شہادت نہیں شواہد

جومعاشرے انصاف نہیں کرتے وہاں امن زندہ دفن اورسکون غارت ہو جاتاہے ۔جہاں زورآورانصاف کو اپنے جوتوں تلے روندناشروع کردیں اورزروالے ضمیرکی بولی لگاتے ہوں وہاں قانون کاڈراوراداروں کاتقدس ختم ہوناتعجب کی بات نہیں۔ارباب اقتدارکی طرح ہرصاحب اختیار بھی جوابدہ ہے،جواپنے منصب سے انصاف نہیں کرتاوہ قانون کے شکنجے میں آئے نہ آئے مگر ایک دن قدرت کی گرفت میں ضرورآتا ہے۔جہاں توہین انسانیت عام ہووہاں توہین عدالت کاقانون ایک مذاق لگتا ہے ۔ شہریوں کاتوہین عدالت کے ڈر سے کمرہ عدالت میں موبائل فون بند ہوجاتا ہے لیکن مسجدمیں کئی نمازیوں کے موبائل فون آن ہوتے اوردوران نمازبجتے ہیں۔لوگ بیماریوں کے ڈرسے اپنے شیرخواربچوں کوہسپتال میں نہیں لے جاتے مگرمسجدکوپبلک پارک سمجھ کروہاں ساتھ لے جاتے ہیں جہاں ان کی شرارتوں اوران کے شورسے نمازی پریشان ہوتے ہیں۔ہمیں عدالت کے احترام کاادراک ہے مگرہم مسجد کے آداب سیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔انسان کااحترام اس کے منصب یاحسب نسب نہیں بلکہ اس کے کردارکامرہون منت ہوتا ہے۔سیّدناحضرت بلال ؓ زمانہ کفرمیں ایک غلام تھے مگردائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد انہیں جومقام واحترام نصیب ہواوہ تاقیامت قابل رشک ر ہے گا جبکہ اس دورکے کئی طاقتورسلطان آج تاریخ میں بے نام ونشان ہیں اگرعہدحاضر کے حکمرانوں نے اپنی روش نہ بدلی تووہ بھی تاریخ کاتاریک باب بن جائیں گے۔جوانصاف کرتاہے تاریخ اس کے ساتھ ہرگزناانصافی نہیں کرتی۔جو زندہ ضمیر لوگ دوسرے انسانوں میں آسانیاں تقسیم کرتے ہیں ان کا موت کے بعد کاسفر آسان ہوجاتاہے۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمدچودھری کے انکار نے عوام کوان کاگرویدہ بنادیا تھااورلوگ ان کی گاڑی کوچوماکرتے تھے مگر ان کی بحالی اورپھر ریٹائرمنٹ کے بعد سے آج تک کسی نے ان کی گاڑی کونہیں چوما ،موصوف پچھلی کئی دہائیوں سے سیاست کررہے ہیں مگرباضابطہ سیاسی جماعت اب بنائی ہے لیکن اپنے پرانے اتحادی میاں نوازشریف سے اتحاد کے بغیر ان کی ایوان اقتدار تک رسائی کاخواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا ۔لوگ جنرل راحیل شریف کے نام نہیں بلکہ ان کے کردار سے والہانہ محبت کرتے ہیں ،اگر خدانخواستہ وہ بھی امیدوں پرپورانہ اترے اورقومی لٹیروں کابے رحم احتساب نہ کیا توپھران بیچاروں کی دعاؤں اوروفاؤں کامحورکوئی اوربن جائے گا۔جنرل راحیل شریف کی ایکسٹینشن سے یقینا قومی لٹیروں کی ٹینشن بڑھ جائے گی ،جنرل راحیل شریف نہیں مگر عوام ان کی ایکسٹینشن کے خواہاں ہیں۔پاکستان کوامن وامان کے سلسلہ میں جس قسم کے چیلنجزاورخطرات کاسامنا ہے اورجنرل راحیل شریف کی قیادت میں پاک فوج کے نڈرجوان جس پیشہ ورانہ اندازسے ڈیلیور کرر ہے ہیں اس تناظر میں افواج پاکستان کے پروفیشنل سپہ سالار کوایکسٹینشن ضروردی جائے ۔

پاکستان میں پائیدارامن اورجمہوریت سمیت آئینی اداروں پرعوام کے اعتماد کی بحالی کیلئے عدلیہ میں اصلاحات ناگزیر ہیں۔ظلم کاراستہ روکنے کیلئے سکیورٹی فورسزکوطاقتورجبکہ انصاف کوعام کرناہوگا۔کمزورانسانوں کی زبان بندی سے ان کے اندرکی شدید نفرت کودبایانہیں جاسکتا۔جس ریاست میں جابجا انصاف اورانسانیت کاخون بہتاہو زوال اس کامقدربن جاتا ہے ۔قانون کی حکمرانی کاخواب انصاف کی فراوانی کے بغیر شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔دنیا کی جس ریاست نے رعایاکوانصاف کی فراہمی یقینی بنائی و ہ تعمیر وترقی کی شاہراہ پرگامزن ہوئی۔جس ستم زدہ انسان کوبروقت انصاف نہیں ملے گااسے انتقام کی تاریک راہوں پر جانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ہمارے ملک میں جومنفی روایات پنپ رہی ہیں اگر ان کافوری سدباب نہ کیا گیا تو زراورزوروالے مزید بے لگام جبکہ قومی ادارے پوری طرح ناکام ہوجائیں گے ۔جہاں طاقتورکمزوروں کوکچلنے کیلئے قانون سے کھیلتے ہوں وہاں ایک دن کمزوروں کاپیمانہ صبر چھلک جاتا ہے ،اس وقت سے ڈرنااوربچناچاہئے۔

پچھلے دنوں شہرلاہورمیں راہ چلتے ایک یتیم طالبعلم زین عبدالرؤف کو بیدردی سے قتل کردیا گیا ۔مقتول کے گھرصف ماتم بچھ گئی جبکہ پورا ملک سوگ میں ڈوب گیا۔زین کے ناحق قتل پرپاکستان کاہرباضمیر انسان رنجیدہ اورمضطرب تھا ۔میڈیا نے اس اندوہناک واقعہ کو بھرپورکوریج دی اوراس کافالواپ بھی دیا ۔ ایف آئی آرمیں نامزدمرکزی ملزم مصطفی کانجو سمیت باقی شریک ملزمان بھی بروقت قانون کی گرفت میں آگئے۔لاہورپولیس کے انتھک کپتان محمدامین وینس نے مقتول کی بیوہ سے انصاف کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ان کی حفاظت کاوعدہ کیا اورمقتول زین کے گھر پولیس اہلکار تعینات کردیے ۔مرکزی ملزم مصطفی کانجوجوسابق وفاقی وزیرمملکت صدیق کانجومرحوم کاحقیقی بیٹا ہے ،میڈیا کی طرف سے ملزم کوماضی میں بھی پرتشددسرگرمیوں میں ملوث بتایاگیا۔بیگناہ ،کمزور،بے بس اوریتیم زین کا ماموں سہیل افضل شیخ مدعی بنا جبکہ 13شہریوں کانام چشم دید گواہان کے طورپردرج کیا گیا ۔میڈیا میں کئی باریتیم زین کی بیوہ ماں غزالہ رؤف اوربہنوں کوبین کرتے دیکھا گیا ۔مدعی اورگواہان کے بیانات بھی میڈیاپرنشر ہوئے جس سے زین کی بیوہ ماں اوربہنوں کوانصاف ملنے کی امیدپیداہوئی۔ تفتیشی نے بظاہر ملزم کے ساتھ کسی قسم کی نرمی کامظاہرہ نہیں کیا مگر دولت کی طاقت ایک حقیقت ہے ۔ملزم فریق نے اپنے اثرورسوخ ،دھونس دباؤاور چمک کابھرپوراستعمال کیا اور مدعی سمیت گواہان منحرف ہو گئے،پولیس کے مطابق انہیں اس ''یوٹرن'' کی اچھی خاصی قیمت اداکی گئی ہے ۔پولیس کی طرف سے مدعی اورگواہان کیخلاف قانونی چارہ جوئی کے باوجودقانون ان کے ضمیر وں کوجھنجوڑنے میں ناکام رہا اوریتیم زین کے خون کاسوداہوگیا۔ صرف آٹھ ماہ کے اندر اندرمقتول زین کاحقیقی ماموں اور13گواہان اپنے اپنے بیان سے منحرف ہوگئے جس کے نتیجہ میں ملزم مصطفی کانجوسمیت اس کے شریک ملزمان کو باعزت بری کردیاگیا۔زین قتل کیس کے منحرف مدعی اورگواہان جس وقت آئینہ دیکھتے ہوں گے انہیں اپنی صورتوں اورکالی کرتوتوں سے گھن تو ضرورآتی ہوگی ان کے ضمیر انہیں ملامت ضرورکرتے ہوں گے ۔انہیں اپنے بیوی بچوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کربات کرتے وقت شرمندگی تومحسوس ہوتی ہوگی ۔اگریتیم زین کی بجائے مدعی سہیل افضل کاحقیقی بیٹا کسی زراورزوروالے کے ہاتھوں بیدردی سے قتل کردیاگیاہوتاتوکیا اس صورت میں بھی وہ اپنے بیان سے منحرف ہوجاتا۔میں کوئی مفتی نہیں مگر پورے وثوق سے کہتاہوں کہ مقتول زین کیس کے مدعی اورگواہان نے منحرف ہوکرخودکوقاتل کاشریک جرم بنالیا ہے۔بلاشبہ یتیم طالبعلم زین کابہیمانہ قتل ایک سانحہ تھا جبکہ اس کے قاتلوں کاباعزت بری ہوجانااس سے بڑاسانحہ اورایک بڑاسوالیہ نشان ہے۔کیا یہ تنہاپولیس کے انوسٹی گیشن ونگ کی ناکامی ہے یاپورا معاشرہ اورریاستی نظام ناکام ہوگیا ہے،اگرمدعی اورگواہان منحرف ہوگئے تھے تو قتل کی واردات میں استعمال ہونیوالی گاڑی، بندوق ،گولیاں اوران کے خول کہاں گئے۔کیاملزمان کے موبائل فونز کی لوکیشن حاصل کی گئی تھی۔یہ آئی ٹی کادور ہے، جدیدایجادات نے انوسٹی گیشن کوانتہائی سہل بنادیا ہے ۔اب مجرم کی طرح تفتیشی کا شاطرہوناشرط نہیں ہے ۔قاتل کے موبائل فون کامقام اورڈیٹا اس کیلئے ڈیتھ وارنٹ بن جاتا ہے ۔ مدعی اورگواہان کے نجی ٹی وی چینلز پرنشرہونیوالے انٹرویوزکوکس طرح ردکیا جاسکتا ہے ۔ تفتیشی آفیسر نے شواہد سے زیادہ مدعی اورگواہان پرکیوں انحصار کیا۔اس واقعہ میں پولیس کے انوسٹی گیشن ونگ کی نااہلی اورناکامی سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی ۔ مصطفی کانجو کوباعزت بری کردیا گیا ہے توپھرایک بیوہ ماں کے اکلوتے بیٹے اورمستقبل کے کفیل زین کاقاتل کون ہے۔اگرمدعی اورگواہان منحرف ہوگئے ہیں اورشواہدبھی کافی نہیں تھے توپھرکیا اب مقتول زین خودگواہی دینے کیلئے اپنی قبرسے باہرآئے گایاآسمان سے فرشتے زمین پراتریں گے۔کوئی توبتائے مقتول زین کی بیوہ ماں اوربہنیں اس یتیم کاخون کس کے ہاتھوں پرتلاش کریں ،انہیں انصاف اورتسلی کون دے گا۔کمزوروں اوربیگناہوں کوقتل کرنیوالے درندے انصاف کی اندھی دیوی اورقانون کی آنکھوں میں دھول جھونک سکتے ہیں مگر ایک بیقرار،غمزدہ اورمضطرب ماں کی آہوں اور بددعاؤں سے قاتل اوراس کی سرپرستی کرنیوالی بااثرشخصیات کوکون بچائے گاجوقاتل کی تنگ وتاریک قبر تک اس کاتعاقب کریں گی۔

راقم نے پہلے بھی کئی باراپنے کالم میں لکھاہے کہ مقدمات اوربالخصوص قتل کے واقعات میں خالی ''شہادت''پرانحصارکرنادرست نہیں بلکہ شواہدباریک بینی سے تلاش اورمحفوظ کئے جائیں۔ایف آئی آر کوفرسٹ انفارمیشن رپورٹ کی بجائے فرسٹ انوسٹی گیشن رپورٹ بنایا جائے۔ایف آئی آر کابروقت سے زیادہ درست اندارج اہم اور ناگزیر ہے،دیرگوارہ ہے مگراندھیر نہیں۔ایف آئی آر کے درست اندراج میں پولیس کومہارت درکار ہے کیونکہ ایف آئی آرمیں رہ جانیوالی کمزوریوں اورخامیوں کوملزمان چھوٹ جبکہ مدعیان کے نصیب پھوٹ جاتے ہیں۔ تمام ہائی پروفائل مقدمات کا تفتیشی ایس پی انوسٹی گیشن کومقررکیا جائے کیونکہ زیادہ تر عام تفتیشی دباؤیالالچ میں آجاتے ہیں۔قتل کے مقدمات میں مدعی مقتول کے ورثامیں سے کوئی ایک ہوتا ہے اورگواہان بھی اِدھراُدھرسے بنائے جاتے ہیں اوران میں سے زیادہ ترملزمان کادباؤبرداشت نہیں کرپاتے توکیوں نہ مدعی کے سلسلہ میں کسی متبادل آپشن پرغورکیا جائے ۔ پاکستان میں کمزورشہریوں کیلئے سچائی اورانصاف تک رسائی بہت دشوار ہے ۔ملزمان توسرکاری گاڑیوں میں آتے ہیں مگرمدعی کوآمدورفت اوروکیل کی بھاری فیس سمیت دوسرے اخراجات کابوجھ تنہا برداشت کرناپڑتا ۔تفتیشی آفیسرز ملزم کے ساتھ ساتھ مدعی فریق سے بھی فیس بٹورتے ہیں۔اگرکچھ برس پیچھے چلے جائیں توپولیس اہلکار قتل اورزنا کے مقدمات میں رشوت جبکہ قحبہ خانوں سے منتھلی وصول نہیں کرتے تھے مگراب یہ تمیز اورتفریق ختم ہوچکی ہے ۔میں سمجھتا ہوں پولیس کوآپریشن اورانوسٹی گیشن ونگ کی بنیادپرتقسیم کرنے سے نہ تومجرمانہ سرگرمیوں میں کوئی خاص کمی آئی اورنہ بدعنوانی کے سیلاب کاسدباب ہوا ہے ۔وارداتوں کے اعدادوشمار اورکرپشن کی رفتارمیں مزید تیزی د یکھنے میں آئی ہے لہٰذاء اس تقسیم کاسنجیدگی سے جائزہ لیا جائے ۔امن اورانسانیت کی بقاء کاراستہ انصاف کے ایوانوں سے ہوکرجاتا ہے۔
 
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 126508 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.