ہم ایک زندہ قوم ہیں؟

سمجھ میں نہیں آتا کہ بات کہاں سے شروع کریں؟موجودہ عالمی صورتحال سے یا ہندوستان کے موجودہ حالات سے،سازشیوں کی سازشوں سے یا ظالموں کے قتل و غارت گری سے،اسلام دشمن ذہنیتوں سے گستاخان رسول ﷺ کی گستاخیوں سے،یا پھر ہندوستان کے اقلیتی طبقہ کو درپیش عدم تحفظ کے سنگین مسئلے سے،الغرض ایک بے چینی اور اضطراب کی کیفیت ہے ۔ایسا لگتا ہے جیسے دنیا میں رونما ہونے والے کسی بھی واقعہ کا اسلام اور مسلمانوں سے تعلق ہونا ضروری ہوگیا ہے۔اس گھٹن بھرے ماحول میں جہاں ہمیں غیروںکی عداوت ،دشمنی اور نفرت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے وہیں ہمارے اندرونی اختلافات اور نا اتفاقیاں بھی ہمیں صحیح راہ پر گامزن ہونے سے روکے ہوئے ہے۔ ہمارے مسلم راہ نما ،قائدین اور دانشوران بظاہر تو اصلاح کی کوششوں میں تن من دھن سے لگے ہوئے ہیں لیکن ان کی تمام کوششوں کے بینر تلےالگ الگ جماعت ، مسلک اور فرقوں کا لیبل ہم جیسے عام مسلمانوں کو حق بات جاننے کے لیے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کررہا ہے۔ ملت کو دانشمندی ،مصلحت پسندی اور بھائی چارگی کے جذبات سے تو روشناس کرایا جارہا ہے لیکن اس کے ساتھ حق گوئی ،بیباکی ،جواں مردی اور مصائب کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا درس کیوں نہیں دیا جارہا؟یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ اپنی تمام تر زندہ دلی کے سا تھ مو جودہ حالات کے متعلق تو اچھی طرح جان چکی ہے لیکن اپنے لیے صحیح لائحہ عمل کا انتخاب ہمیں اب بھی شش و پنج میں مبتلا کررہا ہے۔گو کہ دانشوران ملت نے ہمارے لیے لائحہ عمل بھی ترتیب دیا ہے لیکن اگر ہم واقعی وحدانیت ،رسالت و آخرت پر ایمان رکھتے ہیں تو ہمیں یہ بھی سمجھ لینا چاہیےکہ کسی بھی مشرک یا کافر کو ہم اپنا بھائی تو کیا دوست بھی اس وقت تک نہیں بنا سکتے جب تک وہ مشرکانہ عقیدے کو چھوڑ کر وحدانیت کا اقرار نہ کرلے۔الا یہ کہ اس کی عداوت و دشمنی سے ہمارے وظیفے بند ہوجائے ہماری نوکریاں چھین لی جائیں،ہمیں دربدر کردیا جائے یا ہماری جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔کیوں؟کیونکہ یہ ہمارے ر ب ا لعزت کو فرمان ہے کہ ہم کسی کافر کو اپنا دوست نہ بنائیں ان کے لیے انکا دین ہے اور ہمارے لیے ہمارا دین ۔اور ہمارے اسی دین کی تعلیمات کا تقاضہ ہے کہ ہم کسی بھی کھانے کو حرام و حلال کی تمیز کیے بغیر اپنا رزق سمجھ کر نہیں کھاسکتے ،وہ بھی محض یکجہتی جیسے دنیاوی تقاضے کو پورا کرنے کے لیے۔ابھی چند دنوں پہلے اسی بھائی چارگی کے جذبے کے تحت ایک قابل غور مثال سامنے آئی تھی ۔معاملہ تھا قدرتی آفت سے متاثر ہوئے مذہبی مقامات کی صفائی کا ۔امت کے جیالے فرزندوں نے منادر کی اس جذبے کے تحت صفائی کی کہ لوگ کہیں اپنے معبودوں کی پرستش سے محروم نہ رہ جائیں۔ہمارے پیغمبر حضرت ابراھیم نے بت کدوں میں جاکر بتوں کو اپنے ہاتھوں سے نقصان پہنچایا تھا لوگوں کو یہ سمجھانے کے لیے کہ یہ مٹی اور پتھر کی مورتیاں تمھیں کوئی نفع یا نقصان نہیں پہیچا سکتی۔وہیں نبی آخرالزماںرحمت اللعالمین ﷺ نے فتح مکہ کے وقت 360 بتوں کو اپنے ہاتھوں توڑ کر خانہ کعبہ کو اللہ کی عبادت کے لیے پاک کیا تھا۔لیکن ہم امت محمدی کے دعویدار کس طرح اپنے پیغمبروں کی تعلیمات اور سنتوں کو بھلا بیٹھے؟کہ بت کدوں میں باقاعدہ جاکر ہم نے انھیں سجایا سنوارا اور لوگوں کو ان میں بت پرستی کی دعوت بھی دے ڈالی جب ہم نے اپنی مسجدوں کے دروازے غیروں کے لیے کھولے تھے تو خدائے بزرگ و برتر کی طاقت و قدرت سے انھیں واقف بھی کرادیتے وہی ایک ہستی تو ہے جو عبادت کے لائق ہے دوسری کوئی شئے چاہے مٹی کی ہو یا پتھر کی یا کسی اور چیز کی ہماری معبود نہیں بن سکتی۔ یہ پتھر کی مورتیا ںتو خود اپنا تحفظ نہیں کرسکیں یہ انسانوں کی کیا حفاظت کریں گی؟لیکن افسوس ہم نے بھائی چارگی کا فرض ادا کرنے کے چکر میں بت پرستی کی حوصلہ افزائی کرڈالی۔اور حقو ق اللہ کا فرض ادا کرنے سے محروم رہ گئے۔ملت کے مسا ئل کو حل کرنے کے لیے بڑے بڑے اجتماعات ،بیانات اور خطابات کافی نہیں ہیں اس کے لیے عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ہم ملت کو اظہار یکجہتی کا درس کسطرح دے سکتے ہیں جب کہ ہم خود ہی ملی مسائل کو لے کرا یکدوسرے کے فریق بنے ہوئے ہیں۔"واعتصموا بحبل اللہ جمیعواولا تفرقوا"اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑلو اور تفرقہ میں نہ پڑو(القرآن)۔وہ لوگ جو واقعی میں ملت کا دردسمجھتے ہیں ،اپنے اندر ایک با ضمیر ،حساس ،ہمدرد و غمگسار انسان کا جذبہ رکھتے ہیں وہ ہمارے دل کے اس درد کو بھی محسوس کریں ،معصوم ومظلوم گرفتار شدہ مسلم نوجوانوں کا درد ،ان کے بزرگ والدین ،معصوم بچوں ،بھائی بہنوں اور بیویوں کا درد ،ایک ایسا درد جس کے لیے آپ کو فرانس ،کیلیفورنیا یا چیننئی تک بھی جانے کی ضرورت نہیں خود آپ کے اپنے شہروں اور محلوں میں آپ کو ملت کے یہ ستم رسیدہ افراد دکھائی دیں گے جو آپ سے کوئی ریلیف فنڈ،یا امداد نہیں مانگتے ان کے خاموش لب صرف ہماری ہمدردی و محبت کے دو بول کے محتاج ہیں ۔کنڑا روزنامہ "کراؤلی منجاؤ"(بھٹکل )کے نمائندے" وسنت دیواڑیگا"نے ایک ایسی ہی رپورٹ اپنے شہر کے اُن مسلم نوجوانوں اور ان کے خاندانوں کے متعلق شائع کی ہے جو بے گناہ ہونے کے با وجود نہ صرف قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں بلکہ سماج کی منفی ذہنیت کا بھی نشانہ بن رہے ہیں۔ایک غیر مسلم نمائندے کی یہ رپورٹ ہم آپ تک بھی پہنچانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔

"جان پہچان ،شناسا ہر کوئی ان سے دور بھاگنے لگتا ہے،گویا ایسا لگتا ہے کہ ان کا غیر اعلانیہ طور پر سماجی بائیکاٹ کیا گیا ہو،ان سنگین حالات میں دن گذارنا بھی ان کے لیے کسی قیامت سے کم نہیں ،یومیہ ضروریات کو پورا کرنا محال ہوگیا ہے۔ملک کے موسٹ وانٹیڈ کی فہرست میں درج ریاض بھٹکل کے والدین تعلقہ کے تنکنکنڈی کراس پر ایک پرانا مکان (جو بوسیدگی کی حا لت کو پہنچ چکا ہے)وہی انکے بڑھاپے کا تنہا سہارا ہے،گویا زندگی گھر کی حد تک محصور ہوگئی ہے۔در اور دریچوں کے روزنوں سے کسی سہارے کی تمنا لیے اپنی موت کے انتظار میں دن بتانے پر مجبور ہیں ۔کمپاؤنڈکے اندر پڑے ہوئے سوکھے پتے اجیرن مفلوج ،مفلوک الحال گھر کی واضح تصویر پیش کرتے ہیں ۔ایک پلاسٹک تھیلے میں کپڑے کا بیوپار کرنے والے انکے والد اسمعیل صاحب کے ہاتھ پیر اب کمزور ہوچکے ہیں ،راستے سے گزریں بھی تو نہ کوئی بات کرنے والا،نہ پوچھنے والا،سلام کلام کے لیے بھی قحط پڑا ہوا ہے، اگر ان حالات میں خدا نہ کرے پیر پھسل کر اچانک گر جائیں یا زخمی ہوں تو مدد کے لیے دوڑنے والوں کا دور دور تک پتہ نہیں ،اپنے گھر پر ہی ذیادہ تر وقت کھلی آنکھ کی نیند میں گذرتا ہے ،کبھی کبھی کبھار کسی رشتہ دار کے ہاں چلے بھی جائیں تو اولاد کا دہشت گردوں کی فہرست میں نام ہونے سے کسی نہ کسی بہانے انکا پیچھا چھڑانے والے ہی ذیادہ ہیں ، آخر قصور کس کا ہے،ڈھلتی عمر میں کرے بھی تو کیا کریں ،اپنے درد کی حقیقت سنائیں بھی تو کس کو سنائیں ؟کیا اقلیتوں کے متعلق بڑی بڑی باتیں کرنے والی تنظیموں اور اداروں کے عہدیداران میں سے کسی نے بھی آج تک ان کے گھر کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا ہے؟ ہو سکتا ہے انہیں تفتیشی ایجنسیوں کی طرف سے جانچ کا خوف ستا رہا ہو۔مگر کیا اپنے ناکردہ جرم کی وجہ سے ظلم کی چکی میں پس رہے یہ بوڑھے ماں باپ کیاانسان نہیں ہیں؟"(ماخوذ کراؤلی منجاؤ )

ائے شہر امان کے باسیوں !ہم نے تو آپ کے سامنے امت کے اصل درد کی صرف ایک جھلک پیش کی ہے ایسے کئی مسائل اس امت کو درپیش ہیں جو ہمارے جلسوں ،میمورنڈم ،اور اسٹیجوں تک پہنچنے سے قاصر رہ جاتے ہیں۔ایسے میں یہ سوال ضرور ذہن میں اٹھتا ہے کیا ہم واقعی ایک زندہ قوم ہیں؟
Qudsiya Sabahat
About the Author: Qudsiya Sabahat Read More Articles by Qudsiya Sabahat: 6 Articles with 4176 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.