متحدہ کی ایوانوں میں واپسی

متحدہ قومی موومنٹ نے سینٹ، قومی اسمبلی اور سندھ اسمبلی سے مستعفی ہوگئی تھی، لیکن حکومت نے ان کی شکایات کا ازالہ کرنے ہوئے گریوانس کمیٹی بنائی جس کے بعد سندھ کی اس جماعت نے ایوانوں میں واپس جانے کا فیصلہ کیا اور اس کے تمام اراکین دوبارہ ایوانوں کے اجلاسوں میں شریک ہوئے۔ ذیل کے کالم میں متحدہ کے اس سیاسی عمل کے بارے میں تجزیہ کیا گیا ہے۔
جمہوریت کی گاڑی چاہے کیسی ہی کیوں نہ ہو ہر صورت میں ملک و قوم کے لیے مفید اور بہتر ہوتی ہے۔ پاکستان کی 68سالہ تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے ملک میں جمہوریت کم اور آمریت کا دور دورہ زیادہ رہا۔ ایسی صورت حال بھی آئی کہ سیاسی جماعتوں نے از خود آمروں کو دعوت دی اقتدار سنبھالنے کی اور انہوں نے اقتدار سنبھالا ۔ ترقی کے اعتبار سے موازنہ کیا جائے تو جمہوری دور کے مقابلے میں آمروں کے دور میں ملک نے زیادہ ترقی کی، عوام میں زیادہ خوش حالی آئی اس کے باوجود جمہوری طرز حکمرانی کو برتری اور فضیلت حاصل ہے ۔ کسی نے ٹھیک ہی کہا کہ آمریت کے مقابلے میں لولی لنگڑی جمہوریت بہتر ہے۔ آمریت میں آمر اور اس کے حواریوں کی حکمرانی چلتی ہے۔ ان کی مرضی اور منشاء کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا۔ جمہوری دور میں عدالتیں آزاد ہوتی ہیں، میڈیا آزاد ہوتا ہے، مختلف سطح پر سینٹ، قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلیاں موجود ہوتی ہیں جہاں پر عوام کے نمائندے اپنی آواز ، اپنے خلاف ہونے والے ظلم و زیادتی کی دوھائی دے سکتے ہیں، اگر کسی کے ساتھ ظلم و زیادتی ہو تو میڈیا اسے انصاف دلانے کی بھر پور کوشش کرتا ہے۔ ایسی بے مثال مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ عدالت نے سو موٹو نوٹس لیا اور مظلوم کو انصاف مل گیایا کسی بات کو میڈیا نے اچھالا اس پر فوری توجہ دی گئی۔ جمہوری نظام میں منتخب نمائندے اپنارشتہ پارلیمانوں سے منقطع کرلیں تو پھر ان کی آواز سننے والا ، ان کی شکایات حکومت تک پہنچانے والا کوئی اور ذریعہ نہیں ہوتا۔ منتخب ایوانوں کے توسط سے منتخب نمائندے اپنی آواز متعلقہ حکام تک بہ آسانی پہنچا سکتے ہیں۔

پاکستان میں موجودہ حکومت 2013ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں بر سرِ اقتددار آئی۔ اسے ڈھائی سال کا عرصہ حکمرانی کرتے ہوئے ہوگیا ہے، اتنا ہی عرصہ ابھی باقی ہے۔ اس تفصیل میں جائے بغیر کہ نون لیگ کا طرز حکمرانی کیسا ہے، اِن ڈھائی سالوں میں ملک نے کتنی ترقی کی، عوام میں کس قدر خوش حالی آئی، لاء اینڈ آڈر کی کیا صورت حال رہی، دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے اس حکومت نے کیا اقدامات کیے، اندرونی اور بیرونی خلفشار سے کس طرح نمٹا گیا۔دھرنوں کی سیاست سے کیسے نمٹا گیا۔دھاندلی کے الزامات کا مقابلہ کیسے کیا گیا، تمام امور اپنی جگہ لیکن جمہوری نظام چل رہا ہے۔ بیچ بیچ میں سخت اور کٹھن حالات نے اس حکومت کو آگھیرا، خاص طور پر تحریک انصاف اور علامہ ڈاکٹر طاہر القادری نے حکومت کو اپنے آگے لگایا ہوا تھا، دھرنوں کی سیاست، جلسے جلوسوں، ریلیوں کی سیاست نے نون لیگ کو ہچکولے کھانے پر مجبور کردیا، ایک لمحہ تو ایسا بھی آیا کہ نیوٹرل امپائر کی انگلی اٹھنے کے اشارے بھی سامنے آئے لیکن جمہوریت نے تمام تر حالات کو شکست دی ، جمہوری کا سورج طلوع رہا۔ دہشت گردی ایک ایسا مسئلہ حکومت کو درپیش رہا کہ اس سے نمٹنے کے لیے اسے سو جتن کرنے پڑے۔ آپریشن ضربِ عضب میں حکومت کے ساتھ تمام سیاسی جماعتیں متحد اور منظم نظر آئیں۔ کراچی آپریشن میں بھی سیاسی جماعتوں کے اتحاد کی یہی صورت حال تھی۔ ملک کی چوتھی اور سندھ کی دوسری بڑی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ(ایم کیو ایم) بھی آپریشن ضرب عضب اور کراچی آپریشن کے حق میں حکومت کے ساتھ تھی۔ اس نے بھر پور طریقے سے کراچی میں آپریشن کی حمایت کی اور اپنی تمام تر حمایت اور تعاون کا یقین دلایا۔ کراچی میں آپریشن جیسے جیسے آگے بڑھا سندھ کی اس جماعت کے تحفظات میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور ایک وقت ایسا آیا کہ اس جماعت نے اپنے تمام منتخب نمائندوں کے ساتھ احتجاجاً تمام ایوانوں سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ کچھ عرصہ قبل یہی عمل تحریک انصاف کی جانب سے بھی کیا جاچکا تھا، ان کے استعفے منظور نہیں ہوئے تھے اور وہ واپس ایوانوں میں آچکے تھے۔ اس طرح قانون میں یہ گنجائش موجود ہے کہ اگر کوئی منتخب نمائندہ احتجاج کے طور پر استعفیٰ دے اور حکومت اس کی ناراضگی دور کردے تو وہ اپنا استعفیٰ واپس لے کر ایوان کا حصہ بن سکتا ہے۔

حکومت نے ایم کیو ایم کے اس مسئلہ پر بھی یہی حکمت عملی اپنائی اور انہیں سمجھاتے اور مناتے رہے اور استعفے واپس لینے پر رضامند کرتے رہے۔ جس کے لیے کئی راستے اختیار کیے گئے، مولانا فضل الرحمٰن سے ثالث کا کردار ادا کرنے کی درخواست کی گئی جسے انہوں نے قبول بھی کیا اور وہ ایم کیو ایم کو منانے ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو بھی تشریف لے گئے۔ جو ایک اچھا اقدام تھاگو ان کے اس عمل کو ان کی اپنی جماعت کے بعض لوگوں نے تنقید کا نشانہ بھی بنایا، مولانا صاحب نے کوشش کی لیکن بات بن نہ سکی ، بگاڑ پیدا ہوتا گیا، یہ بات طے تھی کہ اگر ایم کیو ایم کے استعفے قبول کر لیے جاتے تو ملک میں جمہوریت کے لیے مشکلات ہی نہیں بلکہ جمہوری بحران پیدا ہوجانے کا خطرہ تھا۔اس کی ایک وجہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی درمیان پیار و محبت رشتہ جدا ہوچکا ہے۔ بلکہ ان کے درمیان فاصلے پیدا ہوچکے ہیں۔ چنانچہ حکومت ایم کیو ایم سے رابطے میں رہی اور نون لیگ اور نواز شریف کے بہ اعتماد وزیر اسحاق ڈار صاحب کی کوششیں بار آور ثابت ہوئیں اور دونوں جماعتوں میں سمجھوتا ہوگیا جس کے نتیجے میں سندھ کے معاملات کے لیے ایک گریوانس کمیٹی تشکیل پاگئی جس کی ڈیمانٹ ایم کیو ایم کر رہی تھی۔گریوانس کمیٹی(Grievance Redressal Committee, GRC) کی تشکیل عمل میں آچکی ہے۔ اس میں جسٹس (ر)ناصر اسلم زاہد، جسٹس(ر)اجمل میاں، جسٹس(ر) خلیل الرحمٰن خان، بیریسٹرفروغ نسیم اور سیکریٹری داخلہ حکومت پاکستان شامل ہیں۔ اس کمیٹی کو تین ماہ میں اپنی رپورٹ حکومت پاکستان کو پیش کرنا ہے۔ان میں سے بیریسٹر فروغ نسیم نے اپنی مصروفیات کے باعث معزرت کر لی ہے ، امکانات یہی ہیں کہ ان کی جگہ حکومت کسی اور ایم کیو ایم کی اہم شخصیت کو اس کا رکن نامذد کردے گی۔ میڈیا پر الطاف حسین کے بلیک آؤٹ کا مسئلہ ہائی کورٹ میں ہے، اس پر حکومت اور ایم کیو ایم کے درمیان کچھ پیچیدگی سامنے آئی ہے وہ بھی افہام و تفہیم سے دور ہوجائے گی۔ اس لیے کہ اسی میں حکومت کے لیے بہتری ہے اور یہی سندھ کی اس دوسری بڑی سیاسی جماعت کے لیے بھی بہتر ہے۔ ایم کیو ایم کے سیاسی وفد کی ڈی جی رینجرز سے ملاقات بھی مستقبل میں بہتر حالات کا اشارہ دے رہے ہیں۔

پیر 2نومبر 2015ء کو متحدہ کے سینیٹرز ایوان بالا میں واپس پہنچ گئے۔ خوش آئند بات تھی کہ ایوان میں موجود اراکین نے اپنے ساتھیوں کو ڈیسک بجا کر خوش آمدید کہا۔ نون لیگ کے سینیٹر مشاہد اﷲ خان صاحب ایم کیو ایم کے طاہر مشہدی کی نشست پر گئے اور انہیں ایوان میں واپس آنے پر مبارک باد دی۔ اس موقع پر چیرٔ میں سینٹ نے خصو صی رولنگ دی جس میں کہا گیا کہ’ چیرٔمین سینٹ اور اسپیکر کے استعفوں کی منظوری کے حوالے سے کردار کو متنازع بنایا گیا‘ ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر فاروق ستار نے استعفوں کے بعد کہا تھا کہ حکومت ان کی بات نہیں سن رہی تھی اس لیے استعفے دیے ۔ اب چونکہ حکومت ان کی بات سن رہی ہے اس لیے انہوں نے استعفے واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے، مذکورہ استعفے سیاسی ہونے کے حوالے سے کافی مواد موجود تھا، استعفے موثر ہونے سے قبل ایم کیو ایم نے استعفے واپس لیے۔ چیرٔمین نے کہا کہ ایم کیو ایم ارکان جتنا عرصہ احتجاجاً استعفوں پر رہے ، اس عرصے کی چھٹی کی درخواست دے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ زیر التوا بزنس کے حوالے سے بھی درخواست دے سکتے ہیں‘۔ایم کیو ایم کاکہنا تھا کہ انہوں نے احتجاجاً استعفے دیے تھے پارلیمان کے خلاف نہیں ہیں۔ انہوں نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار ار وزیر اطلاعات پرویز رشید کا خاص طور پر شکریہ ادا کیا۔متحدہ کے فاروق ستار نے کہا ہے کہ وہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولنا فضل الرحمٰن کی بدولت پارلیمنٹ میں واپس
آئے ہیں۔

سینٹ کے بعد متحدہ کے منتخب نمائندہوں نے قومی اسمبلی میں بھی اپنی حاضری ڈال دی ہے اور وہاں سے بھی اپنے استعفے واپس لے لیے ، وہ جمعہ 6 نومبرکو ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہوئے ، مسلم لیگ نون کے اراکین اسمبلی نے ڈیسک بجا کر ان کا خیر مقدم کیا،اس موقع پر قومی اسمبلی کے قائم مقام اسپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی نے رولنگ دی کہ ایم کیو ایم کے ممبران اسمبلی کے استعفے واپس قرار دیے جاتے ہیں،ڈپٹی اسپیکر نے ایم کیو ایم کے ممبران کا ایوان میں واپسی کا خیر مقدم کیا۔اسپیکر نے آئین اور قانون کا حوالہ دیتے ہوئے رولنگ دی۔اب متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے سندھ اسمبلی میں بھی درخواست جمع کرادی گئی ہے کہ ان کی جماعت نے سندھ اسمبلی کی نشستوں سے مستعفی ہونے کا جو فیصلہ کیا تھا وہ اس کو واپس لیتے ہیں اور انہیں بدستور سندھ اسمبلی کا رکن برقرار رکھا جائے۔ اسپیکر آغا سراج درانی نے ایم کیو ایم کے استعفیٰ واپس لینے کا فیصلہ کا خیر مقدم کیا ہے۔یہ استعفے قائد حزب اختلاف خواجہ اظہار الحسن اور ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر سید سردار احمد کی سربراہی میں دیگر 43اراکی نے ذاتی طور پر اسپیکر آغاسراج درانی سے ان کے چیمبر میں ملاقات کی اور اپنے استعفے واپس لینے کی اجتماعی درخواستیں پیش کیں۔ متحدہ کے سات ارکان نے جو بیرون ملک ہیں استعفوں سے متعلق اپنی کردرخوا ستیں بذریعہ فیکس ارسال کیں، جن میں عادل صدیقی، ارم عظیم فاروقی، محمد اشفاق منگی، خالدبن ولایت ، محمد عدنان، امیر مطاہر اور رؤف صدیقی شامل ہیں۔ اب متحدہ کے تمام اراکین منتخب ایوانوں میں اپنا آئینی اور جمہوری حق احسن طریقے سے انجام دیں گے۔ متحدہ کا یہ عمل ان کے جمہوری سوچ رکھنے کی عکاسی کرتا ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سیاسی جماعت جمہوریت پسند جماعت ہے ،اس کا دہشت گردی اور پاکستان مخالف سرگرمیوں سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ ملک میں جمہوریت کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں، جمہوری کردار ادا کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ وہ ہرگز یہ نہیں چاہتے کہ ملک میں موجود جمہوری عمل کی گاڑی کا پہیہ پٹری سے اتر جائے یا جام ہوجائے یا یہ تباہ و برباد ہوجائے۔ پاکستان کی کوئی ایک سیاسی جماعت بھی ایسی نہیں جس میں بیڈ الیمنٹس موجود نہ ہو، گلو بٹ ، لنگڑا، کنکٹا، موٹا، پہاڑی نہ جانے کیا کیا نام کے دہشت گرد و انتہا پسند ہر جماعت میں موجودہوتے ہیں۔وہ اُس جماعت کو استعمال کرکے اپنا مقصد حاصل کرتے ہیں۔ ماضی میں بے شمار ایسے واقعات رونما ہوچکے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کے کارندے غیر ذمہ دارانہ معاملات میں ملوث پائے گئے ، یہاں تک کہ ہوئی جہاز تک ہایہ جیک کر لیا گیا ۔ ایم کیو ایم میں بھی یقینا ایسے لوگ ہیں جن کے خلاف کاروائی ہورہی ہے۔ اس جماعت نے کبھی یہ نہیں کہا کہ جو لوگ کسی بھی جرم میں ملوث ہوں انہیں قانون نافذ کرنے والے اپنی گرفت میں نہ لیں ، ضرور انہیں گرفتار کریں لیکن انہیں گرفتار کرکے قانون کے مطابق ان کے ساتھ عمل کیا جائے۔ یہ بات مناسب اور قانون کے مطابق بھی ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ حکومت اور ایم کیو ایم کے معاملات نارمل ہوجائیں گے، اسی میں دونوں جماعتوں کی بہتری ہے، اسی میں عوام کا مفاد ہے، اسی میں جمہوری قدروں کی بقا ہے۔ ایم کیو ایم کا منتخب ایوانوں میں واپس آجانا پارٹی کے لیے بھی ، سندھ کے خصوصاً شہری علاقوں کے عوام کی فلاح و بہبود میں مثبت ثابت ہوگا۔ سیاست ضرور کی جائے لیکن  ایوانوں میں رہ کر سیاست کرنا جمہوری عمل کو مضبوط کرتا ہے، جمہوریت پنپتی ہے، پروان چڑھتی ہے، ملک و قوم ترقی کی جانب گامزن ہوتے ہیں۔
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1284442 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More