کیا جنرل راحیل شریف کو مستقبل کے اہم کردار کیلئے تیار کیا جا رہا ہے؟

پاک آرمی چیف جنرل راحیل شریف روس، چین، برطانیہ، ترکی اور سعودی عرب کے کامیاب دورے کرکے اپنی صلاحیتوں کا اعتراف کراچکے ہیں۔ ان کو پاکستان کے ترجمان اور طاقتور شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ سپہ سالار کا امریکہ کا دوسرا دورہ بھی کامیابی سے جاری ہے۔ انہوں نے سیکریٹری ڈیفنس، چیف آف آرمی سٹاف، سی آئی اے کے ڈائریکٹر اور سیکریٹری آف سٹیٹ جان کیری سے اہم ملاقاتیں کی ہیں۔جنرل راحیل شریف کی امریکن کانگرس اور سینٹ کے اہم اراکین سے ملاقاتوں اور سینٹ کی ڈیفنس اور انٹیلی جنس کمیٹیوں سے خطاب کو بڑی اہمیت دی جارہی ہے۔ امریکہ کے نائب صدر جوبائیڈن جو آجکل قائمقام صدر بھی ہیں سے ملاقات کو غیر متوقع اور ہائی پروفائیل قراردیا جارہا ہے۔ امریکن مبصرین کا خیال ہے کہ عالمی طاقتیں جنرل راحیل شریف کو مستقبل کے اہم کردار کیلئے تیار کررہی ہیں۔
وزیراعظم پاکستان کے امریکی دورے کے بعد سپہ سالار کے دورے کی ضرورت تو نہ تھی مگر افواج پاکستان چونکہ سکیورٹی اور خارجہ امور کے سلسلے میں سیاستدانوں کو اہل اور قابل اعتبار نہیں سمجھتی رہیں اس لیے رفتہ رفتہ عسکری قیادت نے ان امور پر مکمل اجارہ داری حاصل کرلی ہے۔ عسکری حلقوں میں وزیراعظم کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ عالمی لیڈروں سے ملاقاتوں کے دوران سفارت کاری کی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے اور قومی مفادات کا دفاع کرنے سے قاصر رہتے ہیں اس لیے سکیورٹی اور خارجہ امور کے بارے میں پاکستان کا مقدمہ اور مو¿قف عالمی سطح پر پیش کرنے کی ذمے داری آرمی چیف نے سنبھال لی ہے اسی لیے وہ دنیا کے اہم ملکوں کے دورے کررہے ہیں۔ سپہ سالار روس، چین، برطانیہ، ترکی اور سعودی عرب کے کامیاب دورے کرکے اپنی صلاحیتوں کا اعتراف کراچکے ہیں۔ ان کو پاکستان کے ترجمان اور طاقتور شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ سپہ سالار کا امریکہ کا دوسرا دورہ بھی کامیابی سے جاری ہے۔ انہوں نے سیکریٹری ڈیفنس، چیف آف آرمی سٹاف، سی آئی اے کے ڈائریکٹر اور سیکریٹری آف سٹیٹ جان کیری سے اہم ملاقاتیں کی ہیں۔جنرل راحیل شریف کی امریکن کانگرس اور سینٹ کے اہم اراکین سے ملاقاتوں اور سینٹ کی ڈیفنس اور انٹیلی جنس کمیٹیوں سے خطاب کو بڑی اہمیت دی جارہی ہے۔ امریکہ کے نائب صدر جوبائیڈن جو آجکل قائمقام صدر بھی ہیں سے ملاقات کو غیر متوقع اور ہائی پروفائیل قراردیا جارہا ہے۔ امریکن مبصرین کا خیال ہے کہ عالمی طاقتیں جنرل راحیل شریف کو مستقبل کے اہم کردار کیلئے تیار کررہی ہیں۔ جنرل راحیل شریف نے بڑے اعتماد کے ساتھ پینٹا گان اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے اعلیٰ منصب داروں کے سامنے پاکستان کا مؤقف پیش کیا ہے اور یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان کی مشرقی سرحد پر کشیدگی سے دہشت گردی کیخلاف جنگ متاثر ہوسکتی ہے اور افغانستان کے امن اور استحکام کی آرزو بھی ادھوری رہ سکتی ہے۔ امریکہ بھارت پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے اسے پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی کوششوں سے باز رکھے تاکہ جنوبی ایشیاءمیں مستقل اور پائیدار امن قائم کیا جاسکے۔ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات بحال کرانے کیلئے لازم ہے کہ ماحول کو سازگار بنایا جائے اور اعتماد سازی کے اقدامات اُٹھائے جائیں۔

امریکی میڈیا نے جنرل راحیل شریف کے دورے کو بڑی اہمیت دی ہے۔ نیو یارک ٹائمز نے لکھا ہے کہ جنرل راحیل شریف پاکستان کے مقبول ترین لیڈر ہیں جو تقریریں نہیں کرتے۔ انٹرویو نہیں دیتے اور بیانات جاری نہیں کرتے مگر اپنی پرجوش عملی کارکردگی کی بناءپر مرکزی اہمیت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ امریکی انتظامیہ اور میڈیا دونوں نے ضرب عضب کی کامیابیوں اور فوج کی قربانیوں کا اعتراف کیا ہے۔ جان کیری نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات روایتی ہیں اور ان کا انحصار کسی دوسرے ملک پر نہیں ہے۔ جنرل راحیل شریف نے کشمیر کا مسئلہ دو ٹوک الفاظ میں اُٹھایا اور زور دیا کہ پاک امریکہ تعلقات باہمی احترام اور اعتماد کی بنیاد پر آگے بڑھنے چاہئیں۔ پینٹا گان اور جی ایچ کیو کے درمیان مذاکرات کو ہمیشہ خفیہ رکھا جاتا ہے۔ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ جنرل راحیل شریف کے ساتھ امریکی حکام کی ملاقاتوں کے دوران پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے بارے میں عالمی طاقتوں کے خدشات پر بھی تبادلہ خیال ہواہوگا اور فرانس میں ہونےوالی حالیہ دہشتگردی کے پس منظر میں داعش کی روز افزوں بڑھتی ہوئی صلاحیت کے بارے میں بھی لازمی گفتگو ہوئی ہوگی۔ امریکی اہل کاروں نے لازمی طور پر حقانی نیٹ ورک کا مسئلہ اُٹھایا ہوگا۔ حیران کن طور پر سپہ سالارکے امریکی دورے کے دوران وزیراعظم پاکستان کا ذکر کسی ملاقات کے دوران نہیں آیا۔ حکومت پاکستان کے ایک اعلیٰ آفیسر (جو مسلم لیگ(ن) کے قریب ہیں) کے حوالے سے خبر منظر عام پر آئی ہے کہ وزیراعظم نواز شریف جنرل راحیل شریف کے امریکہ اور سعودی عرب کے دوروں سے خوش نہیں ہیں۔ ان کا خیال ہے سعودی عرب کے ساتھ شریف برادران کے دیرینہ تعلقات ہیں اور وہ بہتر طور پر پاکستان کے قومی مفادات کا دفاع کرسکتے ہیں جبکہ وزیراعظم کے کامیاب اور تفصیلی امریکی دورے کے بعد جنرل راحیل شریف کے دورے کی ضرورت نہیں تھی۔ مسلم لیگ(ن) کے ایک راہنما نے نام شائع نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ وزیراعظم کے امریکی دورے کے بعد آرمی چیف کا دورہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دونوں ایک صفحہ پر نہیں ہیں۔ ایک اعلیٰ سرکاری آفیسر کیمطابق سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ حکومت کی جانب سے ایم کیو ایم کے دفاع اور پی پی پی لیڈروں کی کرپشن سے نظریں چرانے والے رویے سے نالاں ہے۔ ایک اعلیٰ سرکاری آفیسر نے ان وجوہات کو بے نقاب کیا ہے جو سول ملٹری ٹینشن کا سبب بن رہی ہیں۔ ضرب عضب آپریشن کامیابی کے ساتھ آخری مرحلے میں داخل ہوچکا ہے مگر حکومت نے ابھی تک فاٹا میں اصلاحات نہیں کیں۔ حکومت نے سپیکر قومی اسمبلی کے انتخاب میں فاٹا اراکین کے ووٹ لینے کیلئے سرتاج عزیز کی سربراہی میں پانچ رکنی ریفارمز کمیٹی تشکیل دی ہے جو رسمی کاروائی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ فوج اس تشویش میں مبتلا ہے کہ وہ فاٹا میں کب تک نظم و نسق سنبھال پائے گی۔ حکومت فاٹا میں اصلاحات کیلئے سنجیدہ نظر نہیں آتی۔ سول ملٹری ٹینشن کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ حکومت افغان مہاجرین کی واپسی میں بھی ناکام رہی ہے اور اسے یہ احساس ہی نہیں ہے کہ افغان مہاجرین پاکستان میں دہشتگردی کیلئے استعمال ہورہے ہیں۔ حکومت کراچی آپریشن کے سلسلے میں اپنی ذمے داریاں پوری نہیں کررہی۔ پولیس کو غیر سیاسی نہیں بنایا جارہا۔ کرپشن کے خاتمے کیلئے کوئی اقدامات نہیں کیے جارہے۔ اعلیٰ سرکاری آفیسر کیمطابق افواج پاکستان کو گلہ ہے کہ حکومت بلوچستان میں مفاہمت کے عمل کو آگے بڑھانے اور شدت پسند بلوچ لیڈروں سے مذاکرات کے سلسلے میں بھی غفلت کی مرتکب ہورہی ہے۔

ٹیرر فنانسنگ (معاشی دہشتگردی) کے سلسلے میں بھی عسکری قیادت کے خدشات میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ حکومت حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے ہونےوالی ٹیریر فنانسنگ پر قابو نہیں پاسکی۔ خیبرپختونخواہ میں 580میں سے صرف 13منی چینجرز رجسٹرڈ ہیں۔ غیر رجسٹرڈ منی چینجرز میں افغان شہریوں کی اکثریت ہے۔ حکومت ان کو گرفتار کیوں نہیں کرتی۔ عسکری حلقوں میں ایک تاثر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ حکمرانوں کی خواہش ہے کہ فوج کو ایسے کاموں میں الجھا دیا جائے کہ وہ بھی پولیس کی طرح عوام کی نظروں میں وقار کھو بیٹھے۔ عسکری قیادت اس لیے بھی ناخوش ہے کہ حکومت مدارس کی رجسٹریشن اور ریفارمز سے گریز کررہی ہے اور کالعدم تنظیموں کے خلاف بھی موثر کاروائی نہیں کی جارہی۔ بیرونی قرضے برق رفتاری سے بڑھ رہے ہیں جن کی وجہ سے عسکری قیادت تشویش میں مبتلا ہے۔ اعلیٰ سرکاری آفیسر کےمطابق ان وجوہات کی بناءپر فوج کو مجبوراََ کور کمانڈرز کانفرنس کے بعد آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز میں گورنینس کے ایشو کو شامل کرنا پڑا تاکہ حکومت اپنی ذمے داری پوری کرنے پر مائل ہو۔ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں کامیابی کے بعد مسلم لیگ (ن) نے دوسرے مرحلے میں بھی واضح اکثریت حاصل کرلی ہے جس سے میاں نواز شریف کی پنجاب میں سیاسی حیثیت مزید مستحکم ہوئی ہے جبکہ جنرل راحیل شریف کی عوامی مقبولیت پورے پاکستان میں ہے۔ عالمی لیڈر بھی انکی وزیراعظم سے بڑھ کر پذیرائی کررہے ہیں۔ ایک رپورٹ کےمطابق چین بھی اقتصادی راہداری کی رفتار اور کارکردگی کے حوالے سے مطمئن نہیں ہے۔ ان حالات میں سول ملٹری ٹینشن جمہوری تسلسل اور قومی مفادات کیلئے نقصاندہ ثابت ہوسکتی ہے۔ اس ٹینشن کے خاتمے کیلئے لازمی ہے کہ میاں نواز شریف سیاسی مصلحتوں سے بالا تر ہوکر عسکری قیادت کے تحفظات دور کریں تاکہ حکومت خوش اسلوبی کے ساتھ اپنی ٹرم پوری کرسکے۔
Mian Khalid Jamil {Official}
About the Author: Mian Khalid Jamil {Official} Read More Articles by Mian Khalid Jamil {Official}: 361 Articles with 300111 views Professional columnist/ Political & Defence analyst / Researcher/ Script writer/ Economy expert/ Pak Army & ISI defender/ Electronic, Print, Social me.. View More