شور اور شعور

 قیامت کی نشانیاں ایک کے بعدایک منظرعام پرآرہی ہیں،یہ برائی اوربروں کادورہے ۔شعبدہ بازاپنے شورسے شعور کودبارہے ہیں۔آج انسان کوکردارکی بجائے دولت اورشہرت کے ترازومیں تولناشروع کردیا گیا ہے ۔جس قوم کاکوئی قومی ضابطہ اخلاق نہ ہو، جہاں قومی حمیت کی حفاظت کوضروری نہ سمجھا جائے ،جہاں معاشرتی اورصحافتی اقدارکوسنجیدگی سے نہ لیا جائے وہاں ریحام خان ،ملالہ،وینا ملک ،میرااورگلوبٹ قسم کے کردارابھرتے ہیں۔ریحام خان شہرت اوردولت کی بھوک مٹانے کیلئے منفی ہتھکنڈوں پراترآئی ہے جبکہ ہم اسے ایک اعلیٰ اورآئیڈیل شخصیت کے روپ میں پیش کررہے ہیں، ''بدنام ہوں گے توکیا نام توہوگا''ریحام خان کاماٹوہے۔عمران خان نے ریحام خان سے شادی کرکے غلطی کی تھی لیکن اگروہ اس غلطی کامداوانہ کرتا تو یہ اس کی غلطی نہیں بلکہ مجرمانہ غفلت ہوتی کیونکہ ریحام خان نے محبت نہیں شہرت اوردولت کیلئے عمران خان کے ساتھ نکاح کیا تھا۔عمران خان نے ریحام خان اور جاویدہاشمی کی طرح جس کوبھی عزت دی اس نے اسے رسوا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ریحام خان کے گھٹیا الزامات پرعمران خان کی خاموشی ان کیلئے مفید ہے۔عمران خان حکمرانوں کی غلطیوں سے اس مقام تک آیامگراب وہ خود غلطیاں کرکے حکمرانوں کاراستہ ہموار کررہاہے۔ مجھے اپنے معاشرے کامجوعی منظرنامہ دیکھ کر پنجابی کامحارہ'' جِنا لچااوہنااُچا''بارباریادآتا ہے ، زیادہ تر لچے مزے کررہے ہیں ۔اسلامی معاشرے میں حلال حرام کی تمیزاورتفریق کا ختم ہوجاناکسی سانحہ سے کم نہیں۔حکومت کی ترجیحات آئین کی تعلیمات اورعوام کی ضروریات سے مطابقت نہیں رکھتیں۔دشواریاں نہیں عوام کیلئے آسانیاں پیداکرناگڈگورننس ہے۔حکمران دھڑادھڑ شاہراہیں ،پل اورانڈرپاس تو تعمیرکررہے ہیں مگر تعمیر ملت ان کاایجنڈا ہرگز نہیں ہے ۔ہم نے اپنے نوجوانوں کے ہاتھوں میں جدیدٹیکنالوجی توتھمادی مگرانہیں اخلاقیات کادرس دیاگیا اورنہ اسلامی اقدارکی روشنی میں ان کی تربیت کی گئی۔ہم اسلامی ریاست ہیں مگرہمارے ہاں سرکاری سرپرستی میں سودکاکاروبار عام ہے۔جواء کھیلنے اورشراب کی فروخت پرٹیکس وصول کیا جارہا ہے پھر اس ملک کی معیشت کس طرح پنپ سکتی ہے۔اگرکوئی کافر قرآن مجید کاتقدس پامال کردے توہم پرتشدد احتجاجی مظاہر وں پراترآتے ہیں مگراپنے ہاتھوں سے مقدس اوراق کی توہین پرہماراضمیر ہمیں نہیں جھنجوڑتا۔اخبارات پرقرآن مجید کی آیات کاترجمہ شائع ہوتا ہے جبکہ احادیث نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم اورحرمین شریفین کی تصاویر بھی چھپتی ہیں اور آج کااخبارکل ردی کی قیمت پر فروخت کردیا جاتا ہے جوبعدازاں کوڑ ے کرکٹ کے ڈھیروں پرپڑے ہوتے ہیں مگرہم میں سے کوئی ان مقدس اوراق کواٹھاناتک گوارہ نہیں کرتالیکن اگردس روپے کانوٹ زمین پر گرانظرآجائے توہم سب اس پرٹوٹ پڑتے ہیں۔حکومت نے کئی ادارے بنائے ہیں مگر آج تک کسی کو مقدس اوراق کی حفاظت کیلئے کوئی ادارہ بنانے کی توفیق نہیں ہوئی ،میں سمجھتا ہوں ہمارے اس اجتماعی گناہ کی نحوست کے سبب ہمیں بحیثیت قوم دہشت،ذلت اورقیادت کی قلت کاسامنا ہے۔اگراسلامی ریاست کی لبرل حکومت مقدس اوراق کی حفاظت کیلئے ادارہ نہیں بناسکتی توخدار امقدس اوراق سمیت اخبارات کے بطورردی استعال پرپابندی لگادے ۔حضرت علی ؓ نے نہج البلاغہ میں فرمایا،''جب حکومت نیک ہوتی ہے تومتقی لوگوں کوکام کرنے کاموقع ملتا ہے اورجب حکمران فاسق وفاجرہوں توبدبخت کمینے لوگوں کومزااڑانے کومل جاتا ہے یہاں تک کہ اس کی مدت تمام ہوجائے اورموت اسے اپنی گرفت میں لے لے ''۔عوام بار بار ناکامی اورمایوسی کے باوجود اپنے تجربات سے کچھ نہیں سیکھتے ۔عوام کے ووٹ میں ایٹم بم سے زیادہ طاقت ہے ۔تاہم ووٹ کاسٹ کرناکارثواب نہیں بلکہ ووٹ ڈالنایانہ ڈالنا عوام کابنیادی حق ہے ۔ ووٹ کو مقدس امانت کہاجاتا ہے ،اگرواقعی ایسا ہے تو پھرووٹ کھمبوں کونہیں صرف اہل امیدوارکودیاجا ئے ۔پاکستان کی سیاست اورتجارت میں کوئی خاص فرق نہیں رہا ۔

اب وہ اقدارباقی رہیں اورنہ وہ معیاررہے ،سب کچھ تبدیل ہوگیا ۔ عہدحاضرمیں باروداوربم دھماکے سے انسانوں کوموت کی گھاٹ اتارنادہشت گردی جبکہ بھوک اور فاقے سے انہیں قبرمیں اتارناجمہوریت ہے ۔غروراورغفلت کانشہ شراب اورکوکین سے بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے ،جوایک باراس نشے کے عادی ہوجا ئے پھروہ زندگی بھر ہوش میں نہیں آتا۔اچھائی کے مقابلے میں برائی کاحجم بڑھنابھی قیامت کی نشانیوں میں سے ایک ہے مگراس کاہرگزیہ مطلب نہیں کہ ہم ناامید یامایوس ہوجائیں ۔یزید ملعون نے بھی دھوکے اوردھونس سے اقتدارہتھیایا تھا۔ اس کے حامی بظاہر بڑی تعدادمیں اور اہم عہدوں پربراجمان تھے جبکہ امام حسین ؑ اوران کے حامی بظاہر قلیل تعدادمیں تھے مگرانہوں نے یزید کی اطاعت کرنے سے دوٹوک انکار کردیا تھا۔مجھے ان لوگوں پرترس آتا ہے جو اپنافرض سمجھ کر ہرصاحب اقتدارکی عزت اور اطاعت جبکہ دوسروں کوبھی اس کی تلقین کرتے ہیں۔کسی بھی انسان کی عزت اقتدار نہیں بلکہ اس کے افکاراورکردارکی بنیادپر کی جائے ۔پاکستان کے زیادہ ترلوگ انتخابی سیاست سے پوری طرح متنفراوربیزار ہیں کیونکہ امیدوارکردار نہیں چمک کی بنیادپرمنتخب ہوتے ہیں۔پچھلی کئی دہائیوں سے کہاجارہا ہے کہ فلاں جماعت اگرکسی کھمبے کوبھی پارٹی ٹکٹ دے گی تووہ باآسانی جیت جائے گا،کیا ووٹرز کیلئے اس سے بڑی کوئی گالی ہوسکتی ہے۔اسلامی تعلیمات کی روسے کسی انسان کاخود کیلئے کوئی عہدہ یامنصب طلب کرنایاخواہش رکھناحرام ہے یعنی وہ اس کے اہل نہیں جبکہ پاکستان میں رائج جمہوری نظام میں لوگ کسی بھی عہدے اورمنصب کیلئے امیدواربن سکتے ہیں ۔اسلام نے منصب کیلئے متقی،زاہدوعابد اورپرہیزگارہونے کاجومعیارمقررکیا ہے،آج اس معیار پرشاید ہی کوئی پورااترتا ہو۔ آج منصب حاصل کرنے اوراقتدارمیں آنے کیلئے ہزاروں چورراستو ں کاآزادانہ استعمال کیا جاتا ہے ۔

حضرت علی ؓ نے فرمایا تھا، ''انسان کے کردارکی دومنزلیں ہیں یادل میں اترجانایادل سے اترجانا''۔ہمارے سیاستدان بری طرح ایکسپوزہونے کے باوجودبارباراقتدارمیں آجاتے ہیں یہ ان کی سمجھداری نہیں بلکہ ووٹرز کی ''وفاداری''ہے ۔سیاست کاگنداداروں کاصاف کرناپڑتا ہے اورپچھلی کئی دہائیوں سے یہ گندگی صاف کرتے کرتے ان اداروں کے اپنے کئی لوگ بھی گندے ہوگئے ہیں۔اقتدار کی دوڑمیں اخلاقی اقدارکاجنازہ اٹھ گیاہے۔لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے ہیں۔پاکستان کی انتخابی سیاست میں اب تک مجموعی طورپرہزاروں لوگ لقمہ اجل بنے مگر اس خونیں جمہوریت کی پیاس نہیں بجھی ۔حضرت علیؓ نے فرمایا تھا،''رزق کے پیچھے اپنی عزت کوسودامت کروکیونکہ نصیب کارزق انسان کوایسے تلاش کرتا ہے جس طرح مرنیوالے کوموت''۔جولوگ اﷲ تعالیٰ کی بجائے اپنے عہد کے حکمرانوں کواپنا''ان داتا'' سمجھتے ہیں ،جو لوگ اﷲ تعالیٰ کی بجائے مخلوق میں سے کسی کوعزت اورذلت کاسبب سمجھتے ہیں وہ اس دور کے ابوجہل ہیں ۔ قرآن مجید فرقان حمید کی سورۃ آل عمران کی آیت''وتعذمن تشا وتذل ومن تشا''کاترجمہ ''جسے توچاہتا ہے عزت دیتا ہے اورجسے توچاہے ذلیل کرتا ہے ''۔حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ سرورکونین حضرت محمد صلی اﷲ وعلیہ وسلم نے فرمایا،''جب کوئی جھوٹ بولتا ہے توجھوٹ کی بدبوکی وجہ سے رحمت کافرشتہ ایک میل دورچلاجاتا ہے ''۔مگر ہمارے ملک میں ڈھٹائی کاساتھ جھوٹ عام ہے ۔حضرت عمر فاروق ؓ نے فرمایا تھا ،''جوریاست مجرموں پررحم کرتی ہے وہاں بیگناہ لوگ بڑی بے رحمی سے مارے جاتے ہیں''۔ہمارے ملک میں قومی مجرموں کوسزا کی بجائے حکومت اورطاقت دی جاتی ہے ملتی جبکہ معمولی چور زندانوں میں سڑرہے ہیں۔

عوام کوزندہ درگورکرنیوالے عزت کے مستحق نہیں ہوسکتے۔اگرپاکستان کااقتدارمنتخب اورجمہوری حکومت کے پاس ہے توپھرشہریوں کے انسانی حقوق کیوں پامال ہورہے ہیں۔نام نہادجمہوری دورمیں کمزورکواس کاحق اورسائلین کوبروقت انصاف کیوں نہیں ملتا۔اسلامی ریاست میں خواتین کوحق وراثت سے محروم رکھناایک سوالیہ نشان ہے۔حکمرانوں کی صرف زبانیں چلتی ہیں مگران کام نہیں بولتا ہے۔وزرات عظمیٰ نوازشریف کے پاس ہے مگرعوام کی امیدوں،وفاؤں اوردعاؤں کامحورومرکز جنرل راحیل شریف ہیں۔ وسروں کی کامیابی اورپذیرائی سے حسدکرنا بعض عناصر کی فطرت ہے۔پاکستان کے عوام قائداعظم ؒ کی وفات کے بعدسے اب تک ایک نجات دہندہ کے منتظر ہیں،ہمارے سیاستدانوں کومسیحایانجات دہندہ نہیں بلکہ وزیراعظم بننے میں دلچسپی ہے ۔جوپاکستا نیوں میں آسانیاں تقسیم کرتا ہے عوام اس کی ناقدری نہیں کرتے۔ اگرعزت صرف منصب کی مرہون منت ہوتی توصدرمملکت ممنون حسین آج بھی عوام کیلئے اجنبی نہ ہوتے۔ حکمران بھائیوں کی طرح جنرل راحیل شریف کی شہرت اشتہارات کی محتاج نہیں کیونکہ ان کی سیرت اور صورت عوام کے قلوب پرنقش ہے۔ لوگ جنرل راحیل شریف پرجان چھڑکتے ہیں کیونکہ پاک فوج کاایک ایک سرفروش جوان دفاع وطن کیلئے سربکف ہے ۔شعبدہ بازی کرنیوالے اورمادروطن کی سا لمیت کیلئے سردھڑکی بازی لگانیوالے برابر نہیں ہوسکتے ،شہرت اورعزت میں زمین آسمان کافرق ہے۔ہمارے ملک میں ہرکوئی اپنے اپنے شعبہ میں کامیابی کیلئے چورراستہ ڈھونڈ رہا ہے ،لوگ بھی ایک دوسرے کامقام دیکھتے ہیں وہ کس طرح اس مقام تک پہنچایہ کوئی نہیں دیکھتا۔ہم لوگ بہت عجلت میں فیصلے کرتے ہیں ہرکوئی دوسروں سے آگے نکل جانے کیلئے دوڑرہا ہے جبکہ ہماری مجرمانہ غفلت سے دوسروں کی عزت نفس پامال ہوتی ہے۔
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 126506 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.