نزول گاہِ وحی کی مہمانی میں! پانچویں قسط

کعبہ بہارِرحمت روضہ قراروراحت
نوٹ!پانچویں قسط میں علامہ اقبال کا شعر یوں پڑھا جائے
متاعِ دین ودانش لٹ گئی اللہ والوں کی
یہ کس کافر ادا کا غمزہ خوں ریز ہے ساقی

قارئین کرام اوراربابِ علم ودانش کے بیش قیمت تاثرات اور مبارک بادیوں کے لئے پھر ایک بار تہِ دل سے شکریہ۔ طوالت کے خوف سے ان حضرات کا فرداً فرداً نام لینے سے معذور ہوں ۔ نیز جن اصحاب نے اپنی آرااور تبصرے تحریر ارسال فرمائے ہیں ، انہیں ان شااللہ سلسلہ مضامین کے اختتام پر شائع کیاجائے گا بشر طیکہ وہ قابلِ اشاعت ہوں اوربحث برائے بحث سے کوسوں دور۔ دعاہے کہ اللہ تعالی ہم سب کونفس کے شرور سے بچائے رکھے۔ آمین
٭٭٭
ہمارے طیارے کا سفر ایک ایسی لا مثال منزل کی جانب رواں دواں تھا جو فی ذاتہ سیدالا سفار ہے یعنی تمام سفروں کاسردار ہے، یہ وہ سفر ہے جو قلب کو گرما دے جو روح کو تڑپا دے ، جو اللہ کے دربار میں ہل من مزید کو لوٹنے کا سلیقہ سکھا دے، جو ایمان وایقان کی شاہراہ پر حاجی ومعتمر کو اللہ کی ذات وصفات سے مانوس کرائے ، جو مصطفی جان ِرحمت کے اسوہ حسنہ اورمثل تو نہ شد پیدا جانا کے معانی بتائے، جو قران اور صاحب ِ قرآنۖ کی صدائے بازگشت قدم قدم سنائے۔ بقول جگر
یہ فلک یہ ماہ وانجم، یہ زمین یہ زمانہ
تیرے حسن کی حکایت ، میرے عشق کا فسانہ

اس حکایت اورعشق کی مطہرومعطر مسافت کوسواری کی تیزرفتاری سے نہیں دل کی حضوری اورجذبے کے کیف وسروراوراخلاص مندی سے کاٹاجاتا ہے ۔اللہ کے غلاموں پریہ اسرارِشنہشاہی کس وسیلے سے کھلتے ہیں؟ دعاومناجات کے اس قرینے سے جو عاشقانہ آدابِ خود آگاہی سے عبارت ہو۔ شاید یہی بتانے کے لئے طیارے کے پبلک ایڈریس سسٹم سے بآواز بلند وہ دعائے سفر سنائی گئی جو پیغمبر کریم ۖ کی سکھلائی ہوئی ہے ۔ سب ہمہ تن گوش ہوئے۔ یہ دعا ازدل ریزد بر دل خیز د کے مصداق ہمیں ایک لاہوتی مقام کو لے گئی۔ ہر ایک دعا مومن کا گہنہ ہے، مگریہ ا س کی سعی اور خواہش کے درمیان ایک مضبوط پل بھی ہے ۔ باوجود یکہ دعا کی قبولیت مشیت الہی اور تائیدیزدانی سے مشروط ہوتی ہے ، مومن کے لئے ہمہ وقت دعاگو رہنا ایک دائمی فریضہ ہے، اس شرط کے ساتھ کہ دعاوں میں روح کی پیا س ، یقین کی چاشنی ، محبت کی حدت ، داتا کی کبریائی کا ایمانی شعور،توحید وسنت پر بے چوں وچرا ایمان ، شر کیہ توہمات سے کامل اجتناب ، دل کا سوز وساز، اپنی بے بضاعتی اور عجز وانکساری کا رس گھلا ہو، تب جاکر اجابت کے بازار میں اس کا کوئی مول ہے ۔

ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولۖ سفر کے آغاز پر تین مر تبہ اللہ اکبر پڑھتے اور پھر یہ آیت پڑھتے: پاک ہے وہ ذات جس نے اسے ( یعنی سواری) کو ہمارے تابع کر دیا ور نہ ہم اس کوقابو کر نے والے نہ تھے اور بے شک ہم اپنے رب ہی کی طرف لوٹنے والے ہیں) سورہ زخرف ۔ آیت )اور یہ دعا بھی فرماتے: اے اللہ !ہم تجھ سے اس سفر سے نیکی ، تقوی ا ور ایسے عمل کا سوال کر تے ہیں جو تو پسند کرتاہے ، اور اے اللہ! میں سفر کی سختی سے، دلدوز منظر سے اور واپسی پر مال، گھر ، اولا د کی بری تبدیلی سے تیری پناہ مانگتاہوں(مسلم شریف۔ حدیث ، کتاب باب )۔ پیغمبر اسلام ۖ کی سکھلائی ہوئی تمام دعائیں روح کی پکارہیں ، ان میںسراسر معبودِ برحق کے سامنے سر افگند گی کا جذبہ ٹپکتا ہے ، ان میں تفویض الی اللہ کی خوشبو رچی بسی ہے، عبد یت کی مٹھاس گھلا ہوا ہے مگر دعائے سفر میں انسانی خدشات کی پر چھائیاں بھی ہیں اور آرزووں نیک تمناؤں کا بسیرا بھی ۔ قرآن تخلیق ِ آدم کا مقصد یہ بتاتاہے کہ اللہ نے جن اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت وریاضت کیلئے پیدا کیا (سورہ الذاریات ۔۔ آیت )ا ور حدیث میںدعا کو عبادت کا مغز فرمایا گیا۔ بالفاط دیگر ہر حاجی ومعتمر عبادت اور دعا کے دو ر خی سفر پر ہوتا ہے ۔ بات ذرا وسعت ِ نگاہ سے کی جائے توانبیاکرام علیہ السلام کی مبارک زندگیاں کیا ہیں؟ اللہ کے حضور ان کی عبادتوں ، قربانیوں،دعاوں اور اجابتوں کا ایک لامثال مجموعہ ۔ حضرت آدم نے دعا کی تو اپنا کھویا ہو امقام ومر تبہ واپس پایا ، حضرت نوح نے اپنی نافرمان قوم سے اتمام ِحجت کے طوردعاکی تو ایک عدیم المثال سیلاب نے کفر کا بیڑہ غرق کیا، حضرت یونس اورحضرت ایوب علیہما السلام نے دعا ئیں کیںتو من کی مرادیں پائیں ، حضرت زکر یا نے ندائے خفی ( سورہ مریم ۔ آیت ) کے دعائیہ اسلوب میں اولاد کی خواہش کی تو دربا ر ِ الہی سے حضرت یحی علیہ السلام کا تحفہ ملا۔ حضرت ابراہیم نے دعاکی تو مکہ معظمہ کے سنگلاح اور وادی غیر زرع کہلانے والے ریگ زار میں بغیر ظاہری اسباب کے دنیا کی ہر سر سبز وشاداب نعمت بے تحاشہ دستیاب ہوئیں۔ ورنہ آپ نے کونسے آلات ِکشاورزی وہاں استعمال کئے ؟ کس صنعتی انقلاب کی بنیاد ڈالی؟ کس تجارت کا آغاز کیا ؟ یہ صرف ایک دعا کی معجزاتی اجابت ہے کہ ہزاروں سال سے ا س لق ودق صحرا کو اللہ کی جناب سے وہ شرف ملا ہواہے کہ دنیا میں ا س کاکوئی ثانی ہے نہ مثیل۔ اللہ کے تحائف و انعامات کا یہ سلسلہ اب بھی شد ومد سے جاری ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کے حجم اور مقداروتعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہورہا ہے ۔ یہ کوئی حسن ِ عقیدت کی بات نہیں آنکھوں دیکھی حقیقت ہے کہ جس سرزمین میں اتنے حجاجِ کرام ہر سال ایام حج کے دوراناور معتمرین سال بھر ہر دن صرف ذوق وشوق کا والہانہ جذبہ لے کر لبیک لبیک پکارے جو ق درجوق یہاںچلے آتے ہیں،ان کے واسطے کوئی پلک جھپکے کے بغیر چوبیس گھنٹے بجلی سمیت جدید زندگی کی تمام تر سہولیات اور دنیا کی جملہ آسائشیں آٹھوں پہر دست بستہ غلام کی طرح ناک کی سیدھ میں رہتی ہیں۔ یہ ایک زندہ معجزہ ہے ۔ مجھے یاد آتا ہے کہ ایک موقع پر جب ہم ابھی کعبہ شریف کی آغوش ِ رحمت میں نئے نئے تھے اور بازاروں سے بھی نامانوس تھے، میںاپنی اہلیہ کے ہمراہ نمازِظہر مطاف میں ادا کرکے ہوٹل کی طرف خراماں خراماں جارہا تھا۔ا سی اثنامیں حرم شریف سے بالکل متصل بادشاہی قصر کے مد مقابل بازار میں ایک بقالہ یعنی پنساری یا پراویژن سٹور کہئے، سے ہمارا گزر ہوا۔ یہاں ہم نے ان دیکھے تروتازہ کیلے اور سیب بڑے قرینے سے سجے سجائے پائے۔ چونکہ اس رنگت اور وضع قطع کے میوے ہم نے کبھی دیکھے ہی نہ تھے،اس لئے سو چا یہ پلاسٹک کے ہیں جو ہمارے یہاں بھی میوہ فروش گاہکوں کو رجھانے کے لئے اکثر دوکان کی سجاوٹ کے لئے رکھتے ہیں ۔ اتفاق سے دوسرے دن ہمارا پھر وہاں سے گزر ہواتو یہ دیکھ کرہماری حیرت کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا کہ سیلز مین یہ میوے کاٹ کاٹ کربیچ رہا تھا۔ا س آنکھوں دیکھی حقیقت پر زبان سے بے ساختہ سبحان ا للہ نکلا ۔ ہم سمجھ گئے ہماری دنیا میں ہاتھی کے کھانے کے دانت اور دکھانے کے اور ہیں مگر یہاں ہر چیز کی ایک ہی شکل وصورت ہے ، ہر نظارے اور ہر منظر کی ایک ہی حقیقت ہے، یہاں کوئی ملاوٹ نہیں ، نہ کوئی دکھاوٹ ہے،اس شہر میں صرف ایک خدائی بناوٹ جوہرشئے سے ظاہروباہرہوتی ہے۔ حضرت خلیل اللہ کی صرف ایک دعا کااثر ہے کہ پہاڑوں،چٹا نوں،صحراؤں اوربیابانوں کے اس دیارِبے حدوکنارمیں دنیا کی تمام لذتیں نعمتیں موسموں کی تفریق سے ماوراڈیراجمائے ہوئی منتظررہتی ہیں اوردیدے پھاڑے راہ گیروں کوگھورتی ہیں کہ کب وہ ان کے دل کی چاہ اور لذت خواہی کی مانگ بنیں۔ یہ اللہ کی دادودہش کی جھلکیاںہیں:جب ابراہیم نے کہا: اے میرے رب! اس (جگہ) کو امن والا شہر بنا اوراس کے باشندوں میں جو اللہ اور یوم ِآخرت پر ایمان لائے، انہیں پھلوں سے رزق دے۔ (سورہ بقرہ ۔ آیت )۔ یہاں امن واطمینان کی فضائیں بھی ہیں،ایمان افروز بہاریں بھی ہیں، روح پرور نظارے بھی ہیں ،وافر سامان ِ رزق بھی ہیں،سونا چاندی ہے ، لعل جواہر ہیں ، با زار ہیں، بنگلے ہیں ، خلوتیں ہیں، جلوتیں ہیں، یہ سب قطعی طور کبھی ختم نہ ہونے والا ہے ، اب یہ انسان کا اپنا ظرف اور میلان ہے کہ وہ اس کی نظر انتخاب کس پر پڑتی ہے ۔یہ ہے رسول اکرم ۖکے مولد مبارک کی بے پایاں عظمتوں کی ایک عام جھلک ۔ اس مبہط وحی میں رسول پاک ۖ کی دعاوں اور قدسی صفت صحابہ کے خاص الخاص گنج ہائے گرانمایہ چپے چپے پر موجود ہیں ۔

اشک باردعائیں ہی وہ کرنسی ہے جس کا دیارِحرم میں چلن ہے ، یہی یہاں کا اصل مال ومنال اور منتہائے مقصود ہیں ۔۔۔آپ نے غار ِ حرا کی گوشہ نشینی اختیار کی تو اللہ سے آپ ۖ کے راز ونیاز کی ساری کیفیات کا رزاداں تو خود اللہ اور اس کے آخری رسول ہی تو ہیں مگر آپ کی سب کاوشیں اذکار اور دعا وں کے قالب میں ہی ڈھلی تھیں ۔ جنگ بدر کا موقع آیا تو تمام جنگی تیاریاں سے فارغ ہو کر آپ نے کیا کیا؟ اللہ کے حضور دست بدعا ہی ہو ئے: خدایا! اگر خدامان ِ حق کی یہ چھوٹی سی جماعت آج ہلاک ہوگئی تو کرہ ارض پر تیرا سچا عبادت گزار کوئی نہیں رہے گا۔ دعاجب رسول اللہ کی ہو شاہت الوجوہ ( کفار کے چہرے بگڑ جائیں) کے کلماتِ غضب رحمت کے پیغمبرۖ کی زبان حق بیان سے نکلیں اوربرسرجنگ منکرین کی جانب مٹھی بھر مٹی اپنے دست حق پرست سے پھینکی گئی ہوتو دین ِحق کی فتح ہونا ہی ہو نا تھی مگر تاریخ نے ایک دعائے رسول کے معجزے کا مشاہدہ بھی تو کیا۔

عمر ے کا سفر محمود ہورہاتھا ، ہمارے لئے اپنے اپنے صغیرہ کبیرہ گناہوں خطاؤں سے تائب ہونے کے لئے دعا ہی کا ایک واحد سہارا تھا ، ہمیں بھی نفس کے اندر بیٹھے ہوئے شیطان کے منہ پر انکار کی دھول اور استراد کی کالک پھینکناتھی۔ اس کے لئے ایک زبان ہی کیا،وجود کا انگ انگ دعا میں ڈھل جائے، تب بات بنے گی ۔ شاہ ہو یاگدا جب بھی آدمی اللہ کے دربار میں یقین وایمان اور عجز وانکساری کے ساتھ دست بدعا ہوتاہے تو اس کی شنوائی اور فریاد رسی ہوتی ہے ۔ ویسے بھی دعا کے بغیر ہمارے پا س کو ن سی سند ، کون سا تمغہ ، کونسا سفارشی خط ، کون سی رشوت،کون سی رشتہ وپیوست کا پندار، کس حسب ونسب کاجھوٹی شان اللہ کے حضورکام آسکتی ہے جس پرتکیہ کرکے ہم اترائیں۔ ہمارے پاس سب کچھ ہوکے بھی کچھ نہیں،سوائے ا س بھروسے کے کہ اس وحدہ لاشریک کے دربارمیں من کی مرادیں پوری ہوں گی مگرجب شرطیہ طورہم اپنے گندے ہاتھ تذلل،ندامت،فقیرانہ کم مائیگی،بے بسی ولاچاری کے سا تھ اسی طرح درازکریں جس طرح کوئی بھک منگا ہمارے دروازے پردستک دیتاہے، اس امید کے ساتھ کہ صاحب ِ خانہ کو ضرور رحم آئے گا اور اس کا دامنِ طلب استحقا ق کے طور نہیں بلکہ ا زراہ ِ کرم بھر دے گا۔ اللہ کے حضور ہماری دعا شاعر کی زبان میں کیا ہو نی چاہیے
کوئی ضبط دے نہ جلال دے
مجھے صرف اتنا کمال دے
میں ہر ایک دل کی صدابنوں
کہ زمانہ میری مثال دے
تیری رحمتوں کا نزول ہو
میری محنتوں کا صلہ ملے
مجھے مال وزر کی ہوس نہ ہو
مجھے بس تو رزق ِ حلال دے
میرے ذہن میں تیری فکر ہو
میرے سانس میں تیرا ذکرہو
تیر اخوف میری نجات ہو
سبھی خوف دل سے نکال دے

اللہ کے حضوردعا کی اجابت کے معاملے میں ہمیں ہرحال میں پرامید ہو نا چاہیے ، اللہ سے مایوسی اور قنوطیت کفر ضرور ہے مگر یہ کلام ِ نبوتۖ بھی زیر نگاہ رہے : حضرت ابو ہر یرہ رضی ا للہ تعالی سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لوگو! اللہ تعالی پاک ہے، وہ صرف پاک ہی کوقبول کرتا ہے،اوراس نے اس بارے میں جو حکم اپنے پیغمبروں کو دیاہے، وہی اپنے سب مومن بندوں کو دیاہے۔ پیغمبروں کے لئے اس کا ارشادہے: اے رسولو تم کھاؤپاک اورحلا ل غذا،ا ورعمل کرو صالح،میں خوب جانتا ہوں تمہارے اعمال اوراہل ایمان کومخاطب کرکے اس(خداوند قدوس) نے فرمایاہے کہ اے ایمان والو! تم ہمارے رزق میں سے حلال اورطیب کھاؤاورحرام سے بچو)۔ اس کے بعد حضورﷺنے ذکرفرمایا ایک ایسے آدمی کا،جوطویل سفرکرکے( کسی مقدس مقام پر)ایسی حالت میں جاتا ہے کہ اس کے بال پراگندہ ہیں اورجسم اورکپڑوں پر گردوغبارہے اورآسمان کی طرف ہاتھ اٹھاکے دعاکرتاہے: اے میرے رب،اے میرے پروردگار!اورحالت یہ ہے کہ اس کاکھاناحرام ہے،اس کاپیناحرام ہے،اس کا لباس بھی حرام ہے ،اورحرام غذا سے اس کا نشوونماہواہے، تواس آدمی کی دعاکیسے قبول ہوگی ؟؟؟( مسلم شریف )استغفراللہ من کل ذنب ۔ یہ حدیث شریف میرے اور آپ کے لئے ایک آئینہ ہے،ا یک کسوٹی ہے ، ایک لمحہ فکر یہ ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمدمرحوم( اللہ جل شانہ ان کے درجات بلند فرمائے )اس حدیث کی تشریح میں کہتے ہیں کہ آثار و قرائن سے اغلب یہی محسوس ہوتاہے شایداس گناہ گارآدمی سے مرادوہ حاجی ہے جو حلا ل خور نہ ہو ۔ واللہ یہ حدیث شریف زمانہ فتن کے ہرحساس دل وباضمیر مسلمان کے ضمیر پرایک زوردارطمانچہ ہے۔ اس سے یہ اشارہ بھی ملتاہے کہ اسی بندے کی عبادت اللہ کی بارگاہ میں قبول ومنظورہے جورزقِ حلال پرعامل ہو، ورنہ خالی اللہ اللہ پکارنے کاکوئی مطلب نہیں۔ اے اللہ!ہمیں بخش دے۔

اس حدیث رسولۖ کی روشنی میں اپنا محاسبہ کر یئے تو دل بیٹھ جائے گا، سوچ کے پتوارے نومیدیوں کے بھنورمیں پھنس جائیں گے،خطائیں دوڑکھانے کوآئیں گی،لغزشیں نیندیں حرام کریں گی ۔ شوق کے پنچھی نے حدیث ِ مبارک سنی تو کہا رکئے سینہ کائنات کے اس رازکوبھی فاش کردوں۔ہم اللہ وحدہ لاشریک کے بندے ہیں، اسی مدبر بلاوزیرکے دست بستہ غلام ہیں،ہم سراپا عصیاں،گناہ وخطا کے مرکب ،وہ رحمن ورحیم،عفوو دگرزاس کی شان ، ہم تائب ہونے والے مجرم،و ہ توبہ واستغفار کی توفیق دینے اور قبول کر نے والی ہستی۔۔۔ سنئے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت کردہ ترمذی وسنن ابی داوودکی یہ حدیث مبارک جو گناہوں کے ہوش ربا سمندر میں ڈوبتوں کے لئے ساحل ہے، ایک مژدہ جاں فزا ہے: رسول اللہ صلی ا للہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہار ے پروردگار میں بدرجہ غایت حیا اور کرم کی صفت ہے، جب بندہ اس کے آگے مانگنے کے لئے ہاتھ پھیلاتاہے تو اس کو شرم آتی ہے کہ ان کو خالی واپس کرے(کچھ نہ کچھ عطا فرمانے کا فیصلہ صادر فرماتاہے) ۔ اب تھوڑی بہت ڈھارس بند ھ گئی ۔

ٹھہر اے گناہ گار بندے! ایک اور بشارت سنئے۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے انتقال کے وقت فرمایا کہ میں نے ایک بات رسول ا للہۖ سے سنی تھی اور تم سے اب تک چھپائی تھی(اب جب کہ میرا آخری وقت ہے ، وہ امانت تمہارے سپر د کرتاہوں)۔میں نے حضور اکرم ۖ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا، آپ فرماتے تھے کہ اگر بالفرض تم سب( ملائکہ کی طرح) بے گناہ ہوجاو اور تم سے کوئی گناہ سرزد نہ ہو تو اللہ اور مخلوق پیدا کرے گا جن سے گناہ بھی سرزد ہوںگے، پھر اللہ تعالی ان کی مغفرت کا فیصلہ فرمائے گا۔( اور اس طرح سے اس کی شان ِ غفاریت کا ظہور ہوگا)۔ میں نے شوق کے پنچھی سے کہا بھئی یہ حدیث مومنین صالحین کے تسلی ہے مگر یہ گناہ کا جواز نہیں توبہ کی ترغیب ہے ، یہ زوال سے عروج اور بغاوت سے ندامت کا سہانا سفر ہے ۔ اس کا ہرگزیہ مدعا بھی نہیں کہ میں پوری ڈھٹائی گناہ کر تے جاؤں،خطاوں کابوجھ اپنے کندھوں پرلادتے رہوں، ظلم اور زیادتی میں مست ومحو ہوکر یہ تک بھول جاو کبھی جوابدہی ہونی ہے اور پھر اللہ کے عدل و انصاف کی بجائے اس سے رحم اور بخشش کے خواستگوار بنا پھروں۔ ایسا سوچنا جہالت وسفاہت ہے۔ اس سے مراد یہ ہے گناہ کر نے والے دنیا میں ضرور ہوں گے مگر وہ توبہ کی راہ سے ہمیشہ ہمیش کے لئے واپس پلٹنے والے بھی ہوں گے ۔ مثلاپیٹ کا کوئی مریض ڈاکٹر کے پا س شفا یابی کی غرض سے جاکر اس کے دئے ہوئے نسخے پر عمل کرکے غلط سلط کھاناترک کرتاہے تو کامل پر ہیز پر عامل رہ کر صحت یاب ہوجاتا ہے۔ اس ایک مریض کی صحت یابی کا یہ مطلب نہیں کہ ڈاکٹر اب ا پنا مطب ہی بند کردے اسی طرح روح کا بیماراور بے عملی و بدعملی کا مریض اللہ کے دربار میں واپس لوٹ کر اللہ ہی کے مقرر کردہ توبہ وانابت کے نسخے پر عامل ہوا، رجوع الی اللہ کیا، تو اللہ کی شان ِ غفاری سے وہ گناہ گار بھلا چنگا ہوگا ،مگر شرط دوام واستقامت سے دوا کے ساتھ مسلسل اور مکمل پر ہیز کی ہے ۔ شوق کے پنچھی نے میری توضیح درست مان لی۔ میں نے کہا ہم گناہ گار اس طیارے میں عمرہ کے لئے جارہے ہیں ، اپنے اللہ کو منانے کے لئے ہی تو جارہے ، دعا کا سروسامان ہی ہمارے ساتھ ہے ، یہ پاک سفر شیطان کے ساتھ عمر بھر کی دنگل جیت لینے اور خدائے رحمن کے دامن ِ عافیت سے چمٹنے کا بہانہ ہی توہے۔۔۔ ا بھی کچھ وقفہ ہی ہوا تھا کہ طیارے میں چائے نا شتہ آگیا۔ تھوڑے سے وقفے کے بعد نماز عشاکا وقت بھی ہو ا۔ معتمرین نے سیٹوں کے بیچوں بیچ تنگ جگہوں میں سمٹ کر ایک ایک دو دو کر کے نماز اداکی ۔ میں نے بھی نماز پڑھ لی مگر تشفی نہ ہوئی،بس گزارہ کر نا پڑا۔ واپس اپنی سیٹوں پر آگئے۔ گھڑی کی سوئیاں برابر آگے جارہی تھیں ۔ دو ہزار تین سو چراسی میل (3836.68)طویل سفر پانچ چھ گھنٹے میں طے کرنا تھا۔ آنکھیں نیند سے خالی رکھنا تھیں تاکہ وضو برقرار رہے اور میقات پر عمرے کی نیت باند ھ سکوں۔باتھ روم بس واجبی سائز کے ہوں اور پانی کاکال بھی پڑا رہے تو کیا کیجئے ۔ طیارے میں بعض لوگ تسبیحات وکلمات میں مصروف تھے ، کچھ اونگھ رہے تھے اور کچھ اپنی سیٹ کے آگے چھوٹے سائز کا ٹی وی دیکھ کر وقت گزاری کر رہے تھے۔ آج جد ید تیکنالوجی کا دور ہے ، حج اور عمر ے کا سفر سہل اور سہولیات سے مزین ہے، لیکن یہ بات ہمیشہ نہ تھی ۔ ذرا یاد کیجئے وہ زمانہ جب لوگ پیدل قافلوں کی صورت میں، اونٹوں پر یا سمندری جہازوں (مثلا ایس ایس اکبر جہاز جو بھارتی حاجیوں کو ممبئی کی بندرگاہ سے سوار کر کے حجازمقدس روانہ ہوتاتھا ۔ تک یہ سلسلہ جاری رہا ،پھر بند ہوا) میرے مرحوم والدین (اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کر ے۔ آمین )بھی سمندری جہاز سے ہی میں حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کر گئے ۔
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 353079 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.