جانوروں کی قربانی کے ساتھ جذبۂ قربانی پیدا کریں

اﷲ سبحانہ وتعالیٰ؛ جو کہ خالقِ کائنات ہے۔۔۔اس نے انسان کو پیدا کیا اور اس کے سر پر شرف وبزرگی کا تاج رکھا، پھر چند امتحانات میں کامیابی حاصل کرکے سرخ رو ہونے کے لیے، اسے اس دنیا میں بھیج دیا، اب جوشخض اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کا حکم واشارہ پاکر قربانی پیش کرے گا، وہ سرخ رو ہوگا اور جو باوجود واضح دلائل کے حکم کی تعمیل میں چوں وچرا کرے گا، وہ راندۂ درگاہ ہوگا۔ قربانی رسول اﷲ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی دائمی سنت ہے، اس لیے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ تشریف آوری کے بعد ہر سال قربانی کی اور امت کو بھی اس کی تعلیم وترغیب دی، یہی نہیں بلکہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے باوجود استطاعت کے قربانی نہ کرنے والے پر سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا بلکہ فرمایا کہ ایسا شخص ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ پھٹکے، اس لیے ہمیں چاہیے کہ خوش دلی اور پورے اخلاص کے ساتھ قربانی کریں۔

قربانی کے لفظی معنی میں ہر وہ چیز داخل ہے، جسے اﷲ تعالیٰ کے تقرّب کا ذریعہ بنایا جائے، خواہ وہ جانور کا ذبیحہ ہو یا نذر و نیاز یا عام صدقہ و خیرات وغیرہ۔ہر ایسا نیک عمل، جس کے ذریعے اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے قریب ہونے کا قصد کیا جائے، وہ قربان ہے،عُرفِ عام میں یہ لفظ جانور کی قربانی کے لیے بولا جاتا ہے۔

قرا نِ کریم میں یہ لفظ تین جگہ ا یا ہے؛سورہ آ لِ عمرا ن اور سورہ مائدہ میں اس کے معنی صاف طور پر ذبیحے کے ہیں، تاہم سورہ احقاف میں کہا گیا ہے کہ لَوْلَا نَصَرَہُمُ الَّذِي نَ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اﷲِ قُرْبَانًا آ لِہَۃً پھر ان کی مدد ان لوگوں نے کیوں نہ کی جنھیں انھوں نے تقرب کے لیے اﷲ کے سوا معبود بنا رکھا تھا، یہاں یہ لفظ ا لہٰ (معبودوں) کا مرادف ہوگا، اس لفظ کی تشریح شفاعت کرنے والے کی گئی ہے۔لسان العرب میں دو حدیثیں دی گئی ہیں، جو خاصی جاذبِ نظر ہیں؛( ۱) تورات میں اس ملت(یعنی ملتِ اسلام) کی یہ خصوصیت آئی ہے کہ ان کی پیش کش ان کا اپنا خون ہے بالفاظِ دیگر انھوں نے دیگر پیش کشوں کے بجائے اپنے شہیدوں کا خون پیش کیا ہے اور (۲)دوسری حدیث یہ ہے کہ ہر متقی کی پیش کش اس کی نماز ہے۔ یہ دونوں حدیثیں لفظِ قربان کے وسیع معنوں کی مظہر ہیں۔

اردو کی مشہور لغت فرہنگِ آصفیہ میں ہے:قربانی کرنے کا مطلب ہے؛عیدِ اضحی کو اونٹ یا دُنبہ وغیرہ قربان کرنا، ذبح کرنا۔ اس لفظ میں یاے تمنائی زائد ہے، کیوں کہ فارسی والوں کا قاعدہ ہے کہ بعض اوقات عربی مصدر کے آگے یاے مصدر ی یا زائدہ اکثر بڑھا دیا کرتے ہیں، جیسے؛ خلاص سے خلاصی وغیرہ۔

قربانی سے متعلق قرا نِ کریم میں ارشادِ ربانی ہے:لَن یَنَالَ اللّٰہَ لُحُومُہَا وَلَا دِمَائُہَا وَلَکِن یَنَالُہُ التَّقْوَی مِنکُمْ۔(سورہ حج) یعنی اﷲ تعالیٰ کے پاس نہ اس(قربانی) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ اس کا خون لیکن اس کے پاس تمھارا تقویٰ پہنچتا ہے۔۔۔گویا اس آیت میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس کی روح یعنی تقویٰ خاص کی تعظیم شعار ہے، اس کی بہت حفاظت کرو اور سمجھو کہ ذبح بالذات مقصود نہیں، دیکھو وہاں نہ خون پہنچتا ہے، نہ گوشت، جو چیز مقصود ہے، وہ البتہ پہنچتی ہے یعنی تقویٰ۔ چناں چہ اگر گوشت وخون مقصود ہوتا تو سارا جانوراٹھ کر چلا جایا کرتا، پس صرف ذبح کو مقصود مت سمجھو، اﷲ تعالیٰ کے یہاں تقویٰ پہنچتا ہے، اس کو دیکھو کہ اس ذبح کے ساتھ تقویٰ بھی شامل ہے یا نہیں؟ (اشرف التفاسیربتغیر)

قربانی کا واضح ثبوت
سورہ کوثر میں ارشادِ ربانی ہے:فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ۔ صحیح قول یہ ہے کہ یہاں نحر سے مراد قربانی کرنا ہے، اسی لیے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نمازِ عید سے فارغ ہوکر اپنی قربانی ذبح کرتے تھے۔(تفسیر ابن کثیرمکمل)

حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں دس سال قیام فرمایا، اور آ پ ہر سال برابر قربانی کرتے تھے۔(ترمذی)حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اﷲ تعالیٰ کے نزدیک عید الاضحی کے دن سب سے پسندیدہ عمل جانور کی قربانی کرنا ہے، یہ قربانی قیامت کے دن، اپنے بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گی اور یہ بہت ہی خوشی کی بات ہے کہ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے، اﷲ تعالیٰ کے حضور پیش کردیا جاتا ہے، اس لیے خوش دلی سے قربانی کیا کرو۔(ترمذی)

حضرت زید بن ارقم رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں،رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابہؓ نے عرض کیا:اے اﷲ کے رسول!یہ قربانیاں کیا ہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا:یہ تمھارے جدِّ اعلیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہیں۔ انھوں نے عرض کیا:ان میں ہمیں کیا ملے گا؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:ہر بال کے بدلے ایک نیکی۔ انھوں نے عرض کیا:اور اون میں؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اون کے ہر بال کے بدلہ بھی ایک نیکی۔(ابن ماجہ)

نیا پروپیگنڈہ
کتنے افسوس کی بات ہے کہ اس قدر واضح ثبوت کے باوجود بعض کج فہموں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس دائمی عمل ’قربانی ‘کہنے کی کوشش کی ، جیسا کہ درسِ ترمذی میں مذکور ہے کہ ہمارے دور میں منکرینِ حدیث نے یہ پروپیگنڈہ کیا کہ یہ قربانی تو فضولی چیز ہے اور اصل تو قربانی کی مشروعیت اس لیے تھی کہ چوں کہ حج کے موقع پر بہت لوگ جمع ہوجاتے تھے اور ان کے کھانے پینے کا انتظام نہیں ہوپاتا تھا، اس لیے حج کے موقع پر قربانی مشروع کی گئی تھی، تاکہ حاجیوں کے کھانے پینے کا انتظام ہوجائے، لہٰذا دوسرے لوگ جو مکہ مکرمہ کے علاوہ دوسرے شہروں میں مقیم اور آباد ہوں ان پر قربانی واجب نہیں اور منکرینِ حدیث یہ کہتے ہیں کہ اسلام میں ایسا بے عقلی کا حکم نہیں ہوسکتا کہ کروڑوں روپے کی دولت خون کی شکل میں نالیوں میں بہادی جائے، کیوں کہ ایک دن میں ہزارہا جانور ذبح کیے جاتے ہیں۔
دراصل جب انسان کے دماغ پر ہر وقت مادّے اور پیسے کا غلبہ ہو تو وہ ایسی بے تکی باتیں کیا کرتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ قربانی کا تو مقصود ہی یہ ہے کہ انسان کو اس بات کا عادی بنایا جائے کہ اﷲ تعالیٰ کا حکم آجانے کے بعد وہ اس میں مادی منافع تلاش نہ کرے بلکہ اﷲ تعالیٰ کے حکم کے آگے سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہوجائے۔ چناں چہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اﷲ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ذبح کرنے کا جو حکم دیا، اس کو عقل کی کس میزان میں تولا جائے کہ کوئی باپ اپنے معصوم بیٹے کو ذبح کرے؟ یہ بات عقل میں نہیں آتی لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اس حکم کو تسلیم کیا ۔

معلوم ہوا، اسلام اس کانام ہے کہ آ دمی اپنے آپ کو اس حکم کے آ گے جھکادے، چاہے وہ عقل میں آئے یا نہ آئے اور جب تک انسان کے اندر یہ جذبہ پیدا نہیں ہوتا، انسان، انسان نہیں بنتابلکہ وہ جانور اور درندہ رہتا ہے، جیسے آج کل ہے، اس لیے کہ اﷲ تعالیٰ کے حکم کے آگے سر جھکانے کا جذبہ دل میں نہیں ہے، اس جذبے کو پیدا کرنے کے لیے قربانی مشروع کی گئی ہے، اب اگر کوئی شخص قربانی کرنے میں حساب کتاب لگانا شروع کردے اور معاشی فوائد تلاش کرنا شروع کردے اور مادی منفعت تلاش کرنا شروع کردے، تو یہ قربانی کے اصل فلسفے ہی سے جہالت اور ناواقفیت کا نتیجہ ہے، جب کہ بذاتِ خود حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کے قیام کے دوران ہر سال قربانی فرمائی ہے۔(درسِ ترمذی، تکملہ فتح الملہم)
قربانی کی مشروعیت میں اصل حکمت یہی معلوم ہوتی ہے کہ اس کے ذریعے مسلمان اپنے جذبات کو قابو میں رکھنا سیکھ لے اور اﷲ و رسول کے حکم کے ا گے اپنی عقل کے گھوڑوں کو رام کر لے، اس لیے اگر یہ بات پیدا نہ ہو تو گویا قربانی کا اصل مقصد ہی فوت ہو گیا۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں اس مقصد کو بدرجہ اتم پورا کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین
Maulana Nadeem Ahmed Ansari
About the Author: Maulana Nadeem Ahmed Ansari Read More Articles by Maulana Nadeem Ahmed Ansari: 285 Articles with 310899 views (M.A., Journalist).. View More