دہشت گردی کا فروغ اور اقوام عالم

دہشت گردی ایک ایسا خطرناک عفریت بن چکا ہے کہ جس سے بظاہر جملہ اقوام عالم خوفزدہ دکھائی دیتی ہیں۔ دہشت گردی کو انگریزی میں ’’Terrorism ‘‘ جبکہ قرآنی آیات کے مفہوم میں ’’فساد فی الارض یا فتنہ ‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ہر طرح کے ذرائع ابلاغ دہشت گردی اور اس کے نتیجے میں بھیانک اورظالمانہ کاروائیوں کی مذمت کر رہے ہیں۔ ہر مذہب و ملت کا پیروکار اپنے اپنے انداز میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں جاں بحق ہونے والوں کو خراج تحسین پیش کر رہا ہے۔ پچھلے ہفتے برطانیہ و یورپ کی بیشتر مساجد میں بھی فرانس میں پیش آنے والے افسوس ناک واقعہ کی بھرپور مذمت کی گئی۔ یقینا ایسے واقعات نا قابل قبول ہیں۔ ہم نے بھی اپنے ادارے اور کمیونٹی کے پلیٹ فارم سے بھرپور انداز میں اس واقع کو بربریت اور وحشیانہ قرار دیا اور اب بھی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔ دہشت گردی سے نفرت کا اظہار تو ہر کوئی کر رہا ہے لیکن آج کا دور بھی عجیب ہے کہ کسی کو معلوم تک نہیں کہ’’ دہشت گردی ‘‘کی صحیح اور عملی تعریف کیا ہے۔ ابھی تک بد قسمتی سے دہشت گردی کی کوئی ایسی تعریف نہیں جو ہر لحاظ سے مکمل ہو اور ہر موقع پر اسے تفاق رائے سے لاگو کیا جا سکے۔ اقوام متحدہ ابھی تک دہشت گردی کی کسی جامع تعریف پر اقوام عالم کو متفق نہیں کر سکی۔ہر ایک ملک و قوم نے اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے دہشت گردی کی تعریف کی ہوئی ہے۔ برطانیہ کے ٹیررازم ایکٹ 2000 میں دہشت گردی کی تعریف میں واضح طور پر لکھا ہے کہ’’ وحشت پھیلا کر لوگوں کے جان و مال اور جائداد کو ناجائز طریقوں سے نقصان پہنچانے کا نام دہشت گردی ہے۔Prof Clark R. McCauley امریکہ کےBryn Mawr کالج میں نفسیات کے پروفیسر ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک آرٹیکل میں دہشت گردی کی تعریف یوں کی ہے کہ ’’کسی بڑے گروپ کی طرف سے ذاتی یا سیاسی مقصد کے حصول کیلئے کسی چھوٹے گروپ پر تشدد کیا جائے یا استعمار کی دھمکی دی جائے تو یہ دہشت گردی کہلاتی ہے‘‘۔ سٹین فورڈ فورڈ یونیورسٹی کے Prof Zimbardo کا خیال ہے کہ ’’دہشت گردی میں عام آدمی کو خوف زدہ کیا جاتا ہے۔ اس سے لوگوں کی خود اعتمادی مجروح ہوتی ہے۔ اس طرح دہشت گردی ایک پرامن، محفوظ اور آرام دہ دنیاکو خارزار میں تبدیل کر دیتی ہے۔ دہشت گرد غیر متوقع طور پر کاروائی کر کے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں‘‘ ۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ جب تک کسی برائی کی تہہ تک جا کر منصفانہ انداز میں اسے جڑ سے اکھیڑنی کوشش نہ کی جائے اس وقت تک وہ ختم نہیں ہو سکتی۔ دیکھنا یہ ہے کہ دور حاضر میں جو دہشت گرد اسلام کا لبادہ اوڑھ کر خون خرابہ کر رہے ہیں انہیں کس نے تیار کیا اور ان کے پاس جدید ترین اسلحہ اور اسے چلانے کی صلاحیت کہاں سے آتی ہے؟ ہیلری کلنٹن ببانگ دہل کہتی ہیں کہ دہشت گردوں کوہم نے خود تیار کیا کیونکہ اس وقت یہ ہماری ضرورت تھے۔ اگر داحش یا آئی ایس آئی ایس مسلمان تنظیم ہے تو پھر ہم شام اور عراق میں ان کے ہاتھوں قتل ہونے والے لاکھوں مسلمانوں کا لہو کس کے ہاتھ پہ تلاش کریں۔ ہر دہشت گرد کاروائی پر دنیابھر کے مسلمان اظہار افسوس اور مذمت کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ذرائع ابلاغ پر اسلام اور مسلمانوں کو بد نام کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ دہشت گردی اور اسلام کا تعلق اس طرح جوڑنے کی کوشش کی جارہی ہوتی ہے کہ جیسے کہ سب مسلمانوں نے مل کرمذہبی فریضہ کی ادائیگی کے طور پر فرانس میں یہ کاروائی کی ہو۔ حالانکہ ہر طرف سے اس کی بھرپور مذمت آرہی ہے۔ امن و سلامتی اور حقوق انسانی کے علمبردار ارباب اختیار کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ خون ،خون ہے خواہ کسی بھی انسان کا ہو۔ ہر انسان کے خون کی سرخی ایک جیسی ہوتی ہے۔ اگر دہشت گردی بے گناہ انسانوں کا خوب بہانا اور انہیں جان و مال کے تحفظ سے محروم کرنے کا نام ہے تو پھر برما میں مسلمانوں کے وحشیانہ قتل و غارت پر یہاں کے حکمران اور میڈیا کیوں چپ سادھے ہوئے ہیں اور اسے کیوں دہشت گردی نہیں کہتے۔ کیا گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام دہشت گردی کی تعریف سے خارج ہے؟ اس وقت کہاں گیا حقوق انسانی کا واویلاجب اس قتل و غارت کے ذمہ د ار مسٹر مودی کا برطانیہ میں دل و جان سے استقبال کیا جا رہا تھا۔ چند بلین پونڈ کے معاہدوں کی خاطر اصولوں کا خون بھی برطانوی تاریخ کا افسوسناک باب رہے گا۔ یہی خون خرابہ اس نے اگر خدا نخواستہ یورپ کسی ملک میں کیا ہوتا تو پھر بھی اس سے ایسا ہی رویہ رکھا جاتا؟ یقینا نہیں!!! ہمیں فرانس میں بے رحمانہ طریقے سے قتل ہونے والے افراد کا بے پناہ دکھ ہے اور ان کے خاندانوں کے ساتھ ہمدردی بھی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ دنیا کے منصفوں سے التماس بھی!! کہ بقول آپ کے ایک غلط خبر کی بنیاد پر انبیا کی سرزمین عراق پر حملہ کیا گیا۔ نو لاکھ مسلمانوں کو امریکہ اور یورپ کی افواج نے قتل کیا۔ کیا وہ انسان نہ تھے اور اس عمل کو بھی دہشتگردی کے زمرے میں شامل کیا جائے یا نہ؟ آئے روز اسرائیل بیگناہ اور معصوم فلسطینیوں کا خون ناحق بہاتا ہے۔ کیا فلسطینیوں کے انسانی حقوق کی حمائت میں کبھی اسرائیل پر بمباری کا بھی اعلان ہو گا؟ سوال یہ بھی ہے کہ مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں سلامتی کونسل میں استصواب رائے کی قرارداد منظور ہونے کے باوجود اقوام متحدہ کیوں خاموش ہے۔ بھارتی حکومت کا ظلم و ستم کیا ریاستی دہشت گردی نہیں ہے۔ جب تک دنیا میں انصاف نہیں ہوگا اس وقت تک دہشت گردی کو ختم کرنا ممکن نہیں۔ جو لوگ دہشت گردی کی آڑھ میں اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان سے بھی گزارش ہے کہ ہوش کے ناخن لیں اور حقائق کو مسخ نہ کریں۔ اسلام کی تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے پیارے نبیﷺ اور ان کے رفقا نے تیرہ سال تک مکہ میں مظلومیت کی زندگی گزاری مگر صبر کیا۔ مدینہ شریف پہنچ کر یہود کے ساتھ امن و امان اور مذہبی ہم آہنگی کا معاہدہ کیا ۔ حدیبیہ کے مقام پر تاریخی صلح نامہ پر دستخط کرکے خون خرابے سے گریزکیا گیا۔ فتح مکہ کے موقع پر تیرہ سال تک مسلمانوں کو اذیتوں اور تکلیفوں میں مبتلا کرنے والے کانپ رہے تھے کہ پتہ نہیں انتقامی کاروائی کے طور پر ہمارے ساتھ کیا ہوگا؟ لیکن کوئی خون کا ایک قطرہ نہیں بہا اور مکہ فتح ہو گیا۔ جہاں تک جہاد کا تعلق ہے وہ توہے ہی دہشت گردی کو ختم کرنے کیلئے۔ہم ڈھنکے کی چوٹ پر اعلان کرتے ہیں کہ ہم کل دہشت گرد تھے اور نہ آج ہیں بلکہ پوری مسلمان امت کئی دھائیوں سے دہشت گردی کا شکار ہے۔ جہاں تک اسلام کا تعلق ہے یہ پر امن مذہب ہے جو اپنے ماننے والوں کو احترام انسانیت اور مذہبی رواداری سکھاتا ہے۔ جو لوگ اسلام کانام استعمال کرکے بربریت اور قتل و غارت کر رہے ہیں ، ان کا اسلام سے کوئی واسطہ اور نہ ہمارا ان سے کوئی تعلق۔

Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 219728 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More