انجمن ترقی اردو کے زیر اہتمام ’بیاد جمیل الدی عالیؔ‘ تقریب

انجمن ترقی اردو کے زیر اہتمام ’بیاد جمیل الدین عالیؔ‘ تقریب انجمن ترقی اردو کے زیر اہتمام ’بیاد جمیل الدی عالیؔ‘ تقریب

کچھ دن گزرے عالی صاحب عالیؔ جی کہلاتے تھے
محفل محفل قریے قریے شعر سنانے جا تے تھے
جمیل الدین عالیؔ ایک عہد ساز شخصیت ، اپنی ذات میں انجمن اور ادارہ ، کچھ کر گزرنے کے جَذبَہ سے شرشار ، مستقل کے لیے کچھ چھوڑجانے کا ولولہ لیے ہوئے تھے ۔ علمی ، ادبی، سماجی، فکری، تہذیبی حوالوں سے عالی ؔ جی کی کاوشیں روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔علمی و ادبی سرمایے کے علاوہ انجمن ترقی اردو،جامعہ اردو ، رائیٹرز گلڈ ان کی زندگی کے ایسے عظیم کارنامے ہیں کہ جو انہیں مدتوں زندہ رکھیں گے۔ عالی ؔجی کے لکھے ہوئے ملی نغمے ہمارے ملک کا قیمتی اثاثہ ہیں۔بابائے اردو کے بعد اردو کے فروغ اور نفاذ کے لیے عالیؔ جی کی کاوشیں ہماری تاریخ کا حصہ ہیں ۔ 23فروری کو عالیؔ جی کی سانسوں کو سفر اختتام پزیر ہوا۔اگلے روز 24دسمبر کو کراچی کے آرمی قبرستان میں اپنی والدہ اور شریک حیات کے درمیان ابدی نیند سو گئے۔ عالیؔ جی سے کون واقف نہیں، کس کس کے کام عالیؔ جی نہیں آئے، کون ہے جو ان سے نہیں ملا، کس کس پر انہوں نے عنایتیں نہیں کیں۔ ایک طویل فہرست ہے ان لوگوں کی جو عالیؔ جی سے اپنی محبت و عقیدت کا اظہار کرنا چاہیتے ہیں، اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ ہی میں سہی انہیں خراج تحسین پیش کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ عالیؔ کے اس دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ انجمن ترقی اردو پاکستان نے ہفتہ 13دسمبر کو ’بیاد جمیل الدین عالیؔ تقریب‘ کا اہتمام کیا۔ گویا عالیؔ کے رخصت ہونے کے بیس دن بعد ، جسے اس حوالے سے پہل کرنا تھی اس نے اس تعزیتی ریفرنس کے انعقاد میں20دن لگادیئے۔ ہو سکتا ہے کہ انجمن کے منتظمین کو عالیؔ جی کے دنیا سے رخصت ہوجانے کا غم اس قدر شدئد ہو اور ہونا بھی چاہیے ۔چلیے دیر آید درست آید ، ہر کام کا وقت قدرت کی طرف سے مقرر ہے۔ عالی ؔ جی کالکھا ہوا خوبصورت ملی نغمہ ؂
ہم تا بہ ابد سعی و تغیر کے ولی ہیں
ہم مصطفویﷺ ، مصطفویﷺ ، مصطفویﷺ ، ہیں

راقم کئی سالوں سے انجمن کے کتب خانے واقع گلشن اقبال سے استفادہ کررہا ہے۔ دونوں ہی فوائد حاصل ہوتے ہیں ، مطلوبہ مواد کا حصول بھی ، ساتھ ہی اکثر وہاں پر موجود احباب سے ادبی موضوعات پر گفتگو سے آکسیجن مل جاتی ہے جو کالم لکھنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ اسی طرح انجمن میں منعقد ہونے والی علمی و ادبی تقاریب میں شرکت سے بھی علمی و ادبی توانائی حاصل ہوتی ہے۔ عالیؔ جی کی یاد میں تقریب میں جانا میرے لیے سعادت تھی۔عام طور پر تو انجمن میں ادبی پروگرام ہال نما کمرے میں ہی ہوتے ہیں لیکن آج کی بیادِ عالیؔ کی تقریب کے لیے انجمن کے لان میں پنڈال سجایا گیا تھا۔ تاکہ زیادہ لوگ سماسکیں۔ آج میں وقت مقررہ پر پہنچ گیا ورنہ تو اکثر لیٹ ہوہی جاتا ہوں۔ چند لوگ ہی پنڈال میں موجود تھے لیکن لوگوں کی آمد کا سلسلہ جاری تھا۔ سحر انصاری صاحب، ڈکٹر فاطمہ حسن،برطانیہ سے تشریف لائی ہوئیں نجمہ عثمان آچکی تھیں، دیکھتے ہی دیکھتے جناب ڈاکٹر قا سم پیرزادہ ، ذوالقرنین (راجو جمیل)، پروفیسر شائستہ زیدی،ڈاکٹر رؤف پاریکھ، ڈاکٹر فدا انصاری ، صبیحہ صبا، صغیر احمد جعفری، اکبر اسکول کے پرنسپل ڈاکٹر خواجہ ، محمود عزیز، رضوان احمد، پروفیسر سعید حسن قادری، رخسانہ صباء، سید ین رضوی، یاسمین فاروقی،اظفر رضوی مرحوم کے صاحبزادے حسنین رضوی، محمد معروف، محمد صابر،انور جاوید ہاشمی، سعیدی صاحب( یہ سر سید احمد خان کے پڑپوتے ہیں) اوردیگربھی تقریب گاہ میں موجود نظر آئے۔

عالی ؔ جی کے فرزند ارجمند ذوالقرنین جمیل (راجو جمیل)نے اپنے والد کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے بتا یا کہ عالی ؔ جی 23نومبر کودنیا سے رخصت ہوئے اور 24نومبر کو ان کی تدفین آرمی قبرستان میں عمل میں آئی۔ آرمی قبرستان میں تدفین کے حوالے سے انہوں بتا یا کہ آرمی چیف آف اسٹاف مرزا اسلم بیگ تھے، اس وقت عالیؔ جی کو آرمی کی جانب سے ایک ایک ہزار گز کے دو پلاٹوں کے لیے خط موصول ہوا، اس میں لکھاتھا کہ ہم آپ کوکسی بھی اچھی جگہ یہ پلاٹ دینے کی خواہش رکھتے ہیں، راجو جمیل نے بتا یا کہ والد صاحب نے اس خط کے جواب میں لکھا کہ مجھے دو نہیں بلکہ تین پلاٹ چاہیے، ایک اپنے لیے، ایک اپنی والدہ کے لیے اور ایک اپنی شریک حیات کے لیے اور یہ تینوں پلاٹ مجھے آرمی کے قبرستان میں چاہیے۔یقینا اپنے خط کا جواب دیکھ کر متعلقہ حکام حیران و پریشان ہوگئے ہوں گے، انہیں یہ یقین نہیں آرہا ہوگا کہ پاکستان میں ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں۔ گویا عالی جی کی خواہش تھی کہ وہ آرمی کے قبرستان میں اپنی ماں اور اپنی شریک حیات کے ساتھ دنیا وی زندگی کے بعد کی زندگی ایک ساتھ آرمی کے قبرستان میں بسر کریں۔ ایسی مثالیں بہت کم ملتی ہیں، یقینا اس جواب سے آرمی کے افسران لاجواب ہوگئے ہوں گے اور عالیؔ جی کا قد ان کی نظروں میں کس قدر بلند ہوا ہوگا اس کا اندازہ وہی لوگ لگا سکتے ہیں۔ ایسا ہی ہوا، عالی ؔ جی کو ان کی زندگی میں ہی ان کی خواہش کے مطابق تین پلاٹ آرمی کی جانب سے الاٹ کر دیئے گئے تھے، ان میں سے دو پلاٹوں پر دائیں جانب عالی ؔ جی کی والدہ ، بائیں جانب عالی ؔ جی کے شریک حیات طیبہ بانو آرام فرما ں تھیں ، درمیان کا پلاٹ 23 نومبر تک خالی تھا لیکن قبر بے تابی سے اپنے مکین کی راہ تک رہی تھی اوراپنے ہر دلعزیز مکین کے لیے اپنا سینہ واہ کیے ہوئے تھی ، 24نومبر کو اس کی گود عالیؔ جی کے جسم اطہر سے منور ہوگئی۔

ذوالقرنین جمیل جو اب انجمن ترقی اردو کے صدر بھی ہیں نے اپنے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے بتا یا کہ لکھنا پڑھنا اپنی جگہ لیکن بابا کے تین کارنامے ایک انجمن، دوسری جامعہ اردو اور تیسرارائیٹرز گلڈکا قیام اور اس کی زیر سایہ پاکستان کے شاعروں اور ادیبوں کو جمع کرنا ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے ۔ ان کا کہنا تھا کہ بابا انجمن اور گلڈ کے معاملات میں اس قدر فنا تھے کہ ہم بہن بھائی یہ کہا کرتے کہ ہم چانچ بہن بھائی نہیں بلکہ سات بہن بھائی ہیں، یعنی پانچ ہم اور ایک بہن ’انجمن‘ اور ایک بھائی ’گلڈ‘ ہے۔ انہوں نے بتا یا کہ رائیٹرز گلڈ بابا کا ایک بڑا کارنامہ تھا، ان کی خواہش ہے کہ گلڈ دوبارہ سرگرم ہو اس کے لیے انہوں نے عملی کوششیں شروع کردی ہیں، لاہور سے خوشخبری ملی ہے۔ پرانے لوگوں کی خدمات قابل قدر ہیں لیکن نئے لکھنے والوں کو بھی گلڈ کی جانب دیکھنا چاہیے۔ انہوں نے بتا یا کہ وہ دس برس کی عمر سے گلڈ کو دیکھ رہے ہیں۔ اُس وقت کے پہلے اجلاس میں اس وقت کی نہایت معتبر علمی و ادبی شخصیات مجھے بابا کے گرد نظر آیا کرتی تھیں ان میں بطور خاص ممتاز مفتی، قرۃ العین حیدر، سلیم احمد، ابرہیم جلیس، ابن انشاء، حمید کاشمیری جیسے اعلیٰ اور معتبر لوگ شامل تھے۔ اس وقت اس میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے لوگ شامل ہوا کرتے تھے۔ ذوالقرنین جمیل کا کہنا تھا کہ ان کے والد نے بڑی بھر پور زندگی گزاری ، وہ زندگی کے آخری لمحوں تک انجمن ترقی اردو کے معاملات کو دیکھتے رہے۔ ان کے لیے دعا کریں ۔ ذوالقرنین جمیل نے بابائے اردو کے حوالے سے بھی اپنی یادیں بیان کیں۔ گلڈ کے حوالے سے عالی جی ایک شعر ؂
پھر دیکھا کہ بچہ بچہ ہنستا تھا اور عالی جی
فردیں لکھتے مسلیں پڑھتے اور’’گلڈ‘‘ چلاتے تھے

معروف شاعر و ادیب پروفیسر سحرؔانصاری جو انجمن ترقی اردو کے خازن بھی ہیں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے عالیؔ جی کو بھر پور انداز سے خراج تحسین پیش کیا انہوں نے کہا کہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ عالیؔ جی کا لگا یا ہوا پودا رائیٹر ز گلڈ فعال ہورہی ہے۔ یہ بڑ ا کام ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ عالیؔ جی کے تمام کام تاریخ کاحصہ ہیں جنہیں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ وہ پیش رو اور پیش بیں شخصیت تھے ۔ انہوں نے ادب کی مختلف اصناف پر بہت کچھ اور بامقصد لکھا ہے۔ سحر ؔانصاری سے استفسار کرتے ہوئے پروفیسر شائستہ زیدی نے وضاحت چاہی کہ آپ حضرات تمام تر ادبی سرگرمیاں جامعہ کراچی سے باہر ہی کرتے ہیں۔ سحرؔ انصاری نے اس استفسار کا خوبصورت جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ’ اس کا کیا جواب ہوسکتا ہے بس شرمندہ ہیں کمال کرنے والوں کے سامنے اور کمال کرنے والے شرمندہ بھی نہیں‘۔عالیؔ جی نے اپنے ملک کے لیے ، اردو کے لیے، تعلیم اور شعر و ادب کے لیے کیا نہ کیا ؂
عالی تونے اتنے برس اس دیس کی روٹی کھائی
یہ تو بتا تیری کوتارانی دیس کے کس کام آئی؟

جامعہ کراچی کے سابق وائس چانسلر، ضیاء الدین یونیورسٹی کے موجودی شیخ الجامعہ شاعر و ادیب ڈاکٹرپیرزادہ قاسم صدیقی جنہیں جمیل الدین عالیؔ بہت عزیز رکھتے تھے نے مرحوم عالیؔجی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ آج میں جو کچھ بھی ہوں ذوالفقار علی بخاری اور جمیل الدین عالیؔ کی ہمت افزائی کی وجہ سے ہوں۔انہوں نے واضح کیا کہ عالیؔ جی نے قیام پاکستان قبل شاعر کی حیثیت سے اپنا سکہ بٹھا چکے تھے۔ پاکستان کے حوالے دنیا بھر میں انہوں نے نام روشن کیا وہ یادگار ہے۔ ڈاکٹر پیرزادہ نے بتا یا کہ عالیؔ جی کا کہنا تھا کہ سوچیں اور غور کریں کہ آنے والا کل کیسا ہوگا، اپنے عہد اور ماضی کے ساتھ مستقبل کو دیکھتے تھے۔ مستقبلیات کے حوالے سے عالی ؔ جی کی تحریریں ہمارے سامنے ہیں جن میں سوچ و فکر اور دانشورانہ سلسلہ موجود ہے۔عالیؔ جی کو پاکستان کے دولخت ہونے کا شدید دکھ تھا۔ انہوں نے اپنے ایک شعر میں علامہ اقبال سے بہ اعتراف کیا ؂
ہاں میرے بابا، ہاں میرے مرشد میں تجھ پر قربان
تو نے بنایا ، میں نے بگاڑا تیرا پاکستان

تقریب کے آغاز پر انجمن ترقی اردو کی اعزازی معتمد ڈاکٹر فاطمہ حسن نے مختصر الفاظ میں بیاد جمیل الدین عالی تقریب کے شرکاء کو خوش آمدید کہا ان کا کہنا تھا کہ عالیؔ جی اپنی تحریروں کے حوالے سے ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ وہ محبِ وطن پاکستانی تھے۔ انجمن ایک باوقار اور مضبوط ادارہ ہے جس کی انہوں نے آبیاری کی اور یہ اپنی جگہ پر مستحکم ہے ، اسے برقرار رکھنا اب ہماری ذمہ داری ہے۔عالیؔ جی کے لازوال قومی نغموں میں پاکستان سے محبت جھلکتی ہے ، عالیؔ جی نے ثابت کردیا کہ وہ صرف خواب نہیں دیکھتے تھے بلکہ اس کی تعبیر بھی کرتے تھے۔ رخسانہ صباء نے نظامت کے فرائض ادبی چاشنی کے ساتھ خوبصورت انداز سے انجام دیے ۔ وہ بیچ بیچ میں عالیؔ جی کے اشعار اور دوئے بھی سناتی رہیں۔ تلاقت کلام پاک سے تقریب کا آغاز ہوا۔ پروفیسر سعید حسن قادری نے تلاوت کلام پاک سے تقریب کا آغاز کیا اور عالیؔ جی کے لیے دعائے مغفرت کرائی اور مختصر اً عالی جی کے بارے میں اظہار خیال بھی کیا۔ شاعرہ، افسانہ نگار نجمہ عثمان صاحبہ آٹھویں اردو کانفرنس میں شرکت کے لیے برطانیہ سے پاکستان تشریف لائی تھیں انہوں نے بھی بیاد جمیل الدین عالیؔ تقریب میں شرکت کی ، اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ عالیؔ جی کے دل میں مکمل پاکستان بساہوا تھا۔وہ پاکستان کو اپنے ساتھ لے کر چلا کرتے تھے، وہ جب برطانیہ تشریف لاتے تو ایسا لگتا تھا کہ عالیؔ جی نہیں بلکہ پورا پاکستان آگیا ہے۔ آرکیٹیک جناب حیات رضوی امروہوی نے اظہار خیا ل کرتے ہوئے عالیؔ جی سے اپنے مراسم کی تفصیل بیان کی انہوں بتایا کہ ایک دن عالیؔ جی کا فون آیا ، ان کی آواز سن کر مجھے یقین ہی نہیں آرہا تھا ، خوشی کا احساس اپنی حدوں کو چھو رہا تھا ، فرمایا کہ مجھ سے ملو، میں نے کہا کہ کب کہنے لگے ابھی آجاؤ، میں اسی وقت ان کے پاس گیا ، کہنے لگے کہ انجمن ترقی اردو کی عمارت ’اردو باغ ‘کا نقشہ تیار کرنا ہے ۔ میں نے خوشی سے یہ ذمہ داری قبول کر لی اور مجھے فخر ہے کہ اردو باغ کا ڈیزائن میں نے عالیؔ جی کی فرمائش پر تیا رکیا ۔ یہ عمارت تکمیل کے مراحل میں ہے۔

اردو ویب سائٹ ’اردو منزل‘ کے جناب صغیر احمد جعفری نے بھی اظہار خیال کیا، ان کاکہنا تھا کہ اردو زبان و ادب کے حوالے سے عالیؔ جی کی خدمات ناقابل فراموش ہیں اب ہماری ذمہ داری ہے کہ نوجوان نسل تک ان کا اثاثہ پہنچائیں۔ سیدین رضوی نے رکن قومی اسمبلی کشور زہرہ کا پیغام پڑھ کر سنا یا اور عالیؔ جی کو منطوم خراج عقیدت پیش کیا،یاسمین فاروقی ،سید اظفر رضوی مرحوم کے صاحبزادے سید حسنین رضوی نے بھی اظہار خیال کیا۔انور جاوید ہاشمی نے منظوم خراج تحسین پیش کیا، طالبہ عروج زہرہ نے عالیؔ جی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ میں اسکول اور پھر کالج میں عالی’ جی کے نغمے گایا کرتی تھی مجھے معلوم نہیں تھا کہ میں جس شاعر کے قومی نغمے گاگا کر انعامات حاصل کررہی ہوں اس کے تعزیتی اجلاس میں بولنا بھی پڑے گا، انہوں کہا کہ جیوے جیوے پاکستان ، ہم مصطفوی مصطفوی ہیں اور بے شمار نغمے میں نے گائے اور انعامات حاصل کیے۔رفعت صدیقی نے عالی ؔ جی کے شعری مجموعے ’لاحاصل‘ سے چند دوہے سنائے۔
اب جو میرے بغیر انجمن آرائی ہے
لوگ کہتے ہیں کہ تم کو میری یاد آئی ہے

محمد زبیرکا تعلق انجمن ترقی اردو کے کتب خانے سے ہے وہ گزشتہ آٹھ سال سے عالیؔ جی کے معاون کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ عالیؔ جی کی زندگی کے آخری ایام میں محمد زبیر ان کے قریب رہے ، خدمت کی ، خیال رکھا، جو ادبی کام عالیؔ جی ان سے کرانا چاہتے تھے ان میں معاونت کرتے رہے۔ ان کی حیثیت عالیؔ جی کے اہل خانہ کے ساتھ ساتھ اہم رکن کی حیثیت حاصل ہوگئی تھی۔ عالیؔ جی کے انتقال ، تدفین اور دیگر معلومات فراہم کرنے میں بھی محمد زبیر پیش پیش رہے۔ بیاد جمیل الدین عالیؔ کی تقریب ایک مقرر محمد زبیر بھی تھے۔ محمد زبیر کی گفتگو اور ان کا لب و لہجہ بتا رہا تھا کہ وہ عالیؔ جی کی سانسوں کے اختتام پر کس قدر افسردہ ہیں۔ انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار منتظمین کے شکریے سے شروع کیا اور بتا یا کہ آج سے آٹھ سال قبل فیصلہ ہوا کہ مجھے اب انجمن ترقی اردو کی لائبریری کے بجائے جمیل الدین عالیؔ کے گھر پر ان کے ادبی وعلمی کام خاص طور پر ان کے کالموں کی ترتیب و تدوین کے حوالے سے خدمات انجام دینا ہوں گی۔ ایک جانب یہ فیصلہ میرے لیے خوشی لیے ہوئے تھا تو دوسری جانب ڈر اور خوف بھی مجھے پریشان کر رہا تھا۔ مجھے اس سے قبل اس طرح کے کام کرنے کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ میں اس سوچ میں گم تھا کہ جمیل الدین عالی ؔ اتنا بڑا نام اور مجھے ان کے ساتھ کام کرنا ہوگا، میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا ہوگا اور کیسے ہوگا ، ہمت کر کے فون پر وقت لیا اور ان کے گھر چلا گیا، گیٹ پر جاکر اپنے حاضر ہونے کی اطلا ع دی ، مجھے ڈرائینگ روم میں بٹھادیا گیا، میں ایک لوئرمڈل کلاس سے تعلق رکھنے والا انسان ہوں ، مجھے اپنے پر یقین نہیں آرہا تھا کہ میں اس قدر عالی شان ڈرائینگ روم میں موجود ہوں۔ ابھی میری سوچ کا دھارا مختلف قسم کے تانے بانے بن رہا تھا کہ اتنے میں محترم جمیل الدین عالی صاحب اسٹک کے سہارے چلتے ہوئے ڈرائینگ روم میں تشریف لے آئے، میرا تو خیال تھا کہ مجھے بتا یا جائے گا کہ مجھے فلاں کمرے میں جاکر کام کرنا ہے ، اس وقت میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے کھڑے ہوکر عالیؔجی کا استقبال کیا اور انہوں نے انتہائی شفقت کے ساتھ مجھ سے مصافحہ کیا اور مجھے بیٹھنے کے لیے کہا۔ یہ میری ان سے اولین ملاقات تھی۔ دیگر باتوں کے علاوہ انہوں نے مجھ سے یہ بھی کہا کہ اب تم میرے ساتھ رہوگے، میرے ساتھ کھاؤ گے اور کام بھی کروگے۔ اس دن کے بعد سے میں عالیؔجی کے ساتھ سائے کی طرح رہا کرتا ، جو وہ ہدایت دیا کرتے ویسا کیا کرتا، میں نے انہیں انتہائی نفیس انسان پایا، ہمدرد، شفیق، محبت کرنے والے، ایک اور بات جو میں کہنا چاہتا ہوں کہ عالیؔ جی بہت بڑے شاعر تھے، پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا میں ان کا نام تھا، ان کے دوہے اور دیگر اصناف شاعر کے علاوہ ان کے لکھے ہوئے روزنامہ جنگ میں کالموں کو منفرد اور اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ میں ان کے کالموں کے مجموعے کی ترتیب و تدوین پر ہی کام کررہا ہوں۔ میں یہ بات خاص طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ عالیؔ جی ہر اعتبار سے بڑے شخصیت کے مالک تھے لیکن وہ ایک مثالی انسان تھے، اور مثالی انسان ہونا میری رائے میں کسی بھی شخص کی سب سے اہم اور بڑی خوبی ہوتی ہے۔ محمد زبیر نے عالیؔ جی کی بہت سے خوبیوں کی نشاندھی کی۔ انہوں نے یہ بھی بتا یا اور عالیؔ جی کے اہل خانہ کا شکریہ بھی ادا کیا کہ انہوں نے اسے (محمد زبیر ) کو عالیؔ جی کے آخری سفر پر روانہ ہونے سے قبل غسل کی ادئیگی میں اسے شریک ہونے کی اجاذت دی، محمد زبیر کا کہنا تھا کہ اسے اس بات پر فخر حاصل ہے کہ عالیؔ جی کو غسل دینے میں وہ بھی شریک رہا جو میرے لیے اتنی بڑی سعادت ہے کہ میں اسے کبھی بھلا نہیں سکوں گا اور عالیؔ جی کے تمام اہل خانہ کا انتہائی شکرگزار بھی ہوں۔

تقریب کے آخر ی مقرر رضوان احمد صاحب نے اپنے خیالات کااظہار بھی کیا اور عالیؔ جی کی مغفرت کی دعا کرائی۔انہوں نے بتا یا کہ عالیؔ جی بڑے اصولی آدمی تھے، میں ان کے پاس کسی تھے ۔انہوں بتا یا کہ ایک شام میں کسی تقریب کے سلسلے میں دیگر احباب کے ساتھ عالیؔ جی کے گھرپر موجود تھا، شاید کوئی تقریب ان کے گھر پر ہی تھی، اتنے میں فون کی گھنٹی بجی ، ’عالیؔ جی نے سلام دعا کی اور ایک دم گویا ہوئے کون گورنر؟ میں کسی گورنر کو نہیں جانتا، انہوں نے مجھ سے وقت لیا ؟ میں اس وقت مصروف ہوں ، ان سے نہیں مل سکتا‘۔ رضوان احمد کاکہناتھا کہ ہم نے ان سے دریافت کیا کہ گورنر صاحب ہیں تو انہیں بلالیجئے، ملاقات کر لیجئے، کہنے لگے سندھ کے نئے گورنر کا پی اے کا فون تھا، کہتاتھا کہ گورنرصاحب آپ کے گھر حاضر ہونا چاہتے ہیں۔ میں انہیں آنے کی اجازت کیسے دے دوں، گورنر ہوں گے اپنے لیے، یہ تقریب پہلے سے طے ہے، اگر انہیں ملنے آنا ہے تو وقت لے کر ضرور آجائیں،عالیؔ جی اصولوں کے معاملے میں انتہائی اصول پسند تھے۔ عالیؔ جی ان چند لوگوں میں سے تھے کہ جن کے دل پاکستان کے لیے دھڑکتے ہیں، ان کی ہر سائنس میں سے پاکستان کی خوشبو آتی ہے۔ پاکستان کے دائم و قائم رہنے کی دعا کرنے والے عالیؔ جی اب ہم میں نہیں رہے اﷲ تعالیٰ عالیؔ جی کے درجات بلند فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین۔ مرتے مرتے بھی وطن کو زندہ رہنے کی دعا دے گئے۔
ہم تو مٹ جائیں گے اے ارض وطن لیکن تجھ کو
زندہ رہنا ہے قیامت کی سحر ہونے تک
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1284581 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More