بھارت کی شدت پسند تنظیم نکسل باڑی

کہا جاتا ہے کہ بھارت میں جمہوریت مستحکم بنیادوں پر قائم ہے، لیکن اپنی جگہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بھارت کے طول و عرض میں متعدد علیحدگی پسند تحریکیں اور تنظیمیں بھی سرگرم عمل ہیں۔ ان میں ماﺅ نواز تنظیم "نکسل باڑی" باقی سب تنظیموں کے مقابلے میں زیادہ فعال اور متحرک ہے۔ بھارت کی اس دہشت گرد تنظیم نے بھارتی سکیورٹی فورسز سے ان کا امن و سکون چھین لیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارتی ذرائع ابلاغ میں اس تنظیم کی جارحانہ سرگرمیوں کو زیادہ اجاگر نہیں کیا جاتا اور بالعموم نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

نکسل تحریک یا نکسل ازم اس وقت شروع ہوئی جب مئی 1967 میں شمال مشرقی بھارتی ریاست مغربی بنگال کے ایک گاؤں ” نکسل باڑی“ کے کسانوں نے بغاوت کر دی۔ ابتدائی طور پر اسکی قیادت 49سالہ چرو مزمودار نے کی۔ ان کا مقصد ایک زرعی انقلاب کے ذریعے جاگیردارانہ نظام کو اکھاڑ پھینکنا تھا۔ مزمودار کو1972 میں گرفتار کر کے12 دن بعد پولیس حراست میں ہلاک کردیا گیا اور وہ ماؤ نوازوں کا ہیرو بن گیا۔ ابتدائی نکسل بغاوت تو پولیس نے محض دو ماہ میں ہی پولیس اور انٹیلی جنس آپریشن کے ذریعے کچل دی۔ لیکن اس کے بعد ہر شکست کے بعد یہ اور پھولتی پھلتی چلی گئی اور اب یہ کہیں زیادہ مضبوط ہے۔ چین کے ماﺅزے تنگ نے اس تحریک کی حمایت کی تھی۔ بعد میں کمیونسٹ پارٹی آف چائنا اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ کے تعلقات ختم ہوگئے۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا اگرچہ دو حصوں ماؤ اسٹ اور لیننسٹ میں بٹ گئی ہے لیکن اس کے باوجود اس کے باغیوں کیلئے وہی معیار ہے۔ بعد میں نکسل باڑی تحریک کئی حصوں میں بٹ گئی جس کے باعث چین نے اس کی سماجی حمایت ترک کردی اور مختلف بھارتی گروپوں سے لا تعلق ہوگیا۔ آج کل نکسل باڑی تحریک متاثرہ وسیع علاقے میں چھتیس گڑھ، جھاڑ کھنڈ، بہار اور مغربی بنگال، جبکہ جنوب میں اڑیسہ، آندھرا پردیش اور مہاراشٹرا تک چلی گئی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ملک کے 600 اضلاع میں سے 220 سے زائد اضلاع پر ماؤ باغیوں کا مکمل کنٹرول ہے، جہاں پر یہ پر تشدد واقعات کر رہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ان کی تخریبی کاروائیوں کو شعوری طور پر کم اہمیت دی جاتی ہے۔ ماؤ نواز باغی کسی بڑی مزاحمت کے بغیر مسافروں سے بھری ٹرینیں اغوا کر لیتے ہیں، ریلوے اسٹیشنوں کو نشانہ بناتے ہیں اور تھانوں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی مرکزی پیرا ملٹری فورسز کی گشتی پارٹیوں پر گھات لگا کر حملے کرتے ہیں اور ان سے اسلحہ چھین کر لے جاتے ہیں۔

پچھلے بیس سالوں کے دوران ان کے حملوں میں چھ ہزار سے زائد افراد مارے گئے تھے۔ ہلاکتوں میں اضافے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1996 میں نکسل باڑیوں کے حملوں میں صرف 156 افراد ہلاک ہوئے تھے، جب کہ پچھلے سال ان کے ہاتھوں 1134 افراد مارے گئے۔ چونکہ ان کے ٹارگٹ زیادہ تر سیکورٹی اہلکار ہوتے ہیں، اس حوالے سے یہ تعداد کم نہیں۔ حکمران اشرافیہ سے نکسلیوں کی نفرت کا یہ عالم ہے کہ ان کے رہنما ” گناپتی“ نے حال ہی میں وزیر اعظم منموہن سنگھ اور وزیر داخلہ چدمبرم کو ” دہشتگرد “ قرار دیا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ ”ہمارے ملک پر حکمرانوں یعنی خون چوسنے والی بلاؤں کا نام و نشان مٹانے کیلئے لوگ ہماری جماعت کی قیادت میں طوفان کی طرح اٹھ کھڑے ہوں گے۔
Abid Hussain burewala
About the Author: Abid Hussain burewala Read More Articles by Abid Hussain burewala: 64 Articles with 85083 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.