دو گنجے ایک کنگھی

پاکستان اور بھارت کے سپاہی کشمیر میں جنگ بندی لائن پر اکثر گولہ باری شروع کر دیتے ہیں جس کے نتیجے میں دونوں طرف قیمتی جانی نقصان ہوتا ہے تاہم سیاچن پر گزشتہ پندہ برس سے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی چلی آ رہی ہے ۔ سپاہیوں کی بندوقوں کے بجائے ر وہاں90 فیصد اموات موسم کی شدت سے ہوتی ہیں۔وزیراعظم نواز شریف نے اس سال(2015 (بھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان بھارت کے درمیان دیرپا امن کے قیام پر زور دیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں نواز شریف نے پاکستان اور بھارت کے درمیان دیرپا امن کے قیام کے لئے چار بنیادی تجاویز پیش کیں تھیں۔ ان میں لائن آف کنٹرول اور سرحدی جنگ بندی معاہدوں کی پاسداری اور اس کا احترام طاقت کے استعمال کی دھمکیاں نہ دینا متنازعہ علاقوں کشمیر سے بھارتی فوجوں کی واپسی اور سیاچن سے فوجی انخلا شامل ہیں ۔سیاچن سے فوجی انخلا کی تجویز پرمجھے جنوبی ایشیا کے امور کے مشہور امریکی ماہر سٹیفن کوہن کا تاریخی جملہ یاد آگیا ہے سٹیفن نے کہا تھا سیاچن گلیشیرکی کوئی فوجی اہمیت نہیں ہے اور یہ جنگ ایسے ہی ہے جیسے دو گنجے مرد آپس میں کنگھی کے لیے لڑ رہے ہوں۔ کشمیریوں کی بھی سیاچن سے جڑی کئی دکھ بھری کہانیاں ہیں ۔جب بھی راولا کوٹ کے نواح میں واقع اپنے آبائی گائوں جاتا ہوتا ہے ۔ اداس آنکھوں والے خلیل احمد کی دکھ بھری آنکھیں ان کہی کہانی بیان کررہی ہوتی ہیں۔دو سال پہلے خلیل احمد کا داماد اور بیٹا ایک ہی روز گیاری سیکٹر میں ٹنوں برف تلے دب کر د کھ بھری کہانی کا عنوان بن گے تھے ۔ 7اپریل2012 کو سیاچن کے گیاری سیکٹر میں15ہزار فٹ کی بلندی پر بری فوج کی سکستھ ناردن لائٹ انفٹری کے بٹالین ہیڈ کوارٹر پر برف کا ایک بڑا تودہ گر گیا تھا۔ جس کے تلے 135جوان مارے گئے تھے ۔اس حادثے میں سابق فوجی خلیل احمد کے بیٹے اور داماد سمیت آزاد کشمیر کے 28 جوان مارے گئے۔سیاچن گلیشیر متنازع کشمیر کے علاقے میں پاکستان اور بھارت کی سرحد پر واقع سطح سمندر سے 20 ہزار فٹ کی بلندی پر دراصل ایک سرد جہنم ہے پھر بھی اس جہنم کے حصول کے لیے بھارت کے پانچ ہزار اور پاکستان کے اڑھائی ہزار فوجی تعینات ہیں۔تاریخ دانوں نے اس بات کا جواب نہیں دیا کہ جب اقوام متحدہ کی نگرانی میں ریاست جموں و کشمیر کے سینے پر جنگ بندی لائن کے نام سے ایک لکیرکھینچ دی گئی تو ایسی ہی لکیر سیاچن کی برف میں کیوں نہیں بنائی گئی؟سیاچن دراصل ریاست جموں وکشمیر کا ایک برفانی علاقہ ہے یہ علاقہ گلگت بلتستان اور لداخ کے درمیان واقع ہے۔اس برفانی گلیشیر کے حصول کے لیے پاکستان اور بھارت کی باقاعدہ جنگ 1984 میں ہوئی۔توجہ طلب بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ نے ریاست جموں وکشمیر کو متنازعہ خطہ قرار دے رکھا ہے ۔اس حساب سے ریاست جموں و کشمیر کے سبھی علاقے متنازعہ تصور کیے جاتے ہیں، تاہم سیاچن کا معاملہ انتہائی پیچیدہ بنا دیا گیا ہے۔ پاکستان اور بھارت کی فوجیں آزاد کشمیر و مقبوضہ کشمیر میں اقوام متحدہ کے ایک خاص میکانزم کے تحت موجود ہیں جبکہ سیاچن پر یہ فوجی ایک مختلف صورتحال میں موجود ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ علاقہ ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہے تو پھر ریاست جموں وکشمیر کے سوال پر ہونے والی بات چیت میں اس مسئلے کو ذیلی مسئلے کے طور پر کیوں شامل نہیں کیا جاتا؟پاکستان اور بھارت کے درمیان سیاچن کے مسئلے پر مذاکرات کے 13 دور ناکام ہو چکے ہیں۔ہمارے خیال میں سیاچن ناصرف جموں وکشمیر کا حصہ ہے بلکہ ا سے مسئلہ کشمیر سے جوڑ دیا جانا چاہیے۔اقوام متحدہ کے لیے بھی اہم سوال ہے کہ ریاست کے درمیان برف سے ڈھکے اس علاقے کے بارے میں خاموشی کیوں اختیار کی جا رہی ہے۔ ۔ اپریل 1984 سیاچن گلیشیر کے بالائی حصے پر بھارت کے کنٹرول سنبھا لے 30 سال گزر جانے کے بعد بھی دنیا کے اس بلند ترین محاذ پر یہ جنگ اپنی چوتھی دہائی میں داخل ہو رہی ہے۔بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کے کئی معاہدے ہونے کے باوجود کشمیر کے شمال میں کسی نے ابھی تک سرکاری طور پر لائن آف کنٹرول کا تعین نہیں کیا تھا ۔جسکی وجہ سے اس تنازعے نے اپنا وجود بنا لیا۔ خلیل احمد کے دو بیٹوں کی طرح بھارت اور پاکستان کے تقریبا 2700 فوجی سیاچن کے محاذ پر اپنی جان سے ہاتھ دھو چکے ہیںاور مرنے والوں کی اکثریت دشمن کی گولی کی بجائے برف کے تودوں کی نذر ہوے یا آکسیجن کی کمی کی وجہ سے بیمار ہو کر موت کی نیند سو گئے ۔چونکہ بھارت نے کا قبضہ زیادہ بلند چوٹیوں پر ہے اس لیے اسے وہاں رسد پہنچانے میں پاکستان کے مقابلے میں بہت زیادہ اخراجات اٹھانا پڑتے ہیں۔ جانی نقسان کا اسے زیادہ خطرہ رہتا ہے ۔ ، بھارت کو سیاچن پر روزانہ تقریبا دس لاکھ ڈالر خرچ کرنا پڑتے ہیں۔بھارتی فوج کے ایک ریٹائرڈ افسر کا کہنا ہے کہ جتنی رقم ہم سیاچن پر خرچ کر چکے ہیں، ہم اس سے آدھے ملک کو بجلی اور پینے کا صاف پانی مہیا کر سکتے تھے۔سینٹ دفاعی کمیٹی کے سربراہ مشاہد حسین سید یکم اپریل کو کمیٹی کے اراکین کے ہمراہ سیاچن کے دورے پر گئے اور جوانوں سے یکجہتی کااظہار کیا ۔2 اکتوبر پر اسلام آباد میں مشاہد حسین سید نے میڈیا کو بتایا کہ پاکستان اور بھارت نہ صرف اس خطے سے فوجی نکال دیں بلکہ اسے پیس پارک بنا دیا جائے۔ دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم پیس پارک بارے سوال کے جواب میں میڈیا کو بتایا کہ یہ تجویز پرانی ہے پاکستان اس سلسلے میں آگے بڑھنے کے لیے تیار ہے تاہم بھارت اصل رکاوٹ ہے۔سیاچن کا علاقہ پاکستان کے زیر انتظام گلگت بلتستان میں شامل ہونے کے باعث پاکستان کے کنٹرول میں سمجھا جاتا تھا اور شاید اسی لئے1972 کے شملہ معاہدے میں بھی سیاچن گلیشئر کا کوئی ذکر شامل نہ تھا۔1984 میں بھارت نے سیاچن گلیشر پر قبضہ کیا بھارتی فوج کے بڑھتے ہوئے قدم روکنے کے لئے پاکستانی فوج کے جوانوں کو ہمالیہ کی چوٹیوں میں جگہ جگہ مورچے بنانے پڑے۔سیاچن سطح سمندر سے 20800فٹ بلندی پر واقع ہے اور اس وقت وہاں منفی 70ڈگری سلسیس درجہ حرارت ہے۔ اس محاذ جنگ پر بھارت کے 5ہزار جبکہ پاکستان کے ڈھائی ہزار فوجی تعینات ہیں۔سیاچن گلیشیر مناظر قدرت سے بھر پور وہ برفانی وادی ہے کہتے ہیں یہ علاقہ کسی زمانے میں انسانی آبادی سے ہلچل بھرا ایک شہر تھا۔یہاں ماضی کی جھلکیاں آج بھی نظر آرہی ہیںلیکن آج یہ شہر خموشاں ہے۔۔سیاچن گلیشیر کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قراقرم کی وادی میں قدرتی آفات سے دبے انسانوں کے آنسو ایک یخ بستہ گلیشیر بن کر دنیا کے لوگوں کے دلوں کو لبھا رہے ہیں۔ بارہ جون 2012 کو اسلام آباد میں پاکستان اور بھارت کے درمیان سیاچن کے مسلے پر مزاکرات میں سیاچن گلیشیر کو انسانی سرگرمیوں کے سبب درپیش ماحولیاتی خطرات پر بات چیت کی گئی مذاکرات کے اس تیرہویں دور میں پہلی سیاچن گلیشیر کو انسانی سرگرمیوں کے سبب درپیش ماحولیاتی خطرات کی بھی بات ہوئی ۔اس علاقے میں فوجی سرگرمیاں خود انسانوں کے لے خطرے کے علاوہ ماحولیاتی آلودگی کا باعث بھی ہیں سیاچن کی الودگی اس خطے ہی کے لیے نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ سیاچن گلیشیر کے پگھلا وکی وجہ سے پانی کی آلودگی بڑھ رہی ہے ۔ یہ دراصل دنیا کے لیے پانی کے ذخائر ہیں۔سیاچن کاتنازعہ مسئلہ کشمیر سے الگ نہیں تو اسے مسئلہ کشمیر کا حصہ ہونا چاہیے ۔اقوام متحدہ کو خود مداخلت کر کے اس علاقے کو فوجی سرگرمیوں کے لیے ممنوع قرار دینا چاہیے۔
 
Sardar Ashiq Hussain
About the Author: Sardar Ashiq Hussain Read More Articles by Sardar Ashiq Hussain: 58 Articles with 50878 views
The writer is a Journalist based in Islamabad. Email : [email protected]
سردار عاشق حسین اسلام آباد میں مقیم صحافی ہیں..
.. View More