تابوت میں لاش (چوتھی قسط) جاسوسی دنیا

قاسم کااِغوا
فلیٹ کادروازہ کھولتے ہی انور اندر داخل ہوا اور پھر دروازہ بند کرکے وہ ٹی وی لاؤنج میں آیاتو سامنے رشیدہ ایک صوفے پربیٹھی ہوئی ٹی وی دیکھ رہی تھی۔رشیدہ اسے دیکھتے ہی ایک پل کے لئے سکتے میں آگئی،اس نے خفیف سا منہ کھلولا اور پھر مسکراتے ہوئے بولی:۔
"آگئے آپ۔۔۔ماشااللہ کیا حالت بنائی ہوئی ہے،بالکل لنگور لگ رہے ہو۔موصوف چلے تھے بدلا لینے،ہوگیاپورا۔۔۔آگیاآرام۔۔۔
لگتاہے کہ واقعی پورا شہرفتح کرکے آئے ہو۔"یہ کہہ کر وہ قہقہہ لگا کرہنسنے لگی اور ہنستے ہنستے پیٹ پہ ہاتھ رکھے دہری ہوگئی۔صوفے پر اس کی دائیں جانب پاپ کارنز رکھے ہوئے تھے اور ٹی وی پر ایک مقامی ڈرامہ چل رہاتھا۔دوسری طرف انور واقعی لنگور ہی لگ رہا تھا ایسا لگتا تھا کہ جیسے کسی گٹر لائن کے اندر ڈبکی لگا کر آیا ہو۔جگہ جگہ اس کے جسم پر گٹر کا غلیظ مادہ سوکھ کر چپک گیا تھا، البتہ بالوں سے اب بھی تھوڑے تھوڑے وقفے سے کالے بدبو دار پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے۔
"اڑالو مذاق ،تمہیں سوائے ٹوکیں کرنے کے اور کوئی کام دھندہ نہیں۔۔۔۔۔ اور تمہیں کس نے کہا کہ دوسروں کے فلیٹ میں چوری گھس کرپاپ کارنزکھاتے ہوئے ڈرامے دیکھو اور فلیٹ کے مالک پر تنقید کرو۔میں لنگور لگوں یا کوئی اور جانور تمہیں اس سے کیا۔"انور نے اپنی آنکھیں چوڑی کرتے ہوئے کہا،اب وہ مزید احمق لگ رہاتھا۔
"یہ کیا کرکے آئے ہوتم؟کہیں تمہیں دورے تو نہیں پڑنا شروع ہوگئے؟نرے پرلے درجے کے الو لگ رہے ہو۔بدلا لینے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے،کوئی سوچ سمجھ کر بندہ پلاننگ سے چلتاہے ۔ تمہاری طرح نہیں بغیرسوچے سمجھے بس کود گیا اور ہاں میرے فلیٹ میں کیبل خراب آرہی تھی اس لئے یہاں آگئی ۔مجھے کوئی شوق نہیں ہے تمہارے تماشے دیکھنے کامیری بلا سے تم جہنم میں جاکر ڈبکیاں لگاؤ" رشیدہ نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
"غصے میں تم بالکل چڑیل کی فرسٹ کزن لگتی ہو ،شکر کرو تم میرے سامنے بیٹھی ہو،میری جگہ کوئی اور ہوتاتو تمہیں مزاحیہ ٹوکیں لگا لگا کر ہی مارڈالتا۔۔۔۔اور ہاں تمہاری اطلاع کے لئے عرض ہے کہ میں نے اس کی ٹھیک ٹھاک ٹھکائی لگا ئی تھی اگر وہ ہم گندے نالے میں نہ گر جاتے تو اس کا میرے ہاتھوں بچنا بہت مشکل ہوجاتا۔نالے میں گرتے ہی پانی کی طغیانی کی وجہ سے وہ بہہ کرنہ جانے کہا ں فرار ہوگیا۔ ورنہ میں اسے دیکھ لیتا اور تمہاری اطلاع کے لئے مزید عرض ہے کہ میں سراغ رساں ہوں کوئی عام راہ چلتا شخص نہیں ۔میں نے اس کی شاپنگ مال سے ہی نگرانی شروع کردی تھی اور پھر اس کے تعاقب میں شہر سے باہر نکل گیا۔اسے میرے تعاقب کا رتی برابر شک نہیں ہوا،یہاں تک کہ میں نے اسے اس کے سر پہ جاکر دپوچ لیا،آخرکب تک چکنی مچھلی کی طرح ہاتھوں سے پھسلے گا۔۔۔۔۔اور تم میرا ریکارڈ جانتی ہو زیادہ عیاری مت دکھاؤ آج تک جو کیس میں نے شروع کیا اس کے آخری حد تک گیا ہوں اور کبھی ناکام نہیں ہوا۔"
"تو تم اب خود کو کرنل فریدی صاحب سمجھنے لگے ہو،کہاں وہ کہاں تم۔۔۔۔۔بس بھی کرو اب اور جاکر نہالوورنہ پورے جسم پر جب گندی نالی کے کیڑے رینگتے ہوئے تمہیں اپنی نانی یاد دلائیں گے تو لگ پتہ جائے گا۔کھجلی کرتے کرتے لال پیلے ہوجاؤ گے وہ پھر بھی جان نہیں چھوڑیں گے۔تم مجھ سے رہ رہ کرفرمائشیں کرو گے کہ باکسنگ دستانے پہن کر تمہاری گھونسوں سے طبعیت سیٹ کروں۔تمہیں پھر بھی چین نہیں آنا،تمہارا جسم پھوڑے کی طر ح سوج جائے گا۔تم دیواروں میں ٹکریں مارو گے واہ مزہ آجائے گا،تمہیں ایسی حرکتیں کرتے دیکھا نہیں کبھی ۔۔۔۔یقین کرو مجھے بہت خوشی ہوگی،تم پھر کسی سرکس میں چلے جانااورجوکروں کے ساتھ کرتب کرتے تم کیا خوب لگو گے۔ لوگ تمہیں دنیا کا آٹھواں عجوبہ کہیں گے۔۔۔۔"
"بس بس زیادہ اچھل کود صحت کے لیے مضر ہے اور تمہاری عمرکے لئے تو خاص طور سے منع ہے کہ زیادہ مینڈکوں کی طرح بدکنے سے دماغ بہہ جاتا ہے اور ویسے بھی تمہارا ہے کتنا ،اسے احتیاط سے رکھو مشکل میں کام آئے گا۔"یہ کہتے ہی انور نے اپنے کمرے کی طرف دوڑ لگا دی اسے ڈر تھا کہ کہیں وہ اگر تھوڑی دیر مزید رکا تو رشیدہ نے اس کی پھر مزید مٹی پلید کرنی ہے۔اسے بھاگتا دیکھ کر رشیدہ بری طرح سے ہنسے لگی۔
*******
فریدی اور حمیدفورنسک ڈیپارٹمنٹ سے واپس آکر اب گارڈن میں بیٹھے اپنے شکاری کتوں سے کھیل رہے تھے۔یہ جرمن شیفرڈ نسل کے کتے تھے۔فریدی کو دنیا کے مشہورکتوں کی نسلیں پالنے کا مشغلہ تھاجوبعدازاں جنون میں بدل گیاتھا۔اس کی ایکڑوں پر محیط کوٹھی میں باقاعدہ کتوں کا ایک بہت بڑاڈاگ ہاؤس بھی بنا ہواتھا۔جس میں دنیا کے مشہور کتوں کی ہر نسل موجود تھی ، اس میں بلڈ ہاؤنڈز،گرے ہاؤنڈزاور افریقی یے لوڈنگوقابل ذکرتھے۔گرے ہاؤنڈز کتوں کی سب سے قدیم نسل ہے ،ان کی باقاعدہ عالمی سطح پر گرے ہاؤنڈز ریس منعقد ہوتی ہے۔ان کے ریسنگ ٹریکس بنے ہوتے ہیں اورریس کابسااوقات مقصد شغل ہی ہوتاہے۔ان کازیادہ سے زیادہ وزن 27سے 40 کلوگرام ہوتا ہے اور ان کی عمریں 9 سے 11سالوں کے درمیان ہوتی ہیں۔بلڈ ہاؤنڈز کاشمار شکاری کتوں میں ہوتا ہے اور یہ زیادہ تر ہرن یا جنگلی سؤرکاشکارکرنے میں کام آتے ہیں۔لیکن آج کل ان کا کام انسانوں کی بو پاکرانہیں تلاش کرنا ہے۔پولیس کے لیے یہ کتاخاص مددگار ثابت ہوتا ہے۔اس کے علاوہ جرمن شیفرڈ کی اصل پہچان جرمنی سے ہوئی البتہ برطانیہ میں اسے السیشن کے نام سے جاناگیا۔ یہ کتے بلڈ ہاؤنڈزکے مقابلے میں پولیس،ملٹری اور ایکٹنگ کے شعبوں میں زیادہ بہتر سمجھے جاتے ہیں اور بہت دفعہ فریدی نے ان کی مدد سے کئی مجرموں کوتلاش بھی کیاتھا۔یہ شکاری کتوں کی انتہائی خوفناک نسل ہے یہ ایک بار کسی دشمن کے پیچھے پڑجائیں تو پھر ان کی بری طرح سے بوٹیاں نوچ ڈالتے ہیں۔
فریدی نے باقاعدہ سب کتوں کو ٹرینڈ کیا ہوا تھاسارے اس کی مخصوص سیٹی کی آواز پر ادھر سے ادھر فوری حرکت کرتے تھے۔اسے کتوں سے ہرکام نکلوانے کا خوب فن آتاتھا، یہ کوئی آٹھ کتے تھے جو اس وقت گارڈن میں فریدی اور حمید سے کھیل رہے تھے۔ان کا کھیل ابھی جاری تھاکہ فریدی کے سیل پر کال آنے لگی۔گارڈن میں اس وقت میزکرسیاں سجی ہوئی تھیں،میز پر فریدی اور حمید دونوں کے سیل فونز رکھے ہوئے تھے۔فریدی تھوڑا فاصلے پر تھاوہ چلتا ہوامیزکے پاس آیا اورپھر اس نے نمبر دیکھتے ہوئے کال اٹنڈکی۔
"ہارڈ سٹون ۔۔۔۔"
"آپ کرنل فریدی صاحب بات کررہے ہیں؟"
"یس۔۔۔۔"
"میں ایکریمیاکے سفارت خانے سے ایکریمی سفیرکاپی اے بات کررہا ہوں ،آپ سے سفیرصاحب بہت ضروری بات کرنا چاہتے ہیں۔آپ کے قیمتی وقت سے تھوڑا وقت چاہیے،امید ہے آپ برانہیں منائیں گے ،ہم نے بڑی مشکلوں سے اپنے حکومتی ذرائع سے آپ کا نمبرلیاہے۔"
"نہیں بالکل نہیں آپ میری بات کروائیں ۔۔۔۔"
"جی میں لائن ڈائریکٹ کررہاہوں ،ابھی کچھ دیربعد آپ کی لائن مل جائے گی۔۔۔بس تھوڑی دیرآپ کو انتظار کرناپڑے گا اس کے لئے میں آپ سے بے حد معذرت خواہ ہوں۔"
"اِٹس او کے۔۔۔۔۔"فریدی نے سپاٹ لہجے میں کہا اور پھر تھوڑی دیر کے انتظار کے بعد دوسری طرف سے سفارت خانے کے سفیرکی آواز آنے لگی۔
"فریدی صاحب میں آپکے ملک میں ایکریمیاکاسفیر کرسٹن بول رہاہوں ،آپ مجھے جانتے ہی ہونگے کئی بار آپ سے حکومتی میٹنگز میں ملاقات ہوتی رہی ہے۔"
"جی بالکل ۔۔۔۔۔"
"کرنل صاحب میں آپ کا بہت مشکور ہوں کہ آپ نے میرے لئے وقت نکالا،دراصل آپ کے پاس جوایک ایکریمی کی لاش ہے مجھے اس حوالے سے آپ سے کچھ معلومات شیئرکرنی ہیں ۔دوسرا مجھے آپ سے کچھ جاننا بھی ہے کیونکہ حکومت کی طرف سے باقاعدہ کیس اب آپ کو مل گیا ہے تو آپ ہی وہ شخص ہیں جس سے یہ معلومات شیئر ہوسکتی ہیں۔"
"جی فرمائیے۔۔۔۔"
"آپ کے پاس جس ایکریمی کی لاش ہے وہ ریاضی کے شعبے کے سب سے بڑے بین الاقوامی شہرت کے حامل پروفیسرکارل تھامس ہیں، جنہیں ریاضی کی ایک سب برانچ جیومیڑی میں" فیلڈزمیڈل" دیاگیا تھا،جسے ریاضی کانوبل انعام بھی کہاجاتاہے۔وہ ایکریمیا سے ساگالینڈ ایک انٹرنیشنل کانفرنس میں شرکت کرنے کے لئے آرہے تھے۔یہ انٹرنیشنل کانفرنس ریاضی کے حوالے سے اس سال ہونے والی نئی پیش رفت کو مدنظررکھتے ہوئے منعقد کی جارہی ہے۔جس میں آسٹریلیا،برطانیہ،گریٹ لینڈ،روس اور پاکیشیا سے عالمی شہرت یافتہ پروفیسرز خطاب کرنے والے ہیں۔ یہ کانفرنس آج سے دوروز بعد ہونے جارہی ہے،ہماری انٹیلی جنس نے تفتیش کرکے یہ معلوم کیا ہے کہ
ساگا لینڈآتے ہوئے راستے میں طیارہ دبئی رک گیا تھا۔یہ اس کا نارمل روٹین کا وقفہ تھا جو عموماًآدھے کا ہوتاہے مگر اس دن یہ خلاف توقع کسی تکنیکی خرابی کی وجہ سے پانچ گھنٹے رکا رہا۔اس کے بعد یہ اپنی منزل مقصود یعنی ساگالینڈ اترا۔اترنے والے مسافروں میں سے پروفیسرکارل تھامس شامل نہیں تھے،مگر پھر اچانک یہ خبرآپکے میڈیا پر آنے لگی کہ اسی طیارے میں کوئی تابوت ملا ہے جس میں ایک ایکریمی کی لاش ہے ۔ہم نے پورا ریکارڈ چیک کیا تو ایکریمیا سے آنے والے باقی مسافر بحفاظت پہنچ گئے تھے مگر کارل تھامس غائب تھے ۔ ہماری تفتیش کے مطابق طیارے کا دبئی ایئرپورٹ پر طویل وقفہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہوا، جس میں جان بوجھ کر طیارے میں کچھ تکنیکی خرابی پیدا کی گئی ۔ تاکہ پروفیسرکارل کو قتل کیا جاسکے ،اب پتہ چل رہا ہے کہ انکی انتہائی بھیانک لاش آپکے پرائیویٹ فورنسک ڈیپارٹمنٹ میں موجود ہے ۔ پہلے تو میں آپ سے اس حوالے سے تصدیق چاہتا ہوں کہ کیا میرے پاس جو معلومات ہیں وہ صحیح ہیں یا آپ اس میں کچھ ترمیم کرنا چاہیں گے؟"
"میں اس حوالے سے آپکی تمام انفارمیشن کی تصدیق کرتا ہوں مسٹر سفیرآپ نے جو کہاوہ بالکل درست ہے مجھے بھی یہ تمام معلومات پہلے سے معلوم ہیں۔"
"بہت بہت شکریہ ، ہمارے سفارت خانے کے کچھ نمائندے آپ کے پاس آرہے ہیں میں چاہتا ہوں کہ پروفیسر صاحب کی تابوت میں لاش آپ انکے حوالے کردیں تاکہ ہم انہیں پورے اعزاز کے ساتھ اپنے ملک لے جائیں ۔اس کے علاوہ ایک بہت اہم انکشاف میں کرنے لگا ہوں اگر آپ اجازت دیں تو۔۔۔۔"
"جی بالکل پروفیسر کارل تھامس ہمارے لئے بھی بہت محترم ہیں انہیں پورے احترام کے ساتھ آپ کے حوالے کردیا جائے گا۔جی آپ کون ساانکشاف کرنے لگے ہیں؟"
"ہماری انٹیلی جنس اطلاع ہے کہ قاتل کا اگلا ٹارگٹ ساگالینڈ میں ہونی والی ریاضی پر انٹرنیشنل کانفرنس میں شامل عالمی شہرت یافتہ پروفیسرز ہیں۔آپ کا ملک تو کافی پس ماندہ ہے اگر آپ کہیں تو ہمارے ملک کی اسپیشل فورس اپنی خدمات پیش کرسکتی ہے۔ہماری فورس کے پاس تمام جدید ترین سہولیات موجود ہیں اور اس میں بہترین تربیت یافتہ افراد کا مکمل ایک دستہ موجودہے جو اس قسم کے ایونٹس کی مکمل سکیورٹی دینی کی پوری صلاحیت رکھتاہے، دیکھیں ساگالینڈ کی عزت کا سوال ہے امید ہے آپ انکار نہیں کریں گے۔۔۔۔۔۔"
"آپ کی آفر کا شکریہ ویسے آپکی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ کرنل فریدی کے ہوتے ہوئے کسی مجرم کی جرات نہیں ہوگی کہ ان کو ٹارگٹ کرسکے ،آپ کو شاید یہ نہیں معلوم کے کرنل فریدی کی بلیک فورس آپ جسیے آٹھ دس ممالک کی ا سپیشل فورسز پر بھاری ہے اور آپ کی گستاخی اب تو برداشت کرلی گئی اگر اگلی دفعہ آپ نے بلیک فورس کی یہ توہین کی تو وہ پل آپکی جاب کا آخری ہوگاآپ کو واپس ایکریمیا جانا پڑے گا۔گڈبائے"کرنل فریدی نے انتہائی خشک لہجے میں کہا اور پھر اس نے لائن کاٹ دی۔

********

قاسم برقی زینوں کے ذریعے خوشی خوشی منہ میں کچھ بڑبڑاتا ہوا راہداری میں آیا جہاں پر ایک ویٹرنے اس کے پاس سے گزرتے ہوئے اسے جھک کر سلام کیا تو اس کا سینہ مزید چوڑا ہوگیا۔وہ سچ میں اپنے آپ کو کسی ریاست کا شہزادہ سمجھ رہا تھا۔اگر وہ فل فلوٹی اس کے سامنے آگئی تو قاسم اسے کیسے گفتگوکرے گا۔اسے کیسے متاثر کرے گا۔کسی ریاست کا شہزادہ لگنے کے لئے اس کے پاس ایک بڑی سی گاڑی ہونی چاہیے ،جس کو پھولوں اور دیگرچیزوں سے سجاگیا ہو۔گاڑی تو اس کے پاس تھی اور وہ بھی بہت لمبی بس اس کے اوپر تھوڑی سی مصوری کرکے اسے ایک ریاست کے شہزادے کی ذاتی کار کی حیثیت سے دکھایا جاسکتا ہے۔اس کی نمبر پلیٹ کی جگہ قاسم کی نیم پلیٹ لگی ہوتو پھر تو مزہ ہی آجائے،وہ پھر واقعی ایک شہزادہ لگ سکتا ہے۔وہ انہی خیالوں میں گم اپنے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے اپنے کمرے میں داخل ہوا اور خوشی سے نہال ہوتے ہوئے اس نے دروازہ بند کیا اور پھر چلتا ہوا بڑی شان سے ایک صوفے پر جاکر بیٹھ گیا اور پھر بیٹھے بیٹھے ہی شہزادہ بننے کی مشقیں کرنے لگا۔۔۔۔اس نے زور سے تالی بجاتے ہوئے کہا:
"ہمارے لئے محل کے سب سے خاص انار پیش کئے جائیں،جن کے ہر دانے پرسنہری قلم سے قاسم لکھاہواہو۔۔۔۔اوہو ۔۔۔۔ہپ۔۔۔ نن نہیں۔۔۔۔وہ وہ۔۔۔ ہماری شہزادی کے لئے پپ پیش کئے جائیں۔"پھر اس نے ایک دم سے منہ پر ہاتھ رکھ لیا اور آنکھیں بند کرلیں۔۔۔۔بعدازاں آہستہ سے اپنے ہاتھ سائیڈ پر کئے اور آنکھیں کھول لیں،کچھ دیر وہ یوں ہی اپنے دیدے ادھر ادھر تیزی سے گھماتا رہا جیسے یہ دیکھ رہا ہو کہ کوئی اسے دیکھ تونہیں رہا ۔تسلی ہونے کے بعداپنے ہاتھ ہٹا کر صوفے پر پھیلاکر پھر سے چوڑا ہو کربیٹھ گیا۔تھوڑی دیر وہ ایسے ہی بیٹھارہا پھراس نے دوبارہ تالی بجائی اور پھر کہا۔۔۔
"ہماری شہزادی کے لئے ایک شاہی خچر گاڑی منگوائی جائے ۔۔۔۔جس پر بیٹھ کرہم نے انہیں محل کے باغات کی سیر کروانی ہے۔۔۔اوہو نہیں ہپ ۔۔۔شاید ٹریکٹر ۔۔۔نہیں نہیں وہ وہ کیا ہوتی ہے سالی مالی ۔۔۔۔"پھر اس نے ماتھے پر تیزی سے انگلیاں پھیرتے ہوئے چھت پر ایک جانب گھورتے ہوئے سوچنا شروع کردیا۔اس اثناء میں اچانک اس کے کمرے کا دروازہ بجا ہی تھا کہ وہ انتہائی بوکھلائے ہوئے انداز میں کھڑا ہوگیا۔
"اوہو۔۔۔لگتا ہے سالی مالی شہزادی مہزادی آگئی۔۔۔۔اوہو نہیں اب میں کیا کروں"وہ انتہائی پریشانی کے عالم میں صوفے کے گرد گول گول گھوم کر سوچنے لگا کہ وہ شہزادی کا سامنا کیسے کرے گا۔۔۔۔اتنی دیر میں پھر دروازے کو شدت سے پیٹا جانے لگا۔۔۔اس نے انتہائی بوکھلائے ہوئے انداز میں لاشعوری طور پر تیزی سے چلتے ہوئے آگے بڑھ کر دروازہ کھو لا ہی تھا کہ وہی لمحہ اس پر بھاری ثابت ہوا۔ایک گھونسہ پوری قوت سے اس کے پیٹ میں لگا اور وہ ایک دم سے آگے کو جھکا ہی تھا کہ ایک بھرپور لات اسکی ٹھوڑی پر لگی اور وہ اچھل کر نیچے قالین پرجاگرااس کے گرتے ہی دو لمبے تڑنگے باڈی بلڈرگنجے حبشی تیزی سے اندر داخل ہوئے اور پھر ان میں سے ایک حبشی نے آگے بڑھتے ہوئے قاسم کی گردن میں زور سے ایک سوئی چبھوئی اور قاسم بے چارے کو چیخنے یا شور کرنے کا بھی موقع نہ ملا اور وہیں دائیں بائیں تیزی سے سر ہلاتے ہوئے تڑپتا ہوا بے ہوش ہوگیا۔پھروہ حبشی ایک سائیڈ پر ہوا اور دوسرے حبشی نے انتہائی حیرت انگیز طور پر ایک جھٹکے سے بھاری بھرکم قاسم کو اچھالا اور پھر اسے اپنے کندے پر لاد کر وہ دونوں انتہائی پھرتی سے کمرے سے نکلے اور راہداری میں آتے ہی انہوں نے ہوٹل کا ایمرجنسی ڈور استعمال کیا اور وہاں سے نکل گئے۔
*******
(جاری ہے)
Muhammad Jabran
About the Author: Muhammad Jabran Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.