ہم وہ نہیں جو ڈر کر کہہ دیں۔۔۔

ملک کے موجودہ ماحول میں ادیبوں، دانشوروں اور قلمکاروں نے جس جرأتمندی کا مظاہرہ کیا ہے وہ اس بات کا اطمینان دلانے کے لیے کافی ہے کہ یہ ملک کبھی ہندو راشٹر نہیں بن سکتا۔ گو کہ ایک بہت بڑا طبقہ اس ناپاک خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے اور ملک میں ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے جس میں صرف ایک طبقے کے نظریات و رجحانات کا بول بالا رہے اور باقی تمام نظریات کو دریا برد کر دیا جائے۔ لیکن یہ وہ خواب ہے جس کی کوئی تعبیر نہیں۔ جب دنیا کا واحد ہندو ملک بھی دنیا کے نقشے سے غائب ہو گیا تو بھلا ایک نیا ہندو ملک دنیا کے نقشے پر کیسے جنم لے سکتا ہے۔ حالانکہ کوششیں تو بہت کی جا رہی ہیں اور اعلی سطح پر کی جا رہی ہیں۔ لیکن یہ کوششیں نہ تو پہلے کبھی کامیاب ہوئی ہیں اور نہ آئندہ کبھی کامیاب ہوں گی۔ جس ملک کے معماروں نے اس کو ایک سیکولر ملک کا درجہ دیا ہو اور تمام مذاہب کے یکساں احترام کی بات کہی ہو اور ایسا آئین بنایا ہو جو تمام مذاہب کے پیروکاروں کو مذہبی حقوق کی ضمانت دیتا ہوں نہ تو وہ ملک بدل سکتا ہے اور نہ ہی وہ آئین تبدیل ہو سکتا ہے۔ جب بھی ایسی کوئی کوشش کی جائے گی ایک بہت بڑا طبقہ اس کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہو جائے گا۔

ایک خاص مذہب کے پیرووں کے ہاتھوں سیکولر قلمکاروں اور اقلیتی لوگوں کے قتل کے خلاف بطور احتجاج نین تارا سہگل نے جس روایت کی بنیاد ڈالی تھی وہ اب بہت آگے تک جا چکی ہے۔ شروع میں وہ تنہا تھیں لیکن اب ان کے ساتھ ایک بہت بڑی فوج ہے۔ ایک ایسی فوج جو عدم رواداری اور مذہبی شدت پسندی کے خلاف ہے اور جو ہر قسم کی انتہاپسندی اور فرقہ واریت کے خلاف ہے۔ جو دہشت گردی اور فرقہ پرستی کے معاملے میں پسند و ناپسند نہیں دیکھتی جو حکومت کے اہلکاروں کی مانند صرف ایک ہی طبقے کے بعض لوگوں کو فرقہ ’ کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہو جائے گا۔

ایک خاص مذہب کے پیرووں کے ہاتھوں سیکولر قلمکاروں اور اقلیتی لوگوں کے قتل کے خلاف بطور احتجاج نین تارا سہگل نے جس روایت کی بنیاد ڈالی تھی وہ اب بہت آگے تک جا چکی ہے۔ شروع میں وہ تنہا تھیں لیکن اب ان کے ساتھ ایک بہت بڑی فوج ہے۔ ایک ایسی فوج جو عدم رواداری اور مذہبی شدت پسندی کے خلاف ہے اور جو ہر قسم کی انتہاپسندی اور فرقہ واریت کے خلاف ہے۔ جو دہشت گردی اور فرقہ پرستی کے معاملے میں پسند و ناپسند نہیں دیکھتی جو حکومت کے اہلکاروں کی مانند صرف ایک ہی طبقے کے بعض لوگوں کو فرقہ پرست اور دہشت گرد نہیں کہتی بلکہ جو ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف ہے، خواہ وہ افراد کی ہو یا فرقوں کی یا پھر حکومتوں کی۔ ایسے لوگ میدان میں کھل کر آگئے ہیں۔ ان لوگوں پر نہ تو حکومت کا عتاب کوئی اثر دکھا پا رہا ہے اور نہ ہی اس کی عصبیت اثر انداز ہو رہی ہے۔ اپرست اور دہشت گرد نہیں کہتی بلکہ جو ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف ہے، خواہ وہ افراد کی ہو یا فرقوں کی یا پھر حکومتوں کی۔ ایسے لوگ میدان میں کھل کر آگئے ہیں۔ ان لوگوں پر نہ تو حکومت کا عتاب کوئی اثر دکھا پا رہا ہے اور نہ ہی اس کی عصبیت اثر انداز ہو رہی ہے۔ ان لوگوں کے احتجاج نے پوری دنیا میں ایک آواز بلند کر دی ہے۔ آج صرف ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی موجودہ عدم رواداری کے خلاف ایک ماحول بنتا جا رہا ہے۔ دنیا کے ترقی پسند اور آزاد خیال اور تمام مذاہب کا احترام کرنے والے ادیب اور دانشون لوگوں کے احتجاج نے پوری دنیا میں ایک آواز بلند کر دی ہے۔ آج صرف ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی موجودہ عدم رواداری کے خلاف ایک ماحول بنتا جا رہا ہے۔ دنیا کے ترقی پسند اور آزاد خیال اور تمام مذاہب کا احترام کرنے والے ادیب اور دانشور بھی نین تارا سہگل، اشوک باجپئی اور دوسرے ادیبوں کے احتجاج میں شامل ہو گئے ہیں۔ بلا شبہ اس احتجاج کی طاقت نے حکومت کو جھکنے پر مجبور کیا ہے۔ وزیر مالیات ارون جیٹلی کا وہ بیان جس میں انھوں نے کہا ہے کہ غنڈہ گردی کے بجائے بحث کی جانی چاہیے، صرف شیو سینا کے ر بھی نین تارا سہگل، اشوک باجپئی اور دوسرے ادیبوں کے احتجاج میں شامل ہو گئے ہیں۔ بلا شبہ اس احتجاج کی طاقت نے حکومت کو جھکنے پر مجبور کیا ہے۔ وزیر مالیات ارون جیٹلی کا وہ بیان جس میں انھوں نے کہا ہے کہ غنڈہ گردی کے بجائے بحث کی جانی چاہیے، صرف شیو سینا کے لیے ایک پیغام نہیں ہے بلکہ بی جے پی سے وابستہ ان عناصر کے لیے بھی ہے جو گائے کے نام پر ملک میں ایک خوفناک ماحول پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حالانکہ جیٹلی نے بہ رضا ورغبت یہ بیان نہیں دیا بلکہ بہ درجہ مجبوری دیا ہے۔ آج جس طرح حکومت پر چو طرفہ یلغار ہو رہلیے ایک پیغام نہیں ہے بلکہ بی جے پی سے وابستہ ان عناصر کے لیے بھی ہے جو گائے کے نام پر ملک میں ایک خوفناک ماحول پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حالانکہ جیٹلی نے بہ رضا ورغبت یہ بیان نہیں دیا بلکہ بہ درجہ مجبوری دیا ہے۔ آج جس طرح حکومت پر چو طرفہ یلغار ہو رہی ہے وہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ جس طرح دنیا کے دیگر ملکوں کے ادیب شاعر اور دانشور ہندوستانی ادیبوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہے ہیں وہ ایک مثال ہے اظہار خیال کی آزادی کے تحفظ کی خاطر میدان میں کود پڑنے کی۔ آج ہندوستانی حکومت کو جس شرمندگی اور ندامت کا سای ہے وہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ جس طرح دنیا کے دیگر ملکوں کے ادیب شاعر اور دانشور ہندوستانی ادیبوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہے ہیں وہ ایک مثال ہے اظہار خیال کی آزادی کے تحفظ کی خاطر میدان میں کود پڑنے کی۔ آج ہندوستانی حکومت کو جس شرمندگی اور ندامت کا سامنا ہے وہ نظر انداز کیے جانے کے قابل نہیں ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے تو ایک خاص مصلحت کے تحت اپنے ہونٹوں پر خاموشی کا قفل چڑھا رکھا ہے۔ لیکن صدر جمہوریہ کے ہونٹوں پر تو قفل نہیں چڑھا ہے۔ ادیبوں اور دانشوروں کے ہونٹوں پر تو نہیں چڑھا ہے۔ آخر کیا پڑی تھی منا ہے وہ نظر انداز کیے جانے کے قابل نہیں ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے تو ایک خاص مصلحت کے تحت اپنے ہونٹوں پر خاموشی کا قفل چڑھا رکھا ہے۔ لیکن صدر جمہوریہ کے ہونٹوں پر تو قفل نہیں چڑھا ہے۔ ادیبوں اور دانشوروں کے ہونٹوں پر تو نہیں چڑھا ہے۔ آخر کیا پڑی تھی صدر کو کہ وہ پندرہ روز کے اندر دو دو بار اس بات پر تشویش کا اظہار کریں کہ ملک میں عدم رواداری کی روایت کمزور پڑ رہی ہے اور شدت پسندی اور نفرت و تعصب کا بول بالا ہو رہا ہے۔ پرنب مکھرجی کو کیا ضرورت ہے کہ وہ اس صورت حال پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کریں۔ وہ تو چار سو کمروں کے ایک بہت بڑے محل میں رہ رہے ہیں۔ جہاں ان کو دنیا جہان کی آسائشیں حاصل ہیں۔ سبکدوشی کے بعد بھی آسائشیں کم نہیں ہوں گی۔ دنیا بھر میں ان کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ آخر کیا پڑی تھی کہ وہ زبان کھول کر حکومت کی ناراضگی کا خطرہ صدر کو کہ وہ پندرہ روز کے اندر دو دو بار اس بات پر تشویش کا اظہار کریں کہ ملک میں عدم رواداری کی روایت کمزور پڑ رہی ہے اور شدت پسندی اور نفرت و تعصب کا بول بالا ہو رہا ہے۔ پرنب مکھرجی کو کیا ضرورت ہے کہ وہ اس صورت حال پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کریں۔ وہ تو چار سو کمروں کے ایک بہت بڑے محل میں رہ رہے ہیں۔ جہاں ان کو دنیا جہان کی آسائشیں حاصل ہیں۔ سبکدوشی کے بعد بھی آسائشیں کم نہیں ہوں گی۔ دنیا بھر میں ان کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ آخر کیا پڑی تھی کہ وہ زبان کھول کر حکومت کی ناراضگی کا خطرہ مول لیں۔ لیکن نہیں، وہ بھی موجودہ حالات سے تشویش زدہ ہیں۔ ان کو بھی لگتا ہے کہ اگر اب نہیں بولا گیا تو پانی سر سے اونچا ہو جائے گا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ سیلاب کے پانی کی سطح اتنی بلند ہو جائے کہ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب اور اس کی بقائے باہم کی روایتیں خس و خاشاک کی مانند بہہ جائیں۔

آج ہمیں تاریخ کے صفحات پر نقش وہ جرأتمندیاں یاد آرہی ہیں جو جابر حکمرانوں کے سامنے حق پسندوں سے وابستہ ہیں۔ ان فقیروں اور خدا ترس بزرگوں کی یاد آرہی ہے جو ظالم حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق کہنے سے دریغ نہیں کرتے تھے۔ جو سلطاŸول لیں۔ لیکن نہیں، وہ بھی موجودہ حالات سے تشویشو زدہ ہیں۔ ان کو بھی لگتا ہے کہ اگر اب نہیں بولا گیا تو پانی سر سے اونچا ہو جائے گا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ سیلاب کے پانی کی سطح اتنی بلند ہو جائے کہ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب اور اس کی بقائے باہم کی روایتیں خس و خاشاک کی مانند بہہ جائیں۔

آج ہمیں تاریخ کے صفحات پر نقش وہ جرأتمندیاں یاد آرہی ہیں جو جابر حکمرانوں کے سامنے حق پسندوں سے وابستہ ہیں۔ ان فقیروں اور خدا ترس بزرگوں کی یاد آرہی ہے جو ظالم حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق کہنے سے دریغ نہیں کرتے تھے۔ جو سلطان جائر کے سامنے حق اور صرف حق کا اظہار کرتے تھے۔ مولانا ابواکلام آزاد کے خلاف جب ۱۹۲۱ میں برطانوی حکومت نے مقدمہ کر دیا اور انھیں عدالت میں حاضر ہو کر اپنے دفاع میں بیان دینا تھا تو اس وقت انھوں نے جو تفصیلی بیان رقم کیا تھا آج اس کی یاد شدت سے آرہی ہین جائر کے سامنے حق اور صرف حق کا اظہار کرتے تھے۔ مولانا ابواکلام آزاد کے خلاف جب ۱۹۲۱ میں برطانوی حکومت نے مقدمہ کر دیا اور انھیں عدالت میں حاضر ہو کر اپنے دفاع میں بیان دینا تھا تو اس وقت انھوں نے جو تفصیلی بیان رقم کیا تھا آج اس کی یاد شدت سے آرہی ہے۔ وہ تاریخی بیان جو ’’قول فیصل‘‘ کے نام سے مشہور ہے آج یاد کرنے کی ضرورت ہے۔ مولانا آزاد نے اس بیان میں لکھا تھا کہ اسلام کے پہلے دور کے مسلمانوں کی حق گوئی کا یہ حال تھا کہ دارالخلافت کی ایک بڑھیا عورت خلیفہ وقت سے برسر عام کہہ سکتی تھی کہ اگر تم انصاف ن۔ وہ تاریخی بیان جو ’’قول فیصل‘‘ کے نام سے مشہور ہے آج یاد کرنے کی ضرورت ہے۔ مولانا آزاد نے اس بیان میں لکھا تھا کہ اسلام کے پہلے دور کے مسلمانوں کی حق گوئی کا یہ حال تھا کہ دارالخلافت کی ایک بڑھیا عورت خلیفہ وقت سے برسر عام کہہ سکتی تھی کہ اگر تم انصاف نہیں کر سکوگے تو تکلے کی طرح تمھارے بل نکال دیں گے۔ جب ایک شخص کھڑے ہو کر امیر المومنین سے کہتا ہے کہ ہم نہ سنیں گے نہ اطاعت کریں گے کیونکہ تمھارے جسم پر جو چغہ وہ تمپارے حصے کے کپڑے سے زیدہ کا بنا ہوا ہے اور خیانت ہے…… ہشام بن عبد الملک نے طاؤس یمینی کو بہیں کر سکوگے تو تکلے کی طرح تمھارے بل نکال دیں گے…… جب ایک شخص کھڑے ہو کر امیر المومنین سے کہتا ہے کہ ہم نہ سنیں گے نہ اطاعت کریں گے کیونکہ تمھارے جسم پر جو چغہ وہ تمھارے حصے کے کپڑے سے زیادہ کا بنا ہوا ہے اور خیانت ہے…… ہشام بن عبد الملک نے طاؤس یمینی کو بلایا ۔ وہ آئے مگر اس کا نام لے کر سلام کیا۔ امیر المونین نہیں کہا۔ ہشام نے سبب پوچھا تو کہا کہ قوم تیری حکومت سے راضی نہیں۔ اس لیے تجھے امیر کہنا جھوٹ ہے…… بعد کے مسلمانوں کی حق گوئی کا بھی یہی عالم رہا۔ منصور عباسی کے خوف و ہیبت سے گھر میں بیٹھے ہوئے لوگ لایا ۔ وہ آئے مگر اس کا نام لے کر سلام کیا۔ امیر المونین نہیں کہا۔ ہشام نے سبب پوچھا تو کہا کہ قوم تیری حکومت یس راضی نہیں۔ اس لیے تجھے امیر کہنا جھوٹ ہے…… بعد کے مسلمانوں کی حق گوئی کا بھی یہی عالم رہا۔ منصور عبادی کے خوف و ہیبت سے گھر میں بیٹھے ہوئے لوگ کانپا کرتے تھے۔ سفیان ثوری سے ایک بار اس نے کہا کہ مجھ سے اپنی کوئی حاجت بیان کیجیے۔ انھوں نے جواب دیا خدا سے ڈر زمین ظلم و جور سے بھر گئی ہے…… منصور عباسی ایک دن طواف کر رہا تھا۔ کوئی شخص دعا مانگ رہا تھا کہ خدایا میں تیرے آگے فریاد کرتا ہوں ظلم غالب آگیا ہے اور حق اور حقداروں کے درمیان روک بن گیا ہے۔ منصور نے اس شخص کو بلا کر پوچھا وہ کون ہے جس کا ظلم روک بن گیا ہے۔ اس نے کہا کہ تیرا وجود اور تیری حکومت…… حجاج بن یوسف کا ظلم و ستم تاریخ اسلام کا نہایت مشہور واقعہ ہے۔ لیکن اس کی بے پناہ تلوار بھی مسلمانوں کانپا کرتے تھے۔ سفیان ثوری سے ایک بار اس نے کہا کہ مجھ سے اپنی کوئی حاجت بیان کیجیے۔ انھوں نے جواب دیا خدا سے ڈر زمین ظلم و جور سے بھر گئی ہے…… منصور عباسی ایک دن طواف کر رہا تھا۔ کوئی شخص دعا مانگ رہا تھا کہ خدایا میں تیرے آگے فریاد کرتا ہوں ظلم غالب آگیا ہے اور حق اور حقداروں کے درمیان روک بن گیا ہے۔ منصور نے اس شخص کو بلا کر پوچھا وہ کون ہے جس کا ظلم روک بن گیا ہے۔ اس نے کہا کہ تیرا وجود اور تیری حکومت…… حجاج بن یوسف کا ظلم و ستم تاریخ اسلام کا نہایت مشہور واقعہ ہے۔ لیکن اس کی بے پناہ تلوار بھی مسلمانوں کی حق گوئی پر غالب نہ آسکی۔ حطیط جب گرفتار ہو کر آیا تو پوچھا کہ اب میرے لیے کیا کہتے ہو۔ اس نے کہا کہ تو خدا کی زمین پر اس کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ پوچھا خلیفہ کے لیے کیا کہتے ہو۔ اس نے کہا کہ اس کا جرم تجھ سے بھی زیادہ ہے۔ تیرا ظلم تو اس کے بے شمار ظلموں کی حق گوئی پر غالب نہ آسکی۔ حطیط جب گرفتار ہو کر آیا تو پوچھا کہ اب میرے لیے کیا کہتے ہو۔ اس نے کہا کہ تو خدا کی زمین پر اس کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ پوچھا خلیفہ کے لیے کیا کہتے ہو۔ اس نے کہا کہ اس کا جرم تجھ سے بھی زیادہ ہے۔ تیرا ظلم تو اس کے بے شمار ظلموں میں سے ایک ہے…… مامون رشید کے عہد میں ایسے مسلمان موجود تھے جو پکار پکار کر برسر دربار کہتے کہ اے ظالم میں ظالم ہوں اگر تجھے ظالم کہہ کر نہ پکاروں……

قول فیصل میں ایسے واقعات کی بھرمار ہے جن میں سے چند کی مثالیں پیش کی گئی ہیں۔ آج بہت سے مسلمان حکومت وقت کی عنایتوں کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہیں اور فسطائی قوتوں کے ظلم کے آگے خاموش رہتے ہیں۔ ادیبوں اور دانشوروں کی جانب سے ساہتیہ اکیڈمی اور دوسرے اداروں سے ملنے والے ایوارڈوں کی واپسی کے مسئلے پر پھر کبھی اظہار خیال کیا جائے گا۔ سردست حفیظ میرٹھی کی وہ غزل مسلسل، مسلسل یاد آرہی ہے جو انھوں نے ایمرجنسی کے خلاف لکھی تھی اور جس کی پاداش میں انھیں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑی تھیں۔ اس غزل کے چند اشعار پیش کرکے اپنی بات ختم کرتا ہوں:
کچھ ایسا طے پایا ہے حق کے اجارہ داروں میں

ہم پر جو ایمان نہ لائیںŸیں سے ایک ہے۔ مامون رشید کے عہد میں ایسے مسلمان موجود تھے جو پکار پکار کر برسر دربار کہتے کہ اے ظالم میں ظالم ہوں اگر تجھے ظالم کہہ کر نہ پکاروں……

قول فیصل میں ایسے واقعات کی بھرمار ہے جن میں سے چند کی مثال پیش کی گئی ہے۔ آج بہت سے مسلمان حکومت وقت کی عنایتوں کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہیں اور فسطائی قوتوں کے ظلم کے آگے خاموش رہتے ہیں۔ ادیبوں اور دانشوروں کی جانب سے ساہتیہ اکیڈمی اور دوسرے اداروں سے ملنے والے ایوارڈوں کی واپسی کے مسئلے پر پھر کبھی اظہار خیال کیا جائے گ۔ سردست حفیظ میرٹھی کی وہ غزل مسلسل، مسلسل یاد آرہی ہے جو انھوں نے ایمرجنسی کے خلاف لکھی تھی اور جس کی پاداش میں انھیں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑی تھیں۔ اس غزل کے چند اشعار پیش کرکے اپنی بات ختم کرتا ہوں:
کچھ ایسا طے پایا ہے حق کے اجارہ داروں میں
ہم پر جو ایمان نہ لائیں چنوا دو دیواروں میں
سورج کو دو دیس نکالا دن کا قصہ پاک کرو
بنتے ہیں ایسے منصوبے رات کے رشتہ داروں میں
اک جابر کا مجبوروں نے کچھ ایسے استقبال کیا
آنکلا ہو جیسے مسیحا کوئی درد کے مارو ں میں
ہر ظال سے ٹکر لی ہے سچے فنکاروں نے حفیظ
ہم وہ نییں جو ڈر کر ک چنوا دو دیواروں میں
سورج کو دو دیس نکالا دن کا قصہ پاک کرو
بنتے ہیں ایسے منصوبے رات کے رشتہ داروں میں
اک جابر کا مجبوروں نے کچھ ایسے استقبال کیا
آنکلا ہو جیسے مسیحا کوئی درد کے مارو ں میں
ہر ظال سے ٹکر لی ہے سچے فنکاروں نے حفیظ
ہم وہ نہیں جو ڈر کر کہہ دیں ہم ہیں طابعداروں میں
 
Sohail Anjum
About the Author: Sohail Anjum Read More Articles by Sohail Anjum: 6 Articles with 3615 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.