قومی اسمبلی 122کانٹے کا مقابلہ۔معرکہ کیا سبق دے گیا

آخر کار قوم اعصاب شکن صورت حال سے نکل آئی، این اے 122لاہور کا معرکہ نون لیگ نے اپنے سر کر لیا۔ کپتان کی جماعت تحریک انصاف صرف چار ہزار ووٹوں سے شکست سے دو چار ہوئی۔لاہور کے اس حلقہ میں دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان جو صورت حال پیدا ہوچکی تھی، سیاست اپنے عروج پر تھی، ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہ ضمنی الیکشن نہیں بلکہ جنرل الیکشن ہو رہے ہیں۔ صورت حال اس نہج کو پہنچ چکی تھی کہ یقین سے کچھ کہنا مشکل ہوگیا تھا کہ فتح کس کا مقدر ہوگی۔ مقابلہ برابر برابر چل رہا تھا، ایک سیر تو دوسرا سوا سیر،ایک گالی دیتا تو دوسرا اس سے بڑی گالی ۔ پتھر کا جواب اینٹ سے دیا جارہا تھا۔انتخابی مہم اس طرح چلی کہ جیسے مقابلہ ایازصادق اور علیم خان کے درمیان نہیں بلکہ یہ مقابلہ میاں نواز شریف اور عمران خان کے درمیان ہورہا ہے۔ اب جب کہ غیر حتمی نتائج سامنے آگئے ،مقابلے کو کانٹے کا مقابلہ کہا جاسکتا ہے۔ جیت تو ایک ووٹ سے بھی ہوتی ہے لیکن موجودہ صورت حال میں چندہزار کی جیت کو واضع اکثریت نہیں کہا جاسکتا۔ نون لیگ نے سرکاری مشینری کے استعمال کے ساتھ برتری ضرور حاصل کر لی ہے لیکن یہ جیت بہت سے سوال لے کر سامنے آئی ہے۔اس جیت نے پاکستانی عوام کو ایک نئی سوچ دی ہے۔ ہوا کا رخ بدلتا محسوس کیا ہے، دوسری جانب نون لیگ کے لیے بھی لمحہ فکر ساتھ لائی ہے کہ ان کا مستقبل کیا ہو گا؟ پاکستان پیپلز پارٹی جو وفاق کی علامت تھی پنچاب میں تیسرے نمبر پر پہنچ چکی ہے۔ کہی نون لیگ بھی اسی سمت تو نہیں جارہی۔

پاکستان کی انتخابی تاریخ میں کسی ضمنی انتخاب نے اس طرح پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں نہیں لیا کہ ہر جانب این اے 122کی باز گشت ہو، ریڈیو، ٹی وی کا ہر چینل اور اخبارات میں کپتان اور نون لیگ کی ایک دوسرے پر سیاسی سنگ باری کے علاوہ کچھ اور نہ ہو۔برقی میڈیا پر ہونے والے سیاسی ٹاک شو دنگل کا سما ء پیش کر رہے ہوں۔ اس ضمنی انتخاب نے کم از کم دونوں جماعتوں کے اصلی چہرے عوام کے سامنے لاکھڑے کیے کہ اگر انہیں اپنی شکست نظر آنے لگے تو یہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے کہاں تک جاسکتے ہیں۔ اس صورت حال میں ہر قسم کی اخلاقیات ، شرافت، دیانت ، لحاظ مروت ان سے کوسوں دور چلی جاتی ہے۔ انہیں صرف ٹی وی اسکرین پر آنے، مخالف کے لیے سخت سے سخت زبان استعمال کرنے ، غیر اخلاقی جملے اور الفاظ ہی یاد رہتے ہیں۔ اس مقابلے میں دونوں فریق اس قدر آگے نکل گئے کہ شرافت کی تمام حدود کو پامال کردیا۔ خراب سے خراب، گندے سے گندہ لفظ جو ممکن ہوسکتا تھا ایک دوسرے کے لیے استعمال کیا گیا۔ عمران خان کے ساتھ شیخ صاحب نے بھی جلتی پر تیلی کا کام کیا۔ البتہ اس حوالے سے دو رائے نہیں کہ اس خراب کلچر کی ابتدا پی ٹی آئی کی جانب سے کی گئی۔کسی نے کہا کہ جو زبان عمران خان اور شیخ صاحب نے استعمال کی اس کے جواب میں عابد شیر علی ہی پورے اتر تھے اور وہ پورے اترے۔ سعد رفیق بھی کسی سے پیچھے نہیں، پرویز رشید کا تو کام ہی بادشاہ سلامت پر اٹھنے والی ہر انگلی کو جڑسے کاٹ دینا ہے۔ادھر عمران خان نے جلسہ میں کچھ کہا ادھر وزیر اطلاعات نے پریس کانفرنس میں جواب شکوہ بیان کردیا۔نون لیگ نے بھی اخلاقیات کی تمام حدود پار کر لیں۔حالانکہ حکومتی جماعت کو بہت احتیاط اور محتاط رہنا چاہیے ہوتا ہے۔ شکست اور فتح آنی جانی چیزیں ہیں، انسان بھی دنیا میں نہیں رہتا اگر رہ جاتی ہے تو اس کی شرافت ، اخلاق، اس کا کردار باقی رہ جاتا ہے۔ سیاست میں ہار جیت کو اپنی انا کا مسئلہ ہر گز نہیں بنا نا چاہیے، 122میں تحریک انصاف اور نون لیگ نے ہار جیت کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا تھا۔ چنانچہ ہر ہر ہربہ، ہتھیار، طریقہ استعمال کیا گیا۔ تجزیہ نگاروں نے اسے امیروں کا الیکشن قرار دیا، کہا گیا کہ ووٹروں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے دونوں جاب سے تجوریوں کے منہ کھول دیئے گئے، موٹر سائیکلیں تقسیم کی گئیں۔ کیا دولت کا بے دریغ استعمال نواز شریف کو اور عمران خان کو نظر نہیں آیا؟ کیا یہ بات ان کے علم نہیں کے ان کے گھوڑے اپنے ساتھ دولت کے تھیلے لیے سرپرٹ دوڑ رہے ہیں۔ ایاز صادق صاحب جیت گئے اور وہ دوبارہ اسمبلی کے اسپیکر بھی بن جائیں گے تو کیا فرق پڑ جائے گا وہ تحریک انصاف کے اراکین کو اسمبلی سے نکال باہر نہیں کریں گے، اگر وہ ہار جاتے تو کیا قیامت آجاتی، علیم خان نے وزیراعظم تو بن نہیں جانا تھا۔ سیاست کو سیاست ہی رہنا چاہیے اسے دشمنی میں تبدیل نہیں ہونا چاہیے۔

کپتان نے اپنے انتخابی جلسوں اور پریس کانفرنسیز میں میاں صاحب کو ان کی جماعت کو آڑے ہاتھوں لیا ان پر جائز ونا جائز الزامات لگائے انہیں کرپٹ ترین شخص قرار دیا ، خلیجی ریاستوں سے رقم لینے کا الزام لگایا ، نندی پور پروجیکٹ کا آڈٹ ایشیائی بنک سے کرانے، کرپشن کے ذریعہ 140ارب بنانے جیسے الزامات لگائے۔عمران خان نے میاں صاحب کو جدہ چلے جانے کا تعنہ بھی دیا اور کہا کہ وہ جدہ نہیں بھاگے گے۔ جواب میں پرویز رشید نے کپتان کو غدار قرار دیا تو اس کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ غدار وہ ہے جن کا پیسہ باہر پڑا ہے، عمران خان کی جانب سے پنجاب پولس کو نون لیگ کا عسکری ونگ قرار دیا گیا۔عمران خان کے جواب میں نواز شریف تو اس شدت سے نہیں بولے البتہ ان کے وفادار وزیر اطلاعات نے عمران خان کوچور، غدار، پاکستان دشمن،دشمنوں کا آلہ کار قرار دیا انہوں نے کہا عمران خان نے یہودی اور ہندو لابی سے فنڈ لیے اورہ وہ فنڈز پارلیمنٹ پر حملے کے لیے استعمال کیے۔ حیرت ہے کے فنڈ لے کر پارلیمنٹ پر حملے کرنے کی کیا ضرورت ہے، حالانکہ پارلیمنٹ پر تو بہت پہلے بغیر فنڈ لیے ہی حملہ کیا جاچکا ہے۔ شاید اس سے بھی زیادہ شدید، رکیک اور بیہودہ ، غیر اخلاقی جملے دونوں جانب سے استعمال کیے گئے۔انور شعورنے دونوں جماعتوں کے ایک دوسرے پر الزامات کے حوالے اچھا قطعہ کہا ؂
انتخاباتی فریق ، ا لزامات
خود اگر ایک دوسرے پہ دھریں
لائق احترام ہیں دونوں
کیوں نہ دونوں پہ ہم یقین کریں

انتخابی عمل کا نتیجہ آچکا، غیر سرکاری اعلان کے مطابق کپتان کاخفیہ ہتھیار کچھ پیچھے رہ گیا جب کہ میاں صاحب کے گھوڑے نے ’خری وقت میں زور دار چھلانگ لگا کر سبقت حاصل کر لی۔ نون لیگ کے ایاز صادق نے 76204ووٹ حاصل کیے، جب کہ علیم خان نے 72043ووٹ حال کیے ، ایاز صادق کو کل 4161ووٹ کی برتری حاصل ہوئی۔ کیونکہ اصل مقابلہ قومی اسمبلی کی نشست پر تھا س وجہ سے ہر جگہ ایاز صادق کی فتح کی گونج ہے، ان کی فتح کے شادیانے بج رہے رہے ہیں حالانکہ پی پی 147میں پی ٹی آئی کے شعیب صدیقی نے 31993ووٹ لے کر میدان مار لیاان کے مقابلے میں نون لیگ کے محسن لطیف کو 28641ووٹ ملے۔ پنجاب اسمبلی میں کپتان کی جماعت کو فتح ملی لیکن اس کا کوئی چرچہ نہیں ۔ اس کی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ ایاز صادق نون لیگ کے اہم رکن تھے، اسپیکر بھی تھے، ان کا حلقہ ان چار حلقوں میں شامل تھا جن کوکھولنے کی باتیں عمران خان عرضہ دراز سے کر رہے تھے۔ اسلام آباد کے طویل دھرنے بھی اِسی کا نتیجہ تھے۔ غیر سرکاری نتیجہ سامنے آجانے کے بعد جو بات اچھی نظر آئی وہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کے چودہری سرور، جہانگیر ترین اور علیم خان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ن لیگ نے ریاستی مشینری سے ضمنی الیکشن جیتا ، تحفظات کے ساتھ نتائج کو تسلیم کرتے ہیں۔ نتائج کو تسلیم کرلینا ہی پاکستان کے لیے، پاکستانی عوام کے لیے، جمہوریت کے لیے اور حکومت کے لیے بھی نیک شگون ہے۔ نون لیگ کو اس کامیابی پر خوشیاں تو منالینی چاہیے لیکن یہ جیت جیت نہیں بلکہ خطرہ کی گھنٹی ہے اسے ہوشیار ہوجانا چاہیے، اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کر لینے چاہیے، جو غلطیاں ہوچکی سو ہوچکیں ، آئندہ سوچ سمجھ کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔کپتان کی سیاست ایک سمندر ہے جس کی لہریں ملکی سیاست میں سرائیت کرچکی ہیں، جس طرح بیڈ گورننس نے پاکستان پیپلز پارٹی کو میدان سے باہر کیا، آج ان کی جو صورت ہے کہی کل نون لیگ بھی اس کے ساتھ نہ کھڑی ہو۔ تحریک انصاف سے کچھ غلطیاں ہوئیں ، اگر علیم خان کی جگہ کوئی اور صاف ستھرا ، الزامارت سے پاک، ان کی اپنی پارٹی میں پسند کیا جانے والا امیدوار ہوتا تو ایاز صادق میدان سے باہر ہوتے۔ نہ معلوم کپتان کو علیم خان میں کیا خوبیاں نظر آئیں کہ انہوں نے سب اچھوں کو چھوڑ کر اس شخص کا انتخاب کیا اور اسے اپنا خفیہ ہتھیار بھی قرار دیا۔ افسوس یہ خفیہ ہتھایار بھی کام نہ آسکا۔ اگر ایاز صادق کو سرکاری سرپرستی حاصل نہ ہوتی، وزیراعظم صاحب کا از خود ایاز صادق کے لیے انتخابی مہم کے اختتام کے بعد الیکشن مہم میں شریک ہونا، چھوٹے میاں صاحب اور ان کی صوبائی سرکار کا انتخابی مہم میں حصہ لینا، مرکزی سرکار کے کئی وزیروں ، قومی و صوبائی اسمبلی کے اراکین کا انتخابی مہم میں کردار ادا کرنا، سعد رفیق کا ریلوے کالونی میں جاکر ورکروں کو نون لیگ کی حمایت کے لیے آمادہ کرنا، ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کرنا، جنہیں الیکشن کمیشن نے ہی بے ضابطہ قرار دے دیا، سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشادنے بھی ترقیاتی منصوبے کا اس موقع پر اعلان کرنے کو خلاف قانون قرار دیا۔ اس تمام تر برتری کے باوجود تحریک انصاف کے امیدوار کو صرف چند ہزار کی شکست کوئی شکست نہیں۔ یہ تو دراصل تحریک انصاف کی فتح ہے۔ صوبائی حلقے میں تحریک انصاف کے امیدوار کی کامیاب کو کیا نام دیا جائے گا۔ اس کی کامیابی کا کوئی ذکر ہی نہیں کررہا ، نون لیگ اگر اس حلقہ سے کامیاب ہوئی تو دو حلقوں سے اسے شکست بھی ہوئی۔ اوکاڑہ میں آزاد امیدوار ریاض الحق نے 83240ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی۔ یہاں نون لیگ کو اور تحریک انصاف کو شکست ہوئی۔اس طرح دیکھا جائے تو نون لیگ کا گراف دراصل نیچے آیا ہے۔ اسے سنجیدگی کے ساتھ نتائج پر سوچنا ہوگا۔ دونوں سیاسی جماعتوں نے اپنا پورا فوکس ایاز صادق اور علیم خان کے انتخاب پرکیا ، رہی صحیح کثر میڈیا نے پوری کردی، ضمنی الیکشن کی ہائیپ کریٹ کرنے میں برقی میڈیا نے اہم کردا ر ادا کیا۔ یہ ضمنی انتخاب ملک کی اہم سیاسی جماعتوں کو یہ سبق دے کر گیا ہے کہ اب بھی وقت ہے سیاست کو سیاست ہی رہنے دیا جائے۔ اسے امیروں کا کھیل نہ بنا یا جائے ۔ دوسرے یہ کہ خدا را اخلاقیات کی حدود کو پار نہ کریں، ای دوسرے کو غدار، پاکستان دشمن کہنے کی روش کو بدلیں۔ ہمارے ملک کی کوئی بھی سیاسی جماعت پاکستان دشمن نہیں، کوئی بھی سیاسی کارکن غدار نہیں سب محبِ وطن ہیں۔ تمام سیاسی جماعتیں پاکستان کی وفا دار ہیں، پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتی ہیں۔ انہیں پاکستان سے پیار ہے، محبت ہے یہ ہمارا ووطن ہے اس کے ایک ایک زرہ سے ہمیں محبت ہے ہم سب اسے پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے
ہیں۔ اﷲ پاکستان کو سلامت رکھے۔(12اکتوبر2015، E-mail: [email protected])


 

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1289599 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More