یوم آزادی پاکستان - ایک جایزہ

یوم آزادی پاکستان - ایک جایزہ

رونقیں بھکیر دی گئی تھیں ... سرینگر سے اسلام آباد تک جوش اور جشن کا سماں تھا ... میں الیکٹرانک میڈیا پر دیکھ رہا تھا کہ پاکستان کو دُلہن کی طرح سجایا گیا ہے ... سبز ہلالی پرچم گلی گلی کوچے کوچے لہرائے گئے ہیں ! پاکستان اور کنٹرول لائن کے اس پار کشمیر میں تقریبات کا اہتمام کیا گیا ... سڑکوں پر بھنگڑے ڈالے جارہے تھے ... ناچ اور گانوں کی محفلیں اپنے عروج پر تھیں ... علمائے کرام سے لیکر پاکستانی فلم انڈسٹری لالی ووڈ تک پورے کا پورا ملک تقریبات میں مصروف تھا ... حُریت کانفرنس کے لیڈران بھی نئے کپڑے پہنن کر نظر آرہے تھے ، لیکن میری سمجھ میں یہ نہیں آرہا تھا کہ یہ کس چیز کا جشن منایا جارہا تھا ۔ یہ گلیوں اور بازاروں کو کیوں سجایا جارہا تھا ... یہ محفلیں ، یہ مشاعرے –یہ بھنگڈے ،اس سب کا اہتمام کیوں کیا جارہا تھا ، یہ مولوی اور یہ فلم انڈسٹری والے اتنا خوش کیوں ہورہے ہیں ، یہ رونقیں ،یہ جوش ، یہ جشن ، یہ تقریبات ، یہ سبز ہلالی پرچم ،حُریت کانفرنس والوں کے یہ چمچماتے نئے کپڑے آخر کیا وجہ ہے ؟

یہ سب کچھ جشنِ آزادی پاکستان کے نام پر کیا جارہا تھا ، لیکن کس چیز کی آزادی ،کیسی آزادی ، کون سی آزادی ، کس بات کی خوشی ، کس بات کا جشن ،اور آزادی کا آخر کیا مطلب ہے ۔ انگریزوں اور ہندوؤں سے پاکستان آزاد کرنے کا جشن ، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ انگریزوں نے پاکستان کو آزاد نہیں کیا بلکہ انہونے اقتدار دیسی انگریزوں کے حوالے کیا تھا ۔ یہ یومِ آزادی نہیں بلکہ یومِ انتقالِ اقتدار ہے جس میں نوابوں ،جاگیرداروں ،وڈیروں ،ملحد اور دین بیزار اشرفیہ کو نوزائد مملکت کا چارج دیا گیا تھا اور آج بھی انگریز ان انچارج حکمرانوں سے نہ صرف رابطے میں ہیں بلکہ بنفسِ نفیس ان کو احکامات بھی صادر کر رہے ہیں ۔اچکن پہننے والے لیڈران سے لیکر بوٹ اور بندوق والے فوجیوں تک سب کے سب انگریزوں کے نمائندے ہیں بلکہ نمائندہ لفظ کا استعمال مجھے معقول نہیں لگتا کیونکہ ان کا طریقہ اپنے آقاوں کے سامنے غلامانہ ہوتا ہے ۔

چور اور لُٹیرے جنہیں جیل میں ہونا چایئے تھا وہ ایوانِ صدر اور وزیراعظم ہاؤس میں بیٹھتے ہیں ۔ چرسی بھنگی اور شرابی پارلیمنٹ ہاؤس میں بیٹھ کر قانون سازی کرتے ہیں ۔ 28 فروری 2014 کے روزنامہ نوائے وقت کی ایک رپورٹ کے مطابق پارلیمنٹ ہاؤس میں ثبوت کے ساتھ یہ دعویٰ کیا گیا کہ معزز اراکینِ پارلیمنٹ لاجز میں نا صرف شراب پیتے ہیں بلکہ نوابوں اور بادشاہوں کی طرح مجرہ بھی کرواتے ہیں ۔اس رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا تھا کہ پارلیمنٹ ہاؤس میں سالانہ پانچ کروڑ روپے سے زائد کی شراب پی جاتی ہے ۔ میرے خیال سے آزادی کے نام نہاد چہرے سے اب نقاب اُترچکا ہے جب اِردگرد کے حالات و واقعات اور نظامِ حکومت پر نظر ڈالتے ہیں تو ایسی آزادی سے گِھن آنے لگتی ہے ۔ وار آن ٹیرر کی آڑ میں روشن خیال پٹاری نئے نئے سانپ نکالنے میں مصروف ہیں ۔ پشتونوں کا قتلِ عام کیا جارہا ہے ، بلوچوں کی نسل کُشی کی جارہی ہے ، سندھیوں کے خلاف معاشی دہشت گردی کی جارہی ہے ، صرف اس سال سیکنڑوں بچے بھوک اور پیاس سے فوت ہوئے ہیں ، مدرسوں اور درسگاہوں کے خلاف نت نئے قانون نافذ کئے جارہے ہیں ، ملک میں کافرانہ نظام رائج ہے جبکہ الله کا قانون نافذ ہونے کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا ہے۔ ملک کا مالی نظام سود اور جوئے پر منحصر ہے اگرچہ لوگوں کو نماز پڑھنے، روزہ رکھنے اور زکوٰت دینے سے روکا نہیں جارہا ہے تاہم یہ عبادات تو مسلمان متحدہ ہندوستان میں بھی کیا کرتے تھے ۔ پھر ایک الگ ملک کا قیام کیونکر عمل میں لایا گیا؟ کیا یہ صرف مسلمانوں کو تقسیم کرنے کے لئے کیا گیا ۔تحریک پاکستان کی جدوجہد کے وقت تو کہا گیا تھا کہ پاکستان اِسلام کےلئے بنایا گیا اور یہاں پر اِسلامی قانون کا نفاذ عمل میں لایا جائے گا-جیسا کہ اوپر تحریر کرچکا ہوں اِنفرادی عبادات ہم متحدہ ہندوستان میں بھی کرسکتے تھے ۔اگر معاشرتی اِقدار ،معاشی نظام ،سفارتی تعلقات اور قانون سازی کافرانہ ہی کرنی تھی تو پھر اتنی خونریزی کی کیا ضرورت تھی ؟۔ پھر یہ پاکستان نامی ڈرامہ کرنے کی کیا ضرورت تھی ،میرا یہاں پر لفظِ کافرانہ استعمال کرنا شاید غیرت برگیڈ کو ناگوار گزریگا ،میں کوئی مفتی اور مولوی نہیں نا فتویٰ بازی میرا کام ہے لیکن یہ میرے نہیں بلکہ قرآن حکیم کے الفاظ ہیں –
مَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللّهُ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ. اورجوشخص اللہ کےنازل کردہ حکم کےمطابق حکومت نہ کرےسووہی لوگ کافرہیں۔(المائدۃ، 5 : 44)

اس آیت کریمہ کو ملحوظِ نظر رکھ کر نا صرف پاکستان کا نظامِ حکومت بلکہ حکمران اور ان کے تمام ادارے خطرناک حد تک متاثر ہورہے ہیں -میں سوچ رہا ہوں کہ پاکستان کا نظام ، یہ جشنِ آزادی اور اس میں شامل ہونے والے یہ کشمیری لیڈران کہاں کھڑے ہیں ؟۔

پاکستان کا کوئی بھی ادارہ کرپشن سے پاک نہیں ہے ... سابقہ فوجی حکمرانوں نے اربوں ڈالر کے اثاثے بنائے ہیں ،سِول حکمران بدعنوانی کے عالمی ریکارڈ قائم کر چکے ہیں ، کھلاڑی میچ فکسنگ میں کوئی ثانی نہیں رکھتے ، صحافی مارنِنگ شوز کے نام پر الیکٹرانک میڈیا سے فحاشی کے اڈے چلا رہے ہیں ، مسلک کے نام پر لوگوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جارہا ہے ، گیس اور بجلی ناپید ہے ، غریب غریب تر ہوتا جارہا ہے ، امریکی ڈرون گِدوں کی طرح پاکستانی فضاؤں میں منڈلا رہے ہیں ، بجٹ کا بیشتر حصہ ڈکارنے والی فوج خاموش تماشائی بن کر ڈرون کا شکار ہونے والے پشتونوں کی بےبسی کا تماشہ دیکھ رہی ہے ، طالبان کا مقدس نام استعمال کرنے والے ظالمان،جو معصوم اسکولی بچوں تک کا شکار کرنے میں دریغ نہیں کر رہے ہیں، کا خونی رقص کراچی سے لیکر خیبر تک جاری ہے اور جنسی درندے بھیڑیوں کی طرح گلیوں کوچوں میں گھوم رہے ہیں ۔
صوبہ پنجاب کے قصور شہر میں جنسی درندگی کا شرمناک واقعہ،جس میں سینگڑوں بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، ابھی کچھ دن قبل ہی منکشف ہو گیا ۔یہاں معصوم بچوں کو شرمناک صورتحال کا شکار کرکے اسکی وڈیو ریکارڈنگ کی جاتی رہی اور والدین کو بلیک میل کرکے ان سے کروڑوں روپئے وصول کئے جاتے رہے ہیں۔ اس سے زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ اس گھناونے فعل میں بھی انگریز حکمرانوں کے دیسی جانشین ہی ملوث نکلے ہیں۔

پاکستان کی سیاسی ، عسکری ،اقتصادی اشرافیہ اپنے مفادات کو قومی مفاد کا نام دیکر معاشی دہشتگردی کا ارتکاب کر رہی ہے ۔ گھریلو ملازم پانچ روپئے کا گلاس توڑے تو اس کو سزا دی جاتی ہے لیکن دو مرتبہ آئینِ پاکستان توڑنے والا امریکی پھٹو، جنرل مشرف ، ابھی بھی صدارتی پروٹاکول حاصل کر رہا ہے ۔ آزادی نامی اس ڈرامے کی ہزار داستان بہت لمبی ہے ، دکھ سے بھری اور درد سے لبریز کہاں تک لکھوں گا ،اور کہاں تک پڑھو گے ۔ سچ اور حقایق تلخ ہوتے ہیں اگر اس تلخی کا سامنا کرکے ادارک کیا جائے تو بہتر ہے ۔

اسلامی نظام ہی پاکستان کے تمام مسائل کا حل ہے جہاں مشرف جیسے سرکش جرنیل کی لگام کس کے ہوتی ، جہاں آصف زرداری جیسا صدر کرپشن کرنے کا خواب میں نہیں سوچتا ، جہاں مولانا فضل الرحمن جیسے علمائے سو دین کا حلیہ نہیں بگاڑ سکتے اور اسی وقت جشنِ آزادی منانا زیب دیتا اور حقیقت میں پاکستان آزاد ہوتا ...!

جب میں یہ کالم لکھ رہا تھا NDTV پر یہ نیوز بریک ہورہی تھی کہ دارالعلوم دیوبند نےایک فتویٰ جاری کیا ہے جسمیں مسلمانوں سےکہاگیا ہے کہ وہ ہندوستان کے یومِ آزادی کے موقعہ پر قومی پرچم اپنےگھروں،کارخانوں اوردوسرےمقامات پربھرپورحُب الوطنی کےساتھ لہرائیں۔ انشاللہ میں اپنے اگلے کالم ”آزادی ہند ... ایک سراب‘‘ کا انتظار کیجئے گا جس میں ،میں مولٰنا صاحب اور دارالعلوم دیوبند کے اس کنیزانہ فلسفے (جسکو میں قطعی فتویٰ کا مقدس نام نہیں دونگا کا پوسٹ مارٹم کرونگا )۔
 

Dr.Showkat Ul Islam
About the Author: Dr.Showkat Ul Islam Read More Articles by Dr.Showkat Ul Islam : 9 Articles with 8165 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.