خوشبوؤں کا شہر’ پیرس‘۔ لَہُو لُہان

دنیا کا کاکوئی ملک دہشت گردی سے محفوظ نہیں، فرانس کے شہر پیرس کو دہشت گردوں نے خون میں نہلا دیا۔ اس واقع کو فرانس کا نائن الیون کہاجارہا ہے۔ گو دہشت گردی کے واقعات اس سے بڑے کئی اسلامی ممالک میں ہوچکے ہیں لیکن دہشت گردی جہاں بھی ہو قابل مذمت ہے۔
فرانس کا شہر ’پیرس‘ جوخوشبوؤں کا شہر کہلاتا ہے،امن کا شہر ، روشنیوں کا شہر، سیاحوں کا شہر ہفتہ 14نومبر 2015ء کو دہشت گردی کے ہاتھوں لہو لوہان ہوگیا۔یہ دہشت گردی کااس قدر بڑا واقعہ ہے کہ اسے فرانس کا نائن الیون کہا جارہا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق داعش نے خود کش حملوں کی ذمہ داری قبول کر لی۔ کارمیں سوار دہشت گردوں نے پیرس کے سات مختلف مقامات پر گولیا اور خود کش حملے کیے۔ کنسرٹ ہال میں سو سے زیادہ افراد کو یرغمال بنا کربیس سے زیادہ افراد کو ہلاک کردیا،ہال میں تین خود کش حملہ آوروں نے اپنے آپ کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا لیا۔یہ کنسرٹ ہال پیرس کے مشرقی حصے میں واقع ہے۔ دوسرا دہشت گردی کا واقعہ شہر کے شمالی حصے میں ایک فٹ بال اسٹیڈیم کے قرب وجوار میں ہوا جہاں پر اُس وقت فرانس اور جرمنی کے درمیان عالمی دوستانہ میچ کھیلا جارہا تھا، میچ دیکھنے والوں میں فرانسیسی صدر فرانسوا ولاند اپنی کابینہ کے ہمراہ اسٹیڈیم میں میچ دیکھ رہے تھے ، اسٹیڈیم میں چارو جانب 80ہزار شائقین میچ دیکھنے والوں میں شامل تھے جن میں مرد، عورتیں اور بچے بھی شامل تھے ، اسٹیڈیم کے آس پاس تین دھماکے ہوئے، تیسرا حملہ ایک جاپانی ہوٹل میں ہوا ، یہ ہوٹل پیرس کے شمالی حصے میں واقع ہے ۔اس کے علاوہ پیزا سینٹر، کمبوڈیا کے ہوٹل سمیت چھ مقامات پر یکے بعد دیگرے حملے ہوئے ۔ ان حملوں میں 160افراد لقمہ اجل بن گئے اور 300افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں، ان میں سے ایک سو کے قریب زخمیوں کی حالت تشویش ناک بتائی جارہی ہے۔ انتہائی افسوس ناک، قابل مذمت فعل ہے اس کی جس قدر بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ دنیا کے تمام ہی ممالک نے اس دہشت گردی کو انسانیت سوز قرار دیتے ہوئے سخت الفاظ میں اس کی مذمت کی ہے۔ فرانس میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے،پیرس کو فوج کے حوالے کردیا گیا ہے۔ فرانس کی سرحدیں سیل کر دی گئی ہیں۔ بے گناہ افراد کے ساتھ ساتھ آٹھ حملہ آور وں کے ہلاک ہونے کی اطلاعات بھی ہیں۔ دنیا میں ہونے والا یہ پہلا واقعہ نہیں التبہ اسے بڑا واقعہ ضرور کہا جاسکتا ہے۔

دہشت گردوں کے حملوں کا مقصد کیا تھا ؟ ایسا کرکے انہوں نے کیا حاصل کیا؟ حملہ آور کون تھے؟ ان کا تعلق کس تنظیم سے تھا؟ یہ وہ سوالات ہیں کہ جن کے جوابات سامنے بھی ہیں اور پوشیدہ بھی ہیں، سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والوں کو اچھی طرح علم ہے کہ کون مار رہا ہے، کیوں ماررہا ہے ۔انہیں بھی علم ہے جو دہشت گردی کا شکار ملک ہیں ، اس کا علم انہیں بھی ہے جو دہشت گردی کر رہے ہیں، خود کش حملے کررہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ حملہ کرنے والے گروپ یا تنظیمیں اعلانیہ طور پر دہشت گردی کے واقعہ کے فوری بعد اس کی ذمہ داری قبول کرلیتی ہیں۔جب دشمن از خود بتا رہا ہے کہ میں نے یہ کام کیا ہے تو امریکہ اور اتحادی اس دشمن کو ختم کیوں نہیں کردیتے۔ بھیجیں اپنی اتحادی فوج کو جو انہیں پکڑ ے اورانہیں بند کردے۔ لیکن یہ اتنا آسان نہیں کھیل نہیں، اگرا تنا ہی آسان ہوتا تو امریکہ اور اس کے اتحادی کبھی کا ان دہشت گردوں کا قلع کمہ کرچکے ہوتے۔ فرانس کی خبر رسا ایجنسی نے کسی عینی شاہد کے حوالے سے بتا یا ہے کہ حملہ آوروں میں سے ایک شخص چلا چلا کر یہ کہہ رہا تھا کہ یہ سب فرانس کے صدر فرانسوا ولاند کی اس پالیسی کا نتیجہ ہے جس کے تحت فرانس نے شام میں مداخلت کی۔ فرانس مغربی دنیا کے اس اتحاد کا ایک اتحادی ہے جو شام میں داعش کی سرکوبی میں مصروف عمل ہے، فضائی حملے کیے جارہے ہیں۔فرانس کی جانب اس بات کی تصدیق کی جاچکی ہے کہ یہ حملے داعش کی جانب سے کیے گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ فرانسوا ولاند نے اس حملے میں مسلمانوں کی تنظیم کو اس کا ذمہ دار ٹہرایا ہے۔

پیرس میں ہونے والے ان حملوں کے پیچھے عالمی سطح پر ہونے والی کشمکش ، بے جا مداخلت کادخل ہے ، جس نے دنیا کے بیشتر اسلامی ممالک کے علاوہ مغربی ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے ۔ مصر میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے کیا حال بپا کیا، صدام حسین کو موت کے گھاٹ اتار کر دم لیا۔ پھر برطانیہ کے سابق وزیر اعظم کو جب اپنے کیے پر احساس ندامت نے تنگ کیا تو اپنا دامن چھاڑتے ہوئے مصر پر امریکہ اور اتحادیوں کی کاروائی پر مگر مچھ کے آنسو بہاتے دکھائی دیے ۔ افغانستان میں امریکہ اور اس کی اتحادیوں نے کیا کچھ نہیں کیا، کیا حاصل ہوا، اب وہاں سے واپسی مشکل نظرہورہی ہے۔ ایک وقت آئے گا جب بارک اوباما بھی برطانیہ کے سابق وزیر اعظم کی طرح اپنے کرتوتوں پر ندامت کے آنسوں بہائیں گے اور اپنے عمل کو غلط کہتے ہوئے شرمندہ ہوں گے۔

پاکستان کئی سالوں سے دہشت گردی کا شکار ہے۔ پاکستان کو کس جرم کی سزا دی جارہی ہے۔ روزنامہ ’جناح ‘نے اپنے اداریے میں درست لکھا ہے کہ ’ اگر بہ نظر غائر دیکھا جائے تو یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ مذکورہ حملہ امریکہ اور یورپ کی دوغلی پالیسیوں اور دو عملیوں کے سبب کیا گیا ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایک طرف یورپ اور امریکہ دہشت گردی کے خاتمے کا اعلامیہ جاری کرتے ہیں اور باہم نیٹو اتحاد بنا کر اسلامی ملکوں پر حملہ آور ہوجاتے ہیں‘۔دنیا کے طاقت ترین ممالک جن میں سے ایک فرانس بھی ہے ، امریکہ کے بعد دوسرا نائن الیون ہوجانا امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے لمحہ فکر یہ ہے۔ پالیسیوں پر ، اپنی سوچ پر، حکمت عملی پر ، مسلمانوں کو دہشت گردوں کے ساتھ ملانے پر اب انہیں سوچنا ہوگا، اس حکمت عملی کو بدلنا ہوگا۔ فرانس کے صدر نے اپنے خطاب میں ان حملوں کو شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ سے نتھی کردیا۔ امریکہ اور اس کے اتحادی یہ بھول جاتے ہیں کہ دنیا کے کتنے اسلامی ملک ایسے ہیں جو شدید دہشت گردی کا شکار ہیں۔ پاکستان میں آپریشن ضرب عضب جاری ہے اور ملک کے کونے کونے میں موجود دہشت گردوں کاصفایا کیا جارہا ہے۔ پاکستان میں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں کتنی بڑی تعداد میں عسکری اور سویلین شہید کیے جاچکے ہیں۔کون سا اسلامی ملک ہے جودہشت گردی کی لپیٹ میں نہیں، مصر، شام، یمن، لبیا حتیٰ کہ سعودی عرب بھی دہشت گردی کی کاروائیوں سے محفوظ نہیں رہا۔ دہشت گردی خواہ کسی بھی ملک میں ہو، دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو، مشرق میں ہو یا مغرب میں، شمال میں ہو یا جنوب میں وہ قابل مذمت ہے۔ فرانس میں ہونے والی دہشت گردی کی مذمت دنیا کے ہر ملک نے کی اور کرنی بھی چاہیے۔

پاکستان کے وزیراعظم میاں نواز شریف نے پیغام دیا ہے کہ پاکستان دکھ کی اس گھڑی میں فرانس کے ساتھ کھڑا ہے۔ انہوں نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے عالمی برادری کے ساتھ مل کر کردار اداکرنے کا اعادہ بھی کیا۔ میاں صاحب کا بیان وقت اور حالات کے مطابق مناسب قابل تعریف ہے لیکن عالمی برادری کو بھی اپنی اسلام دشمن پالیسی پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ پاکستان عالمی برادری کا ساتھ دینے کی سزا ہی تو بھگت رہا ہے۔ امریکہ ، برطانیہ ، فرانس ، جرمنی اور دیگر یورپی ممالک اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ چھوٹے ممالک کے درمیان ہونے والے کشیدہ معاملات کو ثالت کا کردار ادا کر تے ہوئے حل کراسکتے ہیں۔ لیکن وہ ایسا کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں پاکستان کے وزیراعظم میاں نواز شریف کا دورہ امریکہ کوسامنے رکھتے ہوئے پاکستان کے دشمن ملک بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کے دورہ امریکہ کا موازنہ کرنے سے یہ صورت حال واضح ہوجاتی ہے کہ امریکہ کی نیت میں کھوٹ ہے ۔ وہ نہیں چاہتا کہ پاک بھارت کشیدگی ختم ہو، کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق حل ہو، بھارت میں مسلمانوں، دیگر اقلیتوں کے ساتھ جو متعصبانہ سلوک کیاجارہا ہے وہ دنیا سے پوشیدہ نہیں۔ صدر بارک اوباما نے مودی سے گفتگو میں ان موضوعات کو زیر بحث ہی نہیں لائے۔ اس کی وجہ نیت میں کھوٹ ہے۔ نہیں چاہتے کہ دونوں ممالک میں امن قائم ہو، دونوں کو اپنا یس سر بنائے رکھنا چاہتے ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ کی اسی قسم کی پالیسیوں اور ان کے دوہرے معیار کے باعث نفرت کی سیڑھی کا گراف اوپر کی جانب بڑھتا رہا حتیٰ کہ نوبت موجودہ صورت حال تک پہنچ گئی ۔ نائن الیون سے سبق حاصل کرنے کے بجائے نفرت اور انتقام کا رخ مسلم ممالک کی جانب کر دیا گیا، جس سے حالات بگڑتے چلے گئے اور بگڑتے چلے جارہے ہیں۔روزنامہ ’ابتک‘ کے اداریے نے درست لکھا کہ’دہشت گرد تنظیمیں نہ اسلام کی کسی تعلیم کا نتیجہ ہیں نہ عام مسلمانوں کی تائید انہیں حاصل ہے بلکہ مسلم ممالک خود بدترین طور پران کی دہشت گردی کا شکار ہیں‘۔ فرانس میں ہونے والے دوسرے نائن الیون سے سبق سیکھتے ہوئے، مغربی دنیا کو اپنی پالیسیوں پر اور حکمت عملی پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔جب تک دہشت گردی کی بنیاد کو ایدریس نہیں کیا جائے گا دہشت گرد اپنی کارائیاں جاری رکھیں گے۔ انہیں انگیج کریں، وجوہات معلوم کریں، اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لانے کا یقین دلائیں، نہ انصافیوں کا ازالہ کریں، جیو اور جینے دو پر عمل کریں تو اس دہشت گردی کو ختم کیا جاسکتاہے۔گولی سے ،بندوق سے، بم سے، بمباری سے، ڈرون سے یا فضائی حملوں سے دہشت گردی ختم نہیں ہوگی۔ پیار محبت، ہمدردی، عفو ودرگزر سے کام لیتے ہوئے گفتگو کی میز پر مسائل کے حل کی جانب جایا جاسکتا ہے۔ بہ صورت دیگر دہشت گردی کے واقعات رونما ہوتے رہیں گے ۔ ہر واقع کے بعد اس کا ماتم کریں گے اور بس ، ایک وقت آئے گا کہ ماتم کرنا بھی غیر ضروری ہوجائے گا۔ اس سے پہلے کہ یہ وقت آجائے عالمی برادری کو سنجیدگی سے اس اہم مسئلہ پر سوچ بچار کرنا ہوگا۔
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1284699 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More