قابلِ رشک یقیں

بس جوپوچھاجائے گا،اس کی تیاری کرنی ہے۔یہ سوال تونہیں ہوگا کہ سماج کوکیوں نہیں بدلاتم نے بس یہ سوال ہوگا کوشش کی تھی؟ ظالم کی گردن کیوں نہیں دبوچ لی تم نے؟بس یہ سوال ہوگا ظالم کوللکاراتھاتم نے،خاک بسربندگان خداکے حق میں نغمہ سرا ہوئے تھے تم، یا باطل کے پجاریوں کے قصیدے پڑھتے رہتے تھے۔ انسانوں کی انسان مظلوم پرخدائی کومان لیا تھایادب کے بندوں کو غلامی کے طوق سے نجات دلانے کے لئے بھی کچھ سوچا تم نے ،تم دل وجان سے مخلوق خدا کیلئے کڑھتے رہتے رہے یا ان کے حقوق کاسودا کرکے آرام سے سوتے رہے ،بھوکے،پیاسے،بے بس ولاچار اور بے آسرا مظلوموں کے ساتھ رہے یاڈنراڑاتے رہے، زبانی کلامی کرتے رہے یا جدوجہدبھی کی تھی؟؟؟؟ بس یہی۔

عشق آتش نمرود میں بے خوف وخطرکودپڑتاہے اورعقل محوتماشا لب بام ہوتی ہے،عشق عقل سے سوچتاہی نہیں دل سے سوچتاہے، ایسے دل سے جودل ہو، بس ایک لوتھڑا نہ ہو۔ دل ہوتوعشق فرعون کوللکارتاہے،عشق ہریزیدکے آگے تن کرکھڑاہوجاتاہے،عشق نتائج سے بے پرواہوتاہے،عشق سراپا ایثار وقربانی ہے۔عشق مجسم محبت ہے،عشق سراپا ایثار ہے۔ چین وآرام سکون عشق کی لغت میں نہیں ہوتے۔ اس کی اپنی دنیاہے،قافلہ عشاق سرشاری وسرمستی ہے۔ نغمہ جاں فزاہے، قصیدہ دل رباہے عشق۔

اپنے لئے کیاجینا۔ ان کے لئے جیناہے جوہمارے بنانہیں جی سکتے،مظلوموں کی آواز،خاک وبسرلوگوں کاسہارابنتی ہے،ان کے ساتھ جینااوران کے ساتھ آسودہ خاک ہونا ہے۔ نہیں اپنے لئے ہرگزنہیں جینا، سب کی خاطر جیناہے،سب کے لئے جیناہے۔ یہ عقل نہیں سکھاتی،سکھاہی نہیں سکتی۔ یہ جنوں سکھاتا ہے۔ جنوں،پاگل پن،ایثارکیش جنوں،نعرہ مستانہ ہے جنون،نہیں ہم انسانوں پرانسانی خدا کونہیں مانتے، انسانی خداؤں کے احکامات کواپنے پاؤں کی خاک سمجھتے ہیں ۔ہم رب کعبہ کے حکم کوسینے سے لگاکرپکارتے ہیں۔ہم نہیں مانتے،ظلم کے ضابطے ،پھران کیلئےطوق ودارسجائے جاتے ہیں، زنداں کے داروا ہوتے ہیں۔ دیوانے رقص کناں ہوتے ہیں۔نہیں مانتے نہیں مانیں گے،نعرے بلند ہوتے ہیں ۔ عجب لوگ ہوتے ہیں۔یہ جن کی گردنیں تن سے جدا کی جارہی ہوتی ہیں اوروہ مسکراتے ہوئے خوشی سے چیخ رہے ہوتے ہیں۔ کامیاب ہوگئے ہم۔ رب کعبہ کی قسم کامیاب ہوگئے ہم اورعقل مندسوچتے رہتے ہیں،انگشت بدنداں کہ مر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کامیاب ہوگئے ،ہاں یہ ہرایک کانصیبانہیں ہے۔ ہرکس وناکس کوسمجھ نہیں آسکتا،منتخب لوگوں کااعزاز ہے یہ۔

اس ایک دیوانے کی ''نہیں''نے منظربدل ڈالاناں،ہاں یہی ہے۔اس کے ساتھی اس کے ساتھ کھڑے رہے،وہ گمنامی میں بھی اپنے ساتھیوں کی رہنمائی کرتارہا، نام ونمودکی اس نے کبھی پرواہ ہی نہیں کی،اوربالآخروہ سرخروہوکراپنے رب کے پاس پیوندلگے کپڑوں کے ساتھ جاحاضرہواکہ جتنی زندگی ملی وہ میں نے تیرے نام کوسربلندکرنے میں گزاردی اوردنیابھرکے فرعونوں کے سامنے ہار نہیں مانی۔ اس کے ساتھیوں نے دوسال تک اس کی موت کوچھپائے رکھا کہ فرعونی طاقتوں کے خلاف جہادجاری رہے۔ان کاقصوریہ تھاکہ وہ اپنی زندگی اپنے اللہ کے بتائے ہوئے احکام کے مطابق گزارنے کاعہد کر چکے تھے ۔ انہوں نے اس قبائلی معاشرے کوچندمہینوں میں کواس قدرتبدیل کردیاکہ ایک حکم پر سارے ملک کے شہریوں سے اسلحہ بحق ریاست واپس لے لیاکہ اب شہریوں کی حفاظت کاذمہ ریاست کاہے۔زندگی کے تمام فیصلے مساجدمیں ہونے لگے ،سائل کواس کے گھرکی دہلیزپرا نصاف ملنے لگا۔برطانیہ سے ایک خاتون صحافی ''ایون رڈلے''بھیس بدل کروہاں پہنچی لیکن طالبان نے اسے حراست میں لے لیا۔

ایوان رڈلے کی چنددن کی حراست میں طالبان کے حسن سلوک نے اس کی زندگی بدل ڈالی۔وہ چیخ چیخ کران کوگالیاں دے رہی تھی لیکن طالبان کاوزیر خارجہ جوایک معمولی سے لباس میں اپنی سائیکل پراس کوملنے کیلئے پہنچا تھا ،انتہائی شائستہ انگریزی میں اس کی گالیوں کے جواب میں اس کو ''محترمہ بہن ''کہہ کرمخاطب ہورہاتھا۔ ایوان رڈلے کے بقول میرے سامنے بیٹھاہوانوجوان وزیرخارجہ انتہائی وجیہ، حسین وجمیل نظریں جھکائے اس کے سوالات کے جواب دے رہاتھاجبکہ ایوان رڈلے غیرقانونی طورپران کے ملک میں داخل ہوئی تھی۔وہ خودروکھی سوکھی روٹی کھارہے تھے لیکن ایوان رڈلے کو بہترین خوراک اورپھل مہیاکررہے تھے۔اس کے نوجوان چوکس پہریداراس کی طرف آنکھ اٹھاکربھی نہیں دیکھ رہے تھے اورایوان رڈلے سوچ رہی تھی کہ یہ کیسی مخلوق ہے۔

بالآخرچنددنوں کے بعدبغیرکسی شرائط کے تحائف کے ساتھ اس کوبحفاظت افغانستان سے پاکستان کی حدودپربرطانوی سفات کاروں کے حوالے کردیاگیا۔

اس نے برطانیہ آکراسلام کابغورمطالعہ کیاکہ اس نے افغان وزیرخارجہ سے اس کاوعدہ کیاتھا۔ایوان رڈلے آج بھی جب کبھی کسی عالمی کانفرنس یا سیمینار میں شرکت کرتی ہے توافغان وزیرخارجہ کی طرف سے دیئے گئے افغانی لباس میں ملبوس ان افغانوں کے عملی اسلام کاذکرکرتے ہوئے اس کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔اس نے برطانیہ میں برملا اس بات کااعلان کیاکہ میری شدیدخواہش ہے کہ میں اپنی جوان بیٹی کولیکرطالبان کے اس افغانستان میں رہائش اختیار کرلوں جہاں مجھے یہ فکرقطعاً!لاحق نہیں ہوگی جبکہ اس مغربی معاشرے نے مجھے خوفزدہ کررکھاہے۔

’’بھائی!تم دیکھ لیناکہ ایک دن آئے گااورضرورآئے گاجب یہ ساری فرعونی اورظالم قوتیں ان طالبان کے سامنے گھٹنے ٹیک کراپنی جاں بخشی کی درخواست کریں گے اوروہ دن بھی ضرورآئے گاجب یہ گھمنڈی سامراج بھی روس کی طرح پارہ پارہ ہو جائے گااوررب کی اس دنیاپرصرف اورصرف رب کی حکم رانی ہوگی اوراس نظام کونافذکرنے والوں کواس دنیامیں اور آخرت میں بھی سرفرازی عطاہوگی۔میرے روبروگھنٹوں اس نے اپنی ان قلبی کیفیت کواس طرح بیان کیا کہ مجھے اس کے یقین پررشک آنے لگا۔آج جب قندوزکی فتح اور بدخشاں کی طرف پیش قدمی کی خبریں اس کے یقین پر مہرتصدیق ثبت کررہا ہے۔

ایون رڈلے نے قرآن کامطالعہ کیاتواس قرآن نے نہ صرف اس کی زندگی بدل ڈالی بلکہ اس کے ایمانی یقین کوجِلا بخش دی اورادھرجنرل دوستم نے نائن الیون کے واقعے کے بعداسی قرآن کواپنےہاتھوں میں اٹھاکران طالبان سے ہتھیار پھینک دینے کی صورت میں ان سے امان کانہ صرف وعدہ کیاتھابلکہ حلف اٹھاتے ہوئے ان کے مال واسباب کی حفاظت کی ذمہ داری کاوعدہ کیاتھا لیکن جونہی طالبان نے قندوزمیں دوستم پراعتبار کیا،اس کے بعدان پرظلم وقہرکی جو آندھی ٹوٹی،تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ان کو کنٹینرز میں جانوروں کی طرح بندکرکے ایک کھلے میدان میں لیجاکربڑی بے رحمی کے ساتھ گولیوں سے بھون دیاگیا۔آج اسی قندوزپر طالبان نے دوبارہ قبضہ کرلیاجہاں دوستم کے ساتھی وارلیڈر''میرعالم خان''نے راہِ فراراختیارکرتے ہوئے قندوزطالبان کے حوالے کردیااورآج اسی قندوز سے ہزاروں نوجوانوں بخوشی طالبان کے ساتھ شمولیت اختیار کرتے ہوئے ان کے شانہ بشانہ افغانستان سے غیر ملکیوں کونکالنے میں شامل ہیں۔آخری اطلاعات کے مطابق طالبان بدخشاں اور بلخ پر اپناجھنڈالہرانے کے بعدمیمناکے پولیس اسٹیشن پرقبضہ کرلیاہے اوراب اہم صوبے فاریاب کے دارلحکومت کامحاصرہ کرلیاہے جس کے بعدافغان صدراور شمالی اتحادمیں پھوٹ پڑگئی ہے اور اشرف غنی نے اس تمام شکست کاذمہ دار دوستم اوردیگرشمالی اتحادکے کمانڈروں پرعائدکی ہے جس کے بعد شمالی اتحاد کے کمانڈروں نے اشرف غنی کے خلاف باقاعدہ سڑکوں پراحتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے اشرف غنی کوبرطرف کرنے کا مطالبہ کرناشروع کر دیاہے۔

طالبان سے دوبدوجنگ سے خوفزدہ اورد نیابھرکوانسانیت کادرس دینا والاامریکا نے قندوزسے اپنی پسپائی کابدلہ لینے کیلئے بین الاقوامی ادارے''ڈاکٹرزوِدھ آؤٹ بارڈر''ہسپتال پروحشیانہ بمباری کرتے ہوئے٨٠سے زائدافراد کوزندگی سے محروم اور١٥٠سے زائدکوشدیدزخمی کردیاجبکہ اب تک قندوزمیں امریکی بمباری سے پانچ سوسے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں جس پراقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے نے اسے انتہائی المناک،ناقابل معافی اورمجرمانہ فعل قراردیتے ہوئے شفاف اورمکمل تحقیقات کامطالبہ کیاہے۔کون کرے گاتحقیق؟ عراق اورافغانستان کوکس نے کھنڈربنادیا؟ چار ملین سے زائدبے گناہ مسلمانوں کوخاک وخون میں تڑپادیاگیا۔کشمیرمیں ایک لاکھ سے زائد نفوس محض آزادی کا مطالبہ کرنے پرمٹادیئے گئے۔ کیااقوام متحدہ میں چارمطالبے پیش کرنے کے بعد ہماری ذمہ داری ختم ہوٓگئی؟ اس کے بعداب ہمارالائحہ عمل کیاہوگا؟کوئی تواس کاایسا جواب دے جس پرہم بے نوا بھی کامل یقیں کرسکیں؟؟؟
ضرور ایک روز بدلے گا نظام قسمت آدم
بدلے گی اک نئی دنیا،سجے گا اک نیا عالم
شبستان میں نئی شمعیں،گلستاں میں نیا موسم
بس نام رہے گا اللہ کا، صرف اللہ کا
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 351473 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.