پاکستان آئین کی تاریخ

پاکستان میں پہلا آئین 1956 اور دوسرا 1962 میں نافذ کیا گیا۔ لیکن پہلا آئین اڑھائی سال بعد ہی صدر سکندر مرزا نے اور دوسرے کو ایوب کے جانشین یحییٰ خان نے 1969 میں منسوخ کر دیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پاکستان کا پہلا متفقہ آئین 1973ء میں نافذ العمل ہوا۔ مگر اس آئین کے ساتھ بھی پہلے آئینوں کی طرح چھیڑ چھاڑ کی جاتی رہی اور حکمران کچھ قومی مفاد اور کچھ اپنے مفادات کے لئے اس میں ترامیم کرتے رہے۔ اب تک 14 ترامیم کی جا چکی ہیں۔ 3 ترامیم اس کے علاوہ ہیں جو یا تو واپس لے لی گئیں یا پھر مکمل نہ ہو سکیں، ان 17ترامیم کی تفصیل کچھ اسطرح سے ہے

ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں سات آئینی ترامیم کی گئیں، ضیاء الحق کے دور میں تین، نواز شریف کے دور میں پانچ اور پرویز مشرف کے دور میں ایک آئینی ترمیم ہوئی۔ سب سے پہلی ترمیم 8 مئی 1974 کو اور اب تک کی سب سے آخری یعنی سترھویں ترمیم 21اگست2002 کو کی گئی۔ ہرچند کہ ان میں سب سے متنازعہ آٹھویں، چودھویں اور سترھویں ترامیم ہیں، تاہم ان کے علاوہ بھی کچھ تاریخی اہمیت کی حامل ہیں، جن کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے۔

پاکستان کے آئین کی دوسری ترمیم کے ذریعے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا۔ یہ تاریخی ترمیم ستمبر 1974 میں کی گئی تھی۔

آئین کی چھٹی ترمیم میں پاکستان کی عدالت عظمیٰ کے منصف اعظم کے حوالے سے یہ نکات داخل کیے گئے کہ 65 سال کی عمر میں ریٹائر جبکہ صوبائی عدالت عالیہ کے منصف اعظم کو 62 سال کی عمر میں لازماً ریٹائر ہو جانا چاہیے۔ پاکستان کی قومی اسمبلی میں یہ ترامیم 22 دسمبر 1976ء کو منظور کی گئیں۔

ملکی آئین کی پہلی سب سے متنازعہ آٹھویں ترمیم نومبر 1985ءمیں نافذ العمل ہوئی۔ اس ترمیم کے ذریعے ضیاء الحق نے پارلیمانی طرز حکومت کو صدارتی نظام میں بدل دیا۔ صدر پاکستان کو کئی اضافی اختیارات اور آئینی طاقت میسر آ گئی۔ آئین پاکستان کے ذیلی حصہ 2 (بی) کے آرٹیکل 58 میں شامل ہونے سے صدر کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار مل گیا تاہم وہ سینٹ کو تحلیل کرنے کا اختیار نہیں رکھتا تھا، گویا اس ترمیم کی رو سے صدر پاکستان وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کو کوئی بھی الزام لگا کر فارغ کر سکتے تھے۔ اب تک58 ٹو بی کی تلوار چار مرتبہ چلائی جا چکی ہے۔ سب سے پہلے اس کے خالق ضیاءالحق نے 1988 میں جونیجو حکومت پر وار کیا، اس کے بعد 1990ء کی دہائی میں اس کا استعمال تین بار کیا گیا۔ صدر غلام اسحق خان نے 6 اگست 1990ء کو بے نظیر بھٹو کی حکومت اور 1993ء میں نواز شریف کی حکومت ختم کی جبکہ صدر فاروق احمد لغاری نے نومبر 1996ء میں بے نظیر کی دوسری حکومت کو ختم کیا۔

ایک اہم ترمیم 1991 میں کی گئی جس کے تحت انسداد دہشت گردی کی عدالتیں وجود میں آئیں۔ اسی قانون کو بعد میں آنے والی حکومتوں نے مزید ترامیم کر کے ملک میں نافذ کیا اور دہشت گردی کو روکنے کے لیے استعمال کیا۔

پاکستان میں ادارہ جاتی احتساب پہلے ہی نہ ہونے کے برابر تھا کہ آئین میں کی جانے والی تیرہویں اور چودہویں ترمیم کے ذریعے حکومتی احتساب کی ساری راہیں بھی مسدود کر دی گئیں۔1997ء میں آئین پاکستان میں تیرہویں ترمیم کی گئی جس کی رو سے صدر پاکستان سے وہ اختیارات واپس لے لیے گئے جس کے تحت وہ اسمبلی کو تحلیل کر سکتے تھے۔ اس طرح صدارتی کیمپ بظاہر ربڑ سٹمپ بن کر رہ گیا۔ چودھویں ترمیم کے ذریعے وزیر اعظم پاکستان کو اتنا مضبوط کر دیا گیا کہ کسی صورت بھی وزیر اعظم یا ان کی انتظامیہ اور کابینہ کا احتساب دوران حکومت ممکن نہ رہا تھا۔

آئین میں متنازعہ سترہویں ترمیم کی منظوری پارلیمنٹ نے سن دو ہزار تین میں دی تھی۔ پرویز مشرف نے ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب میں یہ وعدہ کیا تھا تاہم وہ بعد میں اس وعدے سے منحرف ہوگئے۔ آئین میں متنازعہ سترہویں ترمیم کے تحت صدر کو غیر معمولی اختیارات حاصل ہوگئے۔ اس ترمیم کی سکیشن اٹھاون ٹو بی کے تحت صدر کو پارلیمنٹ توڑنے کا اختیار حاصل ہوگیا۔ آرٹیکل دو سو ستر ڈبل اے کے تحت اکتوبر انیس سوننانوے سے لے کر سن دو ہزار تین تک کے تمام صدارتی اور چیف ایگزیکٹو کے اقدامات کو قانونی قرار دے دیا گیا۔ سترہویں ترمیم میں ایک شق کے تحت دو بار سے زائد وزیر اعظم بننے پر بھی پابندی عائد کی گئی ججز کی عمر کی حد مقرر کی گئی۔ اس متنازعہ ترمیم کے تحت بالخصوص صدر پرویز مشرف کے اکتوبر انیس سو ننانوے کے اقدامات کو آئینی تحفظ دیا گیا۔

قارئین اب 18 ویں ترمیم قومی اسمبلی میں پیش کی جا چکی ہے۔ ان آئینی اصلاحات کو تیار کرنے والی کمیٹی نے 9 ماہ کی طویل جدوجہد اور صلاح مشورے کے بعد اتفاق کر کے دستخط کئے۔ اس ترمیم کے نفاذ سے اپوزیشن کا وہ دیرینہ مطالبہ پورا ہو جائے گا جو وہ گزشتہ دو برسوں سے کر رہی ہے۔ اس ترمیم کی شقیں95ہیں، جن میں سے سات کی تفصیل اس طرح سے ہے۔

(1) مسودہ میں صدر کو آئین کے آرٹیکل 58ٹو بی کے تحت حاصل اسمبلی توڑنے کا اختیار ختم ہو جائے گا۔
(2)صوبہ سرحد کا نیا نام خیبر پختونخواہ ہوگا۔
(3)اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرری کا صدارتی اختیار پارلیمانی کمیٹی کرے گی۔
(4)فوجداری مقدمات، اعلیٰ عدلیہ، بین الا قوامی معاہدوں، ثالثی اور نارکوٹکس کو کنکرنٹ لسٹ سے نکال کر فیڈرل لیجس لیٹو(legislative )کے پارٹ ٹو میں شامل کیا جائے گا۔
(5)چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی قائد حزب اختلاف ارکان کے مشورہ سے مشروط ہوگی۔
(6)صدر کو فوجداری مقدمات میں حاصل استثنیٰ برقرار رہے گا اور مجرموں کی سزائیں ختم کرنے کا اختیار بھی صدر کے پاس ہی رہے گا۔
(7)گورنر کو حاصل کئی اہم اختیارات وزیر اعلیٰ کو مل جائیں گے اور گورنر وزیر اعلیٰ کے مشورے پر عمل کا پابند ہوگا۔

کوئی کچھ بھی سمجھے اور کہے آئینی ترامیم کے اسباب زیادہ تر اختیارات کی جنگ ہے جو گورنر جنرل غلام محمد کے دور میں شروع ہوئی تھی اور آج بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ جس طرح 8 ویں اور 17 ویں ترامیم میں صدر کو پارلیمنٹ پر بالادستی حاصل ہوگئی، اسی طرح 13 اور 14 ویں ترمیم سے وزیراعظم کو عملی طور پر پارلیمنٹ پر بالادستی مل جاتی ہے۔ اب 18 ویں ترمیم کے ذریعے صدر کے بجائے پارلیمنٹ کو مضبوط اور زیادہ خود مختار بنایا جا رہا ہے، لیکن آئین کے اس کھیل میں عام آدمی کہاں کھڑا نظر آتا ہے؟ چند روز پہلے مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے کہا تھا کہ اگر سترہویں ترمیم کا فیصلہ بر وقت ہو چکا ہوتا تو عوام کے مسائل پر بھرپور توجہ دی جاسکتی تھی، اور اگر پنجاب حکومت کو توڑنے کے بجائے حکومت لوڈ شیڈنگ ختم کرنے پر توجہ رکھتی تو آج پچاس فی صد لوڈ شیڈنگ ختم ہو چکی ہوتی۔ چلو دیر سے ہی سہی اب 18 ویں ترمیم کی منظوری ہونے والی ہے تو سوال اٹھتا ہے کہ اس سے عوام کے کتنے مسائل حل ہوں گے؟ کیا اس کے بعد خود کش اور ڈرون حملے ختم ہو جائیں گے، حکومت گیس، بجلی اور پٹرول بم گرانا چھوڑ دے گی، ہم عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لینا بند کر دیں گے، ہماری معیشت بہتر ہو جائے گی، ہمارے حکمران اپنی عیاشیوں پر ہونے والے اخراجات کم کر دیں گے، ملک کے ہر شعبے اور طبقے کو تباہ کرنے والی لوڈ شیڈنگ ختم ہو جائے گی، بھارت ہمارے دریاؤں کا پانی چھوڑ دے گا، دہشت گردی کے خلاف جنگ بند ہو جائے گی، بے روز گاری کا خاتمہ ہو جائے گا، ملک میں امن و امان بحال ہو جائے گا، بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ہو جائے گا، سیاسی رسہ کشی مکمل طور پر ختم ہو جائے گی، بڑے بڑے سیاستدان بیرونی ممالک سے اپنے اربوں ڈالر واپس لے آئیں گے اور عوام کو تمام ضروریات زندگی سستے داموں مل پائیں گی۔ اگر یہ ممکن نہیں تو پھر ہم 18 ویں ترمیم پر کس بات کی خوشیاں منائیں؟
Abid Hussain burewala
About the Author: Abid Hussain burewala Read More Articles by Abid Hussain burewala: 64 Articles with 85077 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.