نیا صوبہ، نیا پاکستان

’’نیا پاکستان تو بنا نہیں لیکن اب یہ نئے صوبے والے میدان میں آگئے ہیں۔‘‘
’’یہ صوبے والے کافی عرصہ سے میدان میں ہیں لیکن اب پرانا مال نیا کر کے بیچنا چاہتے ہیں۔ ‘‘
’’ پرانا مال نیا ہو کر کیسے بک سکتا ہے؟‘‘
’’تم نے سنا نہیں …… سب بیچ دے !‘‘
’’ سب بیچ کر بھی کچھ ہاتھ نہ آیا تو پھر کیاہوگا؟‘‘
’’کچھ بھی نہیں ہوگا ۔یہاں سب بکتا ہے‘‘
’’ اس طرح تو ہم نئے کے چکر میں پرانے سے بھی جائیں گے۔‘‘
’’ نہیں پرانے ہمارا ساتھ اتنی آسانی سے نہیں چھوڑنے والے۔ اسی لیے انہوں نے بھی ’’نئے ‘‘کا لیبل اپنے ساتھ لگا لیا ہے۔‘‘
’’عوام کو چاہیے کہ وہ نقالوں سے ہوشیار رہیں اور برانڈ خریدتے وقت اصلی اور نقلی کی پہچان کرلیں ۔‘‘
’’آج کل اصلی اور نقلی میں بالکل فرق نہیں رہا۔کل تک عمران صاحب نئے پاکستان بنا رہے تھے اب نواز شریف صاحب نے بھی لبرل پاکستان کا نعرہ لگا کر نئے پاکستان کی بنیاد رکھ دی ہے۔‘‘
’’ شاید اسی لیے اقبال کو بھی چھٹی نہیں مل سکی کیونکہ وہ لبرل بننے کے لیے تیار نہیں تھے۔لیکن مجھے امید ہے کہ قائد اعظم کو ضرور چھٹی مل جائے گی جو کام ،کام اور بس کام کرتے کرتے تھک گئے ہیں‘‘
’’ چھٹی کام کرنے والوں کو دی جاتی ہے ، سونے والوں کو نہیں جو بس خواب ہی دیکھتے رہتے ہیں چاہے وہ پرانے پاکستان کا خواب ہو یا نئے پاکستان کا۔‘‘
’’اقبال کا خواب پورا ہویا نہ ہو لیکن قائد کا کام ہوجائے گا۔‘‘
’’ کون سے والے قائد کی بات کررہے ہو ، قائد تحریک، قائد عوام یا قائد اعظم کی۔‘‘
’’ قائد تو بس ایک ہے جسے ہم ’’بھائی‘‘ کہتے ہیں باقی سب پرانا مال ہے۔‘‘
’’ پرانا مال بیچو گے تو نیا ملے گا ناں…… ورنہ گول مال ہے سب گول مال ہے۔‘‘
’’تم ہمارے مال کو گول مال بولو گے تو ہم تمہارا بوریابستر گول کردیں گے۔‘‘
’’بوریا بستر گول کرنے کی ضرورت نہیں وہ پہلے ہی ہم دھرنے میں گول کرچکے ہیں ۔‘‘
’’دھرنا دینے سے ’نیا پاکستان‘ نہیں بنتا‘‘
’’ صرف نعرے لگانے سے بھی ’نیا صوبہ‘ نہیں بنتا۔‘‘
’’اس طرح تو پھر کچھ بھی نیا نہیں بنے گا۔‘‘
’’کیا ہم مل جل کر پرانا پاکستان نہیں بنا سکتے جس کا خواب ہمارے بزرگوں نے دیکھا تھا اورجس کے لیے قربانیاں دیں تھیں۔ ایک ایسی ریاست کا خواب جو مدینہ کی طرح ہوجہاں مہاجر اور انصار دونوں بھائی بھائی ہوں۔ جہاں کوئی شیعہ سنی نہ ہو بلکہ مسلمان ہو۔ جہاں ایک یہودی بھی امن و شانتی سے رہ سکتا ہو۔جہاں کوئی بھوکا نہ سوئے۔‘‘
’’یہ خواب پرانے ہو گئے…… اب ہمیں خواب بھی نئے دیکھنے ہیں۔‘‘
’’ اس طرح تو عوام بس خواب ہی دیکھتی رہے گی ، انہیں تعبیر کون دے گا؟‘‘
’’ جب تک ہم خود بیدار نہیں ہوں گے، اس وقت تک کچھ بھی بدلنے والا نہیں ہے۔‘‘
٭……٭
Mir Shahid Hussain
About the Author: Mir Shahid Hussain Read More Articles by Mir Shahid Hussain: 49 Articles with 39587 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.