ایک قیمتی مسئلہ

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر، جہاں کی آبادی دو کروڑ سے تجاوز کرگئی ہے۔ پاکستان کے میٹروپولیٹن شہروں میں کراچی کے ساتھ ساتھ اسلام آباد، لاہور، راولپنڈی، کوئٹہ اور پشاور شامل ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے لاہور اور اسلام آباد جانے کا اتفاق ہوا۔ اسلام آباد کی تو کیا ہی بات تھی۔ ٹریفک کا نظام اتنا منظم تھا کہ کم سے کم کراچی والے تو دیکھ کر حیرت اور خوشی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ حسرت کرتے رہ جائیں کہ کاش ہمارے شہر میں بھی ٹریفک کی یہی صورت حال ہوتی۔ جو لوگ میری طرح کراچی میں روزانہ ٹریفک کے ستائے ہوئے ہیں ان کے لیے تو کم از کم میری بات کو سمجھنا آسان ہوگا۔ اب بات کرتے ہیں دوسرے شہر لاہور کی۔ یہ شہر بھی کوئی کم حیرت کا باعث نہ تھا۔ میٹرو بسیں، سڑکیں، صفائی کا معیار سب کچھ ہی کم سے کم کراچی کے مقابلے میں بہت شاندار تھا۔ یہی کچھ حال کوئٹہ اور پشاور کا بھی ہے۔ کہنے کو یہ سب کراچی کے مقابلے میں چھوٹے شہر ہیں، لیکن وہاں حکومت کی کارکردگی نظر آتی ہے۔ گورنمنٹ اسکولز سے لے کر سڑکیں، ادارے، امن امان کی صورت حال، نئے نئے پروجیکٹس․․․․ نظر آتا ہے کہ کام ہو رہا ہے۔ خامیاں یقیناً ہوں گی، لیکن یہ پتا چلتا ہے کہ حکومت ہے، اداروں کی رٹ بھی قائم ہے اور امن امان کی صورت حال کو یقینی بنانے کے لیے ادارے سرگرم نظر آتے۔

جب سندھ اور کراچی کی بات کی جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ یہاں کے لوگ اپنی مدد آپ کے تحت زندگی بسر کر رہے ہیں۔ مسائل ہیں کہ ایک نہ ختم ہونے والی فہرست ہے۔ مسائل کا رونا روتے روتے اب تو صحافی حضرات بھی عاجز آگئے ہیں اور عوام نے تو سوچنا ہی چھوڑ دیا کہ کبھی ان کی طرف کوئی نگاہِ کرم مرکوز ہوگی اور کراچی کے مسائل کا کوئی حل مل سکے گا۔

ان مسائل میں سرفہرست پانی کی کم یابی ہے۔ ہم چھوٹے تھے تو منرل واٹر کا نیا نیا فیشن چلا ا تھا۔ منرل واٹر پینا اسٹیٹس سمبل سمجھاجاتا تھا۔ اُس وقت میری والدہ کہتی تھیں،’’دیکھنا! ایک وقت ایسا آئے گا کہ نہانے کے لیے بھی پانی خریدنا پڑے گا۔‘‘ اور ہم سوچتے تھے ایسا کیسے ممکن ہے پانی کو خریدنا پڑے؟ بہت پرانی بات بھی نہیں، لیکن چند سالوں میں سارے خاندان کے لیے پانی خریدنا ایک مجبوری بن گیا ہے۔ پہلے ٹینکر خرید کے پانی ڈلوائے، پھر پینے کے لیے منرل واٹر خریدیے، پانی تو نہیں آئے گا، چاہے جتنے پاپڑ بیل لیجیے۔ یہ تو ایسی نایاب چیز ہے کہ اب نہیں ملتا، اور مزے کی بات یہ ہے کہ کراچی والوں نے تو اس حوالے سے سوچنا ہی چھوڑ دیا ہے کہ انہیں نَلوں سے میٹھا پانی میسر آسکتا ہے۔ ہماری آگے آنے والی نسل تو اس بارے میں سوچے گی بھی نہیں۔ اب تو حال یہ ہے کہ گھر کے بجٹ میں ایک مخصوص رقم فقط پانی خریدنے کے لیے رکھی جاتی ہے۔

چلیں پانی کا مسئلہ حل کرتے ہیں اور زیرِزمین پانی نکالنے کے لیے کسی مزدور کو ٹھیکا دے دیتے ہیں، تاکہ روز روز پانی خریدنے کے جھنجٹ سے نجات مل سکے۔ بورنگ کروالی جائے، ایک دفعہ کا خرچہ ہوگا، ایک لاکھ کے لگ بھگ رقم اپنا پیٹ کاٹ کر گھر کے بجٹ سے نکال کر، یہاں وہاں سے ادھار کرکے، اس مصرف میں لگادی جائے۔ لیکن یہ کیا، کراچی والوں کی تو قسمت ہی خراب ہے۔ سمندری پانی کی سطح بلند ہونے کی باتیں پچھلے پندرہ سالوں سے تو سن رہے تھے، اب یہ بات حقیقت ہوتی نظر آرہی ہے۔ پیسے خرچ کرکے بورنگ کروا بھی لی گئی تب بھی کھارا پانی مقدر بنے گا۔ کراچی میں کھدوائے جانے والے اسی فیصد کنوؤں کا پانی اب کھارا ہی نکلتا ہے۔ سو اب نہانے اور پینے کے لیے تو پانی خریدنا ہی پڑے گا۔

کیا کیجیے، آپ کو در اصل سزا دی گئی ہے کہ آپ کراچی کے باسی ہیں، تو اب بھگتیے، اس طرح تو ہوگا آپ کے ساتھ۔ یہ صوبائی حکومت اور ادارہ فراہمی و نکاسی آب کراچی کی مجرمانہ غفلت اور نااہلی ہے جس نے کراچی کو پانی کے سنگین بحران سے دوچار کردیا ہے۔ شہر کو فراہمی آب کے ایک اہم ذریعے حب ڈیم کے بارشوں کی کمی کے باعث خشک ہونے کے باعث شہر میں پانی کا بحران دو سال سے جاری ہے اور شہر میں پانی کی قلت اب 700 ملین گیلن یومیہ تک پہنچ چکی ہے۔2 کروڑ سے زاید آبادی کے شہر کو صرف 400 ملین گیلن یومیہ پانی فراہم کیا جارہا ہے۔ شہریوں کو اس تکلیف سے دوچار نہ ہونا پڑتا اگر حکومت بروقت 4 منصوبے مکمل کرلیتی، جن میں دریائے سندھ سے65 ملین گیلن پانی کی فراہمی اور ڈملوٹی کے کنوؤں کو فعال کرکے16ملین گیلن پانی کی یومیہ فراہمی کے منصوبے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ دھابیجی پمپنگ ہاؤس کے پمپوں کی مرمت اور فراہمی آب کی لائنوں میں رساؤ کی مرمت کرلی جاتی تو مجموعی طور پر230 ملین گیلن سے زاید پانی کی فراہمی ممکن بناکر اس بحران میں کچھ کمی لائی جاسکتی تھی۔ علاوہ ازیں زیرزمین لائنوں سے پانی کی چوری، سرکاری ہائیڈرینٹس کی بدانتظامی پر قابو پانے اور والز آپریشن نظام کو بہتر بناکر بھی کراچی کے مضافاتی علاقوں کو فراہمی آب میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔ لیکن عوام کی مشکلات اور مسائل سے کسے غرض ہے، سو یہ سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔

کیا واٹر بورڈ کے افسران اس بات سے واقف نہیں ہیں کہ ان کے ملازمین کس طرح میٹھے پانی کی لائن دینے کے لیے عوام سے پیسے بٹور رہے ہیں۔ وال مین سے لے کر اوپر تک سب ملی بھگت سے چاندی بنا رہے ہیں۔ وفاقی حکومت کو تو کراچی کے باسیوں کا کوئی دکھ نظرہی آتا نہیں، رہی صوبائی حکومت تو وہ تو صوبے میں آٹھ سال حکومت کرنے کے بعد بھی اپنے سے پہلے والوں کو ہی رو رہی ہے۔ پہلے والوں کی غلطیاں گنوائی جاتی ہیں -

لیکن گزشتہ آٹھ سال میں خود موجودہ حکومت کی کیا کارکردگی رہی؟ اس پر خاموشی ہی چھائی رہتی ہے۔

چلیں ان منصوبوں کی بات کی جائے جن پر سندھ کی حکومت کام کرنے اور صوبے کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے دعوے کرتی ہے۔ ان میں سے ایک منصوبہ ر و پلانٹ کا ہے، جو اربوں روپے کی رقم دے کر بھی مکمل نہ ہوسکا۔ اپنے لوگوں کو ٹھیکے دے کر حکومتی خزانے سے رقم بانٹی جاتی ہے، لیکن منصوبوں کی کارکردگی عوام کے لیے صفر ہے۔

آخر کوئی پوچھنے والا ہے ان لوگوں سے جو جگہ جگہ پانی بیچنے کا کاروبار کر رہے ہیں؟ جب اس علاقے میں جہاں لوگ میٹھے پانی کے لیے ترستے ہیں، وہاں ان پانی کے بیوپاریوں کی، کون سی طاقت مدد کرتی ہے اور بہت آرام سے میٹھے پانی کے کنکشن کھینچ کھانچ کر ان تک پہچائے دیے جاتے ہیں۔

ایک سوال یہ بھی ہے کہ آخر یہ کون سا منرل واٹر ہے جو ایک روپیہ فی لیٹر پر بیچا جا رہا۔

میں یہ نہیں کہتی کہ کارروائیاں نہیں ہوتیں اور پولیس کچھ نہیں کر رہی۔ بہت سے مقامات پر چھاپے مارے گئے، پانی کا غیرقانونی کاروبار ختم کروادیا گیا، لیکن کچھ دنوں بعد یہ دھندا دوبارہ شروع ہوجاتا ہے۔ کہیں پولیس بھتا لے کر پانی بیچنے کی آزادی دے دیتی ہے تو کہیں اثرورسوخ استعمال کرکے معاملات چلائے جارہے ہیں۔

پانی کا کاروبار چلانے کے لیے لائسنس مانگا جا تا ہے، جو دے دلا کر حاصل کرلیا جاتا ہے اور لااینڈآرڈر کے ذمے دار ادارے لائسنس دیکھ کر خاموش ہوجاتے ہیں۔ یہ کوئی نہیں پوچھتا کے آخر پانی کا کنکشن اس آب فروش کو کیسے ملا جب کہ اور لوگ سال ہا سال سے زیرِزمین کھارا پانی پینے پر مجبور ہیں۔

جس شہر میں لوگ پانی کے لیے ترس رہے ہیں وہاں پانی بیچنے کا کاروبار عروج پر ہے۔ چھوٹی چھوٹی سوزوکیاں گلی گلی میٹھا پانی بیچ رہی ہیں۔ ٹینکر مافیا اپنا کام کر رہی ہے۔ پانی کی دکانیں چلانے والے اپنی دولت میں اضافہ کررہے ہیں۔ بورنگ کرنے والے اپنا کام کر رہے ہیں۔ بورنگ کے پانی کو کھینچنے کے لیے استعمال ہونے والے پمپ کی مانگ میں سو فیصد اضافہ ہوچکا ہے، لہٰذا پمپ بیچنے اور بنانے والوں کے بھی وارے نیارے ہیں۔ واٹر بورڈ کا عملہ عوام کے ٹیکسوں سے اپنی تنخواہیں لے رہا ہے۔ وال مین اپنے پیسے بنا رہے ہیں۔ یعنی کراچی میں پانی کی قلت سے کتنوں کا بھلا ہورہا ہے! اب ایسا قیمتی اور سودمند مسئلہ کوئی کیوں حل کرے اور کیوں حل ہونے دیا جائے۔

Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 283074 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.