اُنکا بھگوان خوش ہوگا، شاباشی دیگا؟

دنیا میں جتنے بھی مذاہب ہیں ان میں کچھ چیزیں مشترک ہیں۔مثال کے طور پر’خدا‘ جوہر مذہب میں ’سُپر پاوررکھتا ہے،خدا کا پیغمبر،پیغمبر کے امّتی ، امّت کی ہدایت کے لیے صحیفہ یا کتاب، اعمال ،امتّی کی پیدائش و موت،جنّت و جہنم۔یہ اُن لوگوں کے لیے ہے جوکسی نہ کسی طرح سے خداکو مانتے ہیں اور ان کی عبادت کرتے ہیں۔عیسائی مذہب میں تین خداؤں کا تصور ہے۔ ہندو مذہب میں کروڑوں دیوتاؤں کاتصور ہے اور یہ مذہب ’سناتن دھرم‘ یعنی ’سب سے پرنا مذہب‘ کہلاتا ہے۔لیکن انیسویں صدی میں سوامی دیا نند سرسوتی نے آریہ سماج کی بنیاد ڈالی جس میں مورتی پوجنے کی سخت مخالفت کی گئی اور ایک ایشور کی اُپاسناکی تلقین کی گئی۔اسلامی کلمہ کی طرح انکو بھی’برھم سوتر‘ دیا گیا کہ ’’ایکم برھم دُتیۓ ناہی نیست ناہی کِنچِن‘(ایشور ایک ہے دوسرا نہیں، بالکل نہیں ہے تنک بھی نہیں ہے)۔اب تعلیم تو یہ ہے کہ ایک برہم کی پوجا کرو لیکن اپنی ضد میں ۳۳کروڑدیوتاؤں کو پوجنے میں لگے ہوئے ہیں۔ہو سکتا ہے ان کوڈر ہو کہ کہیں ایک ایشور کو پوجتے پوجتے مسلمان نہ ہو جائیں کیونکہ مسلمان بھی ایک اﷲ کی ہی عبادت کرتے ہیں۔

بہر حال ایک اﷲ کی عبادت کرنے والے مسلمان ہوں یا ایک’ برھم ‘ کی پوجا کرنے والے آریہ سماجی ہوں یا ۳۳؍کروڑ دیوتاؤں کو پوجنے والے سناتن دھرمی ہندوہوں سبھی اپنے مذہب میں بتائے گئے طریقوں سے یا اپنے اپنے مزاج کے مطابق رائج کیے گئے طریقوں سے پوجا ارچنا کر لیتے ہیں اور دوسرے مذاہب کی عزت بھی کرتے ہیں۔لیکن یہ بھگوا چولا پہننے والے یہ کس ہندومذہب کی بات کرتے ہیں ، ان کا کون سا مذہب ہے؟کس کی پوجا اور آرادھنا کرتے ہیں اور بدلے میں نفرت کا وردان پاتے ہیں۔دلت سے ان کو نفرت، مسیحوں سے بھی نفرت،مسلمانو ں سے بے سبب بیر۔سر زمین ہند پر چند بھگوا لوگ، چند خاکی نیکر والے مسلمانوں کو ختم کرنے پر لگے ہیں۔یہ پلاننگ صرف ان لوگوں کی نہیں ہے، یہ پلان 1436سال پرانا ہے جب صرف ایک مسلمان حضرت محمد مصطفےؐتھے اُس وقت سے اسلام کو ختم کیا جا رہا ہے اور نتیجہ یہ نکلا ہے کہ صرف بھارت میں 25کروڑ مسلمان ہیں اور پوری دنیا میں مسلم ممالک اور مسلم آبادی کا اندازہ لگا سکتے۔اس پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ’یہ آبادی تلوار کے سبب بڑھی ہے‘۔تو آج کے دور میں جو لوگ مسلمان ہو رہے ہیں ان کے سروں پر کون سی تلوار لٹک رہی ہے؟ہاں تلوار تو نہیں لیکن دلتوں پرترشول ضرور لٹک رہا ہے اس لیے وہ کلمۂ توحید پڑھ رہے ہیں۔اس کی وجہ ہے کہ’ بھگوا وستر دھاری‘اور انکے ہی جیسے خیالات والوں کی نظر میں دلت بھی کھٹک رہے ہیں، اسی لیے وہ بھی مارے اور جلائے جا رہے ہیں۔کتنے پتھر دِل ہیں کہ دودھ پیتے بچوں پر پٹرول چھڑک کر جلا دیا گیا، کسی کا منھ کالا کیے دے رہے ہیں،ہریانہ میں فریدآباد کے۹۰؍سالہ دلت بزرگ کو اس جرم میں جان سے ہاتھ دھونا پڑا کہ وہ اپنے بیٹے، بیوی اور بھائی کے ساتھ ’میدانی بابا‘ کے مندر میں جانا چاہتا تھا۔کسی سنجئے تیواری نے ان لوگوں کو روکا، اس کے نہ ماننے پر تیواری جی نے کلہاڑی سے اس کا کام تمام کر دیا۔ان کا غصہ یہیں نہیں ختم ہوا بلکہ مٹی کا تیل چھڑک کر آگ بھی لگائی۔

’یہ وقت گذر جائے گا ہر حال میں لیکن:: اس وقت کے ماتھے کی شکن یاد رہے گی ‘

اس وقت کے ماتھے کی شکن کو تاریخ میں آنے والی نسل جب دیکھے گی تو اپنے اجداد کے مظالم پر شرمندہ ہوگی۔ کیونکہ ظلم کی عمر زیادہ نہیں ہوتی، صبر کی عمر طویل ہوتی ہے۔چودہ سو سال پہلے بھی حضرت حسینؓ پر ظالم یزید نے ظلم کیا تھا۔کربلا سانحہ کے ساتھ یزیدی دور ختم ہو گیا لیکن حضرت حسینؓ نے چونکہ صبر کیا تھا اس لیے وہ آج تک ہر مسلک میں زندہ ہیں۔

ایک کہاوت کہتے ہیں کہ ’دھوبی سے جیتے نا اور گدھے کے کان اُمیٹھے‘۔جسٹس اور صدر جمہوریہ ہدایت اﷲ، بی․جے․پی․ لیڈر سکندر بخت، آصف علی(ارونا آصف علی والے)،منصور علی خاں پٹودی، مختار عباس نقوی،سید شاہ نواز حسین، ان سب کی ہندو بیویاں ہیں اور لال کرش اڈوانی کی بیٹی کی دوسری شادی،سبرا منیم سوامی کی بیٹی، شیو سینا کے سربراہ آنجہانی بال ٹھاکرے کی پوتی،پروین توگڑیا کی بہن وغیرہ کی شادیاں مسلم نوجوانوں سے ہوئی ہیں۔ ان پر اپنا غصّہ نہیں نکال سکتے ہیں ۔ یہ سنگھ والے اس کا بدلا عام مسلمانوں سے اس بربریت کے ساتھ لے رہے ہیں کہ کیا ’چنگیز خان‘ اور ’ ہلاکو‘ اپنی ریایا کے حق میں اتنا ظالم ہوا ہوگا؟ان کے معرفت کیے جانے والے مظالم آج کے دور میں کیے جا رہے مظالم سے کچھ الگ نہیں ہیں۔ بھگوا بھیڑ سوتے ہوئے شخص کو مارنے لگے اور اتنا مارے کہ وہ مر جائے۔اسی طرح گائے کے بچھڑے کی چوری کے الزام میں اسکول کے ہیڈ ماسٹر کوپیٹ پیٹ کر مار ڈالا۔ہندوستان ہمارا ملک ہے ،ہمارا گھر ہے ، ہم اس گھر کے کرایہ دار نہیں ہے،مالکانہ حق رکھتے ہیں۔ہمارے اجداد کا خون اس کی مٹی میں ہے،ہم نے جنگ آزادی میں گولیاں کھائیں ہیں پھانسی پر چڑھے ہیں۔ اور رتم خاکی چڈّی والے انگریزوں کی مخبری کرنے کے لیے پیدا ہوئے تھے اور وہی کر کے ’دھنیہ‘ ہو رہے تھے۔ مٹھی بھر بھگوا وستر دھاریوں اور چڈی والوں نے مسلم دشمنی کا کھیل کھیل کر دیش کی حالت بگاڑ کر رکھ دی ہے ۔تمہاری مخالفت میں انصاف پسند ہندو بھائیوں نے اپنا احتجاج درج کرانا شروع کر دیا ہے۔

جسٹس مارکنڈے کاٹجو اپنے بلاگ میں لکھتے ہیں بی․’جے․پی․ ‘ پر’ آر․ایس․ایس‘ بری طرح حاوی ہے ۔ اسکے وزراء اور عہدیداران کے پاس دسیوں سال پرانی ممبر شپ ہے۔بقول جسٹس کاٹجو آر․ایس․ایس․ ایک ایسی تنظیم ہے جس کی بنیاد بھارت میں برٹش حکومت کے دور میں پڑی تھی۔ اسکا مقصد بھی مسلم لیگ کی طرح بھارت میں انگریزوں کی پالیسی ’پھوٹ ڈالو اور راج کرو‘ کو بڑھانا تھا۔ انھوں نے کہا کہ بی․جے․پی․ اور آر․ایس․ایس․ دنگوں کے دم پر پھلتے پھولتے ہیں کیونکہ یہی ان کے خاص ہتھیا ہیں۔

مشہور گیت کار گلزار نے کہا ’’ایسا خوف بھرا ماحول ملک میں کبھی نہیں دیکھا‘‘۔گورنر بینک آف انڈیا شری رگھورام رنگا راجن اور عالمی شہرت یافتہ انفارمیشن ٹکنالوجی کمپنی کے بانی این․آر․ناراین مورتی نے بھی ملک میں عدم رواداری کے بڑھتے ہوے واقعات پر تشویش کا اظہار کیااور کہا کہ ملک کی اقتصادی ترقی پر منفی اثرات ہونگے۔

بھارت کو امریکہ کی نصیحت کہ ’’نریندر مودی کی حکومت اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنائے‘‘۔ کسی ملک کے داخلی معاملات میں کسی غیر ملک کے سربراہ کا انتباہ فکر مندی کی بات ہے۔

مودی جی کے کا ر خاص میں لگے لوگ دلت اور مسلم دشمنی کے تحت بھارت کا امن و چین غارت توکر ہی رہے ہیں ساتھ ہی ساتھ اپنے حساب سے ڈر کا ماحول بھی پیدا کر رہے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ مسلمان اﷲ کے علاوہ کسی سے بھی نہیں ڈرتا۔جنگ آزادی کی تاریخ اُٹھا کر دیکھیں (جس میں خاکی چڈی والوں کا کوئی ذکر نہیں ہے) تو پتہ چلے گا کہ ۵۲؍ہزارصرف علماء نے جام شہادت نوش کیا اور دو لاکھ سے ذائدمسلمانوں کو تختہ دار پر لٹکایا گیاجو اس کہاوت کو حقیقت کا جامہ پہناتا ہے کہ ’دوب(گھاس)، بکرا اور مسلمان جتنا کاٹا جاتا ہے اتنا ہی بڑھتا ہے۔حالانکہ بھگوا طالبانی خود ڈرے ہوئے ہیں اور اسی لیے اپنے ڈر کو چھپانے کے لیے ’سینا ‘پر’ سینا‘ اور ’دَل ‘ پر ’دَل‘ بناتے چلے جا رہے ہیں۔ان کو اپنے انجام کی فکر نہیں ہے، مرنے کے بعد جب اپنی کارگزاری اپنے بھگوان کو بتلائیں گے کہ میں نے اتنے دنگے کرائے، اتنے دلتوں،مسیحوں اور مسلمانو ں کو ماراتو یہ سمجھتے ہیں ان باتوں سے ان کا بھگوان’ بہت خوش ہوگا، شاباشی دیگا‘،سورگ کی سیر کرائے گا، اس خوش فہمی میں نہ رہوتم کو ۲۸؍طرح کی جہنّموں کی سیر کرائی جائے گی اور پھر کسی مہا نرک میں جھونک دیا جائیگا۔

Shamim Iqbal Khan
About the Author: Shamim Iqbal Khan Read More Articles by Shamim Iqbal Khan: 72 Articles with 67247 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.