نون لیگ کا اندرونی خلفشار

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اندرونی اختلافات ، باہمی رنجشین، ایک دوسرے پر رکیک سے رکیک الزامات ، سینئر وزیروں کا +پس میں بات نہ کرنا، اس صورت حال میں پارٹی کی اعلیٰ قیادت کا کردار۔

پاکستان کی کوئی بھی سیاسی جماعتوں ایسی نہیں جس میں دھڑے بندی، گروہ بندی، آپس کی چَبقَلش نہ ہو۔ بہت ممکن ہے کہ بعض تانگہ پارٹیاں جیسے ہمارے شیخ صاحب کی مسلم لیگ ہے، اعجاز الحق کی مسلم لیگ ہے،نیشنل پیپلز پارٹی، سندھ ڈیموکریٹک الائنس،ترقی پسند پارٹی ، پاکستان وومن مسلم لیگ اور دیگر غیر معروف سیاسی جماعتیں اور گروہ۔اس طرح کی سیاسی پارٹیاں صرف اپنے بنانے والے کے گرد گھومتی ہیں جیسے شیخ صاحب کی پارٹی ان کے گرد ہی گھومتی ہے، اعجاز الحق کی مسلم لیگ کا بھی یہی حال ہے۔ چنانچہ اس طرح کی پارٹیاں ان باتوں سے محروم ہوتی ہیں۔ اختلافات بری بات نہیں، تنقید بھی بری بات نہیں بشرطیکہ تعمیری ہو۔اسے جمہوریت کا حسن بھی قرار دیا جاتا ہے۔ حکمراں جماعت میں اگر باہمی گرہ بندی، گروپ بندی ، ایک دوسرے پر رکیک سے رکیک، بھونڈے اور بیہودہ الزامات لگنے شروع ہوجائیں تو یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ پارٹی کی قیادت کی گرفت اپنی جماعت پر سے کمزور ہورہی ہے۔ پارٹی میں موجود گروہ بندی کرنے والے اپنے آپ کو طاقت ورسمجھنے لگ گئے ہیں۔ بسا اوقت اپنی طاقت کا مظاہرہ کرکے اپنی ہی پارٹی سے جو حکمراں پارٹی ہوتی ہے زیادہ مراعات اور فوائد حاصل کرنے کا اشارہ دیا جات ہے۔ اس کے لیے پاور پالیٹکس کی اصطلاع استعمال کی جاتی ہے جو پارٹی کے اندر رہ کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے عمل کا نام ہے۔ ویسے پاور پالیٹکس حکمراں جماعت اپنی طاقت دیگر سیاسی جماعتوں یا مخالف سیاسی جماعتوں پر استعمال کرکے کیا کرتی ہے۔ وہ جماعتیں جو اقتدار میں نہیں ہوتیں ان میں بھی آپس میں گروہ بندی اور ایک دوسرے سے شدید مخالفت پائی جاتی ہے وہاں حکومتی طاقت کے بجائے پارٹی میں طاقت کا حصول بنیادی مقصد ہوتا ہے۔چھوٹے چھوٹے مقاصد جماعتوں کو کمزور سے کمزور کرتے چلے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کا مسلم لیگ (ق)، پاکستان پیپلز پارٹی جیسا انجام ہوجاتا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (نواز)کوحکومت کرتے کئی سال ہوچکے ہیں، یہ تیسری بار وفاقی حکومت میں ہے اور پنجاب کی حکومت تو اس جماعت کے پاس عرصہ دراز سے ہے۔ نون لیگ نے بڑے نشیب و فراز دیکھے ہیں، اس پارٹی کو تتر بتر ہونا پڑا، اس کے سربراہان کو طویل عرصہ تک ملک سے باہر رہنا پڑا اس دوران اس جماعت کے اکثر لوگ ق لیگ میں چلے گئے اور کئی سال حکمرانی کا مزا لوٹتے رہے۔ بعض ثابت قدم بھی رہے۔ یہی حال پاکستان پیپلز پارٹی کا بھی ہوا تھا، ذوالفقار علی بھٹو کے بعد جماعت کئی دھڑو میں تقسیم ہوگئی۔لیکن جب وقت آیا تو دونوں جماعتوں نے یکے بعد دیگرے انتخابات میں اکثریت حاصل کی حکومت میں آگئیں۔ گویا جس جماعت پر جس قدر ظلم و زیادتی ہوتی ہے عوام میں اس کے لیے ہمدردیاں اور بڑھ جاتی ہیں۔ ایک مثال متحدہ قومی موومنٹ یعنی ایم کیو ایم کی بھی ہے۔ اس کے ساتھ صورت حال مختلف رہی، اس پر بھی گزشتہ برسوں میں کئی بار آپریشن ہوا، کارکن مارے گئے، بھاگ گئے لیکن ہر بار جب حالات بہتر ہوئے، انتخابات میں اس جماعت نے حصہ لیا اسے پہلے سے زیادہ طاقت سے عوام نے کامیاب کیا۔ این اے 246 کا الیکشن ہمارے سامنے ہے اور اب بھی
بلدیاتی انتخابات کا نتیجہ سابقہ نتائج جیسا ہی نظر آرہا ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت پر ظلم و زیادتی اور اس کا ردِ عمل ہم عرصہ دراز سے دیکھتے چلے آرہے ہیں۔

میرا آج کا اصل موضوع سیاسی جماعتوں کے باہمی اختلافات نہیں بلکہ حکمراں جماعت نون لیگ کے اندر آپس کی گروہ بندی اور اختلافات ہیں۔معموی نوعیت کے اختلافات تو اس جماعت میں شروع ہی سے پائے جاتے ہیں۔ یعنی مسلم لیگ بطور سیاسی جماعت نام ہی ٹوٹ پھوٹ کر بکھرنے اور نئی جماعت بننے کا ہے۔ میاں صاحب کی لیگ میں ٹوٹ پھوٹ کی جو بنیادی وجہ سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ یہاں تین قسم کے سیاسی لوگ پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو پرویز مشرف کی مسلم لیگ جسے ق لیگ کہا جاتا ہے میں نہیں گئے، ثابت قدم رہے، مشکلات اور ظلم و زیادتیاں برداشت کیں، جیلوں میں رہے، نواز شریف کی وفاداری کاجھنڈا تھامے رہے ، ایسے لوگ تعداد میں کم ہیں۔ دوسرا گروہ ان مفاد پرست سیاست دانوں کا ہے جو مشکل وقت میں پتلی گلی سے نکل کر حکمراں جماعت یعنی مسلم لیگ (ق) میں شامل ہوگئے ، وزیر رہے، سفیر رہے، بڑے بڑے محکموں کے سربراہ رہے، خوب مال بنایا، ہر روز کلف والے کپڑے پہن کر ، کبھی سوٹ ٹائی کے ساتھ ٹی وی پر فلسفیانہ گفتگو کیا کرتے ، لگتا تھا کہ ان سے بڑھ کوئی فلسفی دنیا میں نہیں۔ پرویز مشرف کی تعریف، جدہ بھاگ جانے والوں کو برا بھلا کہتے نہیں تھکتے تھے، ان کی اکثریت آجکل کس جماعت میں ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ تیسرا گروہ ان لوگوں کا ہے جنہوں نے دیکھا کہ نون لیگ اقتدار میں آگئی ہے وہ اِدھر ُادھر کی جماعتوں سے چھلانگ لگا کر نون لیگ کا جھنڈا ہاتھ میں تھامے اگلی صف میں جابیٹھے۔یا اپنی جماعت سے ناراض تھے ٹکٹ نہیں دیا گیا ، حکمراں جماعت نے دانا ڈالا ، فٹ آگئے، رعنا ثناء اﷲ بھی کبھی پاکستان پیپلز پارٹی میں تھے، کہتے ہیں کہ ٹکٹ نہیں دیا گیا ناراض ہوگئے۔ چھوٹے میاں صاحب نے تھپکی لگائی آگئے نون لیگ میں۔ یہ سب ایک دوسرے کے کرتوتوں سے خوب خوب واقف ہیں، ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ غلطی معاف ایک گروپ میاں صاحب کے عزیر رشتہ داروں کا بھی ہے جو اس وقت بڑا مضبوط ہے اور میاں صاحب کو بہت عزیز بھی۔یہ گروہ اپنے آپ کوشریف فیملی کا وارث سمجھتا ہے،وہ محسوس کرتا ہے کہ حکومت کرنے کا حق صرف اور صرف اسی اشرافیہ طبقے کو ہی حاصل ہے ۔ اس گروہ کا خیال ہے کہ اب وزارتوں پر اگر کسی کا حق ہے تو وہ صرف انہیں کا ہے۔ ان میں کچھ تو واقعی میاں صاحبان کے دوھدیالی ، کچھ ننھیالی اور کچھ سسرالی ہی نہیں بلکہ میاں صاحباب کے بچوں کے سسرالی بھی بڑی تعداد میں ایسے ہیں جو خود کو اصل نون لیگ کا جاں نثارشیر تصور کرتے ہیں۔میاں صاحباب ان تمام طرح کے گروہوں میں تقسیم ہوکر رہ گئے ہیں۔کریں تو آخر کریں کیا۔سسرالیوں سے وزارت کیسے واپس لیں، سمدھی کا رشتہ تو بہت نازک ہوتا ہے، تب ہی تو اہم کام اسی کے سپرد کردیے جاتے ہیں۔

خواجہ آصف کا یہ بیان پڑھ کر حیرت ہوئی کہ ان کی چودھری نثار سے گزشتہ چار سال سے کٹی ہے، بات چیت ہی نہیں ہوئی۔ چودھری نثار کا بیان تھا کہ وزارت داخلہ کو وزارت پانی ، بجلی ودفاع سے کیا لینا دینا۔ان کا فرمانا ہے کہ انہیں جی ایچ کیو سے رابطے کے لیے وزیر دفاع کے ذریعہ جانے کی ضرورت نہیں ہوتی، وہ افواج سے رابطے کے لیے کسی بھی طور وزیر دفاع کے محتاج نہیں۔ بھلا سوچئے کہ لوگ تو دونوں کو میاں صاحب کا دایاں اور بایاں بازو تصور کیے ہوئے ہیں۔ جب ان کا یہ حال ہے تو باقی کا تو اﷲ ہی مالک ہے۔پرویز رشید کاکہنا ہے کہ ان وزیروں کے اختلافات سے حکومت کوکوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان کا فرمانا ہے کہ چودھری نثار اور خواجہ آصف میں ناراضگی اور بات چیت بند ہے ، وزیر داخلہ اوروزیر پانی ،بجلی اور دفاع میں بات چیت بند نہیں۔خوب منطق اور لاجواب دلیل ہے۔ وزیر اطلاعات صاحب فرق پڑتا ہے،یہی فرق بڑے اختلاف کا باعث بن جاتا ہے۔ ملک کے اہم منصب پر براجمان لوگ باہم ناراض اور ایک دوسرے کی شکل دیکھ کر کنی کاٹ جاتے ہوں تو ان کا اثر ملک کے معاملات پر پڑنا لازمی ہے۔ احسن اقبال بھی ان دنوں کچھ روٹھے روٹھے سے ہیں یا پھر بعض وزرا ان سے نا خوش ہیں۔کچھ نہ کچھ معاملا احسن اقبال کا بھی ہے۔ دیگر اور وزراء میں بھی سرد جنگ نظر آرہی ہے جو کسی بھی وقت عابد شیر علی کے والد چودھری شیر علی کی دھاڑ کی صورت اختیار کرسکتی ہے۔

عابد شیر علی، میاں صاحب کے رشتہ دار وزیر ہیں۔ یہ مخالفین پر شیر کی طرح دھاڑتے نظر آتے ہیں۔ان کا طرز گفتگو جارہانہ، ظالمانہ اور غیر شائستانہ ہوتا ہے اس میں تو دو رائے ہیں ہی نہیں۔ گزشتہ دنوں ان کے والد ِ محترم چودھری شیر علی(بڑے شیر علی) کی دھاڑ سب نے سنی، دھاڑ کس کے خلاف تھی پنجاب کے وزیر اعلیٰ چھوٹے میاں صاحب کے ناک کے بال چودھری ثناء اﷲ کے خلاف، ثناء اﷲ کو کوئی پروا نہیں کہ لاہور سیٹلائٹ ٹاؤن کے واقعے کے اصل ذمہ داران میں ان کا نام ہے توہوتا رہے ، چھوٹے میاں صاحب کی آشیر باد کے سامنے سب کچھ ڈھیر ہے۔ بڑے شیر نے یہاں تک کہہ دیا کہ چھوٹا شیر (عابد شیر) بھی اپنی وزارت سے ہی نہیں نون لیگ سے بھی مستعفی ہوجائے گا۔ بڑے شیر نے ثناء اﷲ پر کیا کیا الزامات نہیں لگائے۔ انہیں پنجاب کا’ لا قانون منسٹر‘ کہہ کر مخاطب کرتے رہے، قانون شکن منسٹر کہا اور ان پر بیس افراد کو قتل کرنے کا الزام بھی لگاڈالا۔ چھوٹے میاں صاحب کو بھی تڑی دے ڈالی کے وہ چودھری ثناء اﷲ کو نکال باہر کریں۔ انہوں نے کہا کہ میاں صاحب فیصل آباد میں آپ کا رشتہ دار ایم پی اے ہار گیا، آپ کا اسپیکر لاہور میں صرف ڈھائی ہزار ووٹ لے کر جیتا ۔ بڑے شیر کے خیال میں ایسا بھی چوھری ثناء اﷲ کی وجہ سے ہوا۔جواب میں ثناء اﷲ کا کہنا یہی تھا کہ بڑے شیر کی ذہنی کیفیت درست نہیں، در اصل وہ اپنے بیٹے کو فیصل آباد کا میئر بنانا چاہتے ہیں۔ بڑے شیر کی پریس کانفرنس میں رعنا افضل کے علاوہ کئی نون لیگی لیڈر بھی موجود تھے۔یہ بھی قابل ذکر بات ہے۔بڑے شیر تن تنہا پریس کانفرنس نہیں کر رہے تھے بلکہ اپنے دائیں بائیں کئی لیگیوں کو لیے بیٹھے تھے۔ دونوں کا تعلق پنجاب کے شہر فیصل آباد سے ہے۔ کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ بلدیاتی انتخابات کے لیے اپنی اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔بلدیاتی الیکشن میں ٹکٹوں کی تقسیم میں اپنا حق تسلیم کرانا چاہتے ہیں، چودھراہٹ کی جنگ میں دونوں نے پارٹی کی ساکھ کو داؤ پر لگا دیا ہے۔

نون لیگ کے اندر یہ کوئی پہلا جھگڑا نہیں اس سے پہلے بھی کئی رہنما نون لیگ سے خاموشی اختیار کرچکے ہیں۔ ممتاز بھٹو بڑے کر َو فرکے ساتھ نون لیگ میں آئے تھے اب خاموش ہیں۔ واپسی کا سوچ رہے ہیں۔کھوسہ خاندان کے نواز لیگ سے اختلافات سب پرعیاں ہیں۔ جاوید ہاشمی کا آنا جانا شاید اب پھر سے آجانا چل رہا ہے۔ اس طرح چھوٹے موٹے بے شمار نون لیگی آپس میں نا خوش و ناراض ہیں۔ دیگر پارٹیوں کا بھی کوئی اچھا حال نہیں سب ہی میں توڑ پھوڑ، لڑائی جھگڑا، آنا جاناچل رہا ہے۔ نون لیگ کیونکہ حکمراں جماعت ہے ا س کے اندر باہمی خلفشار ملک کے لیے نقصان کا باعث ہوگا۔ ویسے ہی ملک اس وقت نازک صور ت حال سے گزر رہا ہے۔ پالیسیاں کہیں اور بن رہی ہیں، ہدایات کہی اور سے آرہی ہیں۔ جب حکمراں اندر سے کمزور ہوجائیں تو اسی قسم کی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے۔

سندھ میں نو ن لیگ کا ووٹ بنک نہ ہونے کے برابر رہا ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد قیادت کی جانب سے اس بات کی کوشش بھی نہیں کی گئی کہ سندھ یا اس کے شہری علاقوں پر توجہ دی جاتی۔جسٹس(ر)سید غوث علی شاہ نون لیگ کے پرانے حامی اور عہدیدار رہ چکے ہیں۔ ان سے نون لیگ کی قیادت کے اختلاف ہوئے ، جسٹس صاحب نے کچھ کچھ ہاتھ پیر مارے ، بات نہ بنی تو خاموش ہورہے پھرملک سے باہر چلے گئے آج کل پرویز مشرف کی پارٹی کے گرد چکر لگا رہے ہیں شاید کوئی اتحاد بن جائے اور وہ اس اتحاد میں کوئی اعلیٰ منصب پاسکیں۔ سندھ میں نون لیگ کے وہ لیگی جن کو نون لیگ نے سندھ کی نمائندگی کے لیے سینٹ کا رکن بنایا، انتخابات میں بار بار ٹکٹ دیے ، یہ دوسری بات کہ وہ جیت نہ سکے انہوں نے پارٹی کے اختلافات کے حوالے سے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ حال ہی کی بات ہے کہ نون لیگ کی سندھ کی صوبائی قیادت نے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے اندرون سندھ کا دورہ کیا، اس دورے کی جو کہانیاں اخبارات کی ذینت بنی ہیں ان کے پیش نظر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگر بلدیاتی انتخابات سندھ میں ہوتے ہیں تو نون لیگ کا کم از کم اندرون سندھ سے صفایا ہونے کا خدشہ پورا پورا موجود ہے۔ رپورٹ یہ ہے کہ نون لیگ کے ورکر یا سپورٹر صوبائی قیادت سے انتہائی نہ خوش ہیں اپنے دورے میں ان عہدیداران کو انتہائی ذلت آمیز رویے کاسامناکرنا پڑا ہے۔ لوگوں نے انہیں یکسر مسترد کردیا ۔نون لیگ کے صوبائی صدر اسماعیل راہو ، سینئر صوبائی نائب صدر شاہ محمد شاہ ، مرکزی نائب صدر سینیٹر سلیم ضیا ایڈوکیٹ اور صدر مملکت کے مشیر چوہدری طارق بھی ان دوروں میں شریک تھے لیکن یہ سب نون لیگی کارکنوں کو مطمئن کرنے میں ناکام ہوئے۔ کارکنوں نے ان رہنماؤں کے خلاف شدید احتجاج کیا، نعرے لگائے، جلسے درہم برہم کردیے یہاں تک کے کچھ کے کپڑے بھی تار تار کردئے۔ کارکن زخمی بھی ہوئے۔ کارکنوں کا کہنا تھا کہ اسماعیل راہو اور شاہ محمد شاہ برے وقت میں پارٹی چھوڑ کر دوسری سیاسی جماعت کا حصہ بنتے رہے ہیں ، مختلف پارٹیوں میں بات نہ بنی تو سفارشی طور پر دوبارہ نون لیگ میں شامل ہوگئے۔ نون لیگ کی مرکزی قیادت اس صورت حال سے کس حد تک واقف ہے، اسے تصویر کا صحیح رخ دکھا یا گیا ہے یا نہیں۔ اندرون سندھ یہ حال ہے تو شہروں میں بھی کچھ حال اچھا نہیں۔ کراچی کی نون لیگی قیادت ٹی وی ٹاک شو میں بیٹھ کر سب اچھا ہے سب اچھا ہے کی گردان کرتی رہے۔ اچھا کچھ بھی نہیں، سندھ کے نون لیگی سینیٹر تو بن سکتے ہیں قومی یا صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہونے کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ حالات میں کسی بھی نون لیگی کے کونسلر منتخب ہونے کے لیے سخت محنت کی ضرورت ہوگی۔

نون لیگ کو سب سے بڑا مسئلہ یہی درپیش ہے کہ اس نے مسلم لیگ (ق) میں شامل ہوجانے، وزارتوں کے مزے لوٹنے والوں کو نہ صرف ویلکم کہا بلکہ انہیں اپنے دیرینہ اور وفادار جنہوں نے برے وقت میں نواز شریف کا جھنڈا تھامے رکھا تھا کو پیچھے کر دیا۔ سیاسی جماعتوں میں عروج و ذوال دونوں آتے ہیں۔ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ایسی پارٹیاں جو برسوں برسرِ اقتدار رہیں وقت کے ساتھ ساتھ ان کا صفایا ہوگیا۔ پڑوسی ملک میں کانگریس کی آج کیا صور ت ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی زندگی میں اپ اینڈ ڈاؤنس آتے رہے۔ آج کل اس کا گراف نیچے کی جانب ہے۔ میاں صاحبان نے رشتہ داریوں سے بالا تر ہوکراگر پارٹی کے معاملات کو سلجھانے کی کوشش نہ کی اور اس بات کا اکتفا کیے رکھا کہ اگر دو آپس میں بیان بازیاں کریں تو دونوں کو بیان دینے سے منع کردیں ۔ اس سے بات نہیں بنے گی۔ محض بیان دے دینے سے اختلافات ختم نہیں ہوں گے۔ نواز شریف نے فرمایا کہ ’پارٹی اختلافات باہر لانے والوں کے خلاف سخت کاروئی کریں گے‘۔ آخر کھچڑی کب تک اندر ہی اندر پکتی رہے گی۔ ایک نہ ایک دن تو اسے ابال آہی جائے گا۔ اختلافات کو باہر آنے دیں تاکہ اندر کی صورت حال سامنے آسکے، اگر اب اس صورت حال کو روک دیا گیا تو کچھ عرصہ بعد پھر لاوا باہر آجائے گا۔ پارٹی کارکنوں میں پائی جانے والی بے چینی کو دور کریں اگر ان کی شکایات درست ہیں تو انہیں دور کرنے کے احکامات جاری کریں۔ خوشامدی ٹولا اقتدار کے مزے لے رہا ہے ، پارٹی کو مستحکم کرنے کی جانب کوئی توجہ نہیں۔ ایک شیر آپ کا رشتہ دار ہے دوسرا شیر چھوٹے میاں صاحب کا لاڈلا ہے۔ مقابلہ سخت ہے، فیصل آباد کوشیروں کی آپس کی لڑائی سے بچائیں۔ ان دونوں شیروں کا عمل پارٹی کے لیے نقصان کا باعث ہورہا ہے۔ ان کودیکھ کر دیگر شہروں میں بھی چھوٹے بڑے شیر دھاڑنا شروع کردیں گے جس سے پارٹی کو نقصان کے سوا کچھ نہ ہوگا۔(22اکتوبر2015، مصنف سے رابطے کے لیے سیل: 03332142076ای میل:[email protected])
 

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1289595 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More