ضرورت اسلام

آ ج کی دنیا کو ہم ’’تیسر ی دنیا ‘‘ کے نا م سے جا نتے ہیں ۔ اس دنیا کو بنے ہو ئے صد یا ں گزر چکی ہیں ۔ اور وقت کیساتھ سا تھ ا س میں تبد یلیا ں آ تی رہی ہیں ۔ یہ تبدیلیا ں ، معا شی ، معا شرتی ، مذ ہبی ، ریا ستی یعنی ہر لحا ظ سے آ ئی ہیں ۔ اس دنیا نے کئی انقلا ب دیکھے ۔ اس میں بڑے بڑے ظا لم آ ئے جو اپنے مظا لم کی ایسی ایسی دا ستا نیں رقم کر گئے کہ جس کی مثا ل نہیں ملتی اور یہ دا ستا نیں پڑ ھنے پر آ ج بھی روح کا نپ اُ ٹھتی ہے ۔ انصا ف پسند حکمر ان بھی آ ئے کہ جن کی ا نصاف کی داستا نیں تا ریخ میں سنہر ی حروف سے لکھی گئی ہیں ۔ اور رہتی دنیا تک ان کے فیصلو ں کو یا د رکھا جا ئیگا ۔ اس وقت دنیا کی تقسیم کئی طریقوں اور ذریعوں سے ہو چکی ہے یہ تقسیم ، کبھی مذ ہب کی بنیا د پر ہو رہی تھی تو اب قو میت کی بنیا د پر ہو رہی ہے ۔ اس وسیع و عریض دنیا میں کئی اقوا م علیحد ہ علیحدہ شنا خت کیسا تھ آ با د ہیں اور ہر ایک کے علیحد ہ علیحدہ مفا دات ہیں کہ جن پر وہ کا م کر رہے ہیں ۔ ان الگ الگ ریا ستو ں میں اب بھی کہیں کہیں مذ ہبی یگا نگت پا ئی جا تی ہے ۔ تا ہم قو میت کے جذ بے نے مذ ہبی رنگ کو پھیکا کر دیا ہے اور کئی ریا ستوں میں قو میت نے مذ اہب کی شکل میں ہی تبدیلی پیدا کر دی ہے دنیا میں ایک عجیب سی ہلچل مچی ہو ئی ہے اور قومیت کے جذ بے نے انسا نیت اور خو د انسا ن کو نا قا بل تلا فی نقصا ن پہنچا یا ہے قو میت کے فو ائد و نقصا نا ت پر مزید با ت کر نے سے پہلے ہم ایک مختصر اور سر سر ی سا جا ئزہ لیتے ہیں کہ اسلا م میں قومیت کی کیا اہمیت رہی ہے مسلما نو ں کی حکو مت پو ری دنیا میں اس وقت تک کا میا ب رہی جب تک یہ ایک خلیفہ کے ما تحت حکو مت کر تے رہے ۔خلیفہ پوری اسلا می سلطنت کا حکمر ان ہو تا اور صو بو ں کیلئے گو رنرز مقرر کر تا اور پو رے نظا م کے سیا ہ سفید کا ما لک ہو تا ۔ اس طر ح کئی فو ائد حا صل ہو تے اور اشیا ء خو ردونو ش سمیت تما م اشیا ء کی قیمتو ں میں نہ صرف توا زن رہتا بلکہ قلت اشیا ء بھی نہ ہوتی اور قحط کی سی صو رتحا ل میں با آ سا نی قابو پا یا جا سکتا تھا ۔اور کسی کی محتا جی بھی نہیں ہو تی تھی ۔ اگر اسلا م نے صحیح معنو ں میں تر قی کی تو اسی دور میں کی ۔ ہلا کو خا ن نے جب اس عظیم اسلا می سلطنت کا خا تمہ کیا تو اس کے بعد سے لیکر اب تک مسلما ن دنیا میں کہیں نہ کہیں ظلم و ستم و مشکلا ت کا شکا ر رہے ہیں ۔ آ ج بھی فلسطین اور کشمیر کی صو رتحا ل سے ہر شخص بخو بی واقف ہے ۔ یہ مسا ئل اتنے سا ل گزرنے کے با وجو د حل نہیں ہو ئے اور اس کی بنیا دی وجہ ’’قو میت ‘‘ یعنی ’’ریا ستی قو میت ‘‘ ہے ۔ کو ئی بھی اسلا می ملک کسی دوسرے اسلا می ملک کے مسئلے میں اسکا سا تھ نہیں دیتا ۔ بلکہ اپنی خا رجہ پا لیسی اور بین الاقوا می دنیا میں اپنے مفا دات کو مد نظر رکھ کر قد م اُ ٹھاتا ہے ۔ یعنی مشکل پیش آ نے کی صو رت میں صر ف بیا ن با زی کی حد تک سپو رٹ کرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلما ن آ ج تک مسا ئل و مشکلا ت کا مسلسل شکا ر ہیں ۔ ہم پر ائمر ی کلا س کے بچوں کو تو ہر کلا س میں یہ تعلیم دیتے ہیں کہ ’’اتفا ق میں بر کت ہے ‘‘مگر تما م اسلا می مما لک کے سر برا ہا ن اس سے نا واقف ہیں ۔ تو سب سے پہلے ضرورت اس امر کی ہے کہ سر برا ہا ن مملکت کو یہ سبق پڑھا یا جا ئے ۔ کسی بھی اسلا می ملک کے مسئلے میں دیگر اسلا می مما لک محض بیا ن دیکر سمجھتے ہیں کہ انہو ں نے اپنی ذمہ داری پو ری کر لی ہے۔ تا ہم عملی میدان میں اسلا م دشمن عنا صر کیخلا ف نبر د آ زما ہو نے کو کو ئی بھی تیا ر نہیں ۔


پا کستا ن کو انڈ یا کی دھمکیا ں ، ایر ان کو اسر ائیل کیطر ف سے جنگ کے الٹی میٹم ، سعو دی عر ب اور مصر کا بزدلا نہ روّیہ اس با ت کی واضح عکا سی کر تا ہے کہ کسی بھی طر ح اسلا می مما لک میں اتحا د و اتفا ق نہیں ہے ۔ اگر ہو تا تو صو رتحا ل نہا یت ہی مختلف ہو تی ۔

کچھ دیر کیلئے فرض کر لیتے ہیں کہ اس وقت بھی ایک اسلا می ریا ست ، ایک جھنڈے تلے ،ایک خلیفہ کی سر برا ہی میں کا م کر رہی ہے اور خلیفہ وقت کو گو رنر فلسطین اسرا ئیل کی ہٹ دھر می اور نا انصا فیو ں کی داستا ن سنا تا ہے اور مدد کی درخواست کر تاہے تو کیا خلیفہ وقت ریا ست کے اس صو بے کی مدد نہ کر تا ۔۔۔۔؟ کیا اُنہیں بے یا رومدد گا ر چھوڑتا ۔۔۔؟ کیا دشمن اپنے ناپا ک عز ائم میں کا میا ب ہو تا ۔۔۔؟ کیا دوسر ے اسلا می صو بے خلیفہ وقت کے حکم پر گو رنر فلسطین کی عملی مدد نہ کر تے ۔۔۔؟ (اس با ت کو کچھ دیر غو ر سے سو چیں اور فو ائد و نقصا نا ت کا خو د جا ئز ہ لیں ) بقو ل ڈا کٹر علا مہ اقبال صا حب ۔
اِ ن تا زہ خد اوٗں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیر ہن ہے اسکا وہ مذ ہب کا کفن ہے

ہم ایک متحد ہ اسلا می ریا ست سے ٹکڑ ے ٹکڑے ہو کر کئی چھو ٹی چھو ٹی ریاستو ں میں تبد یل ہو گئے ہیں ۔ اور ان ریاستو ں میں مذ ہبی قوانین اور اُصو لو ں کا مذاق اُڑا یا جا رہا ہے ۔ پاکستا ن جو خا لصتا ً بنا ہی مذ ہب کی بنیا د پرہے مذ ہبی قوا نین و اُصو ل صرف کتا بو ں میں ہی نظر آ تے ہیں ۔ ایک بین الاقوامی ادارے کے تا زہ تر ین سر وے کے مطا بق یہ اسلا می ملک کر پشن میں دنیا میں دسویں نمبر پر آ گیا ہے ۔ اعلیٰ طبقے کے لو گ جن میں بالخصو ص اعلیٰ سر کا ری افسران ، سیا سی رہنما ، سر ما یہ دار لو گ فر عون کی شکل اختیا ر کر چکے ہیں ۔ جنگل کا قا نون ہے کہ ہر بڑ ا اور طا قتو ر جا نور چھو ٹے جا نو روں کو ہڑ پ کر جا تے ہیں با لکل یہی کچھ اس ملک میں ہو رہا ہے ۔ غر یب غر یب سے غریب تر ہو چکا ہے ۔ متو سط طبقہ اپنی سفید پو شی تک کو قا ئم نہیں رکھ پا رہا ۔ اور جا گیر دار اور امیر طبقہ مزید امیر ہو رہا ہے ۔ پورے ملک میں بے بر کتی ہو گئی ہے ۔ نہ انا ج میں بر کت رہی ہے ، نہ روپے پیسے میں بر کت رہی ہے ۔ اخلا ق ، خلو ص ،پیا ر ، محبت اب ختم ہو کر رہ گیا ہے ۔ کس کس کے نا م سے روئیں ۔۔۔ با ہر نظر ڈا لیں تو کفا ر کی سا زشیں اور اسلا م دشمن عنا صر کی سر گر میا ں عروج پر ہیں ۔ اند رونی طر ف دیکھتے ہیں تو حا لت اُ س سے بھی زیا دہ خر اب ہے ۔ مسلما ن ایک دوسر ے کے گلے کا ٹ رہے ہیں ۔ ایک دوسر ے سے دست و گر یبا ں ہیں ۔ ایک دو سر ے کو لو ٹ رہے ہیں ، اسلا می ریا ستو ں کے حکمرا ن عیا شیو ں میں پڑ ے ہو ئے ہیں اور کُچھ کفا ر کے حکم کے تا بع کا م کر رہے ہیں ۔ میر ے خیا ل سے اسلا م اور مسلما ن اپنے ابتد ائی دو ر سے لیکر اب تک کے دو ر میں سے ، اس وقت سب سے زیا دہ مشکل ،سخت اور بد تر ین دو ر سے گز ر رہا ہے ۔ غیر مسلمو ں اور کفا ر نے اسلا م کو بد نا م کر نے میں کو ئی کسر نہیں چھو ڑ ی اور نہا یت افسو س کی با ت یہ ہے کہ اسلا می ریا ستو ں کے چند حکمرا ن بھی اُ ن کا سا تھ دے رہے ہیں ۔ مسلما نو ں کی تما م اکا ئیا ں خا مو ش تما شا ئی بنی بیٹھی ہیں ۔ یہ سب کیو ں ہو رہا ہے ۔۔۔؟ اس کی بنیا دی وجہ کیا ہے ۔۔۔؟ میر ی اپنی سو چ کے مطا بق ان سب کی سب سے بڑ ی وجہ قو میت کا فر وغ ہے ۔ اسلا م اور مسلما نو ں کی پستی کی بنیا دی وجہ صر ف اور صر ف’’علا قا ئی قو میت ‘‘کا فرو غ و گروہ بند ی ہے ۔ قو میت کے شعور نے پہلے ہمیں اسلا م سے دور کیا ہے ۔ اب کو ئی پا کستا ن ہے ، کو ئی ایران کو ئی افغا نی اور کو ئی بنگا لی ہے ،تو مسلما ن کہا ں گیا ۔۔۔؟

پھر سا ل بہ سا ل ، وقت گز رنے کے سا تھ سا تھ جب ہم نے اپنے ذہنو ں کو قو میت کیلئے پختہ کر لیا تو ہم نے اپنے چھو ٹے چھوٹے طبقا نی گرو ہو ں کو قو مو ں کے نا م دے دئیے اور پا کستا ن میں یہ چھو ٹے گرو ہ اب پنجا بی قوم ، بلو چ قو م ، پشتو ن قو م ، سند ھی قو م ، سر ائیکی قو م ، کشمیر ی قو م ، مہا جر قو م اور کئی دیگر قو میں بن چکی ہیں سوال پھر وہی ہے کہ مسلما ن کہا ں گیا ۔۔۔؟ اب ہما رے وسا ئل کے حل میں سند ھی کا خو ن سند ھی کیلئے جو ش ما رتا ہے ، بلو چ کا خو ن بلو چ کیلئے ، پٹھا ن کا پٹھا ن کیلئے اور سر ائیکی کا سر ائیکی کیلئے ، بس اگر خو ن جو ش نہیں ما رتا تو مسلما ن کا مسلما ن کے لئے نہیں ما رتا ۔۔۔ اگر جو ش ما رتا تو فلسطینیوں اور کشمیر یو ں کے سا تھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ نہ ہو رہا ہو تا ۔ اگر مسلما ن کیلئے مسلما ن کا خو ن جو ش مارتا تو دشمنا نِ اسلا م ، کفا ر اور ظا لمو ں کے منہ ٹو ٹ چکے ہو تے ۔ مگر افسو س تو اسی با ت کا ہے کہ بس مسلما ن کا خو ن مسلما ن کیلئے جو ش نہیں ما رتا ۔ یہ سب رنگ قومیت کے دئیے ہو ئے ہیں ۔ قو میت نے ہمیں یہی نہیں اور بھی بہت کچھ ورثے میں دیا ہے ۔ اب ’’پنجا بی قو م‘‘ میں کو ئی جٹ ہے تو کو ئی چو ہد ری ، کوئی بٹ ہے تو کو ئی ملِک ، ’’بلو چ قو م ‘‘ میں کو ئی رند ہے تو کو ئی لا شا ری ، کو ئی سما لا نی ہے تو کو ئی لہڑی ، دیگر بسنے والی تما م ’’قو مو ں ‘‘ کابھی یہی حا ل ہے ۔ کسی بھی گروہ کی ایک دوسر ے سے نہیں لگتی ایک دوسر ے کو نیچا دکھا نے کی کو شش نے اسلا م کو تبا ہ کر کے رکھ دیا ہے ۔ یعنی پہلے ایک متحد ہ اسلا می ریا ست سے تقسیم ہو کر چھو ٹے چھو ٹے مما لک کی صو رت اختیا ر کی ۔ پھر مما لک میں مز ید تقسیم ہو کر چھو ٹے چھو ٹے گرو ہو ں کو ’’قو م ‘‘ کا نا م دیا اور پھر ان گرو ہو ں کی بھی کئی شا خیں نکا ل لیں ۔ اور ہر شا خ کے افراد اپنی شا خ کو معتبر اور اعلیٰ اور دیگر افرا د کو نیچا سمجھنے لگ گئے ہیں ۔ نو بت یہا ں تک آ گئی ہے کہ اس اسلا می ریا ست میں کسی بھی سر کا ری ، غیر سر کا ری ، سیا سی یا اعلیٰ عہد یدا ر سے جا ئز اور نا جا ئز کا م نکلو انے کیلئے متعلقہ افسر کی زبا ن یا گر وہ کا بند ہ ہی کا ر آ مد ثا بت ہو تا ہے ۔ دوسر ی صو رت میں وہ کا م تعطل کا شکا ر ہو جا تا ہے یا طوالت اختیا ر کر لیتا ہے ۔ دیگر اسلا می مما لک میں سے اکثر کی حا لت ایسی ہی ہے اور بہت کم اسلا می مما لک مستحکم ہیں ۔

کا ش ! ہم لو گو ں نے لفظ’’ قو م‘‘ کو صر ف مسلما ن کیلئے استعما ل کیا ہو تا ۔ تو یہ لفظ ہما ری سو چو ں سے بھی زیا د ہ سو د مند ثا بت ہو ا ہو تا ۔ مگر ہم نے اس لفظ کو غلط اندا ز میں استعما ل کیا ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہم لو گ نہ دین کے رہے نہ دنیا کے ، اسلا می قو انین کا نفا ذ تو دو ر کی با ت ہے ، ہم لو گو ں نے تو ایسے طو ر طر یقے اور رسم و رواج اپنا ئے ہو ئے ہیں کہ جن کی اسلا م واضح اور شدید الفا ظ میں مخا لفت کر تا ہے ۔ اسلا می مما لک کی اکثر یت نہ صر ف سو دی نظا م کی پیروی کررہی ہے بلکہ اسے فروغ بھی دے رہی ہے ۔ کچھ ’’عقلمند و دانیٰ‘‘ افراد اسے پوری دنیا کے سا تھ کا روبا ر اور اچھے تعلقا ت کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کی تبدیلی یا خا تمہ نا ممکن ہے ۔ اسی طرح کے کئی اور طور طریقے ہیں جِن کی اسلا م نے مخا لفت کی ہے ۔ ہم نے اپنا ئے ہو ئے ہیں ۔ یہ وہ غیر اسلا می طور طر یقے ہیں کہ جن کی وجہ سے ہم نہ صر ف اسلا م سے دور ہو گئے ہیں بلکہ یہ ایک ایسی دلد ل ہے کہ جس میں ہم غر ق ہو تے چلے جا رہے ہیں ۔ اگر اس اسلا می ملک میں فسا د ، دہشت گر دی ، مہنگا ئی ، بے سکو نی اور امن و اما ن کی مخد وش صو رتحا ل ہے تو اس کے ذمہ دار ہم لو گ ہی ہیں ۔ یہ ہما ری ہی کا رستا نیوں کا نتیجہ ہے کہ ہم ہر طر ف سے مسا ئل میں گھر ے ہو ئے ہیں ۔

ارشا د باری تعا لیٰ ہے کہ ’’اور اﷲ کی رسی کو مضبو طی سے تھا مے رکھو اور تفر قو ں میں نہ پڑ و‘‘ تو ہم نے اس آ یت پر کھبی عملدرآ مد نہیں کیا ۔ ہم تو فر قو ں ، قو موں ،نسلو ں اور ذا تو ں میں تقسیم ہیں ۔ کسی سے قو م پو چھو تو وہ یہ نہیں کہتا کہ ’’میر ی قو م مسلما ن ہے ‘‘ وہ بڑ ے فخر سے دیگر مصنو عی نا م لیتا ہے ۔ کسی سے فرقہ پو چھو تو وہ اپنا فرقہ مسلما ن نہیں بتا تا وہ شیعہ یا سُنی ہونے پر فخر کر تا ہے ۔ یہی وہ بنیا دی وجہ ہے کہ جو ہم مسلما نو ں کی مسلسل نا کا می کا با عث ہے ۔ ہر عقل و شعو ر رکھنے والا شخص ان با تو ں کو سمجھتا ہے مگر شا ید ہم سب معا شرے کی ان برائیوں کا با قا عدہ ایک حصہ بن چکے ہیں اور سیدھی راہ پر چلنے سے اور صحیح کا م کر نے سے قا صر ہیں ۔

ان سب با تو ں کے بتا نے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ہم انہیں صر ف پڑھیں بلکہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہمیں ان با تو ں پر سو چنے کے بعد عمل کر یں۔

اس وقت دنیا کے ہر شعبہ جا ت میں کا م کرنے کے بہت سے مواقع ہیں اور محنتی اشخا ص ہمیشہ اُن شعبہ جا ت کو اپنا نے ہیں کہ جس فیلڈ میں بہت زیا دہ تحقیق و تجر بے اور کا م کرنے کے مواقع ملیں ۔ تو میر ے خیا ل میں اس وقت جس فیلڈ میں سب سے زیا دہ کا م کر نے کے مواقع ہیں وہ فیلڈ دینِ اسلا م کی ہے ۔ اسلا م کو اس وقت بے پنا ہ مسا ئل کا سا منا ہے ۔ قومی سطح پر اور بین الا قو امی سطح پر ، اسلا م کے اند رونی انتشا ر ، آپس میں فرقو ں میں تقسیم ، اسلا م کی صحیح روح کو اجا گر کرنا ، اسلا م کے خلا ف کئے جا نیوالے پر و پیگنڈ ے کا خا تمہ اسلام دشمن عنا صر کی سا زشو ں کا مقا بلہ اور بہت سے ایسے معا ملا ت ہیں کہ جن پر ہم اسلا م کی سر بلندی اور اعلیٰ مقا م کے لئے نئے سر ے سے اور نئے جذ با ت کے تحت کا م شر وع کر یں ۔ان سب با تو ں کو کر نیکا مقصد یہ نہیں ہیکہ ہم صر ف انہیں پڑ ھیں ۔ا ب وقت آ گیا ہے کہ ہم اس پر سنجید ہ ہو کر سو چیں اور عمل کریں کیو نکہ دین اس وقت مشکل میں ہے ۔ میر ے ذہن میں جو کچھ دینِ اسلا م کی سر بلند ی کیلئے ہے وہ پیش خد مت ہے ۔ کیو نکہ اب یہ ہم سب کا فر ض ہے کہ دین اسلا م کی سر بلند ی کے لئے اپنے اپنے حصے کا کا م سر انجا م دیں ۔ میں دو منصو بہ جا ت پیش کر رہا ہو ں اور ان میں کچھ با تیں ایسی ہیں جو کہ دونو ں منصو بو ں میں کا ر آ مد ہو سکتی ہیں میرے منصو بہ جا ت پیش خد مت ہیں ۔
منصو بہ نمبر ایک ۔

.1 تما م اسلا می مما لک دنیا وی با تو ں اور دنیا وی با لا دستی کو پس پشت ڈالتے ہو ئے مشتر کہ لا ئحہ عمل اختیا ر کر تے ہو ئے ایک دوسر ے میں ضم ہو جا ئیں اور ایک مشتر کہ و واحد اسلا می ریا ست قا ئم کریں ۔.2اس واحد اسلامی ریا ست کا ایک منا سب ہیڈ کوا رٹر بنا یا جا ئے ۔ .3تما م مو جو دہ اسلا می مما لک کو اسلا می ریاست کے صو بے جا ت کا درجہ دے دیا جا ئے اور وہا ں دارالخلا فہ کی طر ف سے گو رنر مقرر کردئیے جا ئیں .4مو جو دہ صو بو ں کو ’’سب صو بے ‘‘ کا درجہ دے کر گو رنر کے زیر کنٹرول کر دیا جا ئے ۔ .5دارالخلا فہ کے تما م صو بے اور ’’سب صو بے ‘‘ برا ہ راست زیر کنٹر ول رہیں گے ۔.6ایک وسیع تر نیٹ ورک کے تحت جدید تر ین شنا ختی کا رڈ بنا ئے جائیں گے ۔ جو کہ صو بے کے شہر ی کیلئے ہیڈ کو ارٹر سے ایشو ہو ں گے ۔


.7صو بو ں کیلئے بجٹ کی منصفا نہ تقسیم ، بقا ء کیلئے ہتھیا روں کی تقسیم ، امن وامان کی صو رتحا ل ، غیر اسلا می بین الا قو امی دنیا سے تعلقا ت کے فیصلے مر کزی حکو مت کر ے گی ۔ .8 مشتر کہ اسلا می حکو مت اپنے زیر کنٹرول تما م ’’صو بہ جا ت و سب صو بہ جا ت ‘‘ کی بقا اور بیر ونی مداخلت کی صو رت میں اُ ن کی حفا ظت کی ذمہ دار ہو گی ۔ .9اسلا می دشمن سر گر میوں میں ملو ث عنا صر ، افرا د ، ادارے ، اور مما لک کی سر کو بی کی جا ئے ۔ .10مر کز ی حکو مت ملکی ضرو ریا ت کے پیش نظر درآ مدا ت و بر آ مدات کا جا ئزہ لے گی .11تما م صو بہ جا ت و سب صو بہ جا ت آ زا دا نہ ایک دو سر ے کے علا قو ں میں سا ما ن و اشیا ء کی نقل و حمل کر سکیں گے اور اشیا ء کی قیمتو ں میں بھی استحکا م رہے گا ۔ .12تما م افرا د ایک صو بے سے دوسرے صو بے میں آ زادانہ طو ر پر آ جا سکیں گے اور تجا رت بھی کر سکیں گے ۔ اور کسی قسم کے پا سپو رٹ کی ضرورت نہیں ہو گی ۔ .13مر کز ی حکو مت کسی بھی قسم کی بیر ونی مدا خلت ، قد رتی آ فا ت و قحط سالی جیسی صو رتحا ل سے نمٹنے کیلئے تیا ر رہیگی ۔ .14مر کز ی حکو مت کے زیر کنٹر ول وفا قی فو ج تشکیل دی جا ئیگی جبکہ نیم فو جی دستے اور پو لیس صو با ئی کنٹرول میں ہو نگے ۔.15تما م ’’صو بہ جا ت و سب صو بہ جا ت ‘‘ میں ایک دوسر ے کی چیز وں / اشیا ء نقل و حر کت پر کو ئی ٹیکس عا ئد نہیں کیا جا ئیگا ۔.16مشتر کہ اسلا می سلطنت کی مشتر کہ کر نسی ، ترا نہ ، جھنڈ ا اور بنیا دی قوا نین ہو نگے ۔ .17تمام اسلا می سلطنت میں شر عی اسلا می نظا م نافذ کیا جا ئیگا ۔ .18غیر اسلا می رسم و رواج ، قوا عد و ضو ابط ، تہوا ر کو نہ صر ف ممنو ع قرار دیا جا ئیگا بلکہ ایسے افرا د کی سختی سے سر کو بی کی جا ئیگی ۔ .19اسلا می سلطنت میں بسنے والے تما م غیر مسلم افرا د کو نہ صر ف مکمل مذ ہبی آ زادی دی جا ئیگی بلکہ اُ ن کو تحفظ بھی یقینی بنا یا جا ئیگا ۔ .20مشتر کہ اسلا می سلطنت کی مر کز ی حکو مت اسلا م کے خلا ف کئے جا نیو الے پر و پیگنڈ ے کا مقا بلہ کر یگی ۔ اسلا م کے خلا ف غلط نظر یا ت ، اسلا م کے خلا ف منفی سو چ رکھنے والے عنا صر کا مقا بلہ کریگی ۔.21اُ ن اسلا م دشمن عنا صر کی سختی سے سر کو بی کی جا ئے گی جو بھی ہما رے پیا رے نبی ﷺ کی شا ن میں کا رٹو ن بنا کر ، تو کبھی گا نو ں کے بو ل میں شا مل کر کے تو کبھی رسا ئل و اخبا رات و کتا بیں لکھ کر تو ہین کر رہے ہیں ۔ 22اسلا می طر ز بینکا ری کو نا صر ف اپنا یا جا ئیگا بلکہ پو ری دنیا میں اُ سے پھیلا یا جا ئیگا ۔ .23تما م صو بہ جا ت و سب صو بہ جا ت ملکر دہشت گر دی کا مقا بلہ کر ینگے اور مجر ما ن کو کیفر کر دار تک پہنچا ئیں گے ۔

منصو بہ نمبر2۔
اگر تما م اسلا می مما لک پہلے منصو بے کو کسی بھی طر ح قبو ل کر نے کے لئے تیا ر نہیں اور کسی بھی قسم کے عذ ر پیش کر تے ہیں کہ یہ نا ممکن ہے تو پھر منصو بہ نمبر 2پیش خد مت ہے ۔

.1 اگر تما م اسلا می مما لک ایک دوسر ے کے سا تھ الحا ق کر تے ہو ئے مشتر کہ اسلا می ریا ست نہیں بنا سکتے تو مند رجہ ذیل با تو ں پر عمل کر تے ہو ئے ایک دو سر ے سے مکمل تعا و ن کریں ۔ .2 OICکا ہر مہینے اجلا س طلب کیا جا ئے اور ہر تین ما ہ بعد سر برا ہی اجلا س ہو کہ جس میں صدر یا وزرائے اعظم شر کت کر ینگے جبکہ ما ہو ار اجلا س میں وزرا ء خا رجہ شر کت کرینگے (OICکے مہینو ں مہینو ں بعد ہو نے والے اجلا سو ں کی وجہ سے اس کی اہمیت تقریبا ً ختم ہو کر رہ گئی ہے ).3 OICکے ہر مہینے ہو نے والے اجلا سو ں میں تما م اسلا می مما لک کو درپیش مسا ئل کے مشتر کہ حل کیلئے سنجید ہ کو ششیں کی جا ئیں گی اور مسائل کی با قا عد ہ تین طر ح کی فہر ستیں مر تب کی جا ئیں گی ۔

(i)نہا یت ضر وری مسا ئل میں روزانہ کی بنیا د پر پیش رفت کی جا ئے گی ۔ (ii) نا رمل مسا ئل کو حل کر نے کیلئے بتد ریج حل نکا لے/پیش کئے جا ئینگے ۔(iii)طویل المد تی حل طلب مسا ئل کے حل پر بھی با قا عدگی سے عمل کیا جا ئیگا ۔ .4تما م اسلا می مما لک ایک معا ہد ے پر دستخط کر ینگے کہ جس کے تحت غیر اسلا می مما لک کو مشتر کہ دشمن یامشتر کہ دوست کے طور پر اپنا یا جا ئیگا ۔ یعنی اگر کو ئی بھی غیر اسلا می ملک اسلا م یا مسلم اُ مہ کو نقصا ن پہنچا رہا ہے تو تما م ہی اسلا می مما لک اُ س ملک سے ہرطرح کے تعلقا ت و تجا رت دوستا نہ معا ہدہ جا ت مشتر کہ طور پر ختم کر دیں گے اور سختی سے اس عمل کی پا بند ی کرینگے اور اپنے مفا دات کو بالا ئے طا ق رکھتے ہو ئے اسلا م کی سر بلند ی کو تر جیح دینگے ۔ .5اسی طرح غیر اسلا می مما لک میں سے اچھے مما لک کو درست مما لک کا درجہ دیا جا ئیگا اور تما م اسلا می مما لک اُ س ملک سے وسیع تر تعلقا ت قا ئم کرینگے .6کسی بھی غیر اسلامی ملک کو نا پسند یدہ قرار دینے کیلئے Stepsبنا ئیں گے ۔یعنی پہلے وارننگ اور تنبیح سے کا م لیا جا ئے گا ، پھر تجا رت و معا ہدات ختم کئے جا ئیں گے پھر سفارتی تعلقا ت منقطع کئے جائیں گے اور پھر بھی با ز نہ آ نے پر اسلا می فو ج کے ذریعے لشکر کشی (حملہ ) کی جا ئیگی ۔ .7 OICکے زیر کنٹر ول مشتر کہ اسلا می فو ج کی تشکیل کی جا ئیگی ۔ہر ہر اسلا می ملک اپنی 20سے 25فیصد فو ج بمعہ فو جی سا زو سا مان اور فو جی بجٹ کے مشتر کہ اسلا می فو ج میں شا مل کر یگا ۔ مشتر کہ اسلا می فو ج کو با قا عدہ ایک منظم فو ج کا روپ دیا جا ئیگا جو کہ جدید ترین ہتھیا روں اور سا ما ن حر ب سے مسلح ہو گی اور بر ی ، بحری اور فضا ئی طا قت رکھتی ہو گی ۔ جدید خطوط پر استو ار یہ فوج زما نہ امن میں قدرتی آفا ت اور فلا ح و بہبو د کے کا مو ں میں شر کت کر یگی جبکہ زما نہ جنگ میں اس کی تعدا د اور صلا حیت میں بھر پو ر اضا فہ کیا جا ئیگا ۔ ہر اسلا می ملک پا بند ہو گا کہ زما نہ جنگ میں اپنے فو جی و اسلحہ وغیر ہ مشتر کہ اسلا می فو ج کو بھجوائے گا ۔ پا کستان چو نکہ واحد ایٹمی اسلا می طا قت ہے تو اسے مشتر کہ اسلا می فو ج کے ہیڈ کو ارٹر کیلئے اپنی سر زمین پیش کر نی چا ہئیے .8تما م اسلا می مما لک فو ج کے علا وہ مشترکہ اسلا می پو لیس کی بنیا د رکھیں گے جو کہ تما م اسلا می مما لک کو مطلو ب خطر نا ک مجر ما ن کے خلا ف کا روائی کر یگی اور امن واما ن کی بہتری کیلئے ایک دوسر ے سے تعا ون کر یگی مشتر کہ اسلا می پو لیس کا نیٹ ورک نہا یت مضبو ط بنیا دوں پر بنا یا جا ئیگا اور اسے جدید سہو لتو ں سے آ راستہ کیا جا ئیگا .9مشتر کہ اسلا می لبا س اور خواتین کیلئے مختلف قسم کے اسلا می حجا ب کی منظو ری دی جا ئیگی منظو ر شدہ لبا س اور حجا ب مسلما ن مردو خواتین زیب تن کر ینگے جبکہ دیگر ممنو عہ ملبو سات کی فہر ست بھی جا ری کی جائیگی .10سبز رنگ کا ایک ’’اسلا می گرین کا رڈ ‘‘بنا یا جا ئیگا جو ہر اسلا می مما لک ایسے شہر یو ں کو ایشو کر ینگے ۔ جو کسی بھی صو رت میں دیگر اسلا می مما لک میں امن و اما ن کی صو رتحا ل کو خر اب کر نے کا با عث نہ بنے اور کسی غیر قا نو نی سر گر می میں ملو ث نہ ہو۔ یہ اسلا می گر ین کا رڈ صر ف OICکے ہیڈ آ فس سے ایشو ہو نگے اور حصو ل کنندہ کیلئے پا سپو رٹ کی شر ط نہیں رہے گی اور وہ کسی بھی اسلا می ملک میں آ جا سکے گا ۔یہ گرین کا رڈ حصو ل تعلیم کا روبا ر ، سیا حت ، سما جی کار کنو ں ، تحقیق و تجر با ت اور روزگا ر وغیر ہ کے سلسلے میں دئیے جا ئیں گے ۔ .11گر ین اسلا می کا رڈ کو استعما ل کر تے ہو ئے تما م اسلا می مما لک اسا تذ ہ جو کہ فنی تیکنیکی، شعبہ جا ت میں مہا رت رکھتے ہو ں کو ایک دوسر ے کے ملک میں بھجو ائیں گے اور ہر شعبے میں تعا ون کر یں گے ۔

.12مشتر کہ اسلا می تجر بہ گا ہ برا ئے طب، موا صلا ت ،فلکیا ت و دیگر شعبہ جا ت کا قیا م نہا یت ضروری ہے ۔.13طبعی شعبے سے وابستہ افرا د کو بھی مشتر کہ طور پر ایکدو سر ے کے تجر با ت سے استفا دہ کر نے کے مکمل مواقع فراہم کئے جا ئیں گے ۔.14تما م اسلا می مما لک اپنے اپنے ملک کی درآ مدا ت و بر آ مدات کی فہر ستیں بمعہ قیمت خرید و فر وخت ایک دوسرے کو پیش کریں اور دیگر غیر اسلا می مما لک کے مقا بلے میں ایکدو سر ے سے نئے کا روبا ری و تجا رتی تعلقا ت استوار کریں گے ۔OIC.15کے زیر اہتما م ایک ہی شعبے سے وا بستہ افر اد کے لئے میلے ، اسٹا ل لگا ئے جا ئیں گے جس سے متعلقہ شعبہ میں تر قی کے مواقع پید ا ہو نگے ۔ دیگر ایسے مو قع پر ایکدوسرے کو خصو صی رعا یتیں دی جا ئیں جس سے تعا ون و تر قی کو فرو غ ملے گا ۔ .16تما م اسلا می مما لک ایکدو سرے کے ہنر مند افرا د کو روزگا ر کے مواقع فرا ہم کریں اس طر ح نہ صر ف جدید ٹیکنا لو جی منتقل ہو گی بلکہ بے روزگا ری کے خا تمے میں بھی مدد ملے گی ۔.17مشتر کہ حکمت عملی اپنا تے ہو ئے تما م مما لک اسلا می قو میت کو فرو غ دینگے ۔ غر ض یہ کہ اسلا می مما لک ایکدو سر ے سے ہر شعبہ میں بھر پو ر تعا و ن کریں گے ۔

دین اسلا م کو اس وقت بے پنا ہ مسا ئل کا سا منا ہے ۔ کو ئی ہما رے پیغمبرﷺ آ خر الز ما ں کی تو ہین کا رٹو ن بنا کر کر رہا ہے تو کو ئی گا نے کے بو ل کے ذریعے ۔ اسلا م مخا لفین اسلا م کے خلا ف مسلسل پر وپیگنڈے کر رہے ہیں اور اسلا م کو ہر ذریعے سے نقصا ن پہنچا رہے ہیں ۔ اندرون خا نہ مسلما ن تذ بز ب و انتشا ر کا شکا ر ہیں اور ہم اپنے ہا تھو ں سے بھی اسلا م کو نقصا ن پہنچا رہے ہیں ۔ دینِ اسلا م کی سربلند ی کے لئے ضروری ہے کہ ہم اتحا دو اتفا ق کا مظا ہر ہ کریں ۔ اسی میں ہم سب کی بھلا ئی ہے ۔
Anwar Shakil
About the Author: Anwar Shakil Read More Articles by Anwar Shakil: 6 Articles with 5586 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.