نواز شریف کا شروع ہوگا امتحان اب

 بھارت کے سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ کے ترجمان سنجے بارو نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت سابق صدر جنرل (ر ) پرویز مشرف کے 4 نکاتی فارمولے کا نام بدل کر کشمیر امن فارمولے کے نام سے مسلہ کشمیر پر پیش رفت کرنے کے لیے تیار ہوگئے ہیں ۔پاکستان اور بھارت کے قومی سلامتی مشیروں کی بنکاک میں ملاقات سے قبل ٹریک ٹو سفارت کاری کے سلسلے میں پاکستان اور بھارت کی سرکردہ شخصیات کی ملاقات بھی بنکاک میں ہوئی ۔بنکاک میں اس خفیہ سفارت کاری میں سنجے بارو بھی شامل تھے ۔سنجے بارو نے پاکستان کی اہم شخصیت کو بتایا کہ بھارت کشمیر امن فارمولے کے تحت پاکستان سے بات چیت پر آمادہ ہوا ہے ۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کا باعث بننے والا مسلہ کشمیر کا ہے ۔ اہم بات یہ ہے کہ میاں نواز شریف کی حکومت سابق فوجی صدر جنرل (ر ) پرویز مشرف کے مسلہ کشمیر سے متعلق حل پر آمادہ ہوئی ہے ۔ اس حل کے لیے دی گئی تجاویز کا آسان الفاظ میں مطلب تقسیم کشمیر ہے ۔ جنرل (ر ) پرویز مشرف حکومت نے بھارت کی سابق من موہن سنگھ حکومت سے 4 نکاتی فارمولے پر بات چیت کے کئی دور کیے۔ اس فارمولے میں لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف فوجی انخلا ، دونوں خطوں میں سیلف گورنرننس کا قیام، لائن آف کنٹرول کو غیر متعلق بنانے کیساتھ ساتھ مشترکہ کنٹرول کی تجویز دی گئی تھی ۔2006 میں این ڈی ٹی وی سے انٹرویو میں سابق صدر جنرل (ر ) پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں وہ ہندوستان کی قیادت سے بھی ملے ، پاکستانی رہنماوں اور لوگوں سے بھی ملے اور ساتھ ہی ساتھ کشمیری رہنماوں کیساتھ بھی کھل کر ملاقاتیں کیں لیکن کہیں سے بھی مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں حل نہیں ملا اور نہ ہی کوئی ٹھوس تجویز دی گئی بلکہ سبھی لوگ مسئلہ کشمیر کا حل چاہتے تھے لیکن حل کسی کے پاس نہیں تھا۔ کافی سوچ بچار اور مشاورت کے بعد میں نے مسلہ کشمیر کے حل کا خاکہ تیار کیاا جو 4 نکات پر مشتمل تھا۔ اس 4 نکاتی فارمولے میں ، میں نے پہلے دونوں اطراف سے فوجی انخلااور سیلف گور ننس کے بعد لائن آف کنٹرول کو غیر متعلق بنانے کیساتھ ساتھ مشترکہ کنٹرول کی تجویز دی ہے ۔ 4 نکاتی فارمولے کو بھارتی حکومت کے سامنے بھی پیش کیا گیا اور بیک ڈور چینلوں کے ذریعے بھارتی وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ تک بھی پہنچایا گیا تھا۔ مشرف کا کہنا تھا کہ بھارتی وزیر اعظم نے بھی اس 4 نکاتی فارمولے پر عمل درآمد کی یقین دہانی کرائی اور اس حوالے سے باضابطہ طور پر ایک ڈرافٹ تیار کر لیا گیا میں اور وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ اس ایکشن پلان کو آگے بڑھانے کیلئے ایک حتمی حل کی جانب بڑھ چکے تھے لیکن بدقسمتی سے بھارتی وزیر اعظم کو اندرونی دبا کا سامنا رہا جبکہ پاکستان میں بھی حالات کسی حد تک بدل گئے اور یہ منصوبہ دھرا کا دھرا رہ گیا۔ بنکاک ڈپلومیسی کے نتیجے میں بھارتی وزیر خارجہ شسما سوراج نے اسلام آباد میں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کی اس موقع پر پاکستان کے وز یر اعظم اور مشیر خارجہ سے بھی ملاقات کی ۔ شسما سوراج کی اسلام آباد آمد اور پاکستان سے مذاکرات کی بحالی کی وجہ یہ بھی تھی کہ بھارتی وز یر اعظم مودی اگلے سال اسلام آباد میں سارک سربراہ کانفرنس میں اپنی شرکت کے لیے راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں ، اس لے علاوہ اگلی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس بھارت میں ہونی ہے جس میں پاکستان کی شمولیت ضروری ہے ۔بھارتی وزیر خارجہ شسما سوراج کی پاکستان آمد، وزیراعظم نواز شریف اور ان کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز سے ملاقاتوں کے بعد مشترکہ بیان میں جامع مزاکرات کی بحالی کا اعلان کیا گیا۔ مشترکہ بیان میں پاکستان بھارت جامع مذاکرات کی اصطلاح کو دوطرفہ جامع مذاکرات میں بدل دیا گیا۔ اصطلاح کی تبدیلی پاکستان کی پالیسی تبدیلی کی نشاندھی ہے یعنی پاکستان کشمیر کو دو طرفہ معاملہ بنانے پر راضی ہو گیا ہے ۔ کل جماعتی حریت کانفرنس ع کے سربراہ میر واعظ عمر فاروق ماضی میں چار نکاتی فارمولے کے حق میں جنرل مشرف کے ساتھ تھے علی گیلانی نے مخالفت کی تھی جنھیں مشرف نے پاگل بوڑھا قرار دیا تھا۔اب کی بار سب سے پہلے لبریشن فرنٹ کے یاسین ملک نے سب سے پہلے اپنے تحفظات سامنے لائے ہیں ۔ کشمیری جماعتوں کے علاوہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے بھی بھارت سے دو طرفہ جامع مذاکرات پر وضاحت طلب کی ہے ۔ جے یو آئی کے سربراہ اور کشمیر کمیٹی کے چیرمین سربراہ مولانا فضل الرحمن نے قومی اسمبلی میں حکومت سے وضاحت طلب کی ہے ان کا کہنا تھا مشترکہ بیان سے مذاکرات کے حوالے سے اصل بات کی وضاحت ظاہر نہیں ہورہی ہے۔جب پاکستان نے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت اجاگر کرنے کا فیصلہ کیا، تو ہندوستان کا کہنا تھا کہ یہ دو طرفہ مسئلہ ہے اس میں بین الاقوامی فورم استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جب اس مسئلے پر دو طرفہ بات چیت کا آغاز کیا گیا تو ہندوستان نے دلیل دی کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے، تو کوئی اس ہاوس کو یہ بتائے گا کہ حکومت اس حوالے سے ہندوستان سے کہاں تک بات کرنے جارہی ہے۔مولانا کا کہنا تھا کہ جہاں تک مسئلہ کشمیر کا تعلق ہے، اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کوئی بھی پاکستان کو اس مسئلے کو بین الاقوامی طور پر اٹھانے سے نہیں روک سکتا۔۔پاکستان تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری نے قومی اسمبلی میں حکومت سے پوچھا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے پاکستانی موقف کا کیا ہوا۔انھوں نے مشترکہ اور جامع دو طرفہ بات چیت کے درمیان فرق کی وضاحت کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ جہاں تک وہ جانتی ہیں 'مشترکہ مذاکرات کی اصطلاح بھی ہندوستان کی جانب سے بنائی گئی ہے جس کی جگہ اب نئی اصطلاح جامع مذاکرات نے لے لی ہے۔پی ٹی آئی کی رہنما نے اس بات پر حیرانگی کا اظہار کیا کہ کیا دو طرفہ بات چیت کی بحالی کے معنی یہ لیے جائیں کہ پاکستان نے متعدد مسائل اور خاص طور پر مسئلہ کشمیر کو چھوڑنے کا ارادہ کرلیا ہے۔ شیریں مزاری بھی وضاحت چاہتی ہیں تاہم حقیقت یہ ہے کہ پاکستان بھارت تعلقات کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ کشمیر ہے کشمیر کو ہندوستانی ملک کا اٹوٹ حصہ سمجھتے ہیں پاکستانی اسے متنازع خطہ مانتے ہیں، پاکستان کے شہری کشمیر بارے گہرے جذبات رکھتے ہیں ۔ خود کشمیری اس سلسلے میں مختلف رائے رکھتے ہیں ، ایک طبقہ ہندوستان کا حامی ہے اور دوسرا پاکستان کا اور تیسرا آزادی کا خواہاں ہے۔ کشمیر مسئلے کے حل کے لیے نہرو کے دور سے لے کر اب تک کی تمام کوششیں، پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کے 150 دورناکام ہوچکے ہیں ۔ پرویزمشرف ایک فوجی آمر تھے جو اپنی بات بے لاگ لپیٹ کہنے کا حوصلہ رکھتے تھے۔ چار نکاتی فارمولا کشمیریوں اور پاکستانیوں کے مزاج کے خلاف تھا مگر وہ مشرف کی فوجی طاقت کے سامنے بے بس تھے۔اب نواز شریف بھی مشرف کی کشمیر پالیسی اپنا کر کیسے قوم کا سامنا کریں گے ؟نواز شریف کا شروع ہوگا امتحان اب ۔
Sardar Ashiq Hussain
About the Author: Sardar Ashiq Hussain Read More Articles by Sardar Ashiq Hussain: 58 Articles with 50917 views
The writer is a Journalist based in Islamabad. Email : [email protected]
سردار عاشق حسین اسلام آباد میں مقیم صحافی ہیں..
.. View More