افغان امن مذاکرات....نیاچیلنج

خطے میں تیزی کے ساتھ بدلتے ہوئے حالات نے اس قدر الجھا دیاہے کہ اردگردکے حالات پرتبصرہ کرنامحال ہوگیاہے اور اس پرمستزاد افغانستان سے اٹھنے والے زلزلے نے پاکستان کو بھی شدیدمتاثرکیاہے لیکن افغانستان میں اس تباہی کے باوجود ایک دوسرے کومٹانے میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ باہمی جنگ وجدل میں بدستورتیزی آگئی ہے ۔افغانستان میں طالبان کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں اوراشرف غنی کے ارد گردشمالی اتحادکے رہنماؤں کے دباؤ کی وجہ سے امن مذاکرات معطل ہو کررہ گئے جس کی وجہ سے طالبان کی پہلی مرتبہ شمالی افغانستان میں حیران کن کاروائیوں نے سب کوایک بارپھرمجبورکردیاکہ خطے میں امن کیلئے فوری طورپرمذاکرات شروع کیے جائیں۔ طالبان کی بڑی کاروائیوں کے بعد افغان حکومت نے بالآخرطالبان کے مطالبات کے سامنے ہتھیارڈالتے ہوئے ان کے تین سوسے زائدقیدی ان کے حوالے کئے جبکہ طالبان نے دوسوکے قریب افغان پولیس اورفوج کے اہلکاروں کوجوشمالی افغانستان میں لڑائی کے دوران حراست میں لئے گئے تھے، افغان حکومت کے حوالے کئے ہیں۔ ادھر مذاکرات کے حوالے سے امریکی دباؤ بھی افغان حکومت کیلئے دردِ سربناہوا ہے جس کی وجہ سے افغان حکومت فوری طورپرطالبان سے مذاکرات کی خواہاں ہے۔

افغان وزیرخارجہ صلاح الدین ربانی نے کہاہے کہ افغانستان حکومت اور طالبان کے درمیان جلدمذاکرات ہوں گے تاہم حالیہ زلزلے کی وجہ سے فی الحال تاخیرکاامکان ہے۔ دوسری جانب طالبان نے زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں امدادی کاروائیاں بھی شروع کردی ہیں۔امریکانے میاں نوازشریف کے دورۂ امریکا کے دوران پاکستان سے طالبان کو مذاکرات کی میزپرلانے کی خواہش کااظہارکرتے ہوئے اپنی حمائت کامکمل یقین بھی دلایا۔یادرہے کہ پچھلے دنوں سرتاج عزیزنے اپنے دورۂ افغانستان میں اشرف غنی پریہ واضح کردیاتھاکہ پاکستان نے امن مذاکرات کیلئے انتھک کوشش کی جس کے بعد مری میں مذاکرات کاپہلادورہوالیکن شمالی اتحاداوربھارت کی ملی بھگت سے ملاعمرکے انتقال کی خبرنشر کرکے ان مذاکرات کے عمل کوسبوتاژکردیاگیا۔

پاکستان نے ضربِ عضب میں ہرقسم کے ایسے بیرونی عناصر کے خلاف بلاتفریق آپریشن شروع کررکھاہے اوراب شمالی افغانستان میں طالبان کے حملوں سے یہ ثابت ہوگیاہے کہ پاکستان کی سرزمین کوان حملوں کیلئے استعمال کرناعملاًممکن نہیں بلکہ اس کے برعکس آئے دن افغانستان میں مقیم شرپسندپاکستان کی سیکورٹی فورسزپرحملے کرتے رہتے ہیں اورافغانستان کو باقاعدہ اس بات کے مصدقہ ثبوت وشواہدبھی فراہم کیے گئے ہیں جس میں بھارت اورافغانستان کی خفیہ ایجنسیاں ان شرپسندوں کی معاونت کرتی ہیں۔ سرتاج عزیزنے افغان صدرکواس بات سے بھی مطلع کردیاکہ اب یہ افغان حکومت کی مرضی پرمنحصر ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ اپنے معاملات طاقت کے بل بوتے پرحل کرنا چاہتے ہیں یاپھر مذاکرات کی میزپر ان کا تصفیہ چاہتے ہیں۔پرامن مذاکرات کیلئے سازگارماحول مہیاکرناہوگاجبکہ ان کی حکومت کے کچھ عناصرمذاکرات کوسبوتاژکرنے کی پالیسی پرعمل پیرا ہیں۔

اس حوالے سے افغان چیف ایگزیکٹوعبداللہ عبداللہ نے پاکستان کے وزیراعظم کے دورۂ امریکاکی واپسی کے بعد اس بیان پرکہ پاکستان طالبان اورافغان حکومت کے درمیان مذاکرات کیلئے اپنی کوششیں کرے گا،اپنے ردّعمل میں کہا کہ پاکستان پہلے طالبان حملوں کو رکوائے اوربعد ازاں مذاکرات میں بھی
مددکرے۔ اس اعلان کے بعدافغانستان میں شمالی اتحاد اوربھارت کے زیراثر افرادنے ایک بارپھرپروپیگنڈہ شروع کر دیاہے کہ پاکستان افغانستان میں مداخلت کر رہا ہے اورپاکستان پہلے طالبان کوحملے روکنے پرآمادہ کرے، اس کے بعدمذاکرات کی بات کرے جس پرافغان صدر اوران کے حامی شدید ناراض ہیں ۔یادرہے کہ افغان صدراشرف غنی اورشمالی اتحادکے عبداللہ عبداللہ کے درمیان پہلے سے اختلافات موجودہیں جوطالبان کی طرف سے قندوز، بدخشاں اورفاریاب پرقبضے کے بعدمزیدشدیدہوگئے ہیں۔شمالی اتحادکے کچھ کمانڈروں نے توباقاعدہ طورپریہ مطالبہ کردیاتھاکہ ہمیں کابل کے صدارتی محل سے اشرف غنی کونکالناہوگاجس کے فوری بعداتحادی فوج کے سربراہ جنرل کیمبل کومداخلت کرکے حالات کوسنبھالناپڑا۔تاہم اس وقت بھی جنرل دوستم اوراستادعطاء محمدنورسمیت افغان رہنماء مقامی لوگوں کوطالبان کے خلاف مسلح کررہے ہیں جس کی وجہ سے طالبان مذاکرات کیلئے آمادہ نہیں ۔ تاہم طالبان کاکہناہے کہ ہم ہروقت مذاکرات کیلئے تیار ہیں مگر طالبان کی شرائط وہی رہیں گی کہ افغانستان سے تمام امریکی واپس چلے جائیں اور ان کے تمام قیدیوں کورہاکیاجائے اورشمالی اتحادکے ان تمام افرادکوبرطرف کیاجائے جوطالبان کے خلاف لوگوں کومسلح کرنے میں مصروف ہیں،اس کے بعدہی جنگ بندی پرغورکیاجائے گا۔

طالبان کے امیرملااخترمنصورنے منگل کے روزاپنے ایک بیان میں جنگ کیلئے نئی ہدایات جاری کی ہیں۔انہوں نے تمام طبی مراکز،عوامی مقامات،پانی کی اسکیموں،سڑکوں اور پلوں پر حملوں کوممنوع قراردے دیاہے جبکہ اسکولوں اورہسپتالوں پر حملوں کی بجائے ان کی حفاظت کاحکم دیاہے۔طالبان کی جانب سے وسطی افغانستان میں کامیاب کاروائیوں سے افغان حکومت مزید پریشان ہوگئی ہے۔ضلع خروارپرقبضے کے بعدطالبان نے وسطی صوبہ لوگر اور کابل کے درمیان شاہراہ پرگھات لگاکر قبضہ کرلیاہے جس سے لوگراور کابل کے درمیان ہرقسم کی ٹریفک معطل ہے۔دوسری جانب طالبان کے بڑھتے ہوئے حملوں کے پیش نظرافغان حکومت نے افغان آرمی کے اعلیٰ عہدوں پر تقرری اور تبادلے کرتے ہوئے افضل امان کونائب وزیردفاع مقررکیاہے جبکہ جنرل عزیزاللہ،جنرل غلام فاروق،جنرل نجیب اللہ،جنرل جمال الدین، جنرل عبدالقدیر،جنرل مہمند،جنرل عتیق اللہ سمیت ۴۱ جنرلز کے عہدوں میں ردوبدل کیاگیاہے۔یہ ردوبدل افغان صدرنے طویل مشاورت کے بعدکیاہے اوران لوگوں کو جوافغان حکومت اورطالبان کے درمیان مذاکرات کی راہ میں رکاوٹیں پیداکر رہے ہیں،وزارتِ دفاع کے تمام اہم عہدوں سے ہٹادیا گیاہے،جن میں جنرل غلام فاروق اورجنرل نجیب اللہ شامل ہیں۔انہیں ڈایاک یعنی مسلح جنگوؤں کوغیر مسلح کرنے کی مہم میں شامل کردیاگیاہے اوران سے لڑائی اور فیصلے کے اختیارات بھی واپس لے لئے گئے ہیں۔

طالبان نے وسطی افغانستان کے بعدہلمندمیں کاروائی کرتے ہوئے مارجہ ضلع کے مشہور کمانڈرآصف خان کوقتل کردیا۔آصف خان باباجی کے علاقے میں طالبان کے حملے کانشانہ بنا۔ آصف خان طالبان کے خلاف مارجہ میں مزاحمت میں سب سے اوّل درجے کاکمانڈرتھااوراس کی موت کے بعداربکی ملیشیاء کے حوصلے پست ہوگئے ہیں۔افغان اربکی ملیشیاء کے ذرائع کے مطابق ہلمندمیں آصف کمانڈرکی ہلاکت کے بعدافغان حکومت اورشمالی اتحاد کوبڑادھچکہ پہنچاہے جس نے اب تک مارجہ میں طالبان کاراستہ روک رکھا تھا لیکن اب اس کی ہلاکت کے بعدہلمندکے دارلحکومت لشکرگاہ تک طالبان کی رسائی ممکن ہوگئی ہے اورطالبان نے شمالی افغانستان میں منظم کاروائی بھی شروع کردی ہے اورگزشتہ دنوں بادغیس کے علاقے غورمارچ پرطالبان نے دھاوابول کراس کاکنٹرول حاصل کرلیاجبکہ افغان فوج نے اتوارکے محاصرے کے بعد ہتھیارڈال دیئے ۔پولیس ہیڈکوارٹر اورضلعی گورنرکے دفتر پر قبضے کے بعد طالبان نے ہتھیار ڈالنے والے فوج اورپولیس کے اہلکاروں کوجانے کی اجازت دے دی ہے۔شمالی افغانستان ،وسطی افغانستان اوراب جنوبی افغانستان میں کاروائیوں پرطالبان کے امیرملااخترمنصورکے حکم پر حکمت عملی تبدیل کردی گئی ہے اورقندھار اورفاریاب میں فتوحات کے بعد طالبان کوپورے ملک میں کاروائی کرنے کی ہدائت کی گئی ہے،طالبان اس جنگ کو شمال سے مشرق تک پھیلاسکتے ہیں۔

ذرائع کاکہناہے کہ طالبان ایک مخصوص جنگی حکمت عملی کے تحت اس جنگ کومشرق سے شمال تک پھیلائیں گے جبکہ جنوب اورجنوب مشرقی علاقوں میں بھی طالبان کی کاروائیوں سے افغان فوج پہلے ہی منتشر ہے اور اب افغان فوج کے ساتھ ساتھ اتحادی افواج بھی مزید منتشررہے گی،جس کے دوران گوریلاکاروائیوں میں اضافے کاامکان ہے جس سے امریکی فوج کو نقصان کااندیشہ ہے کیونکہ طالبان کواب یہ معلوم ہو چکاہے کہ ایک صوبے پر قبضے کی بجائے اگرجنگ کوپورے افغانستان میں پھیلادیاجائے اوراتحادی افواج کومنتشرکرکے مصروف رکھاجائے تودشمن کازیادہ سے زیادہ نقصان کیا جاسکتاہے اورطالبان نے اسی حکمت عملی کے تحت گزشتہ ایک ہفتے سے شمال،جنوب اورجنوب مشرقی افغانستان کے ساتھ ساتھ وسطی افغانستان میں بھی کاروائیاں شروع کررکھی ہیں جبکہ مشرقی افغانستان میں بھی کاروائیاں شروع کرنے کاامکان ہے جبکہ موسم سرمامیں دارلحکومت اوروسطی افغانستان میں بڑے پیمانے پرکاروائیوں کاخدشہ ظاہرکیا گیا ہے ۔ طالبان کے امیرکے حکم پر طالبان نے شمالی افغانستان میں بڑے پیمانے پرمتاثرین کی مدد بھی کی جونہ صرف حوصلہ افزا بلکہ اس نے طالبان کیلئے نئی راہیں کھول دی ہیں۔
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 351521 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.