ری پبلکن ڈونلڈ ٹرمپ‘ نریندر مودی کے نقشِ قدم پر

امریکن ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے سستی شہرت حاصل کرنے کی غرض سے مسلمانوں کے خلا ف دشنام طرازی میں بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کے نقشِ قدم پرعمل پیرا ہیں۔ امریکہ میں صدارتی انتخابات کی گہما گہمی کا آغاز ہوچکا ہے۔ ری پبلکن اور ڈیموکریٹس کے متوقعہ امیدواروں نے اپنے لیے امریکی عوام کی توجہ حاصل کرنے کے نت نئے طریقے اختیار کرنا شروع کردیے ہیں۔ بارک اوبامہ کا اپنی دوسری باری کے بعد صدارت سے جی بھر چکا ہے اور نہ ہی ان کے اردگرد ان کے مشیران انہیں تیسری باری کی جانب متوجہ کر رہے ہیں۔ یہ تو پاکستان ہی ہے کہ یہاں دو نہیں بلکہ تین تین باریوں کے بعد بھی چوتھی باری کی خواہش دل میں مچلتی ہے ، مقصد اقتدار ہاتھ سے نہ چھوٹے ، حالت کچھ بھی ہوجائے، ویل چیئر پر ہوں تب، بات کرتے ہوئے منہ سے رال ٹپکتی ہو تب اقتدار میں رہنا ہی اچھا لگتا ہے۔ عزت سے جانے کی روایت ہمارے ملک میں پائی ہی نہیں جاتی۔

ہیلری کلنٹن ڈیمو کریٹس کی جانب سے امریکی صدارتی نامزدگی کی امیدوار ہیں، جس کے لیے انہوں نے بھر پور طریقے سے اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کرنا شروع کردیا ہے ۔ وہ امریکہ کی سابق وزیر خارجہ بھی رہیں، سیاست میں عرصہ دراز سے ہیں، سیاسی گھرانے میں پرورش پائی، سیاسی شوہر سے تربیت شدہ ہیں۔اس کے باوجود یہ ضروری نہیں کہ ہیلری ڈیموکریٹس کی صدارتی امیدوار کا ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں ان کے علاوہ بھی امیدوار ہیں لیکن ہیلری صدارتی امیدوار کے طور پر ایک مضبوط شخصیت نظر آرہی ہیں۔ اس کے برعکس ری پبلکن سے تعلق رکھنے والے ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے مالدار بلکہ ارب پتیوں میں سے ایک ہیں،ان کے نام سے ایک طویل ٹاور ہے جس میں وہ اپنی تجارتی اور اب سیاسی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا رئیل اسٹیٹ کاکاروبار بہت وسیع اور کئی ملکوں تک پھیلا ہوا ہے۔ انہوں نے اپنی دولت کے بل بوتے پرسیاست کے میدان میں بھی اپنے جوہر دکھانے شروع کردیے ہیں۔ وہ ایک نجی چینل کے مالک بھی ہیں۔امریکہ میں ٹرمپ کی وجہ شہرت ایک سیاسی لیڈر کے طور پر نہیں بلکہ وہ امریکہ میں رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کے ماہر کے طور پر جانے جاتے ہیں، میڈیا سے بھی ان کا تعلق ہے، بولنے میں ماہر ہیں، گھٹیا اور بے باک اندازِ میں گفتگو کرتے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے بہت کم عرصے میں امریکہ میں صدارتی امیدوار کے لیے ٹکٹ حاصل کرنے کے امیدوار کے طور پر اپنے آپ کو منوالیا ہے اس کی وجہ ان کی وہ دشنام طرازیاں ہیں جو انہوں نے امریکہ میں بسنے والے مسلمانوں اور دیگر اقوام کے بارے میں کی ہیں۔ انہوں نے امریکہ میں بسنے والے مسلمانوں کا ڈیٹا بیس بنانے کی تجویز دی جسے لوگوں نے غیر منطقی قرار دیا، مسلمانوں کے لیے علیحدہ شناختی کارڈ کے اجراء کی بات کی جو امریکی قانون اور اخلاق کے منافی ٹہرایا گیا۔ ٹرمپ نے مسلمانوں کو امریکہ سے بے دخل کردینے کی بات کی تو دنیا ان کی اس دشنام طرازی پر ھیران ہوگئی، حتیٰ کہ امریکہ کے صدر بارک اوباما نے بھی ٹرمپ کے ان خیالت کو منفی اور امریکہ کے قانون کے خلاف قرار دیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ اس سے قبل بھی طرح طرح کی نت نئی اور عجیب و غریب باتیں کرکے لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کراچکے ہیں۔ امریکی عوام اس شخص کو مسخرے کے طور پر تصور کرتے ہیں جب انہوں نے نیویارک میں اپنے صدارتی امیدوار کے لیے ری پبلکن کے ٹکٹ کا مطالبہ کیا تو لوگ حیران ہوئے اس لیے کہ انہیں تو امریکی سیاست میں ایک جوکر تصور کیا جاتا تھا جو اپنی دولت کے بل بوتے پر میڈیا میں آکر لوگوں کو خوش کرنے کی باتیں کیا کرتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے میکسیکو کے تارکین وطن کے خلاف بھی مہم چلائی ، وہ ہسپانوی اور کالے امریکیوں کے خلاف بھی باتیں کرتے رہے ہیں ۔ انہوں نے بانگ دہل کہا کہ میکسیکو کے 20لاکھ سے زائد غیر قانونی تارکین وطن جو امریکہ میں آباد ہوچکے ہیں انہیں امریکہ سے نکال باہر کیا جائے۔اس کی وجہ ڈونلڈ ٹرمپ یہ بتاتے ہیں کہ میکسیکین امریکہ میں جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں ان کی وجہ سے امریکہ میں جرائم کی شرح بہت بڑھ چکی ہے۔ حیرت ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ میکسیکو کے تارکین پر اس قسم کے الزامات لگارہے ہیں وہ یہ بات بھول گئے کہ یہی میکسیکو کے تارکین امریکہ کی معیشت میں اضافے کا باعث بھی ہیں۔ امریکہ تو ایک ایسا ملک ہے کہ جس میں تارکین وطن بے شمار ہیں ، ہر مذہب، ہر نسل، ہر قوم اور ہر ملک کے لوگ امریکہ میں آباد ہیں۔ امریکہ کی معاشی ترقی میں ان تارکین کا اہم کردار ہے۔ اگر یہ تمام تارکین امریکہ سے نکال دیے جائیں تو امریکہ کی تمام تر ترقی ٹریڈ ٹاور کی طرح دھڑام سے زمیں بوس ہوجائے گی۔

ڈونلڈ ٹرمپ کو ری پبلکن پارٹی کا شدت پسند متعصب تصور کیا جاتا ہے، اس نے کچھ عرصہ قبل نسل پرستی کا پرچار کیا۔وہ نسل پرستی کا نعرہ لگا کر عوام کے مخصوص طبقے کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوا ۔ نسل پرستانہ سیاست نے بھارت میں نریندر مودی جیسے سیاسی لیڈرکو مقبول بنا یا اور وزیر اعظم کے منصب پر بھی فائض کردیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ بھی یہی محسوس کرتے ہیں کہ یہ عوام کی دکھتی رگ ہے انہیں اس جانب متوجہ کرنے سے سیاست کی بازی ان کی گرفت میں آجائے گی۔ ڈونلڈ ٹرمپ ایسے سیاسی کرداروں میں سے ایسا منفرد اور انوکھا کردار ہے کہ جس نے معذوروں کا مزاق بھی اڑایا۔ امریکہ کے پڑھے لکھے اور سمجھدار طبقے نے ڈونلڈ ٹرمپ کی اس بیہودہ حرکت کو پسند نہیں کیا۔ دنیا میں پھیلی ہوئی دہشت گردی جس میں طالبان کے علاوہ اب داعش کی جانب سے کی جانے والی کاروائیوں کو بنیاد بنا کر کسی بھی قوم کے لیے سرحدوں کو بند کردینا، ان کے لیے علیحدہ شناختی کارڈ یا ڈیٹا بیس کی بات کرنا، مسلمانوں کی عبادت گاہوں کے بارے میں تحفظات کا اظہار کرنا کسی بھی طور مناسب نہیں، چند لوگوں کے غلط کام کی سزا کس طرح افراد کے پورے گروہ کو دی جاسکتی ہے۔ اس قسم کی باتیں اور دلیلیں غیر اخلاقی اور امریکہ کے قانون کے منافی ہیں۔ صدر بارک اوبامہ کہے چکے ہیں کہ’ امریکی عوام اور امریکی دستور اس نوعیت کی انتہا پسندی کی اجازت نہیں دیتے اور امریکہ مسلمانوں کے تمام حقوق کا ضامن ہے‘۔ امریکہ کی سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے مسلمانوں کے خلا ف ڈونلڈ ٹرمپ کی دشنام طرازی کے جواب میں کہا کہ’ مسلمانوں سے تعصب رکھ کر داعش کو شکست نہیں دی جاسکتی۔کھوکھلے نعروں اور مسلمانوں پر پابندی جیسی باتیں کر کے شدت پسندی کو ختم کرنا ممکن نہیں‘ ۔ ہیلری واضع طور پر ری پبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ سے مخاطب تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ’ تعصب،غرور اور تکبر امریکی صدر کی خصوصیات نہیں ہوتیں‘۔ ان کاکہنا تھا کہ’ شدت پسندی سے نمٹنے کی حکمت عملی میں مسلمانوں کو سائیڈ لائن نہیں کیا جانا چاہیے وہ امریکہ میں مقیم ہوں یا کہیں اور کیوں کہ مسلمان داعش کے خلاف جنگ میں اہم اتحادی ہیں‘۔ ہیلری کلنٹن کے علاوہ بھی کئی امریکی لیڈروں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو تنقید کا نشانہ بنا یا ۔ صدارتی امیدوار جیب بش بھی ان میں شامل ہیں۔ جیب بش نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ذہنی مریض قرار دیا۔ سابق نائب صدر ڈک چینی نے ڈونلڈ ٹرمپ کی مسلمانوں کے خلاف دشنام طرازی کو اپنے اعتقاد کے خلاف کہا ، امریکی ایوان نمائندگان کے اسپیکر پال ریان نے ڈونلڈ ٹرمپ کی باتوں کوغیر امریکی کہتے ہوئے انہیں فضولیات سے تعبیر کیا۔ امریکہ کے علاوہ اسرائیل کی پارلیمان کے چالیس سے زیادہ اراکین نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے مطالبے کی مخالفت کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کا اسرائیل کا دورہ منسوخ کرادیا تھا لیکن بہت سے اسرئیلی ٹرمپ کے حمایتی کے طور پر سامنے بھی آئے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ عجیب بات بھی کہی کہ امریکہ میں ہر ایک امریکی اَسلِحہ بردار ہو، اسے آلاتِ حرب رکھنے کی کھلم کھلا آزادی حاصل ہونی چاہیے۔ ان کے ’گن کلچر‘ کا بھی امریکہ میں بہت مزاق اڑایا گیااور انہیں غیر سنجیدہ لوگوں میں گردانا گیا۔ ان تمام باتوں کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ کی باتوں کو لوگوں نے سنا، ایک بڑی تعداد ان کی ہمنوا دکھائی دیتی ہے۔ اس کی وجہ جو بظاہر نظر آرہی ہے کہ دہشت گردی سے نفرت بہت سے مسائل کو جنم دے رہی ہے، دہشت گردوں سے نفرت بڑھ رہی ہے ، جب بھی دہشت گردی کاکوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو مخصوص گروہ اور تنظیم اس کی ذمہ دری میڈیا پر قبول کر لیتی ہے، اس طرح مقامی لوگوں میں دہشت گردوں کے خلاف نفرت کا پیدا ہوجانا قدرتی عمل ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اسی سال نیویارک میں جو ریلی نکالی ، بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق اس میں دس ہزار امریکیوں نے شرکت کی۔ اسی ریلی میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے صدرارتی امیدوار ہونے کا اعلان بھی کیا۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ جس طرح ہندوستان میں متعصب ہندوؤں اور شدت پسندوں کی بڑی تعداد نریندر مودی کے ساتھ ہوسکتی ہے اور اسے بھارت کا وزیراعظم بنوایا جاسکتا ہے اسی طرح امریکہ میں بھی ایسا ہوسکتا ہے ، ہوا کا رخ بدل جائے اور یہ دس ہزار، لاکھوں ،کروڑوں میں تبدیل ہوجائیں اور ڈونلڈ ٹرمپ جیسا متعصب امریکہ کا صدر بن جائے تو یہ امریکہ ہی کی نہیں دنیا کی بدقسمتی ہوگی۔ جس پارٹی کی جانب سے وہ صدارتی امیدوار ہونے کا ٹکٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں اسی پارٹی میں ان سے زیادہ مضبوط اور ہر اعتبار سے مناسب لیڈر اس عہدہ کے امیدوار موجود ہیں۔وہ کسی بھی صورت ری پبلکن پارٹی کو ڈونلڈ ٹرمپ کا صدارتی امیدوار نامزد نہیں ہونے دیں گے ۔ اس لیے کہ ڈونلڈ ٹرمپ مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ خود امریکہ کے لیے بھی مشکلات کا باعث ہوگا۔
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1284679 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More