حقیقت میلاد النبی - اٹھاونواں حصہ

مجالس و اِجتماعات کا اِہتمام:-

عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پر مسرت موقع پر محافلِ نعت، مجالسِ ذکرِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں درود و سلام پیش کرنے کے لیے خصوصی اِجتماعات منعقد کیے جاتے ہیں۔ لوگ اِن محافل میں اِنتہائی عقیدت و اِحترام اور جوش و خروش سے شریک ہوتے ہیں اور اپنے قلوب و اَذہان کو محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکرِ جمیل سے معطر کرتے ہیں۔ اپنے میلاد کے بیان کے لیے خود تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اِجتماعات کا اہتمام فرمایا۔ اِس ضمن میں متعدد اَحادیث موجود ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنی ولادت سے قبل اپنی تخلیق کا تذکرہ:-

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا :

يا رسول اﷲ! متی وجبت لک النبوة؟

’’یا رسول اﷲ! آپ کو شرفِ نبوت سے کب نوازا گیا؟‘‘

یہ ایک معمول سے ہٹا ہوا سوال تھا کیوں کہ صحابہ میں سے کون نہیں جانتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت چالیس سال کی عمر مبارک میں ہوئی۔ لہٰذا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اِس سوال سے واضح ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے بارے میں نہیں پوچھ رہے تھے بلکہ وہ عالم بالا میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُس روحانی زندگی کی اِبتداء کی بات کررہے تھے جب اﷲ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خلعتِ نبوت سے سرفراز فرمایا تھا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب عطا کرتے ہوئے فرمایا :

وآدم بين الروح والجسد.

’’(میں اُس وقت بھی نبی تھا) جب آدم کی تخلیق ابھی رُوح اور جسم کے مرحلے میں تھی۔‘‘

1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في فضل النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، 5 : 585، رقم : 3609

2۔ ابن مستفاض نے ’’کتاب القدر (ص : 27، رقم : 14)‘‘ میں کہا ہے کہ اِس کے رِجال ثقہ ہیں۔

3. تمام رازي، کتاب الفوائد، 1 : 241، رقم : 581
4. ابن حبان، کتاب الثقات، 1 : 47
5. لالکائي، اعتقاد أهل السنة، 1 : 422، رقم : 1403
6. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 2 : 665، رقم : 4210
7. بيهقي، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة، 2 : 130
8. سيوطي، الدر المنثور في التفسير بالمأثور، 6 : 569

9۔ ناصر الدین البانی نے اِس حدیث کو صحیح قرار دیتے ہوئے ’’صحیح السیرۃ النبویۃ (ص : 54، رقم : 53)‘‘ میں بیان کیا ہے۔

اِس حدیث سے مراد ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس وقت بھی نبی تھے جب روح اور جسم سے مرکب حضرت آدم علیہ السلام کا خمیر ابھی مکمل طور پر تیار نہیں ہوا تھا۔ اِس طرح حبیبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو اپنی ولادت سے بھی پہلے اپنی تخلیق اور نبوت کے بارے میں آگاہ فرمایا۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے میلاد کے بیان کے لیے اِہتمامِ اِجتماع:-

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول مبارک تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اِجتماع سے خطبہ جمعہ کے علاوہ بھی وقتاً فوقتاً دینی و ایمانی، اَخلاقی و روحانی، علمی و فکری، سیاسی و سماجی، معاشی و معاشرتی، قانونی و پارلیمانی، اِنتظامی و اِنصرامی اور تنظیمی و تربیتی موضوعات پر خطبات اِرشاد فرماتے۔ اس کے علاوہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی حسبی و نسبی فضیلت اور بے مثل ولادت پر بھی گفتگو فرماتے۔ درج ذیل اَحادیثِ مبارکہ سے واضح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنی تخلیق و ولادت کی خصوصیت و فضیلت کے بیان کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اِجتماع کا اہتمام فرمایا۔

1۔ حضرت مطلب بن ابی وداعہ سے مروی ہے :

جاء العباس إلي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فکأنه سمع شيئاً، فقام النّبي صلي الله عليه وآله وسلم علي المنبر، فقال : من أنا؟ فقالوا : أنت رسول اﷲ، عليک السّلام. قال : أنا محمد بن عبد اﷲ بن عبد المطّلب، إن اﷲ خلق الخلق فجعلني في خيرهم فرقة، ثم جعلهم فرقتين، فجعلني في خيرهم فرقة، ثم جعلهم قبائل، فجعلني في خيرهم قبيلة، ثم جعلهم بيوتاً، فجعلني في خيرهم بيتاً وخيرهم نسباً.

’’حضرت عباس رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے، (اس وقت ان کی کیفیت ایسی تھی) گویا انہوں نے (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق کفار سے) کچھ (نازیبا الفاظ) سن رکھے تھے (اور وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتانا چاہتے تھے)۔ (حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے یہ کلمات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتائے یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علمِ نبوت سے جان گئے) تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ اَفروز ہوئے اور فرمایا : میں کون ہوں؟ سب نے عرض کیا : آپ پر سلام ہو، آپ اﷲ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں عبد اللہ کا بیٹا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوں۔ اﷲ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا اور اس مخلوق میں سے بہترین گروہ (انسان) کے اندر مجھے پیدا فرمایا اور پھر اس کو دو گروہوں (عرب و عجم) میں تقسیم کیا اور ان میں سے بہترین گروہ (عرب) میں مجھے پیدا کیا۔ پھر اﷲ تعالیٰ نے اس حصے کے قبائل بنائے اور ان میں سے بہترین قبیلہ (قریش) کے اندر مجھے پیدا کیا اور پھر اس بہترین قبیلہ کے گھر بنائے تو مجھے بہترین گھر اور نسب (بنو ہاشم) میں پیدا کیا۔‘‘

1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الدعوات، 5 : 543، رقم : 3532

2۔ ترمذی نے’’الجامع الصحیح (کتاب المناقب، باب فی فضل النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، 5 : 584، رقم : 3608)‘‘ میں وخیرھم نسبا کی جگہ وخیرھم نفسا کے الفاظ بھی بیان کیے ہیں۔
3۔ احمدبن حنبل نے ’’المسند (1 : 210، رقم : 1788)‘‘ میں آخر حدیث میں ’’فانا خیرکم بیتا وخیرکم نفسا‘‘ کا اضافہ کیا ہے۔

4. أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 165
5. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 8 : 216
6. بيهقي، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة، 1 : 169

اس حدیث مبارکہ میں درج ذیل نکات قابلِ غور ہیں :

(1) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول تھا کہ جب کسی موضوع پر کوئی اَہم اور قابلِ توجہ بات تمام صحابہ کو بتانا مقصود ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا خطبہ یا تقریر منبر پر کھڑے ہو کر اِرشاد فرماتے۔ اگر معمول کی کوئی بات ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موقع پر موجود صحابہ کے گوش گزار کر دیتے لیکن منبر پر کھڑے ہو کر خاص نشست کا اہتمام عامۃ المسلمین تک کوئی خاص بات پہنچانے کے لیے ہوتا تھا۔ حدیثِ مذکورہ میں بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر کھڑے ہو کر اِرشاد فرما رہے ہیں، اور یہ اِہتمام اِس اَمر کی طرف اشارہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ سے کوئی اہم بات کرنے والے ہیں۔

(2) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے سوال کیا : ’’میں کون ہوں؟‘‘ سب نے عرض کیا : ’’آپ پر سلام ہو، آپ اﷲ کے رسول ہیں۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا یہ جواب اگرچہ حق و صداقت پر مبنی تھا لیکن مقتضائے حال کے مطابق نہ تھا۔ اس دن اس سوال کا مقصد کچھ اور تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کا جواب بھی مختلف سننا چاہتے تھے۔ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی طرف سے متعلقہ جواب موصول نہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود ہی فرمایا : ’’میں عبد اﷲ کا بیٹا محمد ہوں۔‘‘ معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں اپنی ولادت اور نسبی فضیلت کے باب میں کچھ ارشاد فرمانا چاہتے تھے۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کا وہ گوشہ ہے جس کا تعلق براہِ راست آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد سے ہے۔ اگرچہ یہ وہ معلومات تھیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم بہ خوبی جانتے تھے مگر اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِس قدر اِہتمام کے ساتھ اس مضمون کو بیان فرمانے کا مقصد جشنِ میلاد کو اپنی سنت بنانا تھا۔

(3) مذکورہ حدیث میں اَحکامِ اِلٰہی بیان ہوئے ہیں نہ اَعمال و اَخلاق سے متعلق کوئی مضمون بیان ہوا ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو اپنی ولادت اور نسبی فضیلت کے بارے آگاہ فرمایا ہے جو موضوعاتِ میلاد میں سے ہے۔

(4) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ بیان انفرادی سطح پر نہیں بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اجتماع سے تھا جو خصوصی اِنتظام و اِنصرام کی طرف واضح اِشارہ ہے۔

کتبِ حدیث اور سیرت و فضائل میں سے امام بخاری (194۔ 256ھ)، امام مسلم (206۔ 261ھ)، امام ترمذی (210۔ 279ھ)، قاضی عیاض (476۔ 544ھ)، علامہ قسطلانی (851۔ 923ھ)، علامہ نبہانی (1265۔ 1350ھ) جیسے نام وَر اَئمہ و محدثین اور شارحین کی تصانیف میں ایسی بے شمار احادیث موجود ہیں جن کا تعلق کسی شرعی مسئلہ سے نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت، حسب و نسب، خاندانی شرافت و نجابت اور ذاتی عظمت و فضیلت سے ہے۔

2۔ حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اﷲ عنھما روایت کرتے ہیں :

قلت : يارسول اﷲ! إن قريشاً جلسوا فتذاکروا أحسابهم بينهم، فجعلوا مثلک کمثل نخلة في کبوة من الأرض، فقال النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم : إن اﷲ خلق الخلق فجعلني من خيرهم من خير فرقهم وخير الفريقين، ثم تخيّر القبائل فجعلني من خير قبيلة، ثم تخيّر البيوت فجعلني من خير بيوتهم، فأنا خيرهم نفساً وخيرهم بيتا.

’’میں نے عرض کیا : یارسول اﷲ! قریش نے ایک مجلس میں اپنے حسب و نسب کا ذکر کرتے ہوئے آپ کی مثال کھجور کے اُس درخت سے دی جو کسی ٹیلہ پر ہو۔ اِس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو مجھے ان کی بہترین جماعت میں رکھا اور ان کے بہترین گروہ میں رکھا اور دونوں گروہوں میں سے بہترین گروہ میں بنایا، پھر قبائل کو منتخب فرمایا اور مجھے بہترین قبیلے میں رکھا، پھر اُس نے گھرانے منتخب فرمائے تو مجھے اُن میں سے بہتر گھرانے میں رکھا، پس میں اُن میں سے بہترین فرد اور بہترین خاندان والا ہوں۔‘‘

1. ترمذي، الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب في فضل النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، 5 : 584، رقم : 3607
2. أحمد بن حنبل، فضائل الصحابة، 2 : 937، رقم : 1803
3. أبو يعلي، المسند، 4 : 140، رقم : 1316

3۔ حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

إن اﷲ اصطفي من ولد إبراهيم إسماعيل، واصطفي من ولد إسماعيل بني کنانة، واصطفي من بني کنانة قريشاً، واصطفي من قريش بني هاشم، واصطفاني من بني هاشم.

’’بے شک ربِ کائنات نے اِبراہیم (علیہ السلام) کی اَولاد میں سے اِسماعیل (علیہ السلام) کو منتخب فرمایا، اور اِسماعیل (علیہ السلام) کی اَولاد میں سے بنی کنانہ کو، اور اَولادِ کنانہ میں سے قریش کو، اور قریش میں سے بنی ہاشم کو، اور بنی ہاشم میں سے مجھے شرفِ اِنتخاب سے نوازا اور پسند فرمایا۔‘‘

1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في فضل النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، 5 : 583، رقم : 3605
2. مسلم، الصحيح، کتاب الفضائل، باب فضل نسب النبي صلي الله عليه وآله وسلم وتسليم الحجر عليه قبل النبوة، 4 : 1782، رقم : 2276
3. أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 107
4. ابن أبي شيبة، المصنف، 6 : 317، رقم : 31731
5. أبو يعلي، المسند، 13 : 469، 472، رقم : 7485، 7487
6. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 66، رقم : 161
7. بيهقي، السنن الکبري، 6 : 365، رقم : 12852
8. بيهقي، شعب الإيمان، 2 : 139، رقم : 1391

اِس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا پورا سلسلہ نسب بیان فرما دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اصطفی کا لفظ اس لیے بیان کیا کہ صاحبِ نسب، مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (چُنے ہوئے) ہیں اور پورے نسبی سلسلہ کو یہ صفاتی لقب دیا گیا ہے۔

جاری ہے---
Mohammad Adeel
About the Author: Mohammad Adeel Read More Articles by Mohammad Adeel: 97 Articles with 94101 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.