سلامتی کونسل میں توسیع بھارت کا محض ایک خواب ہے

دنیا کی سب سے بڑی اور موثر تنظیم اقومِ متحدہUNOہی ہے۔تمام عالمی مسائل یہاں ہی زیرِ بحث لائے جاتے ہیں اور ان کے حل کی تدبیر بھی یہاں سے ہی کی جاتی ہے۔دنیا کا ہر ملک اس تنظیم کا رکن ہے جنرل اسمبلی اس کا سب سے بڑا ذیلی ادارہ ہے مگر سلامتی کونسل اقوامِ متحدہ کا موثر ترین ذیلی ادارہ ہے۔ عالمی سیاست ،معاملات اورامور میں اس کے پانچ مستقل ارکان کی اہمیت کلیدی نوعیت کی ہے۔یہ پانچ مستقل ارکان ہر قسم کے عالمی امور اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہیں اگر یہ کہا جائے کہ ان پانچ ملکوں نے باقی کی اقومِ عالم کو یرغمال بنا رکھا ہے تو بے جا نہ ہو گا۔یہ پانچ عالمی طاقتیں بعض اوقات ناجائز کاموں کو بھی اپنے لامحدود اختیارات کی بدولت جائز قرار دیتی ہیں ۔9/11کے بعد عراق پر امریکی حملہ اس کی ایک بڑی مثال ہے۔جن کیمیائی ہتھیاروں کا جواز بنایا گیا تھا وہ تاحال عراق سے ملے ہی نہیں ہیں۔ ان ملکوں کو حاصل ویٹو کی طاقت انہیں مزید مطلق العنان بنا دیتی ہے وہ اس طاقت کے ذریعے کسی بھی اکثریتی رائے کو باآسانی اور بغیر کسی دلیل کے بیان کیے مسترد کر سکتے ہیں۔

امریکہ،روس،چین،برطانیہ اور فرانس اس کے مستقل رکن ہیں ۔اب بھارت نے سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کی کوششیں تیز کر دیں ہیں ۔ہندوستان گزشتہ تیس سالوں سے یہ نشست حاصل کرنے کی دعوے داری کر رہا ہے۔اس کا دعویٰ ہے کہ وہ گزشتہ بیس سالوں سے سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کی ساری شرطیں پوری کرتا آرہا ہے۔وہ اپنے آپ کو دنیا کی بڑی طاقت قرار دیتا ہے۔بقول اس کے وہ دنیا میں ہر سال سب سے زیادہ میڈیکل اور انجینیرنگ گریجویٹ پیدا کرنے والا ملک ہے امریکہ اور روس کے بعد وہ ہی خلائی ٹیکنالوجی میں مہارت رکھتا ہے اور خلا میں سب سے زیادہ سٹلائیٹ داغنے ولا بھی بھارت ہے۔جی ڈی پی کے اعتبار سے دنیا کی چوتھی بڑی معیشت ہے۔دنیا کا سب سے بڑا صارف بازار اور چوتھی بڑی فوج کا حامل ملک ہے چین کے بعد ایک ارب ستائیس کروڑ کی سب سے زیادہ آبادی اسی کی ہے۔بھارت کے ان دلائل کو دنیا تسلیم نہیں کرتی ہے۔سلامتی کونسل کے مستقل ارکان بھی بھارت کی اس رائے کو سنجیدگی سے نہیں لیتے ہیں بھارت کو بھی اس بات کا خوف ہے کہ چین اور روس اس کی قرارداد کو ویٹو کر دیں گے۔اسی خدشے کے پیشِ نظر اس سال 14ستمبرکو سلامتی کونسل کی توسیع پر غور و خوض کے لیے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک مسودہ پیش کیا گیا ۔بھارت کا خیال ہے کہ سلامتی کونسل میں توسیع کا مسودہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ووٹنگ کے لیے رکھا جائے گا جہاں وہ اسے دو تہائی اکثریت سے پاس کرانے کی کوشش کرے گا اگر ایسا ہو گیا تو مستقل رکن اسے ویٹو بھی نہیں کر سکیں گے۔

بھارت کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کی خواہش اس وقت تک پوری نہیں ہو سکتی جب تک وہ اس کی بنیادی شرائط پوری نہیں کرتا ہے۔وہ جن خوبیوں کا تذکرہ کرتا ہے درحقیقت وہ ان بنیادی خامیوں کے مقابلے بہت کم ہیں جو بھارت میں پائی جاتی ہیں ان ہی خامیوں کی بدولت بھارت سلامتی کونسل کا رکن نہیں بن سکتا ہے۔ سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے سے قبل بھارت کو میزائل ٹیکنالوجی کنٹرول رجیمMTCRاور نیوکلر سپلائر گروپNSGکا ممبر بننا ہو گا اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب وہ NPTپر دستخط کرے گا۔بھارت ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے اس معاہدے پر دستخط کرنے سے انکاری ہے۔یہ بات اس کے خطے میں توسیع پسندانہ عزائم کی عکاسی کرتی ہے۔وہ ہمسایہ ممالک پر اپنی بلادستی قائم کرنا چاہتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ برصغیر کی تقسیم ابھی تک نامکمل ہے مسلہ کشمیر کے ساتھ جونا گڑھ کا معاملہ بھی قانونی طور پر حل طلب ہے اور برطانیہ اس نامکمل تقسیم کا ذمہ دار ہے۔ بھارت میں غربت کی بلند شرح اور انسانی حقوق کی پامالی اپنے عروج پر ہے۔ خالصتان کے قیام کے لیے 2020میں ریفرنڈم کروانے کا سکھوں کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔کیا بھارت یہ ریفرنڈم کروائے گا یا مسلہ کشمیر کی طرح اسے بھی دبائے رکھے گا؟بھارت کو ابھی ایک منظم اور مکمل ریاست بننے میں کافی وقت درکار ہے اسے اپنے اندرونی اور خطے کے ممالک کے ساتھ درپیش مسائل اور تنازعات کو حل کرنا ہو گا ۔خلفشار کا شکار اور عالمی قوانین سے انحراف کرنے والی ریاست کسی طور بھی سلامتی کونسل کی مستقل رکن نہیں بن سکتی ہے۔بھارت کے لیے یہ نشست ایک ایسا خواب ہے جس کی کوئی تعبیر نہیں ہوتی ہے۔
 
hur saqlain
About the Author: hur saqlain Read More Articles by hur saqlain: 77 Articles with 55789 views i am columnist and write on national and international issues... View More