حق وصداقت.....کشمیریوں کی عدالتی فتح

پچھلی چھ دہائیوں سے زائدمتعصب اوربگڑے دہن کے ساتھ کشمیرکواٹوٹ انگ کی رٹ لگانے والوں کی اس وقت ہوا اکھڑگئی جب مقبوضہ کشمیرکی ہائی کورٹ نے تاریخ ساز فیصلہ صادر کرتے ہوئے ایسی سوچ رکھنے والے ا ن تمام افرادکی نفی کردی جوکشمیرکوبھارت کا اٹوٹ انگ کہتے تھے۔عدالت نے اپنے فیصلے میں قراردیاہے کہ کشمیر بھارت کاحصہ نہیں ہے اورنہ ہی جنت نظیرخطہ ارضی بھارت میں ضم ہوسکتاہے ۔سرکاری ملازمتوں سے متعلق کیس میں جسٹس حسنین مسعودی اورجنگ راج پرمشتمل ڈویژن بنچ کے فیصلے میں کہاگیاکہ آرٹیکل۳۷۰ کے تحت کشمیرکابھارت کے ساتھ مکمل نہیں محدودالحاق ہے۔آرٹیکل ۳۷۰کے تحت ریاست نے اپنی خود مختار حیثیت برقرار رکھی ہے۔ساٹھ صفحات پرمشتمل تفصیلی فیصلے میں فاضل عدالت نے قراردیاہے کہ آرٹیکل ۳۷۰بھارتی آئین کامستقل حصہ ہے ۔اسے منسوخ یاختم نہیں کیاجاسکتااوریہ کہ اس آرٹیکل میں اب ترمیم نہیں ہوسکتی ۔۲۵مارچ ۱۹۵۷ء کوختم ہوجانے والی مقبوضہ کشمیرکی قانون سازاسمبلی ہی اس آرٹیکل میں ترمیم یااسے منسوخ کرنے کی سفارش کرسکتی تھی۔ آئین میں دفعہ ۳۷۰ کاعنوان اگرچہ عارضی ہے اورآئین کی شق ۲۱ شامل ہے ،پھربھی اس نے آئین میں ایک مستقل مقام بنالیاہے اوریہ کسی ترمیم تنسیخ یامکمل خاتمے سے بالاترہے۔ریاست کشمیراپنی محدودطرز کی خود مختاری کے تحت اپنی مخصوص حیثیت سے مستفیذہورہی ہے۔ عدالت نے مزیدقرار دیا کہ ریاست میں موجودقوانین کوبھارتی آئین کاآرٹیکل ۳۵اے تحفظ فراہم کرتاہے۔

مقبوضہ کشمیر ہائی کورٹ نے آئین کے آرٹیکل ۳۷۰کے متعلق مذکورہ درخواست کی سماعت کے دوران قراردیاکہ آرٹیکل٣٧٠کے متعلق مذکورہ درخواست کی سماعت کے دوران قرار دیاکہ آرٹیکل ۳۷۰کے تحت ریاست کوخصوصی آئینی حیثیت دینے کااختیاراستعمال کیا،عدالت کے مطابق دیگر راج واڑوں کی طرح جموں وکشمیر بھارت میں ضم نہیں ہوا،اسے محدود خودمختاری حاصل ہے جبکہ بھارتی آئین کے آرٹیکل ۳۵/اے ۱۹۵۴ء کے بعدجموں وکشمیرمیں ریاستی اسمبلی اورحکومت کے وضع کردہ قوانین کاتحفظ فراہم کرتاہے۔ فاضل عدالت نے قراردیاکہ مقبوضہ کشمیرکی اسمبلی کے بنائے گئے قوانین کوبھارتی پارلیمنٹ بھی تبدیل نہیں کرسکتی۔

آرٹیکل ۳۷۰کے تحت حاصل محدودخودمختاری کے تحت مقبوضہ کشمیر میں کسی غیرکشمیری حتیٰ کہ کسی فوجی افسرکولاکرآبادکیاجاسکتاہے اور نہ اسے جائیدادخریدنے کی اجازت ہوتی ہے۔ بھارتی وزیراعظم مودی اور ان کی جماعت کے بعض رہنماؤں نے الیکشن سے پہلے اورمودی کے برسراقتدار آنے کے بعدمقبوضہ کشمیرکوخصوصی آئینی حیثیت دینے والے آرٹیکل ۳۷۰کوختم کرنے کاواضح عندیہ دے دیاتھا،جس کامقصد مقبوضہ کشمیرکوبھارت میں مستقلاًضم کرنے کی راہ ہموارکرناتھی تاہم مقبوضہ کشمیرہائی کورٹ نے مودی اوران کے حامی بی جے پی رہنماؤں کی خواہشات کوپارہ پارہ کردیا ہے۔

مسئلہ کشمیرکے بارے میں سلامتی کونسل کی قراردادمجریہ۲۱اپریل ۱۹۴۸ء اورجنوری۱۹۴۹ء کے تحت مذکورہ کونسل کی نگرانی میں کی گئی رائے شماری کے نتائج کے مطابق پاکستان یا ہندوستان میں ریاست جموں وکشمیرکے الحاق کی حمائت کرتے ہیں۔ہندوستان نے کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس ریاست پرفوجی قبضہ کرکے اسے بھارت میں ضم کرلیالیکن افسوس کی بات ہے کہ سلامتی کونسل نے بھارت کے اس ناجائزاقدام کے خلاف اقوام متحدہ کے منشورکے باب ۷کی شقوں ۳۹تا۱۹۴۷ کے تحت کوئی قدم نہیں کیابلکہ اس عالمی تنظیم نے ۱۹۹۹ء میں انڈونیشیاکی مشرقی تیمورسے علیحدگی کی مزاحمت پراس ریاست کے خلاف کونسل کے ارکان کوہرکاروائی کی ہدائت کردی تھی جبکہ سلامتی کونسل کی چشم پوشی کافائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت نے مقبوضہ کشمیرپرقبضہ مستحکم کر لیا اوراس پرچھ لاکھ فوج،نیم فوجی دستے اورپولیس کومسلط کردیا۔

بھارت کے اس سراسرناجائزغیرقانونی اقدام کے خلاف مقامی آبادی اٹھ کھڑی ہوئی لیکن جب بھارت نے ان کے پرامن احتجاج کوکچلنے کیلئے فوجی ہتھکنڈے استعمال کیے تو مظلوم عوام قابض بھارتی فوج کے خلاف ہتھیار اٹھانے پرمجبورہوگئے۔بین الاقوامی قانون مقبوضہ آبادی کواپناوطن آزادکرانے کیلئے مسلح جدوجہدکاحق دیتاہے لیکن بھارت ،حریت پسندوں کودہشتگردقراردیکران کے خلاف انسداد دہشتگردی جیسے کالے قوانین کی آڑمیں کشمیری عوام کی نسل کشی کررہاہے اورپاکستان کی حکومت اور فوج کواس کاذمہ دا ر قرار دیتا ہے ۔ بھارت اوربعض بڑی طاقتوں نے یہ مؤقف اختیارکیاکہ حکومت پاکستان نے بھارت سے ۲جولائی ۱۹۷۲ء کو معاہدہ شملہ میں کشمیر سمیت تمام تنازعات کودوطرفہ مذاکرات کے ذریعہ طے کرنے پراتفاق کیاہے لہندایہ مسئلہ سلامتی کونسل میں نہیں اٹھایاجا سکتا۔

یہ''بڑی طاقتوں''کی انتہائی بددیانتی اورپاکستان کے حکمرانوں کی کمزوری اورنااہلی ہے کہ وہ ایسے غیرقانونی مؤقف کومانتے ہیں جس سے بھارت کشمیر پراپنے ناجائزقبضے کوطول دیتا جارہاہے ۔اوّل تومعاہدہ شملہ میں کوئی ایسی شق نہیں ہے کہ فریقین کسی تنازع کوسلامتی کونسل میں نہیں اٹھاسکتے ۔دوم یہ کہ اگربالفرض ایسی کوئی شق ہوتی بھی تووہ کالعدم قرار پا جاتی کیونکہ اقوام متحدہ کے منشورکی شق ۱۰۳کی روسے اگرکوئی معاہدہ اقوام متحدہ کے منشورسے متصادم ہوتووہ نافذالعمل نہیں ہوسکتا۔ کشمیرکی صورتحال کے پیش نظرمقبوضہ علاقے پر قابض بھارتی فوج پرذمہ داری عائدہوتی ہے کہ وہ حریت پسندقیدیوں کوجنگی قیدیوں کی حیثیت دے،ان کے ساتھ جینواکنونشن۱۱۱کے تحت سلوک کرے نہ کہ انسداددہشتگردی کے کالے قانون افسپاکے مطابق ان پرذہنی اورجسمانی تشددکرے یاان کاماورائے عدالت قتل کرتاچلاجائے۔

جموں ہائی کورٹ کافیصلہ یقیناایک تاریخی ہی نہیں تاریخ سازفیصلہ قرار پاتاہے جسے تاریخ میں انسانیت،شرافت، آئین ،قانون وغیرہ کے حوالے سے سنہری حروف میں لکھاجائے گا بھارتی حکمرانوں کاچاہئے کہ وہ اس فیصلے پررد وکدکی بجائے اس کی روح کوسمجھنے کی کوشش کریں، ہندوستان کے باشعوراورغیرمتعصب عوام کے برعکس رام راج اور ہندتوا کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کیلئے بنیادپرست مودی حکومت اس فیصلے پرچیں بچیں ہے ۔بھارتی میڈیانے اس فیصلے پربے ہنگم شورو غوغاکیاہے،اس سے یہ تاثرابھرتاہے کہ اس فیصلے کے منظرِ عام آتے ہی دہلی سرکارکے ایوانوں میں کھلبلی مچ گئی۔بھارتی وزارتِ داخلہ نے٦٠ صفحات پرمشتل عدالتی فیصلے کی نقل منگواکرآئینی پیچیدگی دورکرنے کیلئے مشورے شروع کردیئے ہیں۔نئی دہلی حکام نے قانونی ماہرین کوبلا کرسنجیدہ سوچ وبچارشروع کردی ہے کہ عدالت نے کن خطوط پریہ فیصلہ دیا۔

بھارتی حکام نے ریاست جموں وکشمیرانتظامیہ سے بھی رپورٹ طلب کی ہے اورپوچھاہے کہ عدالت عالیہ نے کن وجوہات پریہ حکم صادرکیاہے ۔ جموں وکشمیرہائی کورٹ کے فیصلے سے واضح طورپرضدی حکمرانوں کے اٹوٹ انگ مؤقف کویکسرمستردکردیاہے کہ مقبوضہ کشمیرکابھارت سے انضمام آئینی طورپرنہیں ہوااوربھارتی حکمرانوں کاکشمیرکے بارے میں دعویٰ حقائق اورشواہدکی روشنی میں نہ صرف غلط بلکہ غیرآئینی ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جموں کشمیرہائی کورٹ کے تاریخی فیصلے نے بی جے پی اورآرایس ایس کے مؤقف کوبھی مسترد کریا ہے،بجائے اس کے کہ بھارتی حکمران عدالتی فیصلے کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیرسے جارح اورغاصب بھارتی افواج کے انخلاء کا اعلان کرتے ،الٹا وہ اس فیصلے کوسپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کااعلان کررہے ہیں۔یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ دہلی سرکارنے کشمیری حریت پسندنوجوانوں کی جدوجہد آزادی کوبزورشمشیرکچلنے کیلئے مقبوضہ وادی میں آرمڈفورسز اسپیشل پاورایکٹ اورپبلک سیفٹی ایکٹ کانفاذکر رکھا ہے۔مقبوضہ وادی کے حریت پسندبھارتی فوج کے غاصبانہ قبضے اوراسے وسیع اختیارات دینے والے ان دونوں قوانین کے خلاف ١٩٨٨ء سے احتجاجی تحریک کے پرچم کو اپنے لہوسے گلنارکرتے چلے آرہے ہیں۔ عالم یہ ہے کہ وادیٔ میں بنیادی انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی کسی بھی عالمی تنظیم کاداخلہ ممنوع ہے۔

مقبوضہ کشمیرہائی کورٹ کافیصلہ مسلمہ طورپر حقیقت پسندانہ ہے۔یہ فیصلہ بھارتی قیادت اورمقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی مخلوط حکومت پربرق بن کرگراہے چنانچہ مودی اورمفتی سرکارنے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے یانظرثانی کی درخواست دائرکرنے کافیصلہ کیاہے۔ فیصلہ سنتے ہی کشمیری عوام سڑکوں پرنکل آئے ،بعض اہم مقامات پرپاکستانی پرچم لہرادیئے گئے۔اس موقع پرکشمیری قیادت اورعوام نے عہدکیاکہ وہ کسی بھی صورت میں کشمیرکوبھارت کاحصہ قبول نہیں کریں گے۔بھارت کے اندرقانونی جنگ خواہ کوئی بھی صورتحال اختیار کرے،ہائی کورٹ کے فیصلے نے جس کاایک جج ہندوہے،کشمیریوں اور پاکستان کے مؤقف کی تائیدکر دی ہے کہ کشمیر ایک متنازع مسئلہ ہے اوراس کاحتمی فیصلہ صرف کشمیری عوام ہی کرنے کے مجازہیں۔پاکستان کاہمیشہ سے مؤقف رہاہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیرکے الحاق کی دستاویزجعلی ہے اوربرسوں بعددیگر مصدقہ ذرائع سے بھی اس دعوے کی تصدیق ہوتی رہی اوراس سے بڑا اورکیاثبوت ہو سکتاہے کہ خودمہاراجہ کشمیرہری سنگھ اس حقیقت کورد نہیں کرسکے۔انہوں نے کشمیرکے مستقبل کافیصلہ کرتے ہوئے کشمیری عوام کاقطعاًاعتمادمیں نہیں لیاتھا۔ گزشتہ ٦٨سال کے واقعات،کشمیریوں کی قربانیوں سے بھرپورطویل جدوجہدآزادی اورعدالت عالیہ کے تازہ فیصلے نے بھی حقائق کی تصدیق کردی ہے۔سیدھی سے بات ہے کہ اقوام کے مستقبل کے فیصلے اس طرح نہیں ہوتے،جس کی خواہش بھارت سرکارکر رہی ہے۔۱۹۴۸ء کی جنگ میں سکھوں کوشکست ہوئی توانگریزوں نے کشمیرکی خوبصورت وادی اوراس کے خوش اندام باشندوں کوبھیڑبکریاں سمجھ کرہندومہاجن گلاب سنگھ ڈوگرہ کے ہاتھ بیچ دیا، برصغیر پر آزادی کاسورج طلوع ہونے تک ڈوگرہ حکمران کشمیری عوام کومویشیوں کوریوڑ ہی سمجھتے رہے۔

۲۰۱۴ء کے انتخابات میں بی جے پی کے نریندرمودی کشمیرکوایشوبنا کر انتہاپسندہندوؤں کے ووٹ لیکر اقتدار میں آئے۔انتخابات کے دوران ان کا نعرہ تھا کہ وہ اقتدار میں آکرآئین کی دفعہ ۳۷۰میں ترمیم کرتے ہوئے مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت(اسپیشل اسٹیٹس )اورمحدود سی اندرونی خود مختاری ختم کرکے اسے بھارت کااٹوٹ انگ بنانے کی راہ میں موجودہ تمام رکاوٹیں دورکردیں گے۔ انتخابات ہوئے توکشمیری عوام نے بی جے پی کوووٹ نہ دیکریہ سازش ناکام بنادی۔مودی تمام وسائل جھونک کربھی اتنی نشستیں نہ لے سکا کہ مقبوضہ کشمیر میں تنہاحکومت بناسکے چنانچہ حکومت سازی کیلئے مفتی سعیدکامشروط تعاون حاصل کرناپڑاتاہم کٹھ پتلی حکومت نے ریاست کے اسپیشل اسٹیٹس پرسمجھوتہ کرنے سے انکارکردیا۔سرینگرہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے نے کشمیری عوام کے ''عوامی جذبات وخواہشات''پرمہرتصدیق ثبت کردی ہے۔

کشمیری عوام روزانہ مظاہرے کرکے پاکستانی پرچم لہراکربھارتی سیکیورٹی فورسزکی گولیاں کھاکرعالمی ضمیر جھنجوڑ رہے ہیں اوروہ آزادی سے کم کسی چیزپرراضی نہیں۔ایک طرف یہ حالت ہے کہ ہرقسم کابھارتی استبداد کشمیریوں کے جذبہ حریت کودبانے میں ناکام ہوگیاہے اورایک عدالت ان کے مؤقف کی تائیدکررہی ہے لیکن دوسری طرف کشمیری عوام کاوکیل پاکستان اندرونی سیاست میں بری طرح الجھا ہواہے۔ عالمی سطح پرکشمیر کاذکر جس طرح اجاگرکرناچاہئے وہ اس سے قاصر ہے۔مقدمے کافیصلہ آئے تقریباًدوہفتے ہوگئے ہیں،اگرہماری حکومت اندرونی تنازعات سے نکل پاتی اورجماعتی خلفشارمیں نہ الجھی رہتی توان ایام میں اس فیصلے کولیکرعالمی سطح پرکشمیراورکشمیریوں کی اس جیت کونمایاں کیاجاسکتاتھامگر افسوس کہ حکمراں اس نادرموقع سے بھی استفادہ کرتے نظرنہیں آئے۔عالمی ضمیرکو مخاطب کیاجاسکتاتھاکہ آخرکیا وجہ ہے کہ بھارت بے پناہ ظلم وستم ،لاکھوں بے گناہ کشمیریوں کوشہید کرکے اورچھ لاکھ فوج رکھ کربھی کشمیری عوام کواپنے ساتھ رکھنے پر آمادہ نہیں کرسکا اوراب توریاست کی اعلیٰ عداالت نے بھی کسی اگرمگر کے بغیراٹوٹ انگ کا ''نظریہ'' ردکردیاہے۔

حریت رہنماؤں نے اس فیصلے کاخیرمقدم کیا۔حریت رہنماء شبیراحمدشاہ نے اپنے ردّعمل میں کہاکہ تقسیم سےپہلے بھی کشمیربھارت کا حصہ نہیں تھا۔ کشمیری عوام مقبوضہ کشمیرکوبھی بھارت کاحصہ نہیں بننے دیں گے۔ یہ نام نہادانتخابات رائے شماری کانعم البدل ہوہی نہیں سکتے۔ہم نے ماضی میں تنازع کشمیرہرفورم پراٹھایااورآئندہ بھی اٹھاتے رہیں گے اور کشمیر پاکستان کاحصہ بن کرہی رہے گا۔خاتون حریت پسندرہنمافریدہ بہن جی کا کہناتھاکہ بھارت کشمیرکے اٹوٹ ہونے کی رٹ ترک کرکے کشمیریوں کو ان کاپیدائشی حق،حق خود ارادیت دینے کاوعدہ پوراکرے۔یہ بھارت کی بدقسمتی ہے کہ وہ نہ صرف اپنے وعدے سے منحرف ہوچکاہے بلکہ جموں وکشمیر پراپنے غیرقانونی قبضے کوبرقراررکھنے کیلئے کشمیریوں پر بہیمانہ مظالم ڈھانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔

مقبوضہ کشمیر ہائی کورٹ کے فیصلے سے پاکستان کے درست مؤقف کو جہاں تقویت ملی ہے وہاں اس فیصلے سے بروقت فائدہ نہ اٹھانے پر حکومت کے متعلقہ اداروں کی کمزوری اورناکامی کابھی پتہ چلتاہے۔ بی جے پی اوربھارت کی دیگرانتہاپسندسیاسی جماعتیں آرٹیکل ٣٧٠ ختم کرکے مقبوضہ کشمیرکی خودمختاری کی حیثیت ختم کرنے کے درپے ہیں مگراب روزِ روشن کی طرح ثابت ہوگیاکہ ان کاخواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوگا۔کشمیرفی الواقع بانی پاکستان کے بقول پاکستان کی شہ رگ ہے جس کی ٩٦فیصدآبادی پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتی ہے۔ دنیا کے امن بردارممالک ،یواین اواوراین جی اوز مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی افواج کے مظالم سے کشمیریوں کونجات دلانے میں اپناکردار ادا کریں۔
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 351457 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.