ضمنی انتخابات

گیارہ اکتوبر کے حالیہ ضمنی انتخابات کے ہماری سیاست پر ہی منفی اثرات پڑے ہیں۔مسلم لیگ ن کہ جس کو سرمایہ دار جماعت کہا جاتاہے۔ان ضمنی انتخابات سے ثابت ہوا کہ پاکستان تحریک انصاف بھی اس معاملہ میں اس کی ہم پلہ ہو گئی ہے۔ذاتی طور پر راقم نے شروع دن ہی سے عمران خان سے کوئی توتعات وابستہ نہیں کیں۔تبدیلی کو وقت کی ضرورت تسلیم کرنے کے باوجود عمران خان کے تبدیلی والے نعرہ نے راقم کو متاثر نہیں کیا۔گزرنے والا ہر دن یہ ثابت کررہا کہ عمران خان کے تبدیلی کے نعرہ کا وہ مفہوم نہیں ہے کہ جس کی توقع عام پاکستانیوں نے عمران خان سے لگا رکھی تھیں۔آج عمران خان اپنا خفیہ ہتھیار علیم ؔخان ایسے شخص کو قرار دے رہا ہیں۔علیم خان کا وصف صرف اور صرف یہ سامنے آیا ہے کہ وہ روپیہ پانی کی طرح بہاتے ہیں۔عمران خان نے علیم خان کی مہم کو ذاتی طور پر چلایا اور کئی ایک جلسوں اور ریلیوں سے خطاب کیا۔جب چوہدری سرور سمیت کئی ایک اور چوٹی کے انصانی لیڈر بھی اس مہم میں بڑھ چڑھ کے شامل رہے۔11اکتوبر ہی کو جہاں لاہور میں ضمنی انتخابات کی پولنگ ہوئی وہاں پر اسی دن اوکاڑہ میں قومی اسمبلی کی نشست پر پولنگ ہورہی تھی۔اوکاڑہ سے پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر اشرف سوہنا انتخابات میں حصہ لے رہے تھے۔اشرف سوہنا ایک مڈل کلاس سیاسی کارکن ہیں جو پاکستان پیپلز پارٹی چھوڑ کے پاکستان تحریک انصاف میں آئے ہیں۔یاد رہے کہ جہان عمران خان نے اوکاڑہ کی نشست پر کوئی خاص دلچسپی نہ دکھائی وہاں تحریک انصاف کی اکثریت نے آزاد امیدار کی حمایت کی۔اشرف سوہنا نے اس بے اعتنائی پر میڈیا میں اپنی اعلی قیادت سے گلہ بھی کیا ہے۔یاد رہے کہ اوکاڑہ میں مسلم لیگ ن کی صورتحال بھی تحریک انصاف جیسی رہی جہاں ٹکٹ تو کسی اورکو ملا لیکن ن لیگی کارکنا ن نے بھی آزاد امیدوار کی حمایت کی یوں لاہور میں باہم دست و گریبان ن لیگی اور انصافی کارکن تھے تو وہاں اوکاڑہ میں کاندھے سے کاندھا ملا کر ایک ہی آزاد امیدوار کی حمایت کر رہے تھے۔

ٍ 2013کے عام انتخابات میں جہاں تحریک انصاف نے با امر مجبوری کچھ غریب اور عام کارکنوں کو ٹکٹ سے نوازا تھا وہاں عام انصافی کارکن پھولے نہ سماتے تھے کہ ہم سیاست میں عام آدمی کو بھی آگے لے کر آرہے ہیں۔لیکن حالیہ ضمنی انتخابات نے ان کا یہ بھرم بھی ختم کر دیاکیونکہ لاہور کا سرمایہ دار اوکاڑہ کے کارکن سیاستدان سے بازی لے گیا۔یوں تبدیلی بارے انصافی کارکنا ن میں مایوسی کے حوالے سے اضافہ ہوا۔

ٍ ضمنی انتخابات میں سردار ایاز صادق والی نشست جیتنے پر مسلم لیگ ن والے پھولے نہ سما رہے ہیں لیکن حالات و واقعات اس امر کے گواہ نہ ہیں۔سردار ایاز صادق کے حوالہ سے میڈیا اور بالخصوص کچھ اچھی ساکھ والے کالم نگاروں کے مطابق وہ ایک شریف آدمی ہیں۔اس لئے لاہور کی قومی اسمبلی کی نشست کی جیت کا سارا سہرا مسلم لیگ ن کی کارکردگی کو نہیں دیا جا سکتا اور نہ اس شاندار انتخابی مہم کو کہ جس کی سربراہی حمزہ شہبازشریف کر رہے تھے۔اگر سردار ایاز صادق والی نشست مسلم لیگ ن کی کارکردگی اور انتخابی مہم کا نتیجہ تسلیم کیا جائے تو پھروہاں سے مسلم لیگی ایم پی اے کے امیدوار کی ہار کس کھاتے میں جائے گی؟حلقہ پی پی147لاہور کی نشست پر مسلم لیگ کی طرف سے جو امیدوار تھے وہ محترمہ کلثوم نواز کے بھتجے تھے۔ ایم پی اے کی ہار یہ ثابت کرتی ہے کہ سردار ایاز صادق کی جیت ان کی ذاتی شرافت کی مرہون منت ہے۔مسلم لیگ ن نے اگر اپنی گورننس کو بہتر نہ کیا تو آنیوالے دنوں میں اس کی مشکلات میں اضافہ ہو گا۔

ان ضمنی انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی۔لاہور میں تمام امیدواروں سے زیادہ پڑھے لکھے اور عوامی طور پر متحرک بیریسڑ عامر حسن ایک ہزار ووٹ بھی نہ لے سکے۔جبکہ اوکاڑہ سے پیپلز پارٹی کے امیدوار چار سے کچھ زائد ووٹ ہی لے سکے ۔پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر منظور وٹو اوکاڑہ کے رہائشی ہیں۔پنجاب میں پیپلزپارٹی کی بحالی کے لئے ایک تو انتہائی اشد محنت کی ضرورت ہے جبکہ صوبائی قیادت کی تبدیلی بھی اب نا گزیر ہو چکی ہے۔کیونکہ یہ ہی پیپلزپارٹی خیبر پختونخواہ میں چترال اور دیر کے ضمنی انتخابات میں دو صوبائی نشستیں جیت چکی ہے۔ان صوبائی نشستوں کے جیتنے سے خیبر پختونخواہ میں پارٹی آخری پارٹی کے بجائے اب چوتھی بڑی پارلیمانی پارٹی بن چکی ہے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دونوں صوبوں کی صوبائی قیادت میں فرق ہے۔صوبائی قیادت کی تبدیلی اور مرکزی قیادت کا ہنگامی طور پر کارکنوں سے رابطہ ہی پیپلز پارٹی کو پنجاب میں بحال کرسکتا ہے وگرنہ پیپلزپارٹی کی پنجاب سے تباہی کو کوئی نہیں روک سکتا۔
 
Raja Qanbar
About the Author: Raja Qanbar Read More Articles by Raja Qanbar: 23 Articles with 16988 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.