اے (ترکی )طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی ۔۔۔۔۔۔!

 مشرق وسطی اور جنوبی ایشیا کے داخلی اور بیرونی حالات کو تین انتہائی اہم پیش رفت کے تناظر میں دیکھنے کی ضرو رت ہے۔
1۔شام میں روسی فضائیہ کی جارحانہ کارروائی۔چین کی بحریہ کے متحرک ہونے کی افواہ
2۔ترکی میں بڑھتی داخلی دہشت گردی ۔مہاجرین کا بحران۔ ترکی کے لئے یوروپ کا بڑھتا التفات
3۔افغانستان سے فوجیں نہ ہٹانے کا امریکی اعادہ۔

مسلسل جنگ وجدل میں مبتلا دنیا کا یہ حصہ تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ بننے کے واضح اشارے دے رہا ہے۔

حال ہی میں روس نے شام میں دولتِ اسلامیہ کے شدت پسندوں کو نشانہ بنانے کیلئے فضائی حملوں کا آغاز کیا ہے جبکہ امریکہ کے زیرِ قیادت اتحاد پہلے سے شام میں فضائی کارروائیاں کر رہا ہے۔روسی طیاروں کی جانب سے اپنی مہم کے دوران دو مرتبہ ترکی کی فضائی حدود کی خلاف ورزی بھی کی گئی جس پر نیٹو نے اپنے رکن ممالک کو ان کا تحفظ کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔

روسی فضائیہ کے شام پر حملوں میں نمایاں اضافے کے بعد انکی تعداد اوسطاً روزانہ 60سے بڑھ گئی ہے۔ روس کا دعویٰ ہے کہ وہ دولت اسلامیہ (داعش) اور دیگر شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو ہدف بنا رہا ہے جبکہ امریکہ اور نیٹو کے دیگر رکن ممالک کا موقف ہے کہ روس کا اصل ہدف شامی صدر بشار الاسد کیخلاف برسر پیکار شامی گروہ ہیں اور وہ عام شہریوں پر بمباری سے بھی گریز نہیں کر رہا ہے۔ امریکہ اور اسکے اتحادیوں کا کہنا ہے کہ شام میں قیام امن کیلئے بشارالاسد کا اقتدار سے الگ ہونا ناگزیر ہے جبکہ دوسری طرف روس نے شام میں داعش سے نمٹنے کیلئے بشارالاسد کے بغیر موثر کارروائی کو ناممکن قرار دیا ہے اور روس سے شامی افواج کو اسلحہ کی فراہمی کے ساتھ ساتھ فوجی تربیت بھی جاری ہے۔

اس بیچ ایک افواہ یہ بھی اُڑائی گئی کہ چین نے اپنا بحری بیڑا متحرک کر دیا ہے۔چین نے اپنے فوجی بحری جہاز شام روانہ کرنے سے متعلق غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں آنے والی خبروں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے سختی سے مسترد کیا ہے۔ بعض روسی اور عرب ذرائع ابلاغ نے دعویٰ کیا تھا کہ چین اپنا طیارہ بردار بحری جہاز 'لیاوئنگ' اور دیگر جنگی جہاز شام بھیج رہا ہے جو وہاں جاری روسی فوجی آپریشن میں حصہ لیں گے۔چین کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے ان خبروں کی سختی سے تردید کرتے ہوئے انہیں "بے بنیاد قیاس آرائیاں" قرار دیا ہے۔چین کی وزارتِ خارجہ کی خاتون ترجمان ہو چنینگ نے ان خبروں کی تردید کی ہے۔انہوں نے کہا کہ چین کا واحد طیارہ بردار جہاز 'لیاوئنگ' اس وقت فوجیوں کی تیکنیکی تربیت اور مشقوں میں استعمال ہورہا ہے اور اسے بیرونِ ملک کسی مشن پر روانہ نہیں کیا جارہا۔اب اس بیان کے بعد غور طلب ہے کہ چین کی وزارتِ دفاع نے کہا ہے کہ اس معاملے میں وزارتِ خارجہ کے بیان کو کافی سمجھا جائے یعنی وزارت دفاع آنے والے وقت میں سوال پوچھے جانے پر اس بیان سے کنارہ بھی کر سکتی ہے۔ ایک تاویل یہ بھی دی گئی کہ شام کا بحران چین کا پیدا کردہ نہیں اور چین کے شام کے محاذ پر کود پڑنے اور محاذ آرائی کا حصہ بننے کی کوئی وجہ موجود نہیں۔ جبکہ چین شام کے تنازع پر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں ہونے والی بیشتر قراردادوں پر روس کے موقف کی حمایت میں ووٹ دیتا آیا ہے ۔یہ بھی سچ ہے کہ چین کا موقف رہا ہے کہ شام کے تنازع کا بات چیت کے ذریعے سیاسی حل تلاش کیا جائے اور تمام فریقین فوجی طاقت کے استعمال سے گریز کریں۔چین مشرقِ وسطیٰ سے تیل برآمد کرنے والے دنیا کے چند بڑے ملکوں میں سے ایک ہے لیکن دیگر عالمی طاقتوں کے برعکس مشرقِ وسطیٰ کے سیاسی معاملات میں اس کا کردار بہت کم اور خطے کی حکومتوں سے سفارتی رابطوں تک محدود ہے۔

امریکی صدر باراک اوباما نے افغانستان میں امریکی فوج کے قیام میں توسیع کا جو اعلان کیا ہے ، وہ ایک تیر سے کئی شکار کرنے جیسا ہے ۔ پورے خطے میں حالات پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ اس خطے کی سیاسی معیشت اور نئی صف بندیوں کے حوالے سے جو فیصلے ہو رہے تھے ، وہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کو سامنے رکھ کر کئے جا رہے تھے۔ اس خطے کی سیاسی خطوط(Dynamics )کو تبدیل کرنے کی کوشش کرنے والے چین ، روس ، ایران اور دیگر اہم کھلاڑی اب شاید نئی طنابیں کسیں۔امریکی صدر نے اپنی قوم سے خطاب میں امریکی افواج کے انخلاکے پروگرام میں جس تبدیلی کا اعلان کیا ، وہ غیر متوقع نہیں ہے۔ خطے کے بدلتے ہوئے حالات اور یہاں امریکی مفادات کے لئے بڑھتے ہوئے چیلنجز کے پیش نظر یہ توقع کی جا رہی تھی کہ امریکہ اس خطے سے اپنی فوجی موجودگی ختم نہیں کرے گا۔ باراک اوباما نے امریکی فوج کے قیام میں اگرچہ صرف ایک سال کی توسیع کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ 2016ء کے بعد بھی امریکی فوج افغانستان میں موجود رہے گی اور ان کے پیش رو امریکی صدر یہ فیصلہ کریں گے کہ 2017 ء کے بعد کیا کرنا ہے لیکن یہ بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی کہ امریکہ افغانستان سے نکل جائے گا۔ پہلے امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اعلان کیا تھا کہ 2014ء میں مکمل فوجی انخلاء ہو جائے گا۔ پھر اس میں 2016ء تک توسیع کی گئی اور اب امریکی فوج کے قیام میں بظاہر ایک سال لیکن حقیقتاً غیر معینہ مدت تک توسیع کی گئی ہے۔ آیئے جائزہ لیں مگر ذرا دوسرے اینگل سے مطلب یہ کہ وہ کون سی فوجی ٹکڑی ہوگی جو افغانستان میں رکے گی؟

ترکی جو ایک بہادر فوج رکھنے کی شہرت کا حامل ملک تھا، یہ ملک نیٹو جیسے طاقتور فوجی ا تحاد کا رکن بھی ہے اور اس کی ا فواج افغانستان میں گزشتہ بارہ برس سے طالبان کے خلاف لڑ رہی ہیں، یہ بات پہلے ہی سامنے آگئی تھی کہ امریکہ جب یہاں سے اپنی فوج نکال لے گا اور نیٹو کے دوسرے ملک بھی یہاں سے رخصت ہو جائیں گے تو ترکی کی فوج کو مزید کچھ عرصہ اس ملک میں قیام امن کے لئے یہاں قیام کا اشارہ ملا تھا، آخر ترک فوج میں کوئی تو خوبی اور خصوصیت ہو گی جس کی وجہ سے انکو افغانستان کی سر زمین پر موجود رہنے دینے کے اشارے ملے تھے۔مگر جب انکے اپنے ملک کی سرحدوں پر بن آئی دکھ رہی ہے تو وہ جیسے بندھے ہاتھ کھڑے ہیں۔حالیہ دنوں میں ترکی میں داخلی دہشت گردی میں تیزی آئی ہے مختلف واقعات میں 150سے زائد شہری مارے گئے ہیں۔ترکی کی معیشت رو بہ زوال ہے۔ مارچ 2015 میں مسلم پولیٹیکل کاوء نسل کے صدر ڈاکٹر تسلیم رحمانی کی قیادت میں صحافیوں اور مسلم سیا سی رہنماوئں کے ایک وفد کے ساتھ میں نے بھی ترکی کا ایک سرکاری دورہ کیا تھا جس میں ہم شامی سرحد پر پناہ گزینوں کی آمجگاہ غازن ٹیب بھی گئے تھے تب بھی یہ آثار محسوس ہو رہے تھے کہ کل کو انکی شکل بھی پاکستان میں پناہ گزین افغانیوں جیسی نہ ہو جائے ۔دوسری طرف ترکی کی جنوبی سرحدوں پر بڑی تعداد میں شامی مہاجرین آ کر بس گئے ہیں خاص طور پر تاریخی شہر انطاکیہ میں جہاں کی مقامی آبادی ترکی علویوں پر مشتمل ہے اور بشارالاسد بھی علوی ہیں ایسے میں یہ مقامی آبادی نہ تو ان مہاجرین کو پسند کرتی ہے اور نہ ہی ترکی حکومت کی شام مخالف پالیسی کو پسند کرتی ہے وہ ایک حبس کے عالم میں ہیں۔ دوسری جانب ادلب کے علاقوں میں کردوں کی وسیع آبادیاں ہیں جو ایک طویل عرصے سے حکومت کے ساتھ بر سر پیکار ہیں اور ایک آزاد کُرد ریاست کا مطالبہ کر رہی ہیں تیسری جانب کبھی طیب رجب اردوان کے حلیف رہے عبداﷲ جولان ہیں جو اب حکومت محالف عناصر کی رہنمائی کر رہے ہیں اور کسی طرح آق پارٹی کی حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں ۔ یہ وہ حالات ہیں جو ترکی کو داخلی طور پر کمزور کر کے در اصل ترکی کی موجودہ حکومت کی اسلام پسند پالیسی کو نقصان پہونچانا چاہتے ہیں۔ ایسے میں بہ آسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ شام کے بحرا ن کا حل دراصل ترکی کی تقسیم اور اسکو مزید گہرے داخلی بحران پر منتج ہوناہے اس غرض سے شام کے بحران کو عالمی بحران میں تبدیل کرنا ضروری ہے یہی وجہ ہے کہ روسیطیاروں کی جانب سے اپنی مہم کے دوران دو مرتبہ ترکی کی فضائی حدود کی خلاف ورزی بھی کی گئی۔ترکی ایک عالمی طاقت تھا، خلافت کا منبع تھا۔ یہ علوم و فنون کا مرکز تھا۔

مگر حالات یہ ہیں کہ ترک عوام میں خود کو یوروپین کہلانے کا جو جرثومہ داخل کر دیا گیا ہے اسکی وجہ سے آج بھی ترکی یورپ اور مغرب کی جانب رخ کر کے خود کو یوروپ کا دروازہ کہلانے اور بنے رہنے کی سعی مسلسل میں اپنے حمےّت کو طاق پر رکھنے کو مجبور دکھ رہا ہے۔ ترکوں کو رقص رومی چھوڑ مغربی روک و جازکی دھنوں پر ناچتے اب ایک عرصہ ہو گیا مگر ترکی کو یورپی اسٹیٹس نہ ملنا تھا، نہ ملا ۔ ایک فوج تھی، اس کے بھی کس بل نکال دیئے گئے ہیں۔

در حقیقت ترکی عوام میں یورپی تہذیب کی داغ بیل تو اتا ترک ڈال ہی گئے تھے مگر رجب طیب اردوان نے اپنی قیادت میں عوام کو سافٹ اسلام سے روشناس کروایا اور بہت آ ہستہ روی سے ترک معا شرہ اسلامائزیشن کی طرف بصد شوق مراجعت کر رہا تھا ۔یہ تمام پیش رفت یہود و نصاری ٰ کی ناک کے نیچے ہو رہی تھی۔ شاید اسی اسلامی مراجعت کے خوف کی وجہ سے ترکی کی طرف یوروپ نے نظر کرم کی ہے کیو نکہ وہ جانتے ہیں یوروپ اور ترک عاشق و معشوق کی کیفیت میں ہیں۔اسی لئے یو رپی یونین کے رکن ملکوں نے گزشتہ ہفتے برسلز میں ہونے والے اپنے سربراہی اجلاس میں مہاجرین کے بحران سے نبٹنے کے لیے ایک منصوبے کی منظوری دی تھی جس میں ترکی مرکزی کردار ادا کرے گا۔منصوبے کے تحت ترک حکومت مہاجرین کو غیر قانونی طریقے سے یورپ پہنچانے والے انسانی اسمگلروں کے خلاف کارروائی اور اپنے ہاں مقیم 20 لاکھ سے زائد شامی پناہ گزینوں کا یورپ میں داخلہ روکنے کے لیے اقدامات کرے گی۔ان اقدامات کے جواب میں یورپی یونین نے ترک حکومت کو یورپی ملکوں کے دورے کے خواہش مند ترک شہریوں کو ویزے کی جلد فراہمی اور ترکی کو یورپی یونین کی رکنیت دینے کے معاملے پر مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔

اب آئیے امریکہ کی بیچینی کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔کچھ تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ نئی صورتحال سے نمٹنے کے لئے اس خطے کے ممالک کا آپس میں اتفاق نہیں ہے لیکن سب اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ امریکہ خطے میں اپنی فوجی موجودگی کو برقرار رکھنے کے لئے طالبان کے ساتھ ساتھ داعش اور دیگرانتہا پسند تنظیموں کو مزید مضبوط کرے گا اور اس خطے میں عدم استحکام پیدا کرے گا۔ کیا اس حقیقت کا ادراک عرب دنیا کر چکی ہے؟اس کا جواب ہاں میں ہو سکتا ہے کیونکہ افغانستان کے بعد امریکی پالیسیوں کے باعث عرب دنیا ہی سب سے زیادہ تباہی کا شکار ہوئی۔ داعش نامی تنظیم کے خلاف نام نہاد امریکی آپریشن میں عرب ملکوں کی بہت سی حکومتوں نے براہ راست حصہ نہیں لیا اور انہوں نے یہ اعلان کیا کہ وہ اس دہشت گرد اور انتہا پسند تنظیم کے خلاف خود کارروائی کریں گے۔روس نے عرب دنیا کے اس ادراک کو سمجھا اور شام میں داعش کے ٹھکانوں پر حملے کئے۔ روس کی اس حکمت عملی نے دیگر عرب ممالک کو بھی راستہ دکھا دیا ہے اور وہ جان چکے ہیں کہ امریکہ کی ضرورت کے مطابق پیدا ہونے والے دہشت گرد گروہ امریکی مفادات کو پورا کر رہے ہیں اور امریکہ کے نام نہاد آپریشن سے دہشت گردی ختم نہیں ہو گی بلکہ اس میں مزید اضافہ ہو گا۔ اسکے ثبوت روس نے فراہم کر دئے ہیں اور شام میں امریکہ کا دہرا کردار بے نقاب ہو چکا ہے ۔

اس خطے میں امریکہ کی مستقبل کی پالیسی کیا ہے ؟ افغانستان میں امریکہ کی فوجی موجودگی کو 14سال سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا ہے۔ اسے ’’ افغانستان میں امریکہ کی جنگ ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ تاریخ کی طویل ترین جنگ ہے ، جو امریکہ نے اب تک لڑی ہے۔ اس جنگ کا نتیجہ کیا نکلا ؟ دراصل امریکہ اس خطے میں اپنی فوجی موجودگی برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ اسے احساس ہو گیا ہے کہ چین ، روس ، ایران اور تعاون تنظیم کے دیگر ممالک اس خطے میں امریکہ کی بالادستی کو چیلنج کر رہے ہیں اور اس خطے کی کیمسٹری تبدیل ہو رہی ہے۔ ا س بدلتی تصویر نے ترکی کو تذبذب میں ڈال دیا ہے۔ اب اگر وہ خطے میں روس اور چین کے بڑھتے ہوے اثرات کو روکنے کیلئے ناٹو کی مدد سے شام میں روس کی پیش قدمی کو روکنے کی کوئی فوجی کارروائی کرتا ہے تو تیسری عالمی جنگ کا سارا الزام ترکی کے سر جائے گا اور نہیں کرتا تو اپنی سرحدوں سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ہم پہلے بھی یہ مانتے رہے ہیں کہ بشارالاسد کے خلاف ترکی کو پہلے ہی فوجی کر روائی کرنی چاہئے تھی مگر اس وقت بھی انہوں نے محتاط رویہ اختیار کیا تھا اور اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ شام کے مظلوموں کی حمایت اور اسلام پسند تحریک کے فروغ اور بر وقت اقدام نہ کرنے کا خراج ترکی کو اب ادا کرنا ہی پڑے گا۔
tasneem kausar
About the Author: tasneem kausar Read More Articles by tasneem kausar: 7 Articles with 5093 views associated with electronic and print media .. View More