پاگلوں اور شیدائیوں کا شہر

اس شہر میں ’’پاگل پن‘‘ کا وہ ادراک ہی نہیں جو عام لوگوں میں پایا جاتا ہے۔یہ بہت شاندار بات ہے کہ اس شہر میں ’’ذہنی مریض یا پاگل‘‘ جیسے الفاظ بولے اور نہ ہی سنے جاتے ہیں۔ جو لوگ ذرا مختلف یا اہم ہوں انہیں وہ ’’مہمان ‘‘کہتے ہیں۔

بیلجئیم کا گیل نامی شہر قدرتی نظاروں اور اینٹورپ کے دیہاتوں سے گھرابہت خوبصورت دکھائی دیتا ہے۔لیکن اس کے بازاروں اور مارکیٹوں میں گھومنے والے سیاحوں کو اس شہر کے رہائشی کسی وجہ سے سنکی اور عجیب ضرور محسوس ہوتے ہیں۔ اس شہر کی آبادی 700 افراد پر مشتمل ہے ،اس شہر کی خاص بات یہ ہے کہ سیکڑوں ذہنی مریضوں کیلئے گھر سے کم نہیں، جو نہ صرف نفسیاتی ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں بلکہ قدیم روایتی طرز نگہداشت کے تحت مقامی خاندان مریضوں کا خیال رکھنے کیلئے انہیں اپنے گھروں میں لے آتے ہیں۔
 

image


مائیک جے ایک مصنف اور ثقافتی تاریخ دان ہیں انہوں نے جب اس شہر کا دورہ کیا تو کچھ یہاں کے اس عجیب روایت کے متعلق دلچسپ انکشافات کئے۔ اُن کے مطابق اس شہر میں ’’پاگل پن‘‘ کا وہ ادراک ہی نہیں جو عام لوگوں میں پایا جاتا ہے۔یہ بہت شاندار بات ہے کہ اس شہر میں ’’ذہنی مریض یا پاگل‘‘ جیسے الفاظ بولے اور نہ ہی سنے جاتے ہیں۔ جو لوگ ذرا مختلف یا اہم ہوں انہیں وہ ’’مہمان ‘‘کہتے ہیں۔ مقامی حکومت سے ایک حلف نامہ پر دستخط کرنے کے بعد مقامی لوگ ذہنی امراض کے شکار ان لوگوں کو اپنے گھروں میں لے جاتے ہیں۔ کسی ’’مہمان ‘‘ کو ساتھ رکھنے والے خاندان کو مقامی حکومت کی جانب سے وظیفہ بھی ادا کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی نفسیاتی بیماریوں جیسے شیزوفرینیا کا شکار، سیکھنے میں مشکلات رکھنے والے لوگوں اور ان لوگوں کا بھی خیر مقدم کیا جاتا ہے جن کے امراض کی تشخیص نہ ہوئی ہو۔انہیں گھر میں آنے اور جانے کی مکمل اجازت ہوتی ہے۔ان سے ہر قسم کے رویے کی امید رکھی جاتی ہے۔

جے کا اس بارے میں کہنا ہے کہ گیل میں ایسے لوگ یکسر نظر آجاتے ہیں، گلی ،محلوں میں آپ اپنے اردگرد ایسے لوگوں کو محسوس کر سکتے ہیں جو عام لوگوں سے مختلف نظر آتے ہیں اور پھر اگلے ہی لمحے آپ ان پر توجہ نہیں دیتے۔ وہ ایسے مناظر کا حصہ ہی معلوم ہوتے ہیں، یہاں ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ وہ عام لوگوں کے ساتھ اتنا گھل مل چکے ہوتے ہیں کہ انہیں مقامی آبادی سے الگ دیکھا ہی نہیں جا سکتا۔ گیل صدیوں سے نفسیاتی دیکھ بھال کے اس ماڈل کیلئے مشہور رہا ہے اور اس نظام کی کڑیاں 14ویں صدی سے جا ملتی ہیں، یہاں کے رہائشی ذہنی امراض کے شکار لوگوں کیلئے کھلا دل رکھتے ہیں۔
 

image


جے مزید بتاتے ہیں کہ یہاں کے مقامی کسی شخص کو خودکلامی کرتے ہوئے دیکھ کر تیکھی نظروں کا نشانہ نہیں بناتے اور کسی غیر معمولی رویے پر دیگر شہروں کی طرح پولیس کو نہیں بلا لیتے۔ذہنی امراض کا شکار لوگوں کو کمروں یا گھروں میں بند کر کے نہیں رکھا جا تا بلکہ وہاں یہ لوگ علاقے کے میوزک بینڈ اور کھیلوں کی ٹیموں میں بھی حصہ لیتے ہیں۔ اس حوالے سے تاریخ دان برٹ بچز کہتے ہیں،یہ جاننا کہ ڈاکٹر آپ کو قبول کر رہے ہیں،آپ کی نگہداشت کیلئے پورا ایک خاندان موجود ہے، بلکہ پو را معاشرہ آپ کے وجود کو تسلیم کرہا ہے، اس سے ہی مریض کو بیماری سے شفا کا احساس ہونے لگتا ہے۔ دیگر معاشروں میں لوگ انہیں خطرناک سمجھتے ہیں لیکن یہ بیچارے تشدد کرنے کی بجائے خود تشدد کا شکار ہو جاتے ہیں۔

جے یہ مانتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں ابھی ذہنی بیماریوں کو جرم کی نگاہ سے دیکھا اور خطرے کی علامت ہی سمجھا جاتا ہے۔ گیل میں بھلے ان ذہنی مریضوں کے حوالے سے لوگ گھبراہٹ کا شکار نہ ہو لیکن جب یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ جب یہ ’’مہمان‘‘ بچوں کے ساتھ رہتے ہیں تو کیا ہوتا ہے؟ جے کہتا ہے یہ دونوں فریقین کیلئے ایک سیکھنے کا عمل بن جاتا ہے ،یہ دیکھ کر بہت اچھا لگتا ہے ہے کہ بچے ان خاص مہمانوں کے ساتھ رہ کر پرورش پا رہے ہوتے ہیں۔جب میں وہاں تھا تو انہوں نے بتایا کہ امریکی ماہرین نفسیات اس بات پر از حد پریشان دکھائی دیتے اور کہتے ’’واقعی!آپ ان مریضوں کو اپنے بچوں کے ساتھ رہنے دیتے ہیں؟‘‘

مریض کی نگہداشت کرنے والا خاندان ہسپتال کے ساتھ رجسٹرڈ ہوتا ہے، ہفتہ میں ایک یا دو بار مقامی ہسپتال سے ٹیم آتی ہے وہ ان سے تھوڑی بہت بات چیت کرتی ہے اور اگر ضرورت ہو تو ادویہ انہیں دے جاتی ہے،باقی کی تمام دیکھ بھال گھر والوں ہی کو کرنا ہوتی ہے۔ مقامی ہسپتال کے پروفیسر کلیسز کا کہنا ہے ہم گھر والوں سے صرف یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ مریض کے ساتھ جس قدر ممکن ہو سکے نارمل رویہ رکھیں۔ان کی صحت یابی کیلئے کوئی خاص مقاصد طے نہیں کئے جا تے بلکہ ان میں موجود صلاحیتوں اور توانائیوں کے مطابق انہیں معمولات زندگی میں مصروف رکھنے کی کو شش کی جاتی ہے۔ایک اور خاص بات نگہداشت کرنے والا خاندان اس امید پر کسی ’’مہمان‘‘ کو گھر میں نہیں رکھتا کہ وہ ہفتہ یا دس دن میں کسی اور گھر منتقل ہو جائے گا اور اس کی جگہ کوئی اور آجائے گا، بلکہ کچھ مریض تو سالوں کیا دہائیوں تک ایک ہی خاندان کے ساتھ رہتے ہیں۔ کچھ لوگ اس عمل کو تھراپی کاحصہ مانتے ہیں جبکہ ماہرین نفسیات صدیوں سے کامیابی سے علاج کرنے پر اس شہر کے معترف ہیں،کہ وہ ان مریضوں کو اکیلا نہیں چھوڑتے اور خصوصاَ انہیں مریض سمجھتے ہی نہیں ہیں۔
 

image


اس شہر کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نشاۃ ثانیہ ہی سے دنیا بھر سے لوگ ان کے اس نظام کی وجہ سے یہاں آتے ہیں۔دراصل گیل شہر کی کہانی کا نقطہ آغاز کچھ یوں تھا کہ ڈیمفنا ایک آئرش شہزادی تھی،جب وہ سترہ برس کی تھی تب اس کی ماں مر گئی،اس کا باپ اس غم میں نیم پاگل ہو گیا ۔ایک دن اس نے ڈیمفنا کو غور سے دیکھا تو وہ اسے اپنی ماں جیسی ہی لگی ،اس نے اپنی ہی بیٹی سے شادی کرنے کی کوشش کی۔لیکن ڈیمفنا گھر سے بھاگ گئی۔اس کا باپ اسے ڈھونڈتا رہا اایک دن اسے یہ گیل میں مل گئی۔اس کے باپ نے اسے وہی قتل کر دیا۔ڈیمفنا جب گھر سے بھاگی تو اسے اپنی کچھ ایسی صلاحیتوں کا ادراک ہوا کہ ذہنی امراض کے شکار لوگوں کا علاج کرنے لگی۔جس جگہ پر ڈیمفنا کو قتل کیا گیا تھا وہ جگہ ذہنی مریضوں اور پاگلوں کے علاج کیلئے معجزاتی طور پر مشہور ہو گئی۔اس جگہ پر اس کا مقبرہ بنا دیا گیا اور 1349ء میں اس پر ایک چرچ بھی بنا دیا گیا۔

نشاۃ ثانیہ کے دوران اس شہر کوذہنی مریضوں کے علاج کیلئے بہت شہرت ملی،لوگ مصلحتاً اور روحانی وجوہات کی بنا پر یہاں آکر رہنے لگے۔دوسری جانب آس پاس کے دیہاتوں کے لوگ اس سے ناجائز فائدہ اٹھانے لگے اور اپنے ان رشتہ داروں کو یہاں چھوڑ کر جانے لگے جن سے وہ تنگ ہوتے۔1480ء میں چرچ کے ساتھ ایک مہمان خانہ بھی بنا دیا گیا لیکن مہمانوں کی بڑی تعداد کے پیش نظر وہ چھوٹا پڑ گیا ،اس لئے وہاں کے مقامی ان مہمانوں کو اپنے گھروں یا کھیتوں میں لے آتے۔لوگوں کی تعداد بڑھتی گئی اور یہ اس شہر کی روایت بن گئی جو سیکڑوں سال گزر جانے کے بعد بھی جاری ہے۔

جے بتاتے ہیں پہلے یہاں ’’مہمانوں‘‘ کی تعداد تین سے چار ہزار ہوتی تھی جو اب کم ہو کر تین سو کے قریب ہو گئی ہے۔اس کمی کی وجہ شاید لوگوں کا بدلتا ہوا طرز زندگی ہے،پہلے لوگ کھیتی باڑی کرتے تھے،زیادہ تر گھروں کے قریب ہی رہتے لیکن اب گھر کا ہر فرد اپنے کام اور سکول کیلئے گھروں سے باہر رہتا ہے۔ یہاں ’’مہمانوں‘‘ کی بڑی تعداد 1930ء میں تھی اس وقت یہاں چار ہزار سے بھی زائد ذہنی مریض موجود تھے۔
 

image


اس حوالے سے تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ اس کمی کی وجو ہات میں آہستہ علاج اور ان ’’مہمانوں ‘‘ کو گھروں میں لے جانے کی اجازت کی کاروائی کا زیادہ سخت ہونا بھی شامل ہیں۔ لیکن جو بھی ہے جب آپ یہ سوچتے ہیں کہ کوئی شہر ایسا بھی دنیا میں موجود ہے جہاں لوگ فلاح عامہ کیلئے اپنی ذاتی زندگی میں سے وقت نکالتے ہیں تو ان میں ڈاکٹروں کا کیا کردار ہے یہ سوچ کہیں پیچھے رہ جاتی ہے۔ سات سو سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود یہاں بین الاقوامی سیاحوں، ڈاکٹروں اور سماجی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد آتی ہے خاص طور پر جنوبی امریکی یہاں یہ دیکھنے کیلئے آتے ہیں کہ واقعی دنیا میں ایسا کوئی شہر موجود ہے جہاں لوگ بڑے آرام سے ذہنی بیماروں کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔مقامی ہسپتال کے ترجمان جوہان کلیز کہتے ہیں،’’کچھ عرصہ قبل ہمارے پاس امریکی صحافی آئے،پہلی بات جو انہوں نے پوچھی وہ یہ کہ پولیس کو کتنی بار ایک گھر میں جا کر مداخلت کرنا پڑتی ہے۔ہم نے انہیں بتایا کہ گزشتہ دس برسوں میں صرف تین بار پولیس نے کسی کے گھر میں مداخلت کی ،اوران تینوں بار بھی تشدد کے ضمن میں وہ نہیں آئے۔

یہاں دنیا بھر سے ڈاکٹر اس شہر کو قریب سے دیکھنے آتے ہیں،بعض اوقات تو بحث اشتعال انگیز صورت اختیار کر گئی۔کچھ اسے مخبوط الحواس لوگوں کیلئے جنت قرار دیتے ہیں جبکہ ایک نقاد نے گیل کے بارے میں یہ لکھا کہ ’’میں نے اپنی زندگی میں اس سے گھٹیا کوئی چیز نہیں دیکھی کہ وہاں پاگل عام لوگوں کے ساتھ رہتے ہیں ،جس سے نارمل لوگ بھی ان جیسے بن سکتے ہیں۔‘‘ گیل کے ہسپتال ذہنی مریضوں کا علاج بذریعہ کھیل کود ،کام،کھانا بنانے،باغبانی اور خاندانی نگہداشت کیا جاتا ہے۔ لیکن سیکڑوں سالوں میں گیل میں کبھی کسی خاندان نے کسی ’’مہمان ‘‘ کو انکار نہیں کیا وہ اس کے گھر میں نہیں رہ سکتا یا وہ کسی ذہنی مریض کو اپنے آس پاس دیکھنا نہیں چاہتے۔ وہ یہی مانتے ہیں کہ’’ وہ بھی عا م لوگوں جیسے ہیں،انہیں بھی دیکھ بھال کی ضرورت ہے‘‘۔

(بشکریہ : دنیا میگزین)
 

YOU MAY ALSO LIKE:

Half an hour on the slow train from Antwerp, surrounded by flat, sparsely populated farmlands, Geel (pronounced, roughly, ‘Hyale’) strikes the visitor as a quiet, tidy but otherwise unremarkable Belgian market town. Yet its story is unique. For more than 700 years its inhabitants have taken the mentally ill and disabled into their homes as guests or ‘boarders’.