اوبامہ بش کے نقش قدم پر

”امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق واشنگٹن میں حکام کا کہنا ہے کہ حال ہی میں پاکستان کا دورہ کرنے والے امریکی قومی سلامتی کے مشیر جنرل جیمز جونز نے صدر اوباما کا ایک خط صدر آصف علی زرداری کو پہنچایا ہے۔ خط میں اوباما نے توقع ظاہر کی ہے کہ صدر زرداری انتہا پسندی کے خلاف منظم مہم کے لئے سیاسی اور قومی سلامتی کے اداروں کو ایک ساتھ لے کر چلیں گے۔ حکام کے مطابق صدر اوباما نئی حکمت عملی اور مزید فوجی افغانستان بھیجنے کی منظوری دینے کی تیاری کررہے ہیں۔ اگر پاکستان دہشت گردوں کے خلاف جنگ کو وسعت دینے میں ناکام رہا تو اس کا منفی اثر امریکہ پر پڑے گا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نئی حکمت عملی پر ہونے والی بحث و مباحثے میں افغانستان کا زیادہ تذکرہ رہا ہے لیکن حکام کا کہنا ہے کہ اوباما انتظامیہ کی منصوبہ بندی میں پاکستان دوبارہ مرکزی حیثیت حاصل کررہا ہے۔ جنرل جیمز جونز نے پاکستانی حکام کو پیغام دیا ہے کہ امریکہ کی نئی حکمت عملی صرف اسی وقت مؤثر ثابت ہوگی جب پاکستانی حکومت اپنی کاروائی کا دائرہ شہروں اور سیکورٹی فورسز پر حملے کرنے والے دہشت گردوں سے بڑھا کران گروپوں تک وسیع کرے گی جن کے محفوظ ٹھکانے پاکستان میں ہیں اور وہ افغانستان میں امریکی فوجیوں پر حملوں کی منصوبہ بندی اور القاعدہ کے نیٹ ورکس کے ساتھ تعاون کرتے ہیں“۔

امریکی صدر بارک اوباما کے اس خط سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسے پاکستان کے معاملات سے کس قدرد لچسپی ہے۔ اندریں حالات کہ پاکستان خود خون میں نہلایا ہوا ہے۔ آئے روز”را“ ،”موساد“،”بلیک واٹر“ کی یہی سرگرمیوں سے درجنوں معصوم شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ بم دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ کا عفریت آئے دن بپھرتا جا رہا ہے۔ پشاور کے شہری تو لاشیں اٹھا اٹھا کر ہاتھ شل کیے بیٹھے ہیں، ہر پاکستانی میں احساس عدم تحفظ بڑھتا جا رہا ہے۔ امن وامان کی صورتحال گھمبیر ہو رہی ہے، چینی، آٹے اور بجلی، گیس کے بحرانوں سے قوم اعصابی تناﺅ کا شکار ہیں، افغانستان میں بیٹھے پاکستان دشمن ملک”راما“کے نام سے نئی تخریب کار خفیہ ایجنسی تشکیل دے چکے ہیں۔ پاکستان کی معیشت دگرگوں حالت سے دوچار ہے۔ یہ سب حالات تو اس بات کے متقاضی ہیں کہ پاکستان سے دوستی کا دم بھرنے والا، دیرپا اور پائیدار تعلقات کا خواہاں امریکہ پاکستان کو اس دلدل سے نکالنے میں مدد کرتا، معیشت کی بہتری کیلئے بے لوث تعاون کرتا مگر....فطرت ہو جس کی ظلم پاس وفا کرے یا فرعون اور درپہ غریبوں کے سر بہ خم، یہ ناممکن ہے۔ سانپ کا کام ہے ڈسنا، وہ موقع ملتے ہی اپنا کام کر نکلتا ہے۔ تبھی امریکہ کی خون آشام طبعیت ابھی تک سینکڑوں پاکستانیوں کے لہو چوس کر بھی سیراب نہیں ہوئی بلکہ ھل من مزید کی صدائے بازگشت دوبارہ پوری قوت سے گونجی ہے اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کو بھی اس دلدل میں براہ راست شریک کرلیا جائے۔ جہاں آٹھ سال سے امریکی و نیٹو افواج دھنستی ہی چلی جا رہی ہیں۔ اوباما کا نعرہ”تبدیلی“ محض ایک سراب تھا اس کا اصل مشن اب بھی بش ہی کی پیروی ہے اور جب تک مسلم امہ کیخلاف بپا کردہ بش کی کروسیڈی جنگ کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچائے، امریکی پالیسی سازوں میں کبھی بھی سرخرو حاکم شمار نہیں ہو سکتا۔ اس لیے وہ ہر روپ دھار کر آزما رہا ہے شاید کسی بھی روپ سے دھوکہ دیکر کام پورا ہو جائے۔

کتنی تعجب خیز بات ہے ایک طرف امریکہ افغانستان میں طالبان سے مذاکرات کیلئے بے تاب ہے۔ کبھی سعودی عرب اور کبھی سابقہ طالبان کمانڈروں کی وساطت سے اس بات کیلئے کوشاں ہے کہ طالبان سے کسی ممکنہ سطح پر باہمی امور طے کر لیے جائیں اور پھر امریکہ باعزت طریقے سے افغانستان سے واپس چلا جائے۔ برطانوی فوجی افغانستان کی جنگ سے بددل ہو چکے ہیں۔ نیٹو سربراہ دہائی دے رہے ہیں کہ افغانستان کی جنگ کسی حال میں بھی نہیں جیتی جا سکتی، خود امریکی انتظامیہ اس شکست کو واضح طور محسوس کر رہی ہے لیکن پاکستان سے رویہ بالکل الگ نوعیت کا اپنایا ہوا ہے۔ پاکستان کو اب بھی ”ڈومور“ کا آرڈر ہے۔ امریکہ کی اس دوغلی پالیسی سے ہماری حکومت کو سبق لیا چاہیے اور یہ بات ہر حال میں سمجھنی چاہیے کہ یہ جنگ ہماری نہیں، امریکہ کی ہے۔ جو امریکہ یہاں کھینچ لایا ہے اور ہمیں اس میں جھونک رہا ہے تبھی تو آٹھ سال قبل کا ”ڈو مور“کا مطالبہ اب بھی اسی جگہ قائم ہے جہاں آٹھ سال پہلے تھا۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے اگر اب بھی ہم نے اسی پالیسی کو اپنائے رکھا جو مطالبہ”ڈو مور“ پر پرویز نے اختیار کی تھی تو حالات مزید بگڑیں گے۔ اگر حالات کا سدھار مطلوب ہے تو اس مصیبت سے جان چھڑانا ہوگی۔ امریکہ کی جنگ میں کودنے اور امریکی مطالبہ”ڈو مور“ کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے بجائے اسے اس بات کا قائل کرنا ہوگا کہ امریکہ کے افغانستان سے انخلاء پر ہی حالات کا سدھار موقوف ہے۔ جب تک امریکہ یہاں قیام پذیر ہے معاملات الجھتے رہیں گے اگر اوباما بش کے نقش قدم پر چلا ہے تو پاکستان کی موجودہ حکومت کو پرویز کے نقش قدم سے گریز کرنا ہوگا ورنہ نتائج پہلے سے بدتر آئیں گے۔
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 344306 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.