کو سامنے رکھ کر یہ فیصلہ کیا گیا ہے تو پھر نواز شریف اور ان کی ٹیم مستقبل میں اس فیصلے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل بھی ضرور آگاہ ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہاں پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ دوستی کا حق ادا کرنے کا مسئلہ ہے اس دفعہ نواز حکومت اس فیصلے کے ذریعے سعودی حکمرانوں نےاحسانات کا بدلہ اتارنا چاہتی ہے اسی اخلاقی مجبوری کے سبب نواز شریف اس اتحاد کا حصہ بننے پر مجبور ہوئے ہیں پاکستان کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی کوئی حکومت آئی اس کے عوام دشمن اقدامات اور پالیسیوں کا بھانڈا ان کی رخصتی کے بعد پھوٹا اور یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ پاکستان کو نقصان پہنچانے والوں کا ذرا بھر بھی احتساب نہ ہو سکا حتی پاکستان کو دو لخت کرنے والے جرنیلوں کے خلاف بھی آواز تک نہ اٹھائی گئی انہی چیزوں کو دیکھتے ہوئے نواز شریف نے مذکورہ اتحاد میں شامل ہو کر وہی غلطی کی ہے جس طرح کی غلطی ڈکٹیڑ پرویز مشرف نے کی تھی افغانستان کے حوالے سے پرویز مشرف نے غلط فیصلے کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں وہی طالبان جو ہمارے ہیرو ہوا کرتے تھے کو امریکہ کے ساتھ مل کر چن چن کر مارا گیا لیکن اس کا نتیجہ کیا ہوا امریکہ اپنے گھر سکون سے بیٹھا رہا اور ہم اپنے ہی ہیرو طالبان کے ہاتھوں اپنے بچے جوان عورتیں اور بوڑھے ذبح کوراتے رہے اس بدترین ظلم کا سلسلہ ہنوز جاری ہے پشاور میں قوم کے معصوم پھولوں کو انتہائی بے دردی سے مسل دیا گیا لیکن ہمارے کان پر جوں تک نہ رینگی اور ہم نے اس ظلم کے عوامل کا جائزہ لینے کی بجائے ضرب عضب کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیا اس ساری صورت حال کے ذمہ داروں کے خلاف نہ پہلے کاروائی ہوئی اور نہ کبھی ہو گی اس لئے نواز حکومت کے سعودی عرب کی سربراہی میں قائم ہونے والے اتحاد میں شمولیت پر بھی کبھی کسی سے پوچھ کچھ نہیں ہو گی آیئے اب ذرا دیکھتے ہیں کہ اس اتحاد میں شمولیت کے بعد پاکستان کو کیا نقصانات پہنچ سکتے ہیں اس کا سادہ سا جواب یہی ہے کہ کل جب پرویز مشرف نے ایک غلط فیصلہ کیا تھا تو ہمارے گلے طالبان پڑ گئے تھے موجودہ صورت حال میں القاعدہ اور طالبان کی جگہ داعش ہے جس نے انہی کے افکار سے جنم لیا ہے لیکن شدت پسندی کے حوالے سے داعش کا القاعدہ اور طالبان کے خلاف موازنہ نہیں کیا جا سکتا خدا نہ کرے وہ وقت نہ آئے جب اسی فیصلے کے خمیازہ میں داعش پاکستان میں وہی کچھ کرے جو طالبان نے ہمارے ساتھ کیا ان حالات میں سعودی اتحاد میں شمولیت خود کشی کے مترادف ہے اس لئے کہ سعودی حکمرانوں کی غلط پالیسیوں اور دہشتگردوں کی حمایت کی وجہ سے سعودی حکمران اپنی حکومت قائم نہیں رکھ سکیں گے نام نہاد مذکورہ اتحاد بھی سعودی حکمرانوں کی گرتی ہوئی حکومت کو سنبھالا دینے کے لئے قائم کیا گیا ہے لیکن کیا یہ اتحاد سعودی حکومت کو بچا پائے گا اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا لیکن ایک بات تو طے ہے کہ پاکستان کو نا قابل تلافی نقصان پہنچے گا اور ایک دن نواز شریف بھی سابق ڈکٹیٹر کی طرح کسی محل نما جیل میں نظر بند ہوں گے۔
محمد اشکان بھٹی
About the Author: محمد اشکان بھٹی Read More Articles by محمد اشکان بھٹی: 11 Articles with 8824 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.