اٹھارویں ترمیم پر صدر کے دستخط

اٹھارویں ترمیم پر صدر کے دستخط ........اور دو+ دو چار روزہ قومی توانائی کانفرنس ہے.....
بجلی موجود نہیں تو پلک جھپکنے میں کہاں سے لائیں ....راجہ پرویز اشرف معصومیت یا نااہلی
حکومت ملک میں بجلی کا بحران ختم کرے .....یا وزارت پانی و بجلی

19اپریل 2010 کا دن یقیناً اہل پاکستان کے لئے خوشیوں اور مسرتوں بھرا دن ثابت ہوا کیوں کہ اِس دن آمروں کے ڈسے جمہوریت پسندوں نے مل کر اٹھارویں ترمیم کے ذریعے ملک میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے آمریت کے تابوت پر آخری کیل ٹھونک دی اور آمریت کے بھوت کا ملک میں داخل ہونے کا راستہ روک دیا اور یوں اِنہیں اپنی بقا و ملکی سلامتی کے لئے ایک اُمید کی کرن اُس وقت حقیقی معنوں میں سُجھائی دی جب صدر نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور ہونے والی33سال میں کسی بڑی آئینی اصلاحات کے پہلے بڑے پیکچ 18ویں ترمیم پر دستخط کئے اور یوں ملک میں پہلی بار کسی منتخب جمہوری صدر آصف علی زرداری نے اپنے اختیارات رضاکارانہ طور پر پارلیمنٹ کو دے دیئے اور اِس طرح18 ویں ترمیم 1973کے آئین کا باقاعدہ طور پر حصہ بن گئی۔ یہاں سوالات یہ پیدا ہوتے ہیں کہ اِس 18ویں ترمیم سے اَب کیا ملک ایک مضبوط ومستحکم حیثیت سے اُبھر کر سامنے آئے گا یا ایسا ہی رہے گا جیسا ہے ....؟اور کیا آج کے بعد ہمارے حکمران عوامی مسائل پر توجہ دیں گے ...؟یا یوں ہی وعدے اور تسلیاں دے کر کنی کٹا کر نکل جائیں گے ....؟اور کیا واقعی اٹھارویں ترمیم کے بعد ملک میں جمہوری دور کا آغاز ہوگیا ہے....؟ اور کیا حکمران، سیاستدان اور عوام اپنے دلوں پر ہاتھ رکھ کر یہ کہتے اچھے لگیں کہ اٹھارویں ترمیم سے حقیقی معنوں میں پارلیمنٹ کی تاریخی فتح ہوگئی ہے ....؟اور کیا میرے اِن سوالات کا تسلی بخش جواب اٹھارویں ترمیم کے لئے بیتاب حکمران، سیاستدان اور عوام دے سکیں گے.....؟کہ ملک آج کے بعد کس جانب گامزن ہوگا.....؟

بہرکیف! یہ ایک خوش آئندہ امر ہے کہ اِس جمہوری حکومت کا یہ عمل ملکی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ضرور کرے گا اور اِس کے ساتھ ہی یہ بھی قوی اُمید کی جاری ہے کہ اگر اِس کے بعد اَب کوئی سیاسی اور آئینی بحران ملک میں نہ آیا تو اِس سے اٹھارویں ترمیم سے آئندہ ملک کے حالات اور مسائل کی گتھی بھی کسی حد تک ضرور سلجھ جائے گی اور ملک اور قوم ایک بار پھر ترقی و خوشحالی کی اُس راہ پر گامزن ہوجائیں گے جو برسوں سے اِن کے لئے آمروں نے بند کر رکھی تھی۔

ایسے ہی خیالات کا اظہار صدر مملکت آصف علی زرداری نے ایوان صدر میں18ویں ترمیم پر دستخط کرنے کے بعد اپنے خطاب میں کیا اُنہوں نے کہا کہ قومی مفاہمت کی پالیسی نے یقیناً آج آمرانہ دور کی ترامیم کا خاتمہ ممکن بنادیا ہے اور اَب اِسی طرح ملک کی سیاسی جماعتوں اور قوم کو یہ بھی ثابت کرنا ہے کہ اگر سیاستدان اور قوم متحد ومنظم ہوں تو ملک سے لوڈشیڈنگ، غربت، مہنگائی، بے روزگاری اور امن وامان جیسے مسائل سے بھی اِسی قومی مفاہمتی عمل کے ذریعے نجات مل سکتی ہے۔

یہاں میراخیال یہ ہے کہ صدر مملکت آصف علی زرداری نے اپنے اِس خطاب میں جس عزم اور ہمت کا تذکرہ کیا ہے وہ اپنی جگہ درست تو ہے مگر ایسی حالت میں کہ جب ملک ہر طرف سے نت نئے بحرانوں میں گھیرا ہوا ہے تو ضرورت اِس امر کی ہے کہ اِس کے لئے سب سے پہلے سیاستدانوں اور عوام میں ایک دوسرے پر اعتماد کا رشتہ بحال کیا جائے اور اِس کے لئے یہ بھی بہت ضروری ہے کہ سب سے پہلے سیاستدانوں کو اپنے قول و فعل سے یہ ثابت کرنا بھی لازمی ہے کہ وہ عوام کے خیر خواہ ہیں اور اِن کا ہر عمل ملک اور قوم کی بہتری کے لئے ہے اِس کے علاوہ اِن کی اور کوئی سوچ کبھی تھی اور نہ کبھی اِس سے ہٹ کر اِن کی سوچ کوئی اور ہوسکتی ہے۔

جبکہ اٹھارویں ترمیم کی تقریب ِدستخط سے قبل وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے جن خیالات اور افکار کا اظہار کیا اِن پر اگر جوں کہ توں عمل ہوجائے تو یقیناً ملک و قوم کی تقدیر اور حالات بدلنے میں کوئی دیر نہیں لگے گی مگر اِس سے قبل یہ بات بھی ہمارے حکمرانوں کے ذہنوں میں رہے کہ ملک میں اٹھارویں ترمیم کی منظوری اور اِسے 1973کے آئین کا حصہ بن جانے کے بعد سیاستدانوں کے پاس کوئی چارہ نہیں رہ جاتا ہے کہ وہ پھر عوام کو بے وقوف بنانے اور اپنی سیاست چمکانے کے بہانے تلاش کرتے پھریں اور پھر حکمران اور سیاستدان عوامی مسائل حل کرنے کے بجائے کسی ایسے مسئلے کو جنم دے دیں جو طویل عرصہ حل طلب رہے اور ہمارے سیاستدان اور حکمران اِسے حل کرنے کے چکر میں پڑ کر عوام کے مسائل کو بھول جائیں۔ اور بیچاری عوام ایک بار پھر حکمرانوں اور سیاستدانوں کے کسی سیاسی گھن چکر میں پس کر رہ جائے۔

اِس سے قبل کہ ہمارے سیاستدان اور حکمران پھر کسی سازش کا شکار ہوجائیں اِنہیں ہر صُورت میں یہ چاہئے کہ سب سے پہلے اپنے اُن وعدوں کے مطابق جو یہ متعدد بار عوام سے کرچکے اُن مسائل کو حل کردیں جو گزشتہ کئی سالوں سے حل طلب ہیں جیسا کہ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ عام آدمی کو توانائی، لوڈشیڈنگ، غربت ناخواندگی، صحت اور پسماندگی جیسے مسائل کا سامنا ہے انہوں نے کہا کہ ہمیں آج عوامی مسائل کے چیلنجز سے نمٹنے کے لئے بھرپور صلاحیتیں بروئے کار لانا ہوں گی اِن کا کہنا تھا کہ عوام کو مطمئین کئے بغیر ملک میں جمہوریت کسی بھی طرح سے مستحکم نہیں ہوسکتی۔

اگرچہ وزیراعظم نے اٹھارویں ترمیم پر صدر کے دستخط کے لئے منعقدہ تقریب میں صدر مملکت کے خطاب سے قبل اپنی تقریر میں بڑے جذباتی انداز سے عوام کو درپیش مسائل کے حل کے سلسلے میں جتنا کہا اِن پر وزیراعظم عمل بھی کروا دیں تو میں سمجھتا ہوں کہ سو فیصد نہیں تو ٹونٹی فائف پرسنٹ ضرور عوامی مسائل حل ہوجائیں گے مگر یہاں افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ ہمارے حکمران اپنی ایسی جذباتی تقاریر تو بہت کرتے ہیں مگر عملی طور پر عوام کے لئے کچھ کردکھانے کے موڈ میں کبھی نہیں رہتے۔

اَب اِسی کو ہی دیکھ لیجئے !کہ گزشتہ دنوں ملک میں بجلی اور توانائی کے بحران کے حل کے لئے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی سربراہی میں لوڈشیڈنگ کے مسئلے کا حل نکالنے کے لئے جب دو روزہ قومی توانائی کانفرنس کا اسلام آباد میں انعقاد کیا گیا تو اِس کا بھی اِن دونوں میں کو حل نہ نکل سکا تو اِس کے لئے مزید دو روز کے لئے وقت لیا گیا یوں یہ دو روزہ توانائی کانفرنس چار روزہ انرجی کانفرنس میں بدل گئی اِس کانفرنس کی جو سب سے زیادہ اہم بات یہ تھی کہ اِس اپنی نوعیت کی اہم ترین انرجی کانفرنس میں چاروں وزرائے اعلیٰ ، وفاقی وزیر پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف سمیت تکنیکی ماہرین نے بھی شرکت کی جو پہلے روز ہی سے شدید نوعیت کے اختلاف کا ہی شکار رہی گویا کہ اِس کانفرنس کی شروعات ہی اختلاف سے ہوئی اور جو اپنے اختتام کے آخری روزتک اختلافات کی زد میں ہی رہی مگر پھر بھی جس میں بجلی اور توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لئے ایک نونکاتی فارمولا جو وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی جانب سے تھا پیش کیا گیا۔

جبکہ کانفرنس کے آغاز سے قبل وفاقی وزیر پانی و بجلی راجہ اشرف نے ایک بریفنگ دی جس میں حکومت کی جانب سے بجلی اور توانائی کے بحران سمیت ملک بھر میں ہونے والی بجلی کی لوڈشیڈنگ اور بجلی کی طلب و رسد کے حوالے سے حکومت کی جانب سے کئے گئے تمام اقدامات اور منصوبوں کی بھی بریفنگ دی گئی۔اِس دوران وفاقی وزیر پانی و بجلی راجہ اشرف کا یہ کہنا بڑا ہی مضحکہ خیز رہا اور ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ اپنی اِس وزارت سے بیزار آچکے ہیں اُنہوں نے اپنی بڑی معصومیت یا اپنی نااہلی کی بنا پر یہ کہا کہ” ملک میں بجلی موجود ہی نہیں تو پلک جھپکنے میں کہاں سے لائیں“اِس سے یہ اندازا نخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ جب اِس حکومت کے وفاقی وزیر پانی و بجلی راجہ اشرف اتنی بڑی بات یوں آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ جیسے اِنہیں عوام کی تکالیف کا کوئی احساس ہی نہ ہو کہ عوام بجلی اور توانائی کے بحران کے باعث کس ذہنی اور جسمانی اذیت کا شکار ہے اِس منظر اور پس منظر میں اَب عوام اگر حکومت سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ جب وفاقی وزیر برائے پانی وبجلی عوامی تکالیف کا احساس کئے بغیر اتنی آسانی سے اپنا یہ غیر ذمہ دارانہ بیان دے کر جان چھڑانا چاہ رہے ہیں تو پھر حکومت وفاقی وزیر برائے پانی وبجلی راجہ اشرف سے پانی و بجلی کا قلمدان واپس لے یا اگر اِن کے بعد بھی کوئی پانی وبجلی کا وفاقی وزیر بجلی اور توانائی کے بحران پر قابو نہ پاسکے تو پھر حکومت اِس وزرات کو ہی ختم کردے کیونکہ آج ملک بھر میں پانی و بجلی کی وزارت ہی حکومت کی نیک نامی پر ایک بدنما داغ کی صورت میں نظر آرہی ہے اور حکومت کی اَب تک کی دو سالہ تاریخ میں حکومتی کارناموں کے لحاظ سے سب زیادہ عوامی اور سیاسی تنقید کا نشانہ بھی حکومت اِسی پانی و بجلی کی وزارت کی ہی وجہ سے بنی ہوئی ہے۔

اور اِس کے ساتھ ہی یہ بھی حقیقت جو اَب ایک کھلی کتاب کی طرح سے سامنے آچکی ہے کہ ملک میں جاری بجلی اور توانائی کے بدترین بحران پر قابو پانے کے لئے وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی سربراہی میں جو دو روزہ توانائی کانفرنس جاری تھی اِس کے اختتام کے روز ہی وزیر اعظم نے اِس کانفرنس کے شرکا کو دو روز کے لئے مزید اسلام آباد میں روک لیا اِس طرح یہ انرجی کانفرنس دو جمع دو چار روزہ انرجی کانفرنس بن گئی تھی۔ اگرچہ اِس سے بھی انکار نہیں کہ اِس کانفرنس کے تیسرے روز تمام صوبائی حکومتوں، متعلقہ وفاقی وزارتوں اور اداروں نے اپنا مؤقف انرجی کانفرنس میں پیش کیا جس پر سفارشات چوتھے روز وزیر اعظم کو پیش کی گئیں اور اِسی تیسرے روز یہ بھی کہا گیا کہ جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہیں کیا جائے گا تجاویز کا تفصیلی جائزہ لیا جائے گا اور اِس کے بعد ہی کوئی طویل المیعاد مربوط لائحہ عمل تیار کیا جائے گا۔ جس سے متعلق ایک خبر یہ ہے کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے عوام کو ریلف دینے اور ملک کو بجلی اور توانائی کے بحران سے نکالنے اور اِس کا حل ڈھونڈنے کے لئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرنے کے لئے 4تکنیکی اور4 سب کمیٹیاں قائم کردی تھیں اَب دیکھتے یہ ہیں کہ وزیراعظم کی بنائی گئیں یہ کمیٹیاں ملک سے بجلی اور توانائی کا بحران قابو کرنے اور اِسے ختم کرنے کے لئے کیا گُل کِھلاتی ہیں یا یہ کمیٹیاں بھی بن کِھلے مُرجھا جائیں گیں یا واقعی ملک و قوم کے لئے ایسا کچھ کر گزریں گی جس سے ملک بجلی اور توانائی کا بحران ختم ہوگا اور یہ کمیٹیاں بھی امر ہوجائیں گئیں۔

بہر حال! مگر اِدھر راقم الحروف کا خیال یہ ہے کہ وہ انرجی کانفرنس جو اپنے پہلے ہی روز سے صرف اِس بنا پر کہ ہفتے میں 2چھٹیوں اور بازار شام7بجے بند کئے جانے کے نکات پر شدید نوعیت کے اختلافات کی ہی زد میں رہی بھلا اُس کانفرنس کے شرکا کیا فیصلہ کرسکتے تھے جو اپنے اِن چھوٹے چھوٹے اختلاف کی وجہ سے پہلے ہی خود پریشان تھے وہ ملک میں توانائی کے بحران جیسے مسئلے کو حل کرنے میں چار روز میں تو کیا وہ چار سال میں بھی کوئی حتمی فیصلے نہیں کرسکتے تھے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اِس اہم نوعیت کی کانفرنس کے انعقاد سے قبل حکومت ہفتہ دس روز قبل پہلے ہی بجلی اور توانائی کے بحران کے حوالے سے پیدا ہونے والے اِس نوعیت کے اختلافات کو ختم کراتی اور پہلے ہی ہفتے میں 2روز کی چھٹیوں اور بازار شام 7بجے بندکرانے کا نوٹیفیکشن جاری کردیتی تو شائد اِس کانفرنس میں کوئی اختلاف پیدا ہی نہ ہوتا اور اِس کے بعد اِس کانفرنس کو منعقد کرتی تو شائد اِس کے کچھ بہتر نتائج بھی نکلتے (جو محض 2چھٹیوں اور بازار شام 7بجے بند کئے جانے کی بنا پر یہ کانفرنس ڈیڈلاک کا شکار رہی اِس میں مزید توسیع کرنی پڑی) مگر اِب جبکہ حکومت نے جلد بازی میں یہ کانفرنس کروا ہی لی تھی تو پھر اِس پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی تھی کہ وہ سب سے پہلے اِس کانفرنس کے شرکا کو آپس کے اختلافات کی بھٹی میں جلنے سے بھی بچاتی اور اِنہیں اِس سے نکالنے کا بھی کوئی توڑ کرلیتی تو پھر اِس کانفرنس کے شرکا سے کسی قومی اور ملکی مفاد میں فیصلہ کراتی اور بالآخر اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اِس کے بغیر عجلت میں بلائی گئی توانائی کانفرنس کوئی دیر پا اور طویل المیعاد فیصلہ کئے بغیر ہی اختتام پذیر ہوگئی۔

اُدھر پاکستان کی اندرونی اور بیرونی حوالوں سے پل پل کی بدلتی ہوئی صورت حال پر نظر رکھنے والے امریکا نے پاکستان میں بجلی اور توانائی کے بحران میں آتی ہوئی شدت کے پیشِ نظر کہا ہے کہ پاکستان میں طویل لوڈشیڈنگ ناقابل برداشت ہے امریکا پاکستانی عوام کی مدد کے لئے آخری حد تک جائے گا اِن خیالات کا اظہار پاکستان اور افغانستان کے لئے امریکا کے خصوصی نمائندے رچرڈ ہالبروک نے گزشتہ دنوں چیئرمین آف ورلڈ کونسلز آف امریکا مارک رونمن کے تحت ایک مذاکرے میں کیا اُنہوں نے کہا کہ امریکا اور صدر اوباما انتظامیہ پاکستان میں پیدا ہونے والے توانائی کے بحران کو گہری تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے اور امریکا نے یہ تہیہ کر رکھا ہے کہ وہ پاکستان میں توانائی کے بحران کو فوری طور پر حل کرنے میں اپنی ہر ممکن مدد کرے گا اِس حوالے سے امریکا پاکستان میں پہلے ہی اپنے کئی منصوبے شروع کرچکا ہے۔ اور اسی طرح صدر مملکت آصف علی زرداری نے بھی ایک بار پھر کہا ہے کہ ہماری حکومت کی یہ اولین ترجیح ہے کہ ملک 18ترمیم کی منظوری کی طرح حکومت لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لئے جنگی اقدامات کرے گی۔ کیا واقعی کرے گی.؟(ختم شد)
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 893958 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.