رینگنے والا کیڑا۔۔اور کروڑوں ڈالرز کرپشن؟

 کیڑے ہزار طرح کے ہوتے ہیں جن میں اکثر رینگنے والے ،ایسا ہی کیڑا پاکستان میں کسی کے دماغ میں رینگا اس کے ذہین میں یہ خیال کوندا کہ کیوں نہ لندن شہر کے عین قلب میں واقع پاکستان کے ’’سفارت خانے‘‘ کی عمارت کو فروخت کر کے لاکھوں ڈالرز ’’کھرے‘‘ کر لئے جائیں ،یہ عمارت لندن شہر کی ایسی قیمتی زمین پر قائم ہے کہ فروخت کے لئے بازار میں آ جائے تو ہزاروں خریدار اس پر ٹوٹ پڑیں اور منہ مانگے دام حوالے کر دیں گے ،دماغ کے کیڑے نے یہ بھی سمجھایا کہ شہر کے کسی سستے علاقے میں کوئی دوسری عمارت لے لی جائے ،باقی بچنے والی دولت سے قومی خزانے کو لبالب بھر دیا جائے،یہ خبر پاکستان کے معتبر ذرائع نے بریک کی ،سوال یہ ہے کہ لندن میں پاکستانی املاک بیچنے کا یہ نجس کیڑا کس شخص کے دماغ میں رینگا۔۔۔۔۔؟باخبر ذرائع شاید نام بتانے سے انکاری ہیں ۔۔۔مگر اس حد تک اطلاعات ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔۔ہر معاملے کی پوری فائل تیار کر کے وزیراعظم کی میز پر رکھ دی ہے ۔۔۔۔اور اب بس دست مبارک کے دستخط کی دیری ہے۔۔۔۔۔۔۔؟ ہم کیسے بد نصیب لوگ ہیں۔۔۔؟وہ جو کہتے ہیں اور ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ پاکستان غریب ملک اور پاکستانی مال دار ہیں،اور دوسری طرف ہم لندن میں اپنے قومی اثاثے بیچ رہے ہیں اور دوسری طرف ہمارے صاحبان ثروت اسی لندن میں ایک سے بڑھکر ایک قیمتی عمارتیں خرید رہے ہیں ،عجب نہیں کہ اگر خدانخواستہ ہمارے سفارت خانے کی عمارت فروخت ہوئی تو بعد میں انکشاف ہو کہ اس کا خریدار اندر سے ’’پاکستانی‘‘نکلا،تو یہ طے ہے کہ چال بازوں کا کوئی ہم سے بڑا استاد نہیں۔۔۔۔؟ وہ جو بڑے کہہ گئے ہیں کیا خوب کہہ گئے ہیں کہ ’’کیا خوب سودا نقد ہے اس ہاتھ لے اس ہاتھ دے‘‘جس خباری نامہ نگار کی یہ خبر ہے اس کی خدمت میں عرض ہے کہ لندن میں پاکستانی املاک کی یہ دکان کوئی پہلی بار نہیں کھلی ۔۔۔۔۔۔جہاں اس سفارت خانے کے پاس عمارت کا ایک بلاک ہے یہاں ہمارے ملک کو کم از کم’’ چار بلاک‘‘ عطاء کئے گئے تھے ،۔۔۔۔۔ہندوستان جب تقسیم ہوا تو بھارت کو لندن میں عین سط میں انڈیا ہاؤس جیسی عظیم الشان عمارت دی گئی پاکستان کو دینے کے لئے اس جیسی عمارت موجود نہ تھی اس لئے اسے شہر کے قلب اور گراں علاقے میں دفتری عمارتوں کے چار بلاک نہایت فیشن ایبل ایریا میں اور اس کے درمیان والی زمین کا ایک ٹکڑا دیا گیا کہ پاکستان جیسے چاہے استعمال کرے،جہاں سے چند قدم کے فاصلے پر ایک لمبی چوڑی رہائشی عمارت بھی دی گئی ۔۔۔۔۔شاہد کسی نے اخبار والے کو بتایا نہیں کہ سفارت خانے کی عمارت کے ان چاروں بلاکس میں سے دو یا تین پہلے ہی فروخت کئے جا چکے ہیں ۔۔۔۔۔۔اور پتہ نہیں اس کے دام کس نے اور کب کھرے کئے۔۔۔

اور وہ پیسہ کہیں قومی خزانے میں جمع ہوا کہ کہیں اور جمع ہوا۔۔۔؟ایک اور انکشاف کہ لندن میں ایک پاکستانی ہاؤس بھی تھا ۔۔۔ایک زمانہ میں کسی پاکستانی کو خواہش ہوتی تھی تو وہ پاکستان ہاؤس میں چلا جاتا اس کو وہاں اپنے گھر جیسا ماحول ملتا ۔۔۔اور پاکستانی کھانا وافر ملتا۔۔۔۔۔اب پتہ نہیں’’ پاکستان ہاؤس‘‘ کو لذیز کھانا سمجھ کر زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا۔۔۔۔؟ یہ داستان کرپشن کی عجب کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی ،پھر پروانہ سفارت کاری لے کر ایک اور سفیر صاحب برطانیہ میں ’’وارد‘‘ ہوئے ۔۔۔وہ بھی ایک ’’عجوبہ‘‘تھے انہیں لندن کے ریجنٹ پارک کے سامنے نہایت شاندار شاہی طرز کی عمارت میں اتارا گیا جس میں ہمارے سفیر کا قیام ہوا کرتا ہے ،یہ بھی شہر کا نہایت ہی مہنگا علاقہ تھا جس میں ذرا بلندی پر کسی نے بہت ہی نفیس عمارت بنائی تھی جس میں پاکستانی سفیر شان سے رہا کرتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔اور یہ جگہ سفارت خانے سے اتنی قریب تھی کہ کبھی ٹریفک زیادہ ہو تو سفیر صاحب ٹہلتے ہوئے چلے جایا کرتے تھے ۔۔۔۔۔۔پھر وہی ہوا’’کمبخت رینگنے والا کیڑا‘‘ ان سفیر صاحب کے دماغ میں سرائیت کر گیا اور اس کے ذہین میں ’’ملین ڈالرز‘‘ کا خیال کوندا کہ اس رہائشی عمارت کو بیچ کر اچھی خاصی ’’رقم ‘‘کھری کر لی جائے اور شہر سے باہر کوئی اور شاندار سستی عمارت خرید لی جائے ۔۔۔۔سودا طے ہو گیا ۔۔۔۔سفیر صاحب مال دار ہو گئے۔۔۔اور اب سفیر کی کار سڑکوں پر دھکے کھاتی ہوئی سوا گھنٹہ لگا کر دفتر پہنچتی ہے۔۔۔۔۔اتنی مسافت میں اچھا بھلا آدمی بھی ادموا ہو جاتا ہے ۔۔۔۔یقین ہے کہ’’ عزت ماب ابن عباس صاحب‘‘ کو قدرت نے اس نام کی مناسبت سے ’’صبر کی دولت‘‘ضرور عطاء کی ہو گی۔۔۔۔۔اور اب ایک ایسی عمارت کی بات جس کی مشال اس غنچے کی ہے کہ جس کے مقدر میں کھلنا لکھنا ہی نہ تھا ،البتہ جن لوگوں نے ویسی ہی عمارت کی پیشکش جھٹ قبول کر لی وہ مزے میں ہیں،تقسیم ہند کے بعد لندن میں سفارتی عمارتیں عطاء ہو رہی تھیں تو بھارت اور پاکستان کو اپنے اپنے ثقافتی مرکز کھولنے کی پیشکش کی گئی ،اور بھارت کو تو اﷲ موقع دے اس نے فورا ہاں کر دی اور لندن کے بیچوں بیچ ہائیڈ پارک سے ذرا پرے نہرو سنٹر کے نام سے اپنا ثقافتی مرکز کھول لیا جہاں ہر شام میلہ لگا رہتا ہے،مرزا غالب سے لے کر میرا بائی تک سینکڑوں بحث و مباحثے ،جلسے اور جلوس ہوتے ہیں ۔جس وقت بھارت سرکار کو یہ عمارت دی گئی ویسی ہی پاکستان کو بھی آفر تھی مگر پاکستان نے یہ کہہ کر ٹھکرا دی کہ وسائل نہیں ہیں۔۔۔۔سوچتا ہوں یہ قیمتی اثاثہ اچھا ہی ہوا جو نہیں ملا ۔۔۔ورنہ اب تک اس کی بولی لگ رہی ہوتی۔۔۔۔۔کیا نیب یا ایف آئی اے یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ان مگرمچھوں پر ہاتھ ڈالے گا جو کروڑوں ڈالرز کے قومی اثاثے فروخت کرنے میں ملوث ہیں۔۔؟
Dr M Abdullah Tabasum
About the Author: Dr M Abdullah Tabasum Read More Articles by Dr M Abdullah Tabasum: 63 Articles with 43899 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.