بھارت انتشار اور خانہ جنگی کی دہلیز پر

بھارت وہ نام نہاد سیکولر ملک ہے جس میں نہ مسلمان سکون کی نیند سوتے ہیں اور نہ عیسائی ۔ قیام پاکستان کے وقت سکھوں نے بھارت میں رہنا قبول کرلیا تھا ۔ مقدس عبادت گاہ اور مقدس کتاب کی بے حرمتی پر پنجاب اور چندی گڑھ کے صوبوں میں ان کا احتجاج عروج پر ہے ۔یہ احتجاج اب امریکہ اور برطانیہ تک پھیل چکا ہے۔ سکھوں نے واضح طور پر بھارت سے علیحدگی کا مطالبہ کردیا ہے ۔ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں صرف مسلمان عیسائی اور سکھ ہی پریشان نہیں ہیں بلکہ نچلی ذات کے ہندو جن کی تعداد کروڑوں میں ہے وہ بھی اپنے بچوں کو زندہ جلائے جانے پر سراپا احتجاج ہیں ۔ بھارتی حکومت اور اس کے وزیر مجرموں کو قرار واقعی سزا دینے کی بجائے یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر کوئی کتے کو پتھر مار دے تو وفاقی حکومت کو قصور وار نہیں ٹھہرایا جاسکتا ۔ گویا ان کے نزدیک انسان صرف اعلی اور اونچی ذات کے ہندو ہیں باقی سب جانور ہیں ۔ یہ بڑھتی ہوئی خلیج عالمی سطح پر بھارت کے چہرے پر سیاہی تو مل ہی رہی ہے لیکن اندرون ملک خانہ جنگی جیسے حالات پیدا ہورہے ہیں ۔یہ انتہاء پسند تنظیمیں یوں تو پہلے بھی بھارت میں موجود تھی اور بطور خاص مسلمانوں کے خلاف کوئی نہ کوئی حرکت کرتی نظر آتی تھیں لیکن جب نریندر مودی نے بطور وزیر اعظم اقتدا ر سنبھالا ہے ۔ ان کی مذموم اور انسانیت کش کاروائیاں حد سے زیادہ بڑھ چکی ہیں ۔گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران اقلیتوں کے خلاف چھ سو سے زائد حملے ہوچکے ہیں ۔ان میں سے 149 عیسائیوں اور باقی تمام مسلمانوں کے خلاف حملے ہوئے ہیں ۔جس نے بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کے دلوں میں ایک بار پھر آزادی کا تصور پیداکردیا ہے۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ پاکستانی حکومت بھارتی مسلمانوں کے خلاف انتہاء پسند تنظیموں کی جانب سے ظلم و تشدد کے واقعات کو عالمی سطح پر اس طرح اجاگر نہیں کررہی جس طرح اسے کرنا چاہیے تھا ۔ اس لیے مسلمان انتہاء پسندتنظیموں کے ہاتھو ں شہید بھی ہوتے ہیں اور ان کے آنسو پونچھنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا ہے ۔ اس کے برعکس اگر پاکستان میں کسی ایک بھی ہندو کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے تو نہ صرف پاکستانی میڈیا بلکہ انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ ساتھ بھارتی حکمرانوں کے بیانات کی تکرار شروع ہوجاتی ہے ۔ گیتا نامی لڑکی اس کے بہترین مثال ہے جس کو پاکستانی الیکٹرونکس میڈ یا نے ملالہ اور ارفع کریم سے زیادہ اہمیت اور کوریج دے کر عالمی شخصیت بنا دیا ہے ۔لیکن اس کے برعکس بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔ بلکہ پاکستان سے بھارت جانے والے مسلمانوں کی بھی اکثر نعشیں ہی واپس آتی ہیں۔کتنے ہی مسلمانوں کو صرف شک کی بنیاد پر شہید کئے جاچکے ہیں ۔سمجھوتہ ایکسپریس کو آگ لگانے اور بمبئی حملوں کے تناظر میں بھارتی مسلمانوں پر جو گزری وہ الگ داستان ہے ۔کشمیر میں بھارتی فوج اب تک لاکھوں مسلمانوں کو شہید اور لاکھوں مسلمانوں کو جیلوں میں قیدو بند کی صعوبتیں پہنچا رہی ہے ۔یہ سب کچھ بھارت میں انسانی حقوق کی تنظیموں کی چشم پوشی کی بدولت ہورہا ہے ۔اس پر ظلم یہ ہے کہ بین الاقوامی میڈیا جو پاکستان میں چھوٹے سے چھوٹے واقعے کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے وہ بھی آنکھیں بند کرکے انتہاء پسند ہندووں کا ہمرکاب ہوچکا ہے ۔اس وقت شیو سینا ٗ بجرنگ دل ٗ وشوہندو پریشند ٗ راشٹریہ سیوک سنگھ انتہا پسند تنظیموں نے اپنے آہنی پنجوں میں بھارت کو جکڑ رکھاہے ۔اگر حالات یہی رہے تو بھارت کو ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا کیونکہ نفرتوں کا جو بیج انتہاء پسند تنظیمیں بو رہی ہیں اس کی فصل بھی تیار ہوچکی ہے ۔ وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور امریکی صدر سے ملاقات میں کشمیر کا ذکر تو کیا لیکن بھارتی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کا ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھاکہ وزیر اعظم کی حیثیت سے نواز شریف کو واضح طور پر کہنا چاہیئے تھا کہ کشمیر کا مسئلہ مذاکرات سے ہرگز حل نہیں ہوگا اس کا حل سلامتی کونسل کی قرار داد کے مطابق صرف استصواب رائے ہے ۔مذاکرات کا ڈھونگ وقت کا ضیاع ہے۔اگر مشرقی تیمور میں استصواب رائے ہوسکتا ہے تو کشمیر میں کیوں نہیں ۔انہیں یہ بھی کہنا چاہیئے تھا کہ دہشت گردی ختم کرنے کے لیے چھ ہزار پاکستانی فوجی جوانوں اور پچیس ہزار سویلین افراد کی قربانی دے چکے ہیں۔اس کے برعکس بھارت اپنے ہی مسلمان ٗ عیسائی ٗ سکھ اور نچلی ذات کے شہریوں پر عرصہ حیات تنگ کرکے دہشت گردی کی نئی صنف ایجاد کررہا ہے ۔بھارت میں ہی آسٹریلوی جوڑے کو تشدد کا نشانہ بنایا جاچکا ۔ بھارت میں برطانوی مسلمان شہریوں کے قتل کا مقدمہ بھارتی وزیر اعظم کے خلاف برطانیہ میں درج ہوچکا ہے ۔حیرت کی بات ہے کہ امریکہ جو خود کو انسانی حقوق کا علمبردار قرار دیتا ہے وہ ایک بار پھر انتہاء پسند بھارتی حکمرانوں کے سامنے بچھا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اب بھارت میں رہنے والے مسلمانوں ٗ عیسائیوں ٗ سکھوں اور نچلی ذات کے ہندووں کو اپنے لیے الگ ملک بنانے کامطالبہ کردینا چاہیئے کیونکہ جس بھارت میں ان کی جان و مال اور حقوق بھی محفوظ نہیں ہیں ان کے ساتھ رہنا کسی بھی طرح ٹھیک نہیں ہے ۔بھارت صرف اونچی ذات کے حامل ہندوؤں کا ملک ہے اور وہاں رہنے والے دوسری قومیتوں کے لوگ وہاں بیگانوں کا روپ دھار چکے ہیں ۔
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 666757 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.