حکمرانوں کی بے حسّی

 پاکستانی اخبارات بظاہر تو کاغذ اور سیاہ لفظوں کا مجمو عہ ہوتے ہئں لیکن درحقیقت ان اخبارات میں بے بسی و بے چارگی، شرم و بھرم، عزّت و عصمت اور مجبوری و غربت کا خون بہتا نظر آتا ہے۔آج (14اکتوبر) کے اخبارات میرے سامنے پڑے ہیں ، ان کی سرخیاں اور شہ سرخیاں کیسے کیسے درد ناک خبروں سے مزّین ہیں ، صرف چند ایک خبریں ملاحظہ فر مائیں ،تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ذرہ ملاحظہ فرمائیے۔ ’’ مظفر گڑھ میں پولیس زیا دتی کا شکار لڑکی تھانہ کے باہر جل مری۔۔۔۔۔ملتان میں پٹوار گردی کے ستائے نو جوان نے خود سوزی کر لی ‘‘․․․․کراچی میں پہاڑی تودہ جھگیوں پر گر گیا، 13افراد جان بحق ۔‘‘‘․․․سندھ میں داعش کا نیٹ ورک موجود، 53دہشت گردوں کی فہرست تیار ‘‘․․․اس کے علاوہ قتل و غارت کی خبریں الگ ‘‘ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وطنِ عزیز میں جنگل کا قانون نافذ ہے،جسکا جہاں بس چلتا ہے، کر گزرتا ہے اور کو ئی پو چھنے والا نہیں۔جب کسی ملک کے شہری اپنے ہی ملک میں بے آسرا و بے اماں ہو جائیں، ان کی زند گی کی حفاظت کر نے والے ان کے زند گیوں سے کھیلنے لگیں، عوام بے بس ہو جائیں تو پھر با قی کیا رہ جاتا ہے ؟ پولیس جس کا کام عوام کی حفاظت اور قانون کی بالا دستی ہے، اگر وہی عوام کو خود سوزی پر مجبور اور قانون شکنی کی مرتکب ہو تی ہے اور حکمران ایسی خبروں پر ٹس سے مس نہیں ہو تے تو یہ ظلم کی انتہا ہے اور جب ظلم اپنی انتہا کو پہنچتا ہے تو پھر قدرت کا قانون خود بخود حرکت میں آتا ہے۔ پنجاب میں پولیس کی کار ستانیاں ، تشّدد اور ظلم و بر برّت کی خبریں اب روز کا معمول بن چکی ہیں ۔ وہاں تھانوں میں جو کچھ ہوتا ہے ،اسے دیکھ کر انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔

مظفر گڑھ میں ایک جوان لڑکی کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس نے مایوس ہو کر تھانے کے سامنے اپنے آپ کو آگ لگا کر جس طرح اپنے آپ کو جلا یا ،وہ پنجاب کے حکمرانوں کی حاکمیّت پر ایک بد نما داغ ہے۔پنجاب پاکستان کا جتنا بڑا صوبہ ہے، اتنے ہی بڑے بڑے بڑے ظلم و تشّدد کے واقعات تھا نوں میں روز رونما ہو تے ہیں۔ مگر حکمرا نوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ جناب شہباز شریف سستی شہرت حاصل کرنے غمزدہ خاندان کے پا سجا کر ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچا نے کے بلند باگ دعوے بھی کر لیتے ہیں مگر نتیجہ وہی ڈاک کے دو پات ہی رہتا ہے۔ انصاف کسی غریب کو نہیں ملتا۔ پچھلے سال آمنہ نامی لڑکی کے ساتھ پولیس نے زیادتی کی تھی وہ انصاف کے لئے جھولی پھیلا کر فریاد کرتی رہی، جب وہ انصاف مانگ مانگ کر تھک گئی تو بالآخر اپنے آپ کو آگ لگا کر اس دنیا سے رخصت ہو گئی۔ شہبا ز شریف نے جا کر غمزدہ خاندان کو انصاف دلانے کی یقین دہانی کرائی۔ واقعہ میں ملوث چند پو لیس افسران کو معطل بھی کیا گیا، مگر کچھ عرصہ بعد تمام ملزمان با عزت بری کر دئیے گئے اور اس وقت وہ اچھے اچھے پو سٹوں پر براجماں ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ اس قسم کے واقعات بار بار رونما ہو تے ہیں کہ با اختیار لو گوں کو اپنی برّیت اور جان خلاصی کا یقین ہو تا ہے۔انصاف نہیں ہو پاتا جس کی وجہ سے اس قسم کے واقعات بار بار دہرئے جا تے ہیں۔۔
یہاں پولیس کا ذکر کرتے ہو ئے میں صوبہ خیبر پختونخوا کی پولیس کو خراجِ تحسین پیش کر نا چا ہوں گا ، جس کی کار کردگی پنجاب پو لیس کی نسبت کافی بہتر ہے۔صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے اگر ایک طرف پولیس کو فری ہینڈ دیا ہے اور اسے سیاسی اثر و رسوخ سے پاک کیا ہے تو پولیس کے انسپکٹر جنرل ناصر خان درّانی نے بھی یہ ثابت کیا ہے کہ وہ پولیس کا قبلہ درست کر نے میں کا فی حد تک کامیاب ہو چکے ہیں ۔مگر ایسا بھی نہیں ہے کہ جس پر مکمل اطمینان کیا جا سکے۔صوبے کے دا رالخلافہ پشاور سے دور علاقوں میں اب بھی تھانوں میں بے انصا فی کے واقعات کافی حد تک مو جود ہیں ۔۔

حکمرانوں کو چا ہئیے کہ وہ اس قسم کے واقعات کو روکنے کے لئے مو ئثر قانون سازی کرے، غریب طبقہ کے ساتھ ہو نے والے مظالم کو راستہ روکے ، ورنہ اﷲ کے ہاں دیر ہے ، اندھیر نہیں ۔ ان بے گناہوں کا خون کسی بھی وقت رنگ لا سکتا ہے ، اتنی زیادہ بے حسّی ان کے زوال اور رسوائی کا باعث بن سکتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 285794 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More