کوئی تو قُم کہے ۔۔۔۔۔۔!

’’قُم‘‘ کہا اور مردہ زندہ ہوگیا ۔ یہ وہ معجزہ تھا جواﷲ نے حضرت عیسیؑ کو عطا کیا تھا ۔ اس قُم کی ضرورت ہندوستان کے مسلما نوں کو ہے ۔ ہے کوئی اﷲ کا بندہ ؟

کیاتازیانہ ہے کہ لاکھ سرگوشیوں کے باوجود بہار میں عبدالباری صدیقی کو نائب وزیر اعلیٰ نہیں بنایا گیا ۔ ذرا سوچئے کہ کیاشاطرانہ اور مجرمانہ طریقے سے مسلمانوں کو سیکولرازم کی افیم کھلاکریک طرفہ ووٹ لئے یہاں تک کہ مسلمانوں نے اویسی تک کو مسترد کیا اور انکو گلے لگایا انکے پھُنکے ہوئے کارتوسوں میں ہوا بھرکر بندوق میں بھر دیا کہ کوئی ان کے فائر سے مرے نہ مرے کم سے کم بی جے پی کے مقابلے خلا تو بھرے ۔
مسلمان بھول گئے کہ یہ سب کے سب جے پرکاش نارائن (مہان )آندولن کاری کے وارث ہیں وہی نارائن جن کی تحریک ہی اس وقت کے وزیر اعلیٰ عبدالغفور کے خلاف تھی اور جن کا نعرہ تھا ’’گؤ ہماری ماتا ہے ،غفور گؤ کھاتا ہے ‘‘۔ اگر جے پی تحریک کاعمل جراحی کیا جائے تو آج کی سیاست میں مسلمانوں کی کسمپرسی کاعقدہ کھل کر سامنے آجائیگا ۔ اس آندولن نے اندراگاندھی کا زوال بھی دیکھا اور اسکے بعد ان کا عروج بھی ۔

ساتویں لوک سبھا (1980-84)اس لحاظ سے سب سے اہم ہے کیونکہ اس میں سب سے زیادہ مسلمانوں کی نمائندگی رہی ہے ۔ لوک سبھا کی کل ممبران کی تعداد کا 9.3%۔ وہ اندرا گاندھی کا ہی دور رہا۔ جب قلیل مدت کے لئے ہی سہی چندریاستوں میں مسلمان وزیر اعلیٰ تھے ۔ اور تو اور ایک وقت ایسا بھی تھا جب نائب صدر جمہوریہ ہدایت اﷲ انصاری تھے ۔ چیف آف آرمی اسٹاف ایم ایم عبداللطیف تھے اور ملک کی اقتصادی ریاست مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ عبد الرحمن انتولے تھے ۔ بھلا یہ نظم کیسے قائم رہ سکتا تھا ہم اس حقیقت سے روگردانی نہیں کرسکتے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف زیر بحر ایک نفرت کی لہر ہمیشہ پنپتی رہی ہے ۔ اور آج اس میں ایسی طغیانی ہے کہ دستار وقبا تک لے ڈوبی ہے ۔ آج حالت یہ ہے کہ اس عظیم الشان ملک میں نئی ریاست تلنگانہ میں ایک خاص انتظام کے تحت ڈپٹی سی ایم مائینورٹیز کہہ کر محمد محمود علی کو حلف تو دلایا گیا۔ مگر ان کی قوم سے کئے گئے 15%ریزرویشن کا وعدہ اب تک التواء میں ہے۔اور ڈپٹی سی ایم بے دست و پا۔

اس ملک میں 15%کی آبادی رکھنے والے ہم لارجسٹ مائینورٹی کا درجہ رکھتے ہیں مگر ہماری آئینی اور سیاسی نمائندگی صفر ہے ۔ یہ کوئی اتفاق یا حادثہ نہیں یہ ایک مسلسل عمل ہے اور 1830ء میں برہموسماج 1880ء میں کانگریس پھر906 1ء میں ہندومہاسبھا، 1924ء میں آرایس ایس 1960ء میں جن سنگھ اپریل 1980ء میں بی جے پی اور اکتوبر 1984ء میں ہی خاتون آہن کہی جانے والی اندرا گاندھی کے بیہمانہ قتل تک یہ ایک لمبی داستان ہے ۔ پہلے مہاتماگاندھی کا قتل کیا پھر بھی ملک ان کے منصوبوں کے مطابق نہ بنا تو دوسرے دور میں جے پی تحریک کھڑی کی مگر اندراگاندھی آسانی سے ہار ماننے والی نہیں تھیں ۔بالآخر ان کے قتل کے بعد یہ لوگ کامیابی کی سیڑھیاں چڑھنے میں کامیاب ہوئے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس پورے عمل میں صرف یہی لوگ شامل تھے ۔ ’’دیکھے ہیں ہم نے احرام میں لپٹے کئی ابلیس ، ہم نے کئی بار مئے خانے میں خدا دیکھاہے ‘‘۔

انگریزی کامقولہ ہے power and revolution can not be togeatherجے پی تحریک ایک ناکام تحریک ہے اس نے نہ صرف ملک کوکمزور کیا بلکہ مسلمانوں کی جڑیں کھود دیں ۔اس تحریک میں طلباء جوڑے گئے تھے جنھیں ماضی،حال اورمستقبل کی سمجھ کم اورجوانی کا جوش زیادہ تھا ۔ جو بعد میں لیڈر بن بیٹھے اور اقتدار کی کرسی تک بھی پہنچ گئے ۔اس دور میں ملک نے ایمرجینسی دیکھی اندرا گاندھی کا تختہ پلٹ دیا گیا ۔ کمان تھی طلباء کے ہاتھ میں اور قیادت تھی جے پی کے ہاتھ میں ایک پوری نسل اس ذہنیت کے ساتھ پروان چڑھی جیسے بندر کے ہاتھ ادرک کی گانٹھ ۔جے پی تحریک میں تین ذیلی تحریکیں آکر ملیں جس کوٹوٹل ریولیشن کانام دیا گیا تھا ۔یہ آگ 1974ء میں نونرمان سمیتی نے گجرات کی منتخب حکومت کے خلاف شروع کی تھی ۔ یہ پہلا انقلاب تھا جو آزادبھارت کی تاریخ میں کامیاب ہوا اور جس نے جمہوری طور پر چنی گئی حکومت کو تختہ پلٹ دیا ۔ جی ہاں یہ گجرات ہی تھا جہاں کی حکومت کو طلباء کی تحریک کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے اور حکومت گر گئی ۔ اس پوری تاریخ کو لکھنے کے لئے یہ وقت موزوں نہیں بس اتنا سمجھ لیجئے کہ گجرات سے اٹھے اس طوفان کی کاٹ کے لئے کانگریس نے پہلی بار ہندوستانی سیاست میں ذات پات کے کارڈ کو متعارف کروایا اس کو توجو فائدہ یانقصان ہونا تھا ہوا مگریہی ذات پات کی سیاست جو شروع ہوئی تھی اونچی ذات والوں کی سرپرستی میں کانگریس مخالف طاقتوں کے جواب میں مگر بعد میں سوچی سمجھی سازش کے تحت مسلمان مخالف ہتھیار میں بدل دی گئی ۔

اگر ہم آزاد بھارت کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیں تو دو واقعات ہیں جنھوں نے مسلمانوں کامقدر اس ملک میں سیاہی سے لکھ دیا ایک جے پی آندولن دوسرا منڈل آندولن دراصل 1977ء میں اندرا گاندھی کی ہار نے اس تابوت میں آخری کیل ٹھوک دی ۔ ملک میں ایمرجینسی لگی اور دوبارہ انتخاب سے پہلے کانگریس نے ایک نیا combintaion کھڑا کر دیا اور اس کی تجربہ گاہ بھی گجرات ہی ثابت ہوا ۔

(kham :kshatriya.harijan.adivasi.muslim)یعنی ــ’’کھام ‘‘کاقیام۔ اس جگل بندی کو اونچی ذات والوں نے اپنے سیاسی عروج کے لئے چیلنج مانا ۔ یہ وہ جوتا تھا جو اندرا گاندھی نے اینٹی کانگریس کے علمبردار اونچی ذات والوں کے منہ پر دے مارا تھا ۔ اندرا گاندھی 1980ء میں بڑے طمطراق کے ساتھ اقتدار میں لوٹ آئیں مگر 1984 میں انہیں کے پروردہ لوگوں نے ان کی جان لے کر آزاد بھارت کے ایک سیاسی عہد کا خاتمہ کر دیا۔اور1989ء میں وی پی سنگھ نے ریزرویشن کا اعلان کیا جس نے ہندوستانی سیاست کے نئے عہد کا آغاز کر دیا۔ وہ فساد ہوا جو آج بھی منڈل فسادات کے نام سے مشہور ہے اور جس نے کئی طلباء کی جان لے لی ۔ اور اس منڈل کی کاٹ رام مندر کے نام پر لال کرشن اڈوانی اور اٹل بہاری باجپئی نے ڈھونڈ لی ۔ مسلمان قربانی کے بکرے بنائے گئے اور آج تک بن رہے ہیں اور جانے کب تک بنتے رہیں گے ۔ اس سلسلے کی مسلمانوں کے خلاف جاری تمام سازشوں کو عروج دیا 2002ء کے گجرات فسادات نے جس کا نتیجہ 2014ء کا انتخابی نتیجہ ہے ۔

بات اس انگریزی مقولے کی کریں تو وہ صد فیصد درست معلوم ہوتاہے جے پی تحریک سے نکلے وہ طلباء جو نرے رنگ روٹ تھے آج اقتدارمیں ہیں چاہے وہ لالو پرساد ہوں ،ملائم سنگھ یادو ، رام بلاس پاسوان ، نتیش کمار ، سوشیل مودی ، روی شنکر پرساد وغیرہ وغیرہ ۔

حالیہ تحریک انڈیا اگینسٹ کرپشن دوسری بڑی انقلابی تحریک ثابت ہوئی ۔ اس تحریک سے نکلے اروند کیجریوال کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔ جب وہ اسٹیج پر کھڑے لالو پرساد کے گلے لگ کر ہاتھ اوپر کر کے فتح کانشان بنارہے تھے تو ملک کی سیاست کسی کونے میں کھڑی تماشہ دیکھ رہی تھی یہ وہی کیجریوال ہیں جن کو ملک سے کرپشن کے خاتمے کے نعرے کے ساتھ اجیت ڈووال کے ادارے وویکا نند فاؤنڈیشن نے انّا ہزارے کی قیادت میں بابارام دیو کے ساتھ ملک کو IACکا نعرہ دے کر پلانٹ کیا تھا ۔ دراصل IACموڈرن بھارت کا جے پی آندولن تھا جسکا مخفف انڈیا اگینسٹ کرپشن کے بجائے انڈیا اگینسٹ کانگریس تھا ۔ جس طرح جے پی تمام تر دیانت داریوں کے باوجود سرمایہ داروں اور اقتدار کے بھوکوں کا چارہ بنے اسی طرح انّا ہزارے بھی استعمال ہوئے ۔ ہمارا دشمن ہمیں انتہائی بے وقوف سمجھتا ہے ۔ اور یہ سمجھنے میں وہ حق بجانب ہے ۔ ہم نے اپنی اس بے وقوفی پربہار میں مہر لگادی ہے ۔ ہم موم کی ناک لے کر پیدا ہوئے ہیں ۔ ہم نے مد مقابل پچھڑی اور نچلی ذاتوں کو طاقت دے کر خود کو مصاحب بنا کر فخر محسوس کیا ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ ان ذاتوں میں سے کوئی آواز ہمارے لئے بلند نہیں ہوئی ۔ یاد کیجئے رام بلاس پاسوان نے مسلم وزیر اعلیٰ کا نعرہ دے کر بے وقوف بنانے کی کوشش کی ہم نے اس کو اس کی اوقات بتا دی ۔ طارق انور صاحب سے امید تھی مگر شرد پوار نے بھانپ لیا ۔ کہ یہ مدعا اٹھ سکتا ہے اس لئے وہ مہاگٹھبندھن سے ہی الگ ہوگئے ۔ رگھونش بابونے دبے لفظوں میں کہا تھا کہ اویسی کو گٹھبندھن میں شامل ہوجانا چاہئے ان کو لالو جی نے ایسا چُپ کرایا کہ وہ آج تک خاموش ہیں اور دور دور تک کہیں دکھائی نہیں دیتے ۔ عجیب حال ہے مسلمانوں نے اس سیکولرازم کے ڈھکوسلے کو تاج بناکر سر پر پہن رکھا ہے ۔

ہماری حالت یہ ہے کہ ہم بریانی کی دیگ میں آرام فرماتے ہیں یا قورمے کے پتیلوں میں ڈبکیاں لگاتے ہیں بہت حرکت کا دل کیا تو فاختہ اڑانے کے دن تو لد چکے ہیں ۔ پتنگ اڑانے پر اکتفا کرتے ہیں ۔ الیکشن کاتہوار آتا ہے تو نماز کی پابندی ہوجاتی ہے دعائیں بڑھ جاتی ہیں ۔لباس کی سفیدی پر زیادہ توجہ صرف ہوتی ہے اور ہمیشہ گلی کے نکڑ پر کھینی چونا رگڑ نے والاہمارا پولنگ ایجنٹ بن کر ہم سے ووٹ دلوالے جاتا ہے ۔ اور ہم اپنے سروں پر جاہلوں کومسلط کرکے تالیاں بجاتے ہیں ۔ اور چھوٹے موٹے مرتبے پاکر خوشی سے پھولے نہیں سماتے ۔ اور حاتم طائی کی قبر پر یہ کہہ کر لات مار تے ہیں کہ ’’ ڈوبتے ڈوبتے کشتی کو زور کا اچھالا دیدوں میں نہیں کوئی اور تو ساحل پہ اتر جائے ‘‘

مسلمان بادشاہ گر رہے ہیں مگرقلی سے آگے نہ بڑھے جب کہ سچ یہ ہے کہ اگر مسلمان متحد ہوکر سیاسی قوت بنیں تو ملک کی سیاست کا رُخ بدل جائے ۔ صرف ایک منظم اور مشترکہ تحریک کی ضرورت ہے ۔ ہے کوئی اﷲ کا بندہ جو ’’قُم ‘‘ کہے اور تاثیر بھی ہو ؟

ہم تو مردہ لوگ ہیں ہمیں جگانا کسی معجزے سے کم نہیں کیونکہ یہاں کوئی تحریک نہیں اور اگر ہے بھی تو اسکے ساتھ اقتدار کالالچ بھی ہے اور یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اقتدار اور تحریک ایک ساتھ نہیں چل سکتے یہاں وہ لوگ چاہئیں جو تحریک تو شروع کریں مگر اقتدار کے لالچی نہ ہوں کیونکہ اگر تحریک سے نکلے جوشیلے مسلمان کامیاب ہوگئے جن کو اقتدار کی ہوس ہوگی تو ان کا حشر بھی مسلمانوں کے ذریعے شروع کی گئی سیاسی جماعتوں جیسا ہوگا ۔ جیسا مسلم لیگ ، مسلم مجلس ، پیس پارٹی کا ہوا اور مجلس اتحادالمسلمین بھی اسی راستے پر لگا دی گئی ہے۔

ہم نے اپنوں کو نظر انداز کرکے بہار میں یک طرفہ ووٹنگ کی اور لالوپرساد جی کو سیاسی بساط پر پھر سے بادشاہ بناکر پیش کردیا یہاں تک کہ ان کی آنے والی نسلوں کے سیاسی مستقبل کو بھی محفوظ کردیا وہی لالو پرساد جن کو جب اپنی جگہ وزیر اعلیٰ بنانا تھا تو بیوی کو فوقیت دی اور اب نائب وزیر اعلیٰ بنانے کا وقت آیا تو بیٹے کو آگے کردیا ۔ اور اب ہماراحال یہ ہے کہ کہنا پڑتا ہے کہ بناہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا ۔ وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے۔
 

tasneem kausar
About the Author: tasneem kausar Read More Articles by tasneem kausar: 7 Articles with 5079 views associated with electronic and print media .. View More