عشقِ رسول نہیں ایمان نہیں

بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم۔ النبی اولیٰ بالمؤمنین من انفسھم ( سورۃ الاحزاب آئت نمبر ) الصلوۃ والسلام علیک یارسول اﷲ وعلیٰ آلک و اصحابک یا حبیب اﷲ۔ لبیک لبیک لبیک یا رسول اﷲ لبیک نہ جب تک کٹ مروں میں شہ بطحا کی عزت پر خدا شاہد ہے کامل مرا ایمان ہونہیں سکتا
عشق نہیں ایمان نہیں۔ اسلام ظاہری قیل و قال ہے۔ عشق رسول اصل الاصول ہے۔ اسلام کی بقا عشق رسول سے ہے۔ اور عشق رسول ناموسِ رسالت کے لیئے سرفروشی کا نام ہے۔ جو ایمان کی تکمیل کا ثبوت ہے۔ یہی واحد پیمانہ ہے کہ اس عظیم و جلیل محبوب رب العالمین ﷺ کی محبت کا، جووجہ تخلیق کائنات ہے، جس ذات ارفع و اعلیٰ نے اس جہانِ ظلمت زدہ کو اپنے نور سے ہدائت ، سعادت اور رحمت سے منور فرمایا۔ اسی ذات عرش نشین سے ہماری حیات مستعار کی ہر آبرووابستہ ہے۔ جو فی الواقع رخِ جمال الہی کا آئینہ ہے۔ اور دستِ فطرت کا وہ عظیم ترین شاہکار ہے جس پر خود حسن آفرین کو ناز ہے کہ طور پر پر تجلیوں کی بارش اسی وقت کے لیئے تھی جب تک قدرت کے فن کو اوجِ کمال نہ ملا تھا۔ یہ فن ذات محمد ی ﷺ کی صورت ظاہر ہوگیا اور تخلیق کو معراج کمال نصیب ہوئی۔تو اب خالقِ فن و کمال کی بے حجابی کی ضرورت باقی نہ رہی ، تخلیق بے حجاب ہوگئی اور خالق پردہ غیب چھپ گیا، کیونکہ یہ کمال تخلیق اب خالق کی معرفت کے لیئے کافی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ خالق حقیقی نے اپنی محبت و اطاعت و احترام کو اسی ذاتِ اقدس سے وابستہ کردیا اور اس کی شان میں ہلکی سی شوخی اور ادنیٰ سی گستاخی بھی برداشت نہیں کرتا۔ کسی کے ماتھے کی سلوٹ ہو یا نگاہوں کے زاویئے یا ہونٹوں کی کوئی نازیبا حرکت، رب ذوالجلال کا قہر جوش میں آجاتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی نازیبا سلوٹوں، ناپاک زاویوں اور گستاخانہ حرکتوں کا کسی نے اظہار کیا تو عاشقانِ مصطفٰے ﷺ نے غیرت ایمانی کا مظاہرہ کیا ۔ جب بھی کوئی غیرت مند اﷲ کے محبوب ﷺ کے بارے گستاخی کرنے والے کی زبان اس کی گدی سے کھینچ باہر کرتا ہے اور کبھی دنیا کی عدالتوں میں برملا کہتا ہے کہ خبیث نے میرے رسول ﷺ کی شان میں زبان درازی کی ، کبھی دارورسن کو بوسہ دیتا ہے تو گویا الوہی ہونٹون پر تبسم بکھر جاتا ہے اور ساتھ ہی اس کے لیئے جنت آراستہ کردی جاتی ہے۔ فرشتے اور حوریں اس سرفروش کا استقبال کرتے ہیں۔
سوزِ وفا ہی انسان کو کندن بناتا ہے۔
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کردے دہر میں میں اسمِ محمد سے اجالا کردے

ہماری پندرہ سو سالہ تاریخ ایسے ہی جان نثاروں کے لہو سے گلرنگ و روشن ہے جنہوں نے اشارۃ یا کنایۃ بھی اپنے نبی ﷺ کی توہین ایک لمحے کے لیئے بھی برداشت نہ کی۔صراحتا تو بعید از قیاس ہے حق یہ ہے کہ وہ شخص جو شانِ رسالت ﷺ میں توہین کا کوئی بول سن کر محض زبانی لفظی ردِ عمل کا اظہار کرنے پر اکتفا کرے تو وہ حد درجہ منافق ہے ، وہ ایمان کی شرط اول سے محروم ہوگیا اور اب اس کاخاتمہ ذلت و خواری پر ہوگا۔ محبت یعنی عشق رسول کے بغیر اطاعت کا ہر تصور اپنے نفس کو فریب دینا ہے اور ایمان بغیر عمل کے بے معنی ہے ۔ آج خبر و نظر کے چمن ہیں نہ فکروعمل کے سمن، ذوق کی رعنائی ہے نہ عشق کی زیبائی۔ سجدوں کا کیف ہے نہ آنسوؤں کا برساؤ۔ زندگی بس ایک سراب بن کر رہ گئی۔

ہر دور میں راجپال ہوئے، کبھی کعب بن اشرف یہودی ، ابو رافع یہودی، ابنِ خطل تو کبھی مسیلمہ کذاب و غلام احمد قادیانی کذاب، کبھی یہ راجپال کی روح سلمان تاثیر میں نمودار ہوئی۔میرے آقا کریم ﷺ کے صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم نے ہم بعد میں آنے والوں کے لیئے اصل ِ دین کو مضبوط فرمایاتو گستاخوں کو واصل جھنم کرنے میں دیر نہ کی ۔

توصیف رسالت ﷺ کی معراج گستاخانِ رسول کے سرکاٹنے اور اپنا سرکٹانے کی عملی تفسیر۔ غیرت و حمیت ایمانی کے بغیر وجودِ مسلم بے جوازہے جیسا کہ حضرت امام مالک رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کے بعد مسلمان کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔

اسلام کا پہلا بنیادی اصول یہی ہے کہ گستاخِ رسول کو بلاتاخیر قتل کردیا جائے کیونکہ یہی اس کی سزا ہے۔ دریدہ دہنی کرنے والا خواہ کوئی ہونہ توبہ ہے نہ معافی۔ بہر نوع وہ واجب القتل ہے اور اس سلسلہ میں کسی قسم کا تساہل نہ چرخِ نیلی فام کو گوارا ہے نہ گنبدِ خضرا کو ۔ حضور سرور کائنات سے ذاتی، شعوری اور جذباتی وابستگی ہی ایمان کی اصل ہے ۔ اگر کوئی اس پاکیزہ تعلق میں جتنا ڈھیلا پڑتا جائے گا اس کاایمان بھی اسی قدرکمزور ہوتا چلاجائے گا۔ حضورحبیب رب العالمین ﷺ کی شخصیت ہی نظریات کی اصل ہے ۔ آپ ﷺ سے جذباتی محبت نظریہ کی مضبوطی ہے۔ گستاخِ رسول کو فورا قتل کرو گرچہ وہ خانہ کعبہ کے غلاف سے کیوں نہ لپٹا ہو۔ حرمت کعبہ بھی حرمت رسول پر قربان ہے۔ امت کے روشن ستاروں غیرت و حمیت کے پرستاروں کی ایک نہیں کئی مثالیں ہیں۔ میں یہاں بطور تبرک کچھ پاکیزہ ہستیوں کا ذکر کروں گا کہ جنہوں نے عواقب کو بالائے طاق رکھ کر اپنے ایمان کا اظہار کیا اور دارورسن کو چوما ۔ تاریخ عالم کا وہ حصہ ہیں کہ لاتعداد لوگ انکی کرامات اور بعد شہادت انکے مزارات پر حاضری کے شاہد ہیں۔ حضرت غازی علم الدین شہید رحمۃ اﷲ علیہ پیدائش 1908 ۔ ہندو پبلشر راجپال لاہور نے توہین آمیز کتاب چھاپی تو غازی خدا بخش نے اس پر قاتلانہ حملہ مگر بچ گیا۔ انیس بیس سالہ جوان علم الدین ولد طالع مند نے راجپال کو 16اپریل 1929 کو واصل جہنم کیا ۔ حضرت قائد اعظم رحمۃ اﷲ علیہ خود بھی عاشق رسول تھے اور مہتمم با لشان مقدمات لیا کرتے ۔ آپ نے غازی صاحب کی تاریخی وکالت فرمائی مگرصلیبی دشمنوں اور بتوں کے پجاریوں کی ملی بھگت سے غازی کو سزائے موت سنائی گئی اور 31اکتوبر 1929 کو میانوالی کی جیل میں آپ نے جنت کو رونق بخشی۔ غازی عبدالقیوم نے مارچ 1934 کراچی کی عدالت میں نتھو رام گستاخِ رسول کی آنتیں نکال کرسب انسپکٹر سے کہا کہ ریوالر ہولسٹر میں رکھ لو ،اس خنزیر کے بچے نے میرے آقاﷺ اور شہنشاہوں کے شہنشاہ اﷲ کے رسول کی شان میں گستاخی کی تھی اسکی یہی سزا تھی ۔ آپ ہزارہ کے رہنے والے تھے والد کا نام عبداﷲ خان ۔1912-13 آپ کی پیدائش ہے۔ شہادت کراچی میں 1936 میں میوہ شاہ قبرستان میں مزار مرجع خلائق ہے۔غازی مرید حسین قریشی بھلہ چکوال کے 1915 میں پیدا ہوئے۔ 8 اگست 1936کو رام گوپال گستاخ رسول خبیث کو واصل جہنم کیا اور صلیبی سرکار نے 24 ستمبر 1937 کو شہید کیا۔ آپکا مزار بھلہ میں ہے۔غازی میاں محمد ولد صوبیدار غلام محمد تلہ گنگ کے اعوان تھے ۔ فوج میں سپاہی تھے ۔ایک ہندوڈوگرے چرن اس نے شانِ رسالت میں گستاخی کی تو آپ نے اسے سرکاری بندوق سے یونٹ کے گارڈ روم پر واصل جہنم کرکے گرفتاری دی ۔ آپ نے فوجی عدالت میں بیان دیا کہ جو کچھ کیا خوب سوچ سمجھ کر کیا یہی میرا فرض تھا ۔ چرن داس نے میرے رسول ﷺؑ کی شان میں گستاخی کی تھی۔`12 اپریل 1938 کو آپ نے حوض ِ کوثر سے اپنی پیاس بجھائی۔حضرت غازی عبدالرشید شہید نے 23 دسمبر 1926 کو شردھانند شاتم رسول کو قتل کیا ۔ جولائی 1927 کے آخری ہفتے میں آپ نے تختہ دار پر شہادت پائی اور دہلی میں دفن ہیں۔غازی عبداﷲ شہید ضلع قصور کے رہنے والے تھے ۔ ایک سکھ خبیث شاتم رسول چلچل سنگھ کو 1942 میں واصل جہنم کیا اور صلیبی سرکار نے سزائے موت دی۔غازی بابو معراج دین نے سکھ میجر کو قربانی کے گوشت پر گستاخانہ الفاظ کہنے پر قتل کردیا ۔ آپ کو بھی سزائے موت سنائی گئی لیکن تحریکِ پاکستان عروج پر تھی انگریز سرکار خوف زدہ ہوگئی اور آپکی سزا کو عمر قید میں تبدیل کردیا۔ بعد میں آپ رہا ہوگئے۔ تحریک ختم نبوت کے دوران 6 مارچ 1952کو لاہور میں جلوس کی قیادت کرتے ہوئے فوج کی گولیوں سے شہید ہوگئے۔

غازی محمد حنیف شہید نے انگریز عورت سکو ل ہیڈ مسٹریس کو واصل جہنم کیا جس نے قرآنِ کریم کوڑے میں ڈلوادیا۔ آپ نے اسے قتل کیا اور شہادت پائی۔جہلم میں غازی غلام محمد شہید نے اپل سنگھ سکھ کو قتل کیا کہ عیدمیلاد النبی ﷺ کے جلوس پر آوازے کس رہا تھا کہ اچانک ایک لڑکا گدھے پر سوار آیا تو خبیث سکھ نے کہا دیکھو مسلمانوں کا نبی براق پر چڑھ کر آگیا ہے(نعوذ باﷲ) اسی وقت غازی غلام محمد نے اسے قتل کیا اور صلیبی حکومت نے انہیں سزائے موت دی۔

ان حضرات قدسی صفات کے علاوہ اور بھی متعدد عاشقانِ رسول ہیں کہ جن کا تذکرہ مختلف کتابوں میں ہے ۔ ڈنمارک اور جرمنی کے اخبارات نے سید الکونین ﷺ کے ہتک آمیز خاکے شائع کیئے جو اعلانیہ توہینِ رسالت تھی۔ پاکستان کے نوجوان محمد عامر چیمہ جرمنی میں زیر تعلیم تھے۔ غیرت و حمیت ِ ایمانی کا ثبوت دیتے ہوئے اخبار ڈی ویلٹ کے چیف ایڈیٹر پر قاتلانہ حملہ 20 مارچ 2006 کوکیا ۔غازی عامر چیمہ نے اس ملعون پر خنجر کے کئی وار کیئے کہ وہ زخمی ہوگیا اور غازی کو ملعون کے گارڈز نے پکڑ کر پولیس کے حوالے کردیا۔ جیل میں صلیبیوں کے تشدد سے محمد عامر چیمہ 3 مئی 2006 کو شہید کردیئے گئے۔ اس صدی کے دوسرے عشرے میں ملعون سلمان تاثیر نے ایک شاتمہ رسول عیسائی عورت آسیہ کہ جسے عدالت سے سزائے موت سنائی جاچکی تھی، اس کی حمائت میں جیل جاکر ملعونہ سے اظہار ہمدردی اور یکجہتی کے لیئے ملاقات کی ،پریس کانفرنس کی اور توہین رسالت پر سزائے موت کے قانون کو کالا قانون اور ظالمانہ قانون اور توہین رسالت کے جرم میں دی جانے والی سزائے موت کو ظالمانہ سزا کہا۔اسی پر اکتفا نہ کیا اسکے بعد کئی انٹرویوز اور پریس کانفرنسوں میں اس نے اس طرح کے توہین آمیز الفاظ استعمال کیئے۔ پاکستان میں صدر اور گورنر کے خلاف کسی جرم کا ارتکاب کرنے پر مقدمہ اندراج کے امتناع کا کالاقانون نافذ ہونے کی وجہ سے ملعون سلمان تاثیر دلیر ہوگیا۔ لیکن اﷲ تعالیٰ اپنے محبوب ِ پاک ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے کو کب معاف کرتا ہے۔ اس ملعون تک کس کی رسائی تھی؟ ایلیٹ فورس کے مجاہد ملک محمد ممتاز حسین قادری جو ایک معروف نعت خوان تھے اور مقام مصطفٰے ﷺ کی شان بیان کرنے کے لیئے نعتیں پڑھا کرتے تھے۔ انہیں سرکار ﷺ کی طرف سے حکم ملا۔ اور انہوں نے سلمان تاثیر پر 28 گولیوں کی میگزین خالی کی جبکہ سلمان تاثیر کی حفاظت کے لیئے سرکاری محفاظ دستے کے علاوہ اس کے اپنے ذاتی محافظ بھی کھڑے تھے لیکن کسی نے غازی پر فائر نہ کھولا۔ حقیقت حال کچھ اور تھی ۔محافظوں کے سامنے اولیاء اﷲ آگئے ۔ جنہیں صرف غازی صاحب نے دیکھا اور ان کے اشارہ کرتے ہی غازی نے اطمینان کے ساتھ ملعون کو واصل جہنم کیا۔ مہم ختم کرنے پر غازی نے سرکاری ملازمین کو آواز دی کہ میں نے ملعون کو قتل کردیا ہے اب مجھے گرفتار کرلو۔ اس وقت محافظوں کو ہوش آیا۔ اس وقت پاکستان کے علماء و مشائخ، سیاستدان ، حکمران اور جج سخت آزمائش میں ہیں۔ ٹرائل کورٹ کے جج پرویز نے کیس مکمل سنے بغیر عدالت کے وقت سے پہلے غازی کو سزا سنادی۔جیل عملے کا بیان ہے کہ جب غازی نے فیصلہ سنتے ہی نعرہ رسالت بلند کیا تو جج کا پیشاب نکل گیا۔ ہائی کورٹ اسلام آباد میں اس فیصلے کے خلاف اپیل کی گئی۔ تو ایک نااہل سفارشی اور متعصب جج شوکت صدیقی نے عدالت میں سبز عمامہ اور صلاۃ و سلام کے بارے بے ادبی کی۔شوکت صدیقی جماعت اسلامی سے تعلق رکھتا ہے ۔جماعت کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور ہارا۔ سابق چیف جسٹس چوہدری صاحب کی کر م فرمائی سے ہائی کورٹ کا جج لگا۔ ہائی کورٹ نے دہشت گردی کی دفعہ ہٹا دی لیکن 302 کی سزا بحال رکھی۔ اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی گئی۔ یہاں یہ امر بھی بڑا عجیب ہے کہ وہیں سپریم کورٹ میں ملعونہ آسیہ کی اپیل لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے خلاف زیر التواموجود ہے۔ جسے سپریم کورٹ میں ابھی تک نہیں سنا گیا۔ اور ایک شاتمہ رسول کی سزائے موت پر عمل درآمد روک کر شریعت اسلامیہ کے واضح احکامات کی خلاف ورزی ہورہی ہے۔ لیکن غازی ء ملت غازی محمد ممتاز حسین قادری کی اپیل پر بڑی عجلت کے ساتھ اور وکلاء کا پورا مؤقف سنے بغیر خبث باطن کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوست محمد کھوسہ جج کی سربراہی میں بنچ نے دہشت گردی کی دفعہ کو بھی بحال کردیا اور دودفعہ سزائے موت کا حکم سنا دیا۔ اس فیصلہ پر نظرثانی کی درخواست دی گئی تو اسے بھی مسترد کردیا ۔ یہ صورت حال اﷲ تعالیٰ کے قہر کو دعوت دینے کی ہے۔عشق رسول ﷺ اور حرمت ِ رسول ﷺ کو ہر حال میں بلند و بالا رکھناہو گا ورنہ قیام
پاکستان اور آئین پاکستان کے وجود کی خلاف ورزی ہوگی۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
آخر میں حضرت علامہ اقبال کا شعر ایمانی قوت کی تقویت کے لیئے ادا کرتا ہوں:
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر ۔ وہی قرآن، وہی فرقاں، وہی یاسین، وہی ٰطہٰ
AKBAR HUSAIN HASHMI
About the Author: AKBAR HUSAIN HASHMI Read More Articles by AKBAR HUSAIN HASHMI: 146 Articles with 128386 views BELONG TO HASHMI FAMILY.. View More